"اصول دین" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 55: | سطر 55: | ||
اصول دین میں تقلید کے عدم جواز پر ایک استدلال: | اصول دین میں تقلید کے عدم جواز پر ایک استدلال: | ||
"مقلد یا تو اپنے مقلَد<ref>مقلَّد | "مقلد یا تو اپنے مقلَد<ref>مقلَّد : جس کی تقلید کی جائے اور تقلید کرنے والے کو مقلِّد کہتے ہیں۔</ref> کے بر حق ہونے پر واقف ہے یا واقف نہیں ہے؛ اگر واقف نہیں ہے تو اس صورت میں وہ اس کے خطاکار ہونے کو ممکن سمجھتا ہے، چنانچہ اس فرض میں اس کی تقلید قبیح ہے، کیونکہ وہ خود بھی جہل و خطا سے محفوظ نہیں ہے؛ اگر وہ جانتا ہے کہ اس کا مقلَد برحق ہے تو یہ دو صورتوں سے خارج نہيں ہے: یا یہ کہ یہ آگہی اور واقفیت اسے بدیہی طور پرحاصل ہوئی ہے یا وہ تحقیق کے ذریعے اس آگہی تک پہنچا ہے؛ ان دو صورتوں میں پہلی شق باطل ہے اور دوسری شق میں یا مقلَد کے برحق ہونے کی دلیل غیر تقلیدی ہے یا پھر تقلید کے ذریعے حاصل ہوئی ہے؛ اگر تقلید سے حاصل ہوئی ہے تو ان لوگوں کی تعداد کی کوئی انتہا نہ ہوگی جن کی تقلید ضروری ہے؛ پس صرف واحد فرضِ معقول (Reasonable assumption) یہ ہے کہ وہ شخص دلیل و برہان کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کا مقلَدبرحق ہے، اور یہ تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے پس اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے۔<ref>سیدمرتضی، الذخیرة، 164- 165۔</ref> | ||
== امامیہ کے نزدیک اصول دین == | == امامیہ کے نزدیک اصول دین == |
نسخہ بمطابق 23:57، 26 جنوری 2016ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم [[صارف:imported>Mabbassi|imported>Mabbassi]] ([[Special:Contributions/imported>Mabbassi|حصہ]] · [[Special:Log/imported>Mabbassi|شراکت]]) نے 8 سال قبل کی۔ |
"اصول دین" علم کلام کے شیعہ علماء کی ایک اصطلاح ہے۔ یہ اصطلاح اسلام کے ان بنیادی اعتقادات کے مجموعے کیلئے استعمال ہوتی ہے جو دین اسلام کی اساس کو تشکیل دیتے ہیں اور ہر مسلمان کا ان پر عقیدہ اور یقین رکھنا ضروری ہوتا ہے ورنہ وہ مسلمان نہیں ہوتا ہے؛ یعنی اصول دین میں سے کسی ایک کا انکار موجب کفر اور عذاب خداوندی کا باعث ہے۔
شیعہ عقیدے کے مطابق سعادت کاملہ اور صحیح دین تک پہنچنے کیلئے اصول دین : توحید، عدل،نبوت، امامت اور قیامت پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے البتہ عدل اور امامت کو دیگر اصولوں سے الگ بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ جو شخص توحید، نبوت اور قیامت کا انکار کرے تو اسے بنیادی طور پر مسلمان قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن اگر کوئی عدل اور امامت کا انکار کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا تاہم وہ تشیع سے خارج اور خالص اسلام سے دور ہوگیا ہے۔ اسی بنا پر ان دو اصولوں یعنی عدل اور امامت کو اصول مذہب کا نام دیا گیا ہے۔[1]
اصول دین کے معنی
اصول دین ایک کلامی اصطلاح ہے جو فروع دین کے مقابلے میں استعمال ہوتی ہے اور اس کا اطلاق اعتقادات کے اس مجموعے پر ہوتا ہے جو دین اسلام کی اساس کو تشکیل دیتے ہیں اور ہر مسلمان کو ان پر عقیدہ اور یقین رکھنا پڑتا ہے ورنہ وہ مسلمان شمار نہیں ہوتا ہے؛ یعنی اصول دین میں سے ہر ایک کا انکار موجب کفر اور باعث عذاب خداوندی ہے۔
یہ اصطلاح دو معانی کیلئے استعمال ہوتی ہے:
- اصول دین کا لفظ فروع دین کے مقابلے میں تمام اسلامی اعتقادات کیلئے بولا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اصول دین میں وہ تمام اعتقادی مسائل شامل ہونگے جن میں غور و فکر کرنا مطلوب ہے اور فروع دین میں وہ تمام مسائل شامل ہونگے جن کا انجام دینا یا ترک کرنا مطلوب ہے۔[2]
- اصول دین کا لفظ "توحید، عدل،نبوت، امامت اور قیامت" یا "توحید، نبوت اور قیامت" کے مجموعے کیلئے استعمال ہوتا ہے البتہ عام طور پر توحید، نبوت اور قیامت کو "اصول دین" اور عدل اور امامت کو "اصول مذہب" کہا جاتا ہے ۔
اصول دین کا لفظ اگرچہ موجودہ شیعہ علم کلام اور انکی دیگر علوم کی کتب میں " توحید،عدل ،نبوت، امامت اور قیامت" کیلئے استعمال ہوتا ہے لیکن سید مرتضی نے اس لفظ کو معتزلہ کے نزدیک اعتقادات کے ایک مجموعے: توحید،عدل ، وعد ووعید، منزلہ بین المنزلتین اور امر بالمعروف و النہی عن المنکر، کیلئے ذکر کیا ہے۔[3]۔ معتزلی علماء کے نزدیک انہیں ہی "اصول خمسہ" کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔[4] ۔ نیز سید مرتضی نے کہا کہ متاخرین اصول دین میں صرف توحید اور عدل شمار کرتے ہیں ۔ [5] ۔لیکن اس کے ساتھ ہی بعض دیگر کتب میں اصول دین کی تعداد چار : توحید ، عدل، نبوات اور شرائع ذکر ہوئی ہے ۔
وجۂ تسمیہ
- شیعہ متکلمین کے مطابق حدیث، فقہ اور تفسیر جیسے دوسرے تمام دینی علوم "اصول دین" کی بنیاد پر استوار ہیں کیونکہ تمام دینی علوم رسول خداؐ کی صداقت پر موقوف ہیں اور رسول خداؐ کی صداقت رسول بھیجنے والے کے وجود، اس کی صفات اور اس کی عدالت کے اثبات پر موقوف ہے۔ اس بنا پر ان اعتقادات کو "اصول دین" کا نام دیا گیا ہے۔[6]
کتاب و سنت کی روشنی میں اصول دین
اصول دین کی اصطلاح متکلمین نے وضع کی ہے اور قرآن یا حدیث نے دینی تعلیمات کو اصول اور فروع میں تقسیم نہیں کیا ہے۔
البتہ احادیث میں ایسے اشارے ملتے ہیں کہ اسلام کچھ اصول اور مبادیات پر استوار ہے؛ مثال کے طور پر امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ "اسلام کے اصول کیا ہیں اور کن امور کی معرفت واجب ہے جن میں کوتاہی اور قصور کی وجہ سے انسان کا دین اور عقیدہ فاسد ہوجاتا ہے اور اگر کوئی ان کی معرفت حاصل کرے تو اس کا دین و عقیدہ صحیح ہوتا ہے اور اس کا عمل مقبول بارگاہ ربانی ہے؟ فرمایا: یہ کہ وہ توحید (اور اللہ کی وحدانیت) اور محمد(ص) کی نبوت کی گواہی دے؛ جو کچھ آپ(ص) خدا کی جانب سے لائے ہیں اس کی تصدیق کرے، اپنے اموال میں وجوب زکوۃ کا اقرار کرے اور زکات ادا کرے، اور آل محمد(ص) کی ولایت کا اقرار کرے۔[9]
