گمنام صارف
"حدیث مدینۃ العلم" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Noorkhan کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 50: | سطر 50: | ||
* آلوسی۔<ref>روح المعاني، ذیل سوره ذاریات، آیه 1۔</ref> | * آلوسی۔<ref>روح المعاني، ذیل سوره ذاریات، آیه 1۔</ref> | ||
== | ===عام راوی=== | ||
*حافظ یحیی بن معین بغدادی؛<ref>حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص138۔</ref> | |||
*شیبانی؛<ref>فضائل الصحابة، ص138۔</ref> | |||
*ترمذی؛<ref> الجامع الصحيح، ج7، ص437۔</ref> | |||
*طبری؛<ref>تهذيب الآثار وتفصيل الثابت، ص105۔</ref> | |||
*حاکم نیشابوری؛<ref> المستدرک علی الصحیحین، ج3، ص137۔</ref> | |||
*بغدادی؛<ref>تاریخ بغداد، ج4، ص348۔</ref> | |||
*ابن عبدالبر؛<ref>الاستیعاب، قسم سوم، ص1102۔</ref> | |||
*ابن مغازلی؛<ref>مناقب علی بن ابی طالب، ص 80۔</ref> | |||
*سمعانی؛<ref>الأنساب، ج3، ص475۔</ref> | |||
*ابن اثیر؛<ref>معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول، ج9، ص473۔</ref> | |||
*ذهبی؛<ref>تذکرة الحفاظ، ج4، ص1231۔</ref> | |||
*ابن صباغ مالکی؛<ref>الفصول المهمه، ص36۔</ref> | |||
*سیوطی؛<ref>جامع الصغیر، ج1، ص415، ح2705۔</ref> | |||
* آلوسی۔<ref>روح المعاني، ذیل سوره ذاریات، آیه 1۔</ref> | |||
{{حوالہ جات}} | ==مشاہیر اہل سنت کے خیالات== | ||
===گنجی شافعی=== | |||
تمام [[اہل بیت(ع)]]، [[صحابہ]] اور [[تابعین]] منجملہ [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]]، [[عمر بن خطاب|عمر]] اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] نے اللہ کے احکام کے سلسلے میں [[علی(ع)]] کے ساتھ صلاح مشورے کئے ہیں اور آپ(ع) کی مرتبت، فضیلت، عظمت اور علمی برتری کا اعتراف کیا ہے۔ [[علی(ع)]] کے علمی مقام کے سامنے یہ [[حدیث]] کچھ بہت بڑی خبر نہیں ہے کیونکہ آپ(ع) کی منزلت خداوند متعال اور [[رسول اکرم]](ص) اور مؤمنین کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ ہے۔<ref>گنجی، ''کفایة الطالب، ص220، 222 و223۔</ref> | |||
===ابوسعید خلیل علائی=== | |||
اس [[حدیث]] کی نفی کے سلسلے دلیل کیا ہے؟! جن لوگوں نے اس کو ضعیف قرار دینے کی کوشش کی ہے، وہ اس کی صحیح سندوں اور قطعی و یقینی شواہد کے مقابلے میں کوئی دلیل پیش کرنے سے عاجز ہیں۔<ref>سیوطی، اللئالى المصنوعة، ج1، ص155 و 333۔</ref> | |||
===ابن حجر عسقلانی=== | |||
یہ حدیث متعدد اسناد سے نقل ہوئی ہے اور یہ درست نہیں ہے کہ ہم اس کو ضعیف قرار دیں۔این حدیث سندهای متعددی دارد و سزاوار نیست آن را تضعیف کنیم.<ref>ابن حجر عسقلانی، ج 2، ص 155۔</ref> | |||
==علی(ع) کی اعلمیت پر صحابہ کا اقرار== | |||
===عمر بن خطاب=== | |||
[[عمر]] ہمیشہ خدا کی پناہ مانگتے تھے کہ کوئی علمی مشکل پیش آئے اور [[علی(ع)]] اس وقت موجود نہ ہوں؛ اور کہا کرتے تھے کہ '''اگر [[علی(ع)]] نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا'''۔<ref>الاستیعاب، ابن عبدالبر، ج 3، ص 39۔</ref> | |||
===عائشہ=== | |||
[[عائشہ بنت ابی بکر|عائشہ]] کا کہنا ہے: "آگاہ رہو اور جان لو کہ [[علی(ع)|علی بن ابیطالب]] سنت کے سب سے بڑے عالم ہیں"۔<ref>ابن عبدالبر، ج 3، ص 462۔</ref> | |||
