گمنام صارف
"اصول دین" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←اصول دین میں یقین یا ظن
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 37: | سطر 37: | ||
== اصول دین میں یقین یا ظن == | == اصول دین میں یقین یا ظن == | ||
اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ اصول دین پر [[ایمان]] رکھنا لازمی ہے لیکن بحث اس میں ہے کہ کیا اصول دین پر ایمان یقینی اور قطعی و جزمی علم پر استوار ہونا چاہئے یا صرف ظنی (اور گمان غالب پر مبنی) معرفت کافی ہے؟ اور اگر اصول دین پر ایمان کو قطعی علم پر استوار ہونا چاہئے تو کیا یہ علم دلیل و برہان کے ذریعے حاصل ہونا چاہئے یا تقلید کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کافی ہے؟ اور اس سلسلے میں اقوال مختلف ہیں۔ اکثریت کی رائے ہے کہ اصول دین پر ایمان یقینی اور جزمی | اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے کہ اصول دین پر [[ایمان]] رکھنا لازمی ہے لیکن بحث اس میں ہے کہ کیا اصول دین پر ایمان یقینی اور قطعی و جزمی علم پر استوار ہونا چاہئے یا صرف ظنی (اور گمان غالب پر مبنی) معرفت کافی ہے؟ اور اگر اصول دین پر ایمان کو قطعی علم پر استوار ہونا چاہئے تو کیا یہ علم دلیل و برہان کے ذریعے حاصل ہونا چاہئے یا تقلید کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کافی ہے؟ اور اس سلسلے میں اقوال مختلف ہیں۔ اکثریت کی رائے ہے کہ اصول دین پر ایمان یقینی اور جزمی معرفت پر استوار ہونا چاہئے اور ظنی معرفت کافی نہیں ہے۔ | ||
شہید ثانی کے بقول<ref>شهید ثانی، حقائق الإیمان، ص56۔</ref> اس نظریئے کی سند وہ آیات و [[احادیث]] ہیں جن میں ظن و گمان کی پیروی کو مذموم قرار دیا گیا ہے جیسا کہ : | شہید ثانی کے بقول<ref>شهید ثانی، حقائق الإیمان، ص56۔</ref> اس نظریئے کی سند وہ آیات و [[احادیث]] ہیں جن میں ظن و گمان کی پیروی کو مذموم قرار دیا گیا ہے جیسا کہ : | ||
* '''[[سورہ یونس]] آیت 36:'''<center> | * '''[[سورہ یونس]] آیت 36:'''<center> | ||
سطر 47: | سطر 47: | ||
<font color=green>{{ حدیث|'''وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔'''}}</font> <br/> ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ نہیں ہے سوا اس دنیوی زندگی کے یہی مرنا ہے، یہی جینا ہے اور ہمیں ہلاک نہیں کرے گا مگر یہی دور زمانہ حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے، نہیں رکھتے وہ مگر ایک وہم وگمان۔ | <font color=green>{{ حدیث|'''وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُم بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ۔'''}}</font> <br/> ترجمہ: اور انہوں نے کہا کہ نہیں ہے سوا اس دنیوی زندگی کے یہی مرنا ہے، یہی جینا ہے اور ہمیں ہلاک نہیں کرے گا مگر یہی دور زمانہ حالانکہ انہیں اس کا کوئی علم نہیں ہے، نہیں رکھتے وہ مگر ایک وہم وگمان۔ | ||
اس رائے کے مقابلے میں بعض محققین نے ظن قوی (یا گمان غالب) کو کافی گردانا ہے اور کہا ہے کہ کہ ظنِ قوی سکون نفس کا سبب ہوتا ہے اور شارع مقدس کے نزدیک بھی علم معتبر وہی ہے جو سکون نفس کا سبب بنے۔<ref> السيد عبد اللّه شبر، حق اليقين في معرفة اصول الدين، ص571و 575۔</ref>۔<ref>جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص331۔</ref> چنانچہ جو کچھ اصول دین پر ایمان کے سلسلے میں لازمی | اس رائے کے مقابلے میں بعض محققین نے ظن قوی (یا گمان غالب) کو کافی گردانا ہے اور کہا ہے کہ کہ ظنِ قوی سکون نفس کا سبب ہوتا ہے اور شارع مقدس کے نزدیک بھی علم معتبر وہی ہے جو سکون نفس کا سبب بنے۔<ref> السيد عبد اللّه شبر، حق اليقين في معرفة اصول الدين، ص571و 575۔</ref>۔<ref>جرجانی، شرح المواقف، ج8، ص331۔</ref> چنانچہ جو کچھ اصول دین پر ایمان کے سلسلے میں لازمی ہے وہ اطمینان ہے جو "یقینِ عرفی" بھی کہلاتا ہے۔ یقین عرفی میں مخالف امکان کو مکمل طور پر خارج نہیں کیا جاتا لیکن چونکہ یہ احتمال اور امکان ضعیف ہوتا ہے اسی لئے اس کو لائق اعتنا نہیں سمجھا جاتا جبکہ "یقینِ منطقی بالمعنی الأخصّ" میں مخالف امکان مکمل طور پر خارج سمجھا جاتا ہے۔ | ||
== اصول دین میں تحقیق یا تقلید == | == اصول دین میں تحقیق یا تقلید == |