یا ایک حدیث میں امام باقر(ع) سے مروی ہے کہ اسلام کے پانچ ستون ہیں: نماز، زكات، روزہ، حج اور ولایت، اور ولایت سب سے اہم ہے۔[10] [جو ان کے قیام و نفاذ کی ضمانت ہے]۔ یہ احادیث جو ائمۂ شیعہ سے منقول ہیں، بتا رہی ہیں کہ دین سے متعلق معارف و تعلیمات کا ایک حصہ ایسا ہے کہ ان پر یقین نہ رکھنا انکار دین کے مترادف (ہم معنی) ہے، جبکہ ان تعلیمات کا ایک حصہ اس سے مختلف ہے۔
اصول دین میں یقین یا ظن
اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ اصول دین پر ایمان رکھنا لازمی ہے لیکن بحث اس میں ہے کہ کیا اصول دین پر ایمان یقینی اور قطعی و جزمی علم پر استوار ہونا چاہئے یا صرف ظنی (اور گمان غالب پر مبنی) معرفت کافی ہے؟ اور اگر اصول دین پر ایمان کو قطعی علم پر استوار ہونا چاہئے تو کیا یہ علم دلیل و برہان کے ذریعے حاصل ہونا چاہئے یا تقلید کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کافی ہے؟ اور اس سلسلے میں اقوال مختلف ہیں۔ اکثریت کی رائے ہے کہ اصول دین پر ایمان یقینی اور جزمی معرفت پر استوار ہونا چاہئے اور ظنی معرفت کافی نہیں ہے۔ شہید ثانی کے بقول[11] اس نظریئے کی سند وہ آیات اور احادیث ہیں جن میں ظن اور گمان کی پیروی کو مذموم قرار دیا گیا ہے جیسا کہ :
- سورہ یونس آیت 36:
- وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنّاً إَنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئاً۔
ترجمہ: اور ان میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جو نہیں پیروی کرتے مگر ایک طرح کے گمان کی، بلاشہ گمان حق تک پہنچنے میں کچھ فائدہ نہیں دیتا۔
- سورہ انعام آیت 116:
- وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللّهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَخْرُصُونَ۔
ترجمہ: اور اس زمین کے رہنے والوں کی اکثریت کا اگر تم کہنا مانو تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے، وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں اور صرف قیاس آرائیاں ہی کرتے ہیں۔
- سورہ جاثیہ آیت 24:
وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔
ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ نہیں ہے سوا اس دنیوی زندگی کے یہی مرنا ہے، یہی جینا ہے اور ہمیں ہلاک نہیں کرے گا مگر یہی دور زمانہ حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے، نہیں رکھتے وہ مگر ایک وہم وگمان۔
اس رائے کے مقابلے میں بعض محققین نے ظن قوی (یا گمان غالب) کو کافی گردانا ہے اور کہا ہے کہ کہ ظنِ قوی سکون نفس کا سبب ہوتا ہے اور شارع مقدس کے نزدیک بھی علم معتبر وہی ہے جو سکون نفس کا سبب بنے۔[12]۔[13] چنانچہ جو کچھ اصول دین پر ایمان کے سلسلے میں لازمی ہے وہ اطمینان ہے جو "یقینِ عرفی" بھی کہلاتا ہے۔ یقین عرفی میں مخالف امکان کو مکمل طور پر خارج نہیں کیا جاتا لیکن چونکہ یہ احتمال اور امکان ضعیف ہوتا ہے اسی لئے اس کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا جبکہ "یقینِ منطقی بالمعنی الأخصّ" میں مخالف امکان مکمل طور پر خارج سمجھا جاتا ہے۔
اصول دین میں تحقیق یا تقلید
بہت سے علماء کی رائے ہے کہ اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے اور اصول دین کی شناخت کا حصول تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہونا چاہئے۔ اس رائے پر اجماع کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔[14]۔[15]
اصول دین میں تقلید کے عدم جواز پر ایک استدلال:
"مقلد یا تو اپنے مقلَد[16] کے بر حق ہونے پر واقف ہے یا واقف نہیں ہے؛ اگر واقف نہیں ہے تو اس صورت میں وہ اس کے خطاکار ہونے کو ممکن سمجھتا ہے، چنانچہ اس فرض میں اس کی تقلید قبیح ہے، کیونکہ وہ خود بھی جہل و خطا سے محفوظ نہیں ہے؛ اگر وہ جانتا ہے کہ اس کا مقلَد برحق ہے تو یہ دو صورتوں سے خارج نہيں ہے: یا یہ کہ یہ آگہی اور واقفیت اسے بدیہی طور پرحاصل ہوئی ہے یا وہ تحقیق کے ذریعے اس آگہی تک پہنچا ہے؛ ان دو صورتوں میں پہلی شق باطل ہے اور دوسری شق میں یا مقلَد کے برحق ہونے کی دلیل غیر تقلیدی ہے یا پھر تقلید کے ذریعے حاصل ہوئی ہے؛ اگر تقلید سے حاصل ہوئی ہے تو ان لوگوں کی تعداد کی کوئی انتہا نہ ہوگی جن کی تقلید ضروری ہے؛ پس صرف واحد فرضِ معقول (Reasonable assumption) یہ ہے کہ وہ شخص دلیل و برہان کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کا مقلَدبرحق ہے، اور یہ تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے پس اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے۔[17]
امامیہ کے نزدیک اصول دین
مشہور رائے یہ ہے کہ اصول دین تین موضوعات پر مشتمل ہیں: توحید، نبوت اور معاد (یا قیامت)؛ تاہم عدل اور امامت کو بھی اصول دین میں شامل کرنا چاہئے۔ بالفاظ دیگر اگر کوئی اصول دین میں سے ایک کا انکار کرے وہ کافر ہے؛ لیکن اگر اول الذکر تین اصولوں کا اقرار کرے اور عدل و امامت کا منکر ہو تو وہ کافر نہیں لیکن وہ شیعہ بھی نہیں ہے۔[18]
جمہور شیعہ متکلمین کے مطابق متذکرہ پانچ اصول کی مختصر توضیح مندرجہ ذیل ہے:
1.توحید:
- مکتب ِ تشیع میں اللہ کی معرفت اور اس حقیقت کی تصدیق کرنا کہ وہ ازل سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا،عقیدۂ توحید کہلاتا ہے نیز وہ اپنی ذات میں واجب الوجود ہے؛ اللہ کی صفات ثبوتیہ جیسے علم و حیات و قدرت..... کی تصدیق کرنا، صفات سلبیہ جیسے جہل و عجز و بے بسی .... سے اس ذات کی نفی کرنا؛ اس حقیقت پر یقین رکھنا کہ خدا کی صفات ثبوتیہ اس کی ذات پر عارض اور زائد نہیں ہیں بلکہ عین ذات ہیں ۔
2.عدل:
