"چھلکے دار مچھلی" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←مآخذ) |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 7: | سطر 7: | ||
==تعارف == | ==تعارف == | ||
{{احکام}} | {{احکام}} | ||
جس مچھلی کے بیرونی حصے پر کھرنڈ اور کھپرے موجود ہوں<ref>جمعی از مؤلفان، مجله فقه اهل بیت(ع)، قم، ج۹، | جس مچھلی کے بیرونی حصے پر کھرنڈ اور کھپرے موجود ہوں<ref>جمعی از مؤلفان، مجله فقه اهل بیت(ع)، قم، ج۹، ص۲۶۸۔</ref> اسے چھلکے دار مچھلی کہتے ہیں۔ اسلامی فقہ کے ابواب [[ذبح شرعی|صید و ذباحہ]] اور [[اطعمہ و اشربہ]] (کھانے پینے سے متعلق شرعی احکام) میں چھلکے دار مچھلی سے متعلق فقہی مسئلہ بیان ہوتا ہے۔<ref> مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهلبیت، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت(ع)، ۱۴۲۶ھ، ج۲، ص۲۹۱۔</ref> مچھلی کا چھلکا دار ہونا اس کے [[حلال]] ہونے کی نشانی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: خمینی، تحریر الوسیلة، قم، ج۲، ص۱۵۵۔</ref> [[شیعہ]] کتب احادیث میں چھلکے دار مچھلیوں کے بارے میں بعض [[احادیث]] بیان کی گئی ہیں۔<ref> ملاحظہ کریں: صدوھ، من لا یحضره الفقیه،۱۴۱۳ھ، ج۳، ص۳۲۳؛ حر عاملی، وسائل الشیعة، ۱۴۰۹ھ، ج۲۴، ص۱۲۹؛ طوسی، تهذیب الأحکام، ۱۴۰۷ھ، ج۹، ص۲۔</ref> | ||
== فقہی حکم == | == فقہی حکم == | ||
امامیہ [[فقہاء]] چھلکے والی مچھلیوں کو حلال اور بغیر چھلکے والی مچھلیوں کو حرام سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شریف مرتضی، الانتصار، | امامیہ [[فقہاء]] چھلکے والی مچھلیوں کو حلال اور بغیر چھلکے والی مچھلیوں کو حرام سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شریف مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ھ، ص۴۰۰؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۱۶۹۔</ref> بغیر چھلکے والی مچھلیوں سے مراد وہ مچھلیاں ہیں جو فطرتاََ بغیر چھلکے کے ہوں۔<ref> غفاری، ترجمه و شرح من لا یحضره الفقیه، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۴۴۴۔</ref> لہذا جن مچھلیوں کے اصالتاََ چھلکے ہوں لیکن کسی وجہ سے وہ اتر چکے ہوں، ان پر چھلکے دار مچھلی کا حکم جاری ہوگا۔<ref> علامه حلی، قواعد الأحکام، ۱۴۱۳ھ، ج۳، ص۳۲۴؛ غفاری، ترجمه و شرح من لا یحضره الفقیه، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۴۴۴؛ شهید ثانی، الروضة البهیة، ۱۴۱۰ھ، ج۷، ص۲۶۳۔</ref> | ||
بغیر چھلکے کی مچھلیوں کا کھانا حرام ہونے کی یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ اس نوعیت کی مچھلیاں بنیادی طور پر گوشت خور ہا مردار کھانے والی ہوتی ہیں لہذا ان کا گوشت چھلکے کے نہ ہونے کی وجہ سے آلودہ ہوتا ہے۔<ref> [https:// | بغیر چھلکے کی مچھلیوں کا کھانا حرام ہونے کی یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ اس نوعیت کی مچھلیاں بنیادی طور پر گوشت خور ہا مردار کھانے والی ہوتی ہیں لہذا ان کا گوشت چھلکے کے نہ ہونے کی وجہ سے آلودہ ہوتا ہے۔<ref> [https://www۔mashreghnews۔ir/news/581497 علت حرام گوشت بودن ماهیان بدون پولک چیست؟]، سایت مشرق۔</ref> | ||
===مچھلی کے انڈے کا حکم=== | ===مچھلی کے انڈے کا حکم=== | ||
اکثر فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق مچھلی کے انڈوں (خاویار) کھانے کا حکم مچھلی ہی کے تابع ہے۔ لہذا جن مچھلیوں کا کھانا حلال ہے ان کے انڈوں کا کھانا بھی حلال ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: علامه حلی، تحریر الأحکام الشرعیة، مشهد، ج۲، ص۱۶۰؛ شهید اول، اللمعة الدمشقیة، | اکثر فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق مچھلی کے انڈوں (خاویار) کھانے کا حکم مچھلی ہی کے تابع ہے۔ لہذا جن مچھلیوں کا کھانا حلال ہے ان کے انڈوں کا کھانا بھی حلال ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: علامه حلی، تحریر الأحکام الشرعیة، مشهد، ج۲، ص۱۶۰؛ شهید اول، اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ھ، ص۲۳۵۔</ref> بعض فقہاء نے اس کے حلال یا حرام ہونے کا ایک اور معیار بیان کیا ہے: اگر ان انڈوں کی بیرونی جلد کھردری اور سخت ہوں تو حلال ہے اور اگر یہ نرم ہوں تو ان کا کھانا حرام ہے؛<ref> دیلمی، المراسم العلویة، ۱۴۰۴ھ، ص۲۰۷۔</ref> لیکن دیگر بعض علما کہتے ہیں کہ یہ معیار اس صورت میں ہے جب مچھلی کے حلال گوشت یا حرام گوشت ہونے کی تشخیص ممکن نہ ہو۔<ref>علامه حلی، تحریر الأحکام الشرعیة، مشهد، ج۲، ص۱۶۰؛ شهید اول، اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ھ، ص۲۳۵۔</ref> | ||
==چھلکے دار مچھلی کی حلیّت شیعوں سے مخصوص حکم== | ==چھلکے دار مچھلی کی حلیّت شیعوں سے مخصوص حکم== | ||
بعض شیعہ فقہاء جیسے [[شیخ طوسی]] اور [[سید مرتضی]] چھلکے دار مچھلی کے حلال ہونے اور باقی سمندری حیوانات کے حرام ہونے کو شیعہ امامیہ سے مختص حکم جانتے ہیں۔<ref> طوسی، المبسوط، | بعض شیعہ فقہاء جیسے [[شیخ طوسی]] اور [[سید مرتضی]] چھلکے دار مچھلی کے حلال ہونے اور باقی سمندری حیوانات کے حرام ہونے کو شیعہ امامیہ سے مختص حکم جانتے ہیں۔<ref> طوسی، المبسوط، ۱۳۷۸ھ، ج۶، ص۲۷۶؛ شریف مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ھ، ص۴۰۰۔</ref> بعض فقہاء نے اس سلسلے میں [[حدیث متواتر|تواتر احادیث]]،<ref> کوهکمرهای، «تحقیق بر التنقیح الرائع»، ۱۴۰۴ھ، ج۴، ص۳۱۔</ref> اصحاب کے مابین شہرت<ref> اردبیلی، مجمع الفائدة، ۱۴۰۳ھ، ج۱۱، ص۱۸۷۔</ref> اور اجماع کا دعوا کرتے ہوے<ref> راوندی، فقه القرآن، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۲۴۹۔</ref> اسے اصول مذہب شیعہ میں سے گردانا ہے۔<ref> ابنادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۹۹۔</ref> | ||
غیر امامیہ فقہاء مچھلیوں کے حلال ہونے کو ان کے چھلکے دار ہونے سے مختص نہیں کرتے۔ [[ابوحنیفہ]] کے نزدیک ہر قسم کی مچلھی حلال ہے۔ اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور [[مالک بن انس]] تمام قسم کے دریائی حیوانات کو حلال سمجھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، کنز العرفان، | غیر امامیہ فقہاء مچھلیوں کے حلال ہونے کو ان کے چھلکے دار ہونے سے مختص نہیں کرتے۔ [[ابوحنیفہ]] کے نزدیک ہر قسم کی مچلھی حلال ہے۔ اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور [[مالک بن انس]] تمام قسم کے دریائی حیوانات کو حلال سمجھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، کنز العرفان، ۱۴۲۵ھ، ج۱، ص۳۲۸۔</ref> اس بنا پر بعض فقہاء چھلکے دار مچھلیوں کی حلیت کو تمام [[مسلمانوں]] کا اجماعی حکم تسلیم کرتے ہیں اور غیر چھلکے دار مچھلی اور وہ دریائی حیوانات جو مچھلی محسوب نہیں ہوتے، ان کی حرمت کو اصحاب امامیہ کا اجماعی مسئلہ گردانتے ہیں۔<ref> اردبیلی، مجمع الفائدة، ۱۴۰۳ھ، ج۱۱، ص۱۸۷۔</ref> | ||
==احادیث کی رو سے چند مصادیق== | ==احادیث کی رو سے چند مصادیق== | ||
بعض فقہاء نے مختلف روایات کی بنیاد پر حلال گوشت اور حرام گوشت مچھلیوں کے نام<ref>ملاحظہ کریں: مفید، المقنعة، | بعض فقہاء نے مختلف روایات کی بنیاد پر حلال گوشت اور حرام گوشت مچھلیوں کے نام<ref>ملاحظہ کریں: مفید، المقنعة، ۱۴۱۳ھ، ص۵۷۶؛ طوسی، النهایة، ۱۴۰۰ھ، ص۵۷۶؛ طوسی، المبسوط، ۱۳۷۸ھ، ج۶، ص۲۷۶؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۱۶۹؛ علامه حلی، تبصرة المتعلمین، ۱۴۱۱ھ، ص۱۶۳۔</ref> اور اس سلسلے میں علما کے حکم کو جمع کیا ہے۔<ref> فاضل آبی، کشف الرموز، ۱۴۱۷ھ، ج۲، ص۳۶۱۔</ref> | ||
کچھوا، مینڈک اور کیکڑا سمندری جانور ہیں جن پر مچھلی کا اطلاق نہ ہونے اور ان کے چھلکے دار نہ ہونے کی وجہ سے احادیث میں حرام قرار دیا گیا ہے۔<ref> شهید اول، اللمعة الدمشقیة، | کچھوا، مینڈک اور کیکڑا سمندری جانور ہیں جن پر مچھلی کا اطلاق نہ ہونے اور ان کے چھلکے دار نہ ہونے کی وجہ سے احادیث میں حرام قرار دیا گیا ہے۔<ref> شهید اول، اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ھ، ص۲۳۵۔</ref> اس کے علاوہ آزاد مچھلی(Salmon) (باریک چھلکے والی چھوٹی مچھلی)، نیلے ٹڈی یا کیکڑے، طِمْر اور طِمْرانی کو مچھلیوں کی حلال اقسام میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref> شیخ بهایی، جامع عباسی، ۱۴۲۹ھ، ص۷۵۴۔</ref> | ||
بعض فقہاء جیسے [[شیخ طوسی]]<ref>طوسی، النهایة، | بعض فقہاء جیسے [[شیخ طوسی]]<ref>طوسی، النهایة، ۱۴۰۰ھ، ص۵۷۶۔</ref> [[محقق حلی]]<ref>محقق حلی، شرائع الإسلام، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۱۶۹۔</ref> اور کیدری مصنف کتاب "اصباح الشیعۃ بمصباح الشریعۃ"<ref>کیدری، إصباح الشیعة، ۱۴۱۶ھ، ص۳۸۷۔</ref> نے احادیث سے استناد کرتے ہوئے بعض سمندری جانوروں جیسے بام مچھلی(Moray) زمّار یا زِمّیر کو [[مکروہ]] جانا ہے اور بعض دیگر فقہاء نے ان پر مچھلی کا نام صدق نہ آنے یا ان پر چھلکے نہ ہونے کی وجہ سے حرام گوشت حیوانات میں شمار کیا ہے۔<ref> ابنادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ھ، ج۳، ص۹۹۔</ref> موخر الذکر گروہ نے کراہت پر دلالت کرنے والی احادیث کو [[تقیہ]] پر حمل کیا ہے۔<ref>شهید اول، الدروس الشرعیة، ۱۴۱۷ھ، ج۳، ص۸۔</ref> احادیث میں مذکور بعض حیوانات پر مچھلی کا اطلاق آنے کے حوالے سے اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شعرانی، ترجمه و شرح تبصرة المتعلمین، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۶۳۴۔</ref> | ||
==چھلکے کی مقدار اور اس کا مصداق== | ==چھلکے کی مقدار اور اس کا مصداق== | ||
بعض [[مجتہدین]] کے فتوا کے مطابق مچھلی کے پورے جسم پر چھلکا موجود ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے بعض حصوں پر چھلکا ہو کافی ہے۔<ref>مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهلبیت، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت(ع)، | بعض [[مجتہدین]] کے فتوا کے مطابق مچھلی کے پورے جسم پر چھلکا موجود ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے بعض حصوں پر چھلکا ہو کافی ہے۔<ref>مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهلبیت، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت(ع)، ۱۴۲۶ھ، ج۲، ص۲۹۱۔</ref> مچھلی چھلکا دار ہے یا نہیں اس کا تعین کرنا مکلف کی ذمہ داری ہے<ref> گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۶۳۔</ref> یا یہ کہ ماہرین اسے چھلکا دار کہے۔<ref> بهجت، استفتاءات، ۱۴۲۸ھ، ج۴، ص۳۷۶۔</ref> | ||
بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر کسی مچھلی کے بارے میں شک ہوجائے کہ وہ چھلکا دار ہے یا نہیں، اس صورت میں حرمت کا حکم جاری ہوگا؛<ref> حکیم، منهاج الصالحین، | بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر کسی مچھلی کے بارے میں شک ہوجائے کہ وہ چھلکا دار ہے یا نہیں، اس صورت میں حرمت کا حکم جاری ہوگا؛<ref> حکیم، منهاج الصالحین، ۱۴۱۰ھ، ج۲، ص۳۶۷۔</ref> مگر یہ کہ مسلمانوں کے بازار میں اسے خرید لی جائے<ref> تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج۲، ص۳۹۳۔</ref> یا یہ کہ ایک عادل گواہ اس کے چھلکے دار ہونے کی گواہی دے۔<ref>خویی، صراط النجاة، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۴۰۶؛ بجنوردی، القواعد الفقهیة، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۴۱۔</ref> بنابرایں جو مچھلیاں غیر مسلموں کے بازاروں میں خرید و فروخت کی جاتی ہیں؛ مشکوک ہونے کی صورت میں ان کے کھانے سے پرہیز کیا جائے۔<ref> تبریزی، صراط النجاة، ۱۴۲۷ھ، ج۵، ص۴۰۶۔</ref> | ||
جن مچھلیوں کے چھلکے کو صرف ذرہ بین سے دیکھا جاسکتا ہے ان کی حلیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ازون برون(starry sturgeon) ، فیلماہی(Beluga Fish)، تاسماہی(Sturgeon Fish)،<ref>گلپایگانی، مجمع المسائل، | جن مچھلیوں کے چھلکے کو صرف ذرہ بین سے دیکھا جاسکتا ہے ان کی حلیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ازون برون(starry sturgeon) ، فیلماہی(Beluga Fish)، تاسماہی(Sturgeon Fish)،<ref>گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۶۳-۶۴۔</ref> شارک(Shark)<ref>تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج۱، ص۴۰۲؛ بهجت، استفتاءات، ۱۴۲۸ھ، ج۴، ص۳۷۶؛ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، ۱۴۲۷ھ، ج۱، ص۲۸۶؛ صافی گلپایگانی، جامع الأحکام، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۲۸۶۔</ref> اور ماہی خاویار<ref>تبریزی، صراط النجاة، ۱۴۲۷ھ، ج۵، ص۴۰۶؛ گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ھ، ج۳، ص۶۳۔</ref> ان مچھلیوں کے اقسام ہیں جن کے بارے میں مجتہدین سے شرعی سوالات کیے گئے ہیں۔ | ||
بعض [[مراجع تقلید]] کے مطابق مچھلی کے چھلکے بغیر ذرہ بین کے دکھائی دینا چاہیے اور عرف میں اسے چھلکا کہا جائے۔<ref> تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج۲، | بعض [[مراجع تقلید]] کے مطابق مچھلی کے چھلکے بغیر ذرہ بین کے دکھائی دینا چاہیے اور عرف میں اسے چھلکا کہا جائے۔<ref> تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج۲، ص۳۹۰۔</ref> اسی بنا پر آیت الله تبریزی کا عقیدہ ہے کہ خاویار مچھلی کا چھلکا دار ہونا ثابت نہیں ہے۔<ref> تبریزی، صراط النجاة، ۱۴۲۷ھ، ج۵، ص۴۰۶۔</ref> بعض مجتہدین جیسے [[محمد تقی بہجت|آیت الله بہجت]] نے چھلکے کو ذرہ بین کے ذریعے دیکھے جانے کو کافی جانا ہے۔<ref> بهجت، استفتاءات، ۱۴۲۸ھ، ج۴، ص۳۷۶۔</ref> [[ناصر مکارم شیرازی|آیت الله مکارم شیرازی]] نے شارک مچھلی کی حلیت کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں عرف<ref> استفتاءات جدید مکارم، ج۱، ص: ۲۸۲</ref> یا اہل خبرہ کی تشخیص<ref>مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، ۱۴۲۷ھ، ج۱، ص۲۸۶۔</ref> کو ان کے حلال ہونے میں کافی ہے۔ | ||
بعض محققین کے مطابق مچھلی کے حلال ہونے کا دار و مدار اس کا چھلکا دار ہونا ہے چاہے اسے ذرہ بین کے ذریعے تشخیص دی جائے یا عام طریقے سے۔<ref>جمعی از مؤلفان، مجله فقه اهلبیت(ع)، ج۴۳، | بعض محققین کے مطابق مچھلی کے حلال ہونے کا دار و مدار اس کا چھلکا دار ہونا ہے چاہے اسے ذرہ بین کے ذریعے تشخیص دی جائے یا عام طریقے سے۔<ref>جمعی از مؤلفان، مجله فقه اهلبیت(ع)، ج۴۳، ص۲۳۷۔</ref> | ||
==متعلقہ مضامین== | ==متعلقہ مضامین== | ||
سطر 53: | سطر 53: | ||
*بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقهیة، تحقیق مهدی مهریزی و محمدحسن درایتی، قم، نشر الهادی، ۱۴۱۹ھ۔ | *بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقهیة، تحقیق مهدی مهریزی و محمدحسن درایتی، قم، نشر الهادی، ۱۴۱۹ھ۔ | ||
*بهجت، محمدتقی، استفتاءات، قم، دفتر حضرت آیتالله بهجت، ۱۴۲۸ھ۔ | *بهجت، محمدتقی، استفتاءات، قم، دفتر حضرت آیتالله بهجت، ۱۴۲۸ھ۔ | ||
*تبریزی، جواد، استفتاءات جدید، قم، بیجا، | *تبریزی، جواد، استفتاءات جدید، قم، بیجا، بیتا۔ | ||
*تبریزی، جواد، صراط النجاة، قم، دارالصدیقه الشهیده، ۱۴۲۷ھ۔ | *تبریزی، جواد، صراط النجاة، قم، دارالصدیقه الشهیده، ۱۴۲۷ھ۔ | ||
*جمعی از مؤلفان، مجله فقه اهلبیت(ع)، فارسی، قم، موسسه دائر المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهلبیت(ع)، | *جمعی از مؤلفان، مجله فقه اهلبیت(ع)، فارسی، قم، موسسه دائر المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهلبیت(ع)، بیتا۔ | ||
*حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، قم، مؤسسه آلالبیت(ع)، ۱۴۰۹ھ۔ | *حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، قم، مؤسسه آلالبیت(ع)، ۱۴۰۹ھ۔ | ||
*حکیم، سید محسن، منهاج الصالحین (المحشی)، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۱۰ھ۔ | *حکیم، سید محسن، منهاج الصالحین (المحشی)، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۱۰ھ۔ | ||
*خمینی، سید روحالله، تحریر الوسیلة، قم، مؤسسه مطبوعات دارالعلم، | *خمینی، سید روحالله، تحریر الوسیلة، قم، مؤسسه مطبوعات دارالعلم، بیتا۔ | ||
*خویی، سید ابوالقاسم، صراط النجاة (المحشی)، قم، مکتب نشر المنتخب، ۱۴۱۶ھ۔ | *خویی، سید ابوالقاسم، صراط النجاة (المحشی)، قم، مکتب نشر المنتخب، ۱۴۱۶ھ۔ | ||
*دیلمی، سلار، المراسم العلویة و الأحکام النبویة، تحقیق محمود بستانی، قم، منشورات الحرمین، ۱۴۰۴ھ۔ | *دیلمی، سلار، المراسم العلویة و الأحکام النبویة، تحقیق محمود بستانی، قم، منشورات الحرمین، ۱۴۰۴ھ۔ | ||
سطر 70: | سطر 70: | ||
*شیخ بهایی، بهاءالدین، جامع عباسی و تکمیل آن محشی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ جدید، ۱۴۲۹ھ۔ | *شیخ بهایی، بهاءالدین، جامع عباسی و تکمیل آن محشی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ جدید، ۱۴۲۹ھ۔ | ||
*صافی گلپایگانی، لطفالله، جامع الأحکام، قم، انتشارات حضرت معصومه(س)، ۱۴۱۷ھ۔ | *صافی گلپایگانی، لطفالله، جامع الأحکام، قم، انتشارات حضرت معصومه(س)، ۱۴۱۷ھ۔ | ||
* | *صدوھ، محمّد بن علی، من لایحضره الفقیه، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔ | ||
*طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقه الإمامیة، تحقیق سید محمدتقی کشفی، تهران، مکتبه المرتضویه، چاپ سوم، ۱۳۸۷ھ۔ | *طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقه الإمامیة، تحقیق سید محمدتقی کشفی، تهران، مکتبه المرتضویه، چاپ سوم، ۱۳۸۷ھ۔ | ||
*طوسی، محمد بن حسن، النهایة فی مجرد الفقه و الفتاوی، بیروت، دارالکتب العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۰ھ۔ | *طوسی، محمد بن حسن، النهایة فی مجرد الفقه و الفتاوی، بیروت، دارالکتب العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۰ھ۔ | ||
*طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، تحقیق حسن الموسوی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، ۱۴۰۷ھ۔ | *طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، تحقیق حسن الموسوی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، ۱۴۰۷ھ۔ | ||
*علامه حلی، حسن بن یوسف، تبصرة المتعلمین فی أحکام الدین، تحقیق محمدهادی یوسفی غروی، تهران، مؤسسه چاپ و نشر، ۱۴۱۱ھ۔ | *علامه حلی، حسن بن یوسف، تبصرة المتعلمین فی أحکام الدین، تحقیق محمدهادی یوسفی غروی، تهران، مؤسسه چاپ و نشر، ۱۴۱۱ھ۔ | ||
*علامه حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیة علی مذهب الإمامیة، مشهد، مؤسسه آلالبیت(ع)، | *علامه حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیة علی مذهب الإمامیة، مشهد، مؤسسه آلالبیت(ع)، بیتا۔ | ||
*علامه حلی، حسن بن یوسف، قواعد الأحکام فی معرفة الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔ | *علامه حلی، حسن بن یوسف، قواعد الأحکام فی معرفة الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔ | ||
*غفاری، علیاکبر و محمدجواد صدر بلاغی، ترجمه و شرح من لا یحضره الفقیه، تهران، نشر | *غفاری، علیاکبر و محمدجواد صدر بلاغی، ترجمه و شرح من لا یحضره الفقیه، تهران، نشر صدوھ، ۱۴۰۹ھ۔ | ||
*فاضل آبی،حسن بن ابیطالب، کشف الرموز فی شرح مختصر النافع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ سوم، ۱۴۱۷ھ۔ | *فاضل آبی،حسن بن ابیطالب، کشف الرموز فی شرح مختصر النافع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ سوم، ۱۴۱۷ھ۔ | ||
*فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله سیوری، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، قم، انتشارات کتابخانه آیة الله مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔ | *فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله سیوری، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، قم، انتشارات کتابخانه آیة الله مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔ | ||
سطر 88: | سطر 88: | ||
*مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعه، قم، کنگره جهانی شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔ | *مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعه، قم، کنگره جهانی شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔ | ||
*مکارم شیرازی، ناصر، استفتاءات جدید، قم، انتشارات مدرسه امام علی بن ابی طالب(ع)، ۱۴۲۷ھ۔ | *مکارم شیرازی، ناصر، استفتاءات جدید، قم، انتشارات مدرسه امام علی بن ابی طالب(ع)، ۱۴۲۷ھ۔ | ||
*«علت حرام گوشت بودن ماهیان بدون پولک چیست؟»، سایت | *«علت حرام گوشت بودن ماهیان بدون پولک چیست؟»، سایت مشرھ، تاریخ انتشار:۱۳۹۵/۱۱/۱۰ہجری شمسی، تاریخ بازدید: ۱۳۹۸/۱۰/۲۵ہجری شمسی۔ | ||
{{خاتمہ}} | {{خاتمہ}} |