مندرجات کا رخ کریں

"چھلکے دار مچھلی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{مقاله توصیفی فقهی}}
{{مقالہ توصیفی فقہی}}
'''کھپرے والی مچھلی''' یا '''چھلکے دار مچھلی،''' سے مراد وہ مچھلی ہے جس کا کھانا [[حلال]] ہے۔ [[امامیہ فقہ]] میں مچھلییوں کا چھلکے دار ہونا اس کی حلالیت کا معیار ہے۔ بعض [[فقہاء]] کے مطابق یہ [[امامیہ]] سے مختص [[احکام شرعی|احکام]] میں سے ہے۔ [[احادیث]] میں مچھلی کے حلال یا حرام ہونے کو یہی معیار قرار دیا گیا ہے۔
'''کھپرے والی مچھلی''' یا '''چھلکے دار مچھلی،''' سے مراد وہ مچھلی ہے جس کا کھانا [[حلال]] ہے۔ [[امامیہ فقہ]] میں مچھلییوں کا چھلکے دار ہونا اس کی حلالیت کا معیار ہے۔ بعض [[فقہاء]] کے مطابق یہ [[امامیہ]] سے مختص [[احکام شرعی|احکام]] میں سے ہے۔ [[احادیث]] میں مچھلی کے حلال یا حرام ہونے کو یہی معیار قرار دیا گیا ہے۔
[[ملف:پولک ماهی.jpg|تصغیر|300px|چھلکے دار مچھلی]]
[[ملف:پولک ماهی.jpg|تصغیر|300px|چھلکے دار مچھلی]]
سطر 7: سطر 7:
==تعارف ==
==تعارف ==
{{احکام}}
{{احکام}}
جس مچھلی کے بیرونی حصے پر کھرنڈ اور کھپرے موجود ہوں<ref>جمعی از مؤلفان، مجله فقه اهل بیت(ع)، قم، ج۹، ص۲۶۸۔</ref> اسے چھلکے دار مچھلی کہتے ہیں۔ اسلامی فقہ کے ابواب [[ذبح شرعی|صید و ذباحہ]] اور [[اطعمہ و اشربہ]] (کھانے پینے سے متعلق شرعی احکام) میں چھلکے دار مچھلی سے متعلق فقہی مسئلہ بیان ہوتا ہے۔<ref> مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهل‌بیت، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت(ع)، ۱۴۲۶ھ، ج‌۲، ص۲۹۱۔</ref> مچھلی کا چھلکا دار ہونا اس کے [[حلال]] ہونے کی نشانی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: خمینی، تحریر الوسیلة، قم، ج‌۲، ص۱۵۵۔</ref> [[شیعہ]] کتب احادیث میں چھلکے دار مچھلیوں کے بارے میں بعض [[احادیث]] بیان کی گئی ہیں۔<ref> ملاحظہ کریں: صدوھ، من لا یحضره الفقیه،۱۴۱۳ھ، ج‌۳، ص۳۲۳؛ حر عاملی، وسائل الشیعة، ۱۴۰۹ھ، ج‌۲۴، ص۱۲۹؛ طوسی، تهذیب الأحکام، ۱۴۰۷ھ، ج‌۹، ص۲۔</ref>
جس مچھلی کے بیرونی حصے پر کھرنڈ اور کھپرے موجود ہوں<ref>جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل بیت(ع)، قم، ج9، ص268۔</ref> اسے چھلکے دار مچھلی کہتے ہیں۔ اسلامی فقہ کے ابواب [[ذبح شرعی|صید و ذباحہ]] اور [[اطعمہ و اشربہ]] (کھانے پینے سے متعلق شرعی احکام) میں چھلکے دار مچھلی سے متعلق فقہی مسئلہ بیان ہوتا ہے۔<ref> مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج‌2، ص291۔</ref> مچھلی کا چھلکا دار ہونا اس کے [[حلال]] ہونے کی نشانی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: خمینی، تحریر الوسیلۃ، قم، ج‌2، ص155۔</ref> [[شیعہ]] کتب احادیث میں چھلکے دار مچھلیوں کے بارے میں بعض [[احادیث]] بیان کی گئی ہیں۔<ref> ملاحظہ کریں: صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ،1413ھ، ج‌3، ص323؛ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، 1409ھ، ج‌24، ص129؛ طوسی، تہذیب الأحکام، 1407ھ، ج‌9، ص2۔</ref>


== فقہی حکم ==
== فقہی حکم ==
امامیہ [[فقہاء]] چھلکے والی مچھلیوں کو حلال اور بغیر چھلکے والی مچھلیوں کو حرام سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شریف مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ھ، ص۴۰۰؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، ۱۴۰۸ھ، ج‌۳، ص۱۶۹۔</ref> بغیر چھلکے والی مچھلیوں سے مراد وہ مچھلیاں ہیں جو فطرتاََ بغیر چھلکے کے ہوں۔<ref> غفاری، ترجمه و شرح من لا یحضره الفقیه، ۱۴۰۹ھ، ج‌۴، ص۴۴۴۔</ref> لہذا جن مچھلیوں کے اصالتاََ چھلکے ہوں لیکن کسی وجہ سے وہ اتر چکے ہوں، ان پر چھلکے دار مچھلی کا حکم جاری ہوگا۔<ref> علامه حلی، قواعد الأحکام، ۱۴۱۳ھ، ج‌۳، ص۳۲۴؛ غفاری، ترجمه و شرح من لا یحضره الفقیه، ۱۴۰۹ھ، ج‌۴، ص۴۴۴؛ شهید ثانی، الروضة البهیة، ۱۴۱۰ھ، ج‌۷، ص۲۶۳۔</ref>
امامیہ [[فقہاء]] چھلکے والی مچھلیوں کو حلال اور بغیر چھلکے والی مچھلیوں کو حرام سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: شریف مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص400؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج‌3، ص169۔</ref> بغیر چھلکے والی مچھلیوں سے مراد وہ مچھلیاں ہیں جو فطرتاََ بغیر چھلکے کے ہوں۔<ref> غفاری، ترجمہ و شرح من لا یحضرہ الفقیہ، 1409ھ، ج‌4، ص444۔</ref> لہذا جن مچھلیوں کے اصالتاََ چھلکے ہوں لیکن کسی وجہ سے وہ اتر چکے ہوں، ان پر چھلکے دار مچھلی کا حکم جاری ہوگا۔<ref> علامہ حلی، قواعد الأحکام، 1413ھ، ج‌3، ص324؛ غفاری، ترجمہ و شرح من لا یحضرہ الفقیہ، 1409ھ، ج‌4، ص444؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، 1410ھ، ج‌7، ص263۔</ref>


بغیر چھلکے کی مچھلیوں کا کھانا حرام ہونے کی یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ اس نوعیت کی مچھلیاں بنیادی طور پر گوشت خور ہا مردار کھانے والی ہوتی ہیں لہذا ان کا گوشت چھلکے کے نہ ہونے کی وجہ سے  آلودہ ہوتا ہے۔<ref> [https://www۔mashreghