مندرجات کا رخ کریں

"اصول دین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
imported>Smnazem
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 48: سطر 48:
بہت سے علماء کی رائے ہے کہ اصول دین میں [[تقلید]] جائز نہیں ہے اور اصول دین کی شناخت کا حصول تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہونا چاہئے۔ اس رائے پر اجماع کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔<ref>ملامهدی نراقی، انیس الموحدین، ص22۔</ref>۔<ref>شهید ثانی‌، حقائق الایمان، ص59۔</ref>
بہت سے علماء کی رائے ہے کہ اصول دین میں [[تقلید]] جائز نہیں ہے اور اصول دین کی شناخت کا حصول تحقیق کے نتیجے میں حاصل ہونا چاہئے۔ اس رائے پر اجماع کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔<ref>ملامهدی نراقی، انیس الموحدین، ص22۔</ref>۔<ref>شهید ثانی‌، حقائق الایمان، ص59۔</ref>


اصول دین میں تقلید کے عدم جواز پر ایک استدلال:  
اصول دین میں تقلید کے عدم جواز پر ایک استدلال:


"مقلد یا تو اپنے مقلَد<ref>مقلَّد وہ ہے جس کی تقلید کی جائے اور مقلِّد وہ ہے جو تقلید کرے۔</ref> کے بر حق ہونے پر واقف ہے یا واقف نہیں ہے؛ اگر واقف نہیں ہے تو اس صورت میں وہ اس کے خطاکار ہونے کو ممکن سمجھتا ہے، چنانچہ اس فرض میں اس کی تقلید قبیح ہے، کیونکہ وہ خود بھی جہل و خطا سے محفوظ نہیں ہے؛ اگر وہ جانتا ہے کہ اس کا مقلَد برحق ہے تو یہ دو صورتوں سے خارج نہيں ہے: یا یہ کہ یہ آگہی اور واقفیت اسے بداہتہً حاصل ہوئی ہے یا وہ تحقیق کرکے اس آگہی تک پہنچا ہے؛ ان دو صورتوں میں پہلی شق باطل ہے اور دوسری شق میں یا مقلَد کے برحق ہونے کی دلیل غیر تقلیدی ہے یا پھر تقلید کے ذریعے حاصل ہوئی ہے؛ اگر تقلید سے حاصل ہوئی ہے تو ان لوگوں کی تعداد کی کوئی انتہا نہ ہوگی جن کی تقلید ضروری ہے؛ پس صرف واحد فرضِ معقول (Reasonable assumption) یہ ہے کہ وہ شخص دلیل و برہان کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کا مقلَدبرحق ہے، اور یہ تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے پس اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے۔<ref>سیدمرتضی‌، الذخیرة، 164- 165۔</ref>
"مقلد یا تو اپنے مقلَد<ref>مقلَّد وہ ہے جس کی تقلید کی جائے اور مقلِّد وہ ہے جو تقلید کرے۔</ref> کے بر حق ہونے پر واقف ہے یا واقف نہیں ہے؛ اگر واقف نہیں ہے تو اس صورت میں وہ اس کے خطاکار ہونے کو ممکن سمجھتا ہے، چنانچہ اس فرض میں اس کی تقلید قبیح ہے، کیونکہ وہ خود بھی جہل و خطا سے محفوظ نہیں ہے؛ اگر وہ جانتا ہے کہ اس کا مقلَد برحق ہے تو یہ دو صورتوں سے خارج نہيں ہے: یا یہ کہ یہ آگہی اور واقفیت اسے بداہتہً حاصل ہوئی ہے یا وہ تحقیق کرکے اس آگہی تک پہنچا ہے؛ ان دو صورتوں میں پہلی شق باطل ہے اور دوسری شق میں یا مقلَد کے برحق ہونے کی دلیل غیر تقلیدی ہے یا پھر تقلید کے ذریعے حاصل ہوئی ہے؛ اگر تقلید سے حاصل ہوئی ہے تو ان لوگوں کی تعداد کی کوئی انتہا نہ ہوگی جن کی تقلید ضروری ہے؛ پس صرف واحد فرضِ معقول (Reasonable assumption) یہ ہے کہ وہ شخص دلیل و برہان کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس کا مقلَدبرحق ہے، اور یہ تقلید نہیں بلکہ تحقیق ہے پس اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے۔<ref>سیدمرتضی‌، الذخیرة، 164- 165۔</ref>
سطر 56: سطر 56:
مشہور رائے یہ ہے کہ [[اصول دین]] تین موضوعات پر مشتمل ہے: [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] (یا [[قیامت]])؛ تاہم [[عدل]] اور [[امامت]] کو بھی اصول دین میں شامل کرنا چاہئے۔ بالفاظ دیگر اگر کوئی اصول دین میں سے ایک کا انکار کرے وہ کافر ہے؛ لیکن اگر اول الذکر تین اصولوں کا اقرار کرے اور [[عدل]] و [[امامت]] کا منکر ہو تو وہ کافر نہیں لیکن وہ [[شیعہ]] بھی نہیں ہے۔<ref>میرزای‌ قمی‌، اصول‌ دین‌، 5۔</ref>
مشہور رائے یہ ہے کہ [[اصول دین]] تین موضوعات پر مشتمل ہے: [[توحید]]، [[نبوت]] اور [[معاد]] (یا [[قیامت]])؛ تاہم [[عدل]] اور [[امامت]] کو بھی اصول دین میں شامل کرنا چاہئے۔ بالفاظ دیگر اگر کوئی اصول دین میں سے ایک کا انکار کرے وہ کافر ہے؛ لیکن اگر اول الذکر تین اصولوں کا اقرار کرے اور [[عدل]] و [[امامت]] کا منکر ہو تو وہ کافر نہیں لیکن وہ [[شیعہ]] بھی نہیں ہے۔<ref>میرزای‌ قمی‌، اصول‌ دین‌، 5۔</ref>