- یہ اعتقاد رکھنا کہ اللہ ظالم نہیں بلکہ وہ عادل ہے ۔ وہ نہ تو اپنے فیصلے میں کسی پر ظلم کرتا ہے اور نہ اپنے حکم میں کسی پر زیادتی ہی کرتا ہے ۔اطاعت کرنے والوں کو ثواب عطا کرتا ہے اور گناہ کرنے والوں کو سزا دیتا ہے نیز اپنے بندوں پر انکی طاقت اور قدرت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا ہے ۔کسی قسم کا ٹکراؤ نہ ہو تو وہ قادر اور عالم ہونے کے باوجود حُسن یعنی اچھائی کو ترک نہیں کرتا اور قبیح کو انجام نہیں دیتا ہے کیونکہ وہ اچھے فعل کی اچھائی کو جانتے ہوئے انجام دینے اور برے فعل کی برائی کو جانتے ہوئے قبیح (برے) فعل کے ترک کرنے پر قدرت رکھتا ہے ۔[19]
3.نبوت:
- اس حقیقت کی تصدیق کرنا کہ حضرت محمد(ص) اللہ کے نبی و پیغمبر ہیں اور وہ جو کچھ بھی وحی کے عنوان سے لائے ہیں برحق ہے۔ البتہ اس موضوع میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ جو کچھ آپ(ص) خدا کی طرف سے لائے ہیں اس کی اجمالی تصدیق کافی ہے یا یہ کہ یہ تصدیق تفصیلی ہونی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ بعض علمائے امامیہ کا کہنا ہے کہ رسول اللہ(ص) کی عصمت اور ختم نبوت کی تصدیق بھی لازمی ہے۔
4. امامت:
- بارہ اماموں کی امامت کی تصدیق۔ تمام شیعہ متکلمین کا اجماع ہے یہاں تک کہ یہ اصول اس مذہب کی ضروریات کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔ ائمہ(ع) سب کے سب معصوم اور حافظ شریعت ہیں اور وہ انسانوں کو حقیقت کا راستہ دکھاتے ہیں اور لازمی ہے کہ ان سب کی اطاعت کریں۔ البتہ امام زمانہ(عج) زندہ اور غائب ہیں اور ایک دن اللہ کے اذن سے ظہور کریں گے [اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی]۔
5. قیامت:
اس اصول کے مطابق انسان موت کے بعد زندہ ہونگے اور ان کے اچھے اور برے اعمال کا حساب ہوگا۔ عام مسلمان معاد کے جسمانی ہونے کے قائل ہیں؛ یعنی موت کے بعد کی زندگی میں انسانوں کے اخروی بدن جسمانی بدن ہوگا۔[20]
حوالہ جات
- ↑ سيد حسن الحسيني لواساني ، نور الأفهام في علم الكلام، ج 1،ص54
- ↑ الأنوار الإلهیة فی المسائل العقائدیة، ص74 مسائل أُصول الدين۔
- ↑ رسائل المرتضى،الشريف المرتضى ج 1 ص 165
- ↑ شرح الاصول الخمسہ
- ↑ رسائل المرتضى،الشريف المرتضى ج 1 ص 166۔ شرح الاصول الخمسہ ص 122۔
- ↑ علامة حلی، شرح باب حادی عشر، 4، 6۔
- ↑ بحرانی، ابن میثم، قواعد المرام فی علم الكلام، ص20۔
- ↑ نمونے کے طور پر دیکھیں: محقق طوسی، تلخیص المحصّل، ص1 و حاجي خليفة، كشف الظنون، ج2، ص1503۔
- ↑ كلینی، الکافی، ج2 ص 19و20۔20۔
- ↑ كلینی، الکافی، ج2 ص18۔
- ↑ شہید ثانی، حقائق الإیمان، ص56۔
- ↑ سيد عبد اللّه شبر، حق اليقين في معرفة اصول الدين، ص571و 575۔
- ↑ جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص331۔
- ↑ ملامهدی نراقی، انیس الموحدین، ص22۔
- ↑ شهید ثانی، حقائق الایمان، ص59۔
- ↑ مقلَّد : جس کی تقلید کی جائے اور تقلید کرنے والے کو مقلِّد کہتے ہیں۔
- ↑ سیدمرتضی، الذخیرة، 164- 165۔
- ↑ میرزای قمی، اصول دین، 5۔
- ↑ شیخ محمد مظفر،عقائد الامامیہ صص:40،41۔
- ↑ شہید ثانی، حقائق الایمان، ص59۔
مآخذ
- آمدی، علی، الاحكام فی اصول الاحكام، به كوشش ابراهیم عجوز، بیروت، 1405ہجری/1985عیسوی۔
- ابن تیمیه، احمد، موافقة صحیح المنقول لصریح المعقول، بیروت، 1405ہجری/1985عیسوی۔