===ابن عباس=== | |||
[[عبداللہ بن عباس|ابن عباس]] کہتے ہیں: "خدا کی قسم! [[علی(ع)|علی بن ابی طالب]] کو علم کے دس درجات میں سے نو درجات پر فائز کیا گیا اور باقیماندہ ایک حصے میں بھی شریک ہیں۔<ref>ابن عبدالبر، ج 3، ص 40۔</ref> | |||
===عبداللہ بن مسعود=== | |||
بےشک [[قرآن]] سات حروف پر نازل ہوا، ان حروف میں سے کوئی بھی حرف نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا ایک ظاہر ہو اور ایک باطن، اور علی(ع) کے پاس ظاہر و باطن کا علم ہے۔<ref>ابونعیم اصفهانی، ج 1، ص 65۔</ref> فرائض کے لحاظ سے اہل [[مدینہ]] کے عالم ترین فرد [[علی(ع)|علی بن ابی طالب]] ہیں۔<ref>امینی، ج3، ص91۔</ref> | |||
===معاويہ=== | |||
جب بھی [[معاویہ بن ابی سفیان|معاویہ]] اپنے سامنے پیش آنے والے مسائل کو لکھا کرتا تھا تا کہ [[علی(ع)علی بن ابی طالب]] سے پوچھ لے۔ [[معاویہ بن ابن سفیان|معاویہ]] کو جب [[علی(ع)|امیرالمؤمنین(ع)]] کے قتل کی خبر ملی تو اس نے کہا: [[ابو طالب علیہ السلام|ابوطالب]] کے فرزند کی موت کے ساتھ ہی علم و [[فقہ]] نے رخت سفر باندھ لیا۔<ref>ابن عبدالبر، ج 2، ص 463۔</ref> | |||
== پاورقی حاشیے == | |||
{{حوالہ جات|3}} | |||
== مآخذ == | |||
*آلوسی، ''روح المعاني''، دار إحیاء التراث العربی، بیروت. | |||
*ابن أثیر الجزری، ''معجم جامع الأصول فی أحادیث الرسول''، تحقیق محمد الفقی ، دار احیاء التراث العربی ، بیروت. | |||
*ابن حجر عسقلانی، ''لسان الميزان''، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات - بیروت. | |||
*ابن صباغ مالکی، ''الفصول المهمه''، تحقیق سامی الغریری، درالحدیث، قم. | |||
*ابن عبدالبر، ''الاستیعاب''، تحقیق علی محمد بجاوی، دارالجیل، بیروت. | |||
*ابن مغازلی، ''مناقب علی بن ابی طالب''، مکتبه اسلامیه، تهران. | |||
*ابونعیم اصفهانی، ''حلیة الأولیاء و طبقات الأصفیاء''، دار الکتاب العربی، بیروت. | |||
*امینی، ''الغدیر''، دارالکتاب العربی، بیروت. | |||
*بغدادی، ''تاريخ بغداد''، دارالکتب العلمیه، بیروت. | |||
*ترمذی، ''الجامع الصحيح''، تحقیق احمد محمد شاکر، مرکز اطلاعات و مدارک اسلامی. | |||
*حاکم نیشابوری، ''المستدرک علی الصحیحین''، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، دارالکتب العلمیه، بیروت. | |||
*ذهبی، ''تذکرة الحفاظ''، دار الکتب العلمیة، بیروت. | |||
*زرندی، ''نظم درر السمطين''، حسن بیرجندی، مجمع جهانی اهل بیت، تهران. | |||
*سمعانی، ''الأنساب''، تحقیق عبد الله عمر البارودی، ناشر دار الفکر، بیروت. | |||
*سیوطی، ''جامع الصغير''، دارالفکر، بیروت. | |||
*سیوطی، ''اللئالی المصنوعة فی الأحادیث الموضوعة''، تحقیق أبو عبدالرحمان صلاح بن محمد بن عویضة، دارالکتب العلمیة، بیروت. | |||
*شیبانی، ''فضائل الصحابة''، تحقیق وصی الله محمد عباس، مؤسسة الرسالة، بیروت. | |||
*ابن جریر طبری، ''تهذيب الآثار وتفصيل الثابت''، تحقیق محمود محمد شاکر، مطبعة المدنی، قاهرة. | |||
*گنجی شافعی، ''کفایة الطالب''، داراحیاء التراث، بیروت. | |||
[[ar:حديث مدينة العلم]] | |||
[[en:Hadith of Madinat al-‘Ilm]] | |||
[[tr: Medinetu’l İlm (İlmin Şehri) Hadisi]] | |||
{{شیعہ-افقی}} | |||
[[زمرہ:فضائل امام علی]] |