جمہور [[:زمرہ:شیعہ متکلمین|شیعہ متکلمین]] کے مطابق متذکرہ پانچ اصول کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:  
جمہور [[:زمرہ:شیعہ متکلمین|شیعہ متکلمین]] کے مطابق متذکرہ پانچ اصول کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:


1۔ '''[[توحید]]:'''  
1۔ '''[[توحید]]:'''


اللہ کی معرفت اور اس حقیقت کی تصدیق کہ وہ ازل سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا اور وہ اپنی ذات میں واجب الوجود ہے، اللہ کی صفات ثبوتیہ ـ جیسے علم و حیات و قدرت ـ کی تصدیق؛ اور صفات سلبیہ ـ جیسے جہل و عجز و بےبسی ـ سے اس ذات کی تنزیہ؛ اور اس حقیقت پر یقین کہ خدا کی صفات عین ذات ہیں [اور اس پر عارض نہیں ہوئی ہیں] اور کوئی صفت اس کی ذات پر زائد نہیں ہے۔
اللہ کی معرفت اور اس حقیقت کی تصدیق کہ وہ ازل سے ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا اور وہ اپنی ذات میں واجب الوجود ہے، اللہ کی صفات ثبوتیہ ـ جیسے علم و حیات و قدرت ـ کی تصدیق؛ اور صفات سلبیہ ـ جیسے جہل و عجز و بےبسی ـ سے اس ذات کی تنزیہ؛ اور اس حقیقت پر یقین کہ خدا کی صفات عین ذات ہیں [اور اس پر عارض نہیں ہوئی ہیں] اور کوئی صفت اس کی ذات پر زائد نہیں ہے۔


2۔ '''[[عدل]]:'''  
2۔ '''[[عدل]]:'''


اس حقیقت کی معرفت کہ خدا عادل و حکیم ہے یعنی یہ کہ وہ کوئی برا کام انجام نہیں دیتا اور کبھی بھی ان افعال کو ترک نہیں کرتا جو اس کو انجام دینے چاہئے۔ خداوند متعال انسانوں سے سرزد ہونے والے برے اعمال اور بھونڈے افعال سے ہرگز راضی و خوشنود نہیں ہے اور در حقیقت انسان خدا کے دی ہوئی قدرت و اختیار کے ذریعے اپنے اعمال انجام دیتے ہیں چنانچہ وہ اپنے اچھے اور برے اعمال کے حوالے سے جوابدہ ہیں۔  
اس حقیقت کی معرفت کہ خدا عادل و حکیم ہے یعنی یہ کہ وہ کوئی برا کام انجام نہیں دیتا اور کبھی بھی ان افعال کو ترک نہیں کرتا جو اس کو انجام دینے چاہئے۔ خداوند متعال انسانوں سے سرزد ہونے والے برے اعمال اور بھونڈے افعال سے ہرگز راضی و خوشنود نہیں ہے اور در حقیقت انسان خدا کے دی ہوئی قدرت و اختیار کے ذریعے اپنے اعمال انجام دیتے ہیں چنانچہ وہ اپنے اچھے اور برے اعمال کے حوالے سے جوابدہ ہیں۔