- ابن میثم بحرانی، میثم، قواعد المرام فی علم الكلام، به كوشش احمد حسینی و محمود مرعشی، تهران، 1406ہجری۔
- ابن ندیم، الفهرست۔
- ابواسحاق شیرازی، ابراهیم، التبصرة فی اصول الفقه، به كوشش محمدحسن هیتو، دمشق، 1403ہجری/1983عیسوی۔
- ابوالحسین بصری، المعتمد فی اصول الفقه، به كوشش محمد حمیدالله و دیگران، دمشق، 1385ہجری/1965عیسوی۔
- اشعری، علی، رسالة فی استحسان الخوض فی علم الكلام، حیدرآباد دكن، 1400ہجری/1979عیسوی۔
- بخاری، محمد، صحیح، استانبول، 1981عیسوی۔
- بغدادی، عبدالقاهر، اصول الدین، بیروت، 1401ہجری/1981عیسوی۔
- بخاری، الفرق بین الفرق، به كوشش محمد زاهد كوثری، قاهره، 1367ہجری/1948عیسوی۔
- جرجانی، علی، شرح المواقف، قاهره، 1325ہجری/1907عیسوی۔
- سراجالدین ارموی، محمود، التحصیل من المحصول، به كوشش عبدالحمید ابوزنید، قاهره، 1393ہجری/1973عیسوی۔
- سیدمرتضی، علی، الذخیرة، بهكوشش احمد حسینی، قم، 1411ہجری۔
- شهید ثانی، زینالدین، حقائق الایمان، بهكوشش مهدی رجایی، قم، كتابخانة آیتالله مرعشی۔
- شهید ثانی، زینالدین، حقائق الایمان، چ سنگی، مجموعة الرسائل، قم، 1304ہجری۔
- طالقانی، نظرعلی، كاشف الاسرار، به كوشش مهدی طیب، تهران، 1373ہجری شمسی۔
- شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فيما يتعلق بالاعتقاد؛ قم، 1400ہجری۔
- علامة حلی، حسن، شرح باب حادی عشر، تهران، 1370ہجری شمسی۔
- علامة حلی، كشف الفوائد، مجموعة الرسائل، قم، 1404ہجری۔
- فخرالدین رازی، اصول دین، چهارده رساله، بهكوشش محمدباقر سبزواری، تهران، 1340ہجری شمسی۔
- فخرالدین رازی، كتاب الاربعین فی اصولالدین، حیدرآباد دكن، 1353ہجری۔
- قرآن كریم؛ ترجمہ از سید علی نقی نقوی(نقن)۔
- قرافی، احمد، شرح تنقیح الفصول، به كوشش طه عبدالرئوف سعد، بیروت، 1393ہجری/1973عیسوی۔
- كلینی، محمد، الاصول من الكافی، به كوشش علیاكبر غفاری، تهران، 1388ہجری۔
- مانكدیم، [ تعلیق ] شرح الاصول الخمسة، بهكوشش عبدالكریم عثمان، نجف، 1383ہجری/1963عیسوی۔
- معتقد الامامیه، به كوشش محمدتقی دانشپژوه، تهران، 1339ہجری شمسی۔
- میرزای قمی، ابوالقاسم، اصول دین، به كوشش رضا استادی، تهران، مسجد جامع۔
- میرزای قمی، ابوالقاسم، قوانین الاصول، تهران، 1303ہجری۔
- انیس الموحدین، ملامهدی نراقی، انتشارات پیام مهدی (عج)، قم، 1386ہجری شمسی۔
- حقائق الإیمان، زین الدین العاملی، منشورات مكتبة المرعشی، قم، 1409ہجری۔
- ابو جعفر محمد بن محمد حسن طوسي، معروف به خواجه نصيرالدين طوسي و محقق طوسی، (متوفٰی 672 ہجری)، تلخيص المحصل، انتشارات اسماعيليان، (1414ہجری)۔
- مصطفى بن عبدالله الشهير بحاجي خليفة، كشف الظنون عن اسامى الكتب والفنون، تحقیق: شہاب الدین مرعشی نجفی، دار إحياء التراث العربي بيروت – لبنان۔
- السيد عبد اللّه شبر (متوفی 1370ہجری)، حق الیقین في معرفة أصول الدین، المطبوع في مطبعة دار النشر والتأليف نجف، سنة 1360ہجری۔