3۔ '''[[نبوت]]:'''
3۔ '''[[نبوت]]:'''


اس حقیقت کی تصدیق کہ [[حضرت محمد(ص)]] اللہ کے نبی و پیغمبر ہیں اور وہ جو کچھ بھی وحی کے عنوان سے لائے ہیں برحق ہے۔ البتہ اس موضوع میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ جو کچھ آپ(ص) خدا کی طرف سے لائے ہیں اس کی اجمالی تصدیق کافی ہے یا یہ کہ یہ تصدیق تفصیلی ہونی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ بعض علمائے [[امامیہ]] کا کہنا ہے کہ [[رسول اللہ(ص)]] کی عصمت اور [[ختم نبوت]] کی تصدیق بھی لازمی ہے۔
اس حقیقت کی تصدیق کہ [[حضرت محمد(ص)]] اللہ کے نبی و پیغمبر ہیں اور وہ جو کچھ بھی وحی کے عنوان سے لائے ہیں برحق ہے۔ البتہ اس موضوع میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ جو کچھ آپ(ص) خدا کی طرف سے لائے ہیں اس کی اجمالی تصدیق کافی ہے یا یہ کہ یہ تصدیق تفصیلی ہونی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ بعض علمائے [[امامیہ]] کا کہنا ہے کہ [[رسول اللہ(ص)]] کی عصمت اور [[ختم نبوت]] کی تصدیق بھی لازمی ہے۔


4۔ '''[[امامت]]:'''  
4۔ '''[[امامت]]:'''


[[ائمۂ اثنا عشر|بارہ اماموں]] کی امامت کی تصدیق۔ تمام [[شیعہ متکلمین]] کا اجماع ہے یہاں تک کہ یہ اصول اس مذہب کی ضروریات() کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔ [[ائمہ(ع)]] سب کے سب [[عصمت|معصوم]] اور حافظ شریعت ہیں اور وہ انسانوں کو حقیقت کا راستہ دکھاتے ہیں اور لازمی ہے کہ ان سب کی اطاعت کریں۔ البتہ [[امام مہدی علیہ السلام|امام زمانہ(عج)]] زندہ اور غائب ہیں اور ایک دن اللہ کے اذن سے ظہور کریں گے [اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی]۔  
[[ائمۂ اثنا عشر|بارہ اماموں]] کی امامت کی تصدیق۔ تمام [[شیعہ متکلمین]] کا اجماع ہے یہاں تک کہ یہ اصول اس مذہب کی ضروریات() کے زمرے میں قرار دیا گیا ہے۔ [[ائمہ(ع)]] سب کے سب [[عصمت|معصوم]] اور حافظ شریعت ہیں اور وہ انسانوں کو حقیقت کا راستہ دکھاتے ہیں اور لازمی ہے کہ ان سب کی اطاعت کریں۔ البتہ [[امام مہدی علیہ السلام|امام زمانہ(عج)]] زندہ اور غائب ہیں اور ایک دن اللہ کے اذن سے ظہور کریں گے [اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جس طرح کہ یہ ظلم و جور سے پر ہوچکی ہوگی]۔


5۔ '''[[معاد]]:''' ([[قیامت]])
5۔ '''[[معاد]]:''' ([[قیامت]])
سطر 121: سطر 121:
[[fa:اصول دین]]
[[fa:اصول دین]]
[[ar:أصول الدين]]
[[ar:أصول الدين]]
[[en:Usul al-din]]


[[زمرہ:کلام]]
[[زمرہ:کلام]]
[[زمرہ:شیعہ عقائد]]
[[زمرہ:شیعہ عقائد]]
گمنام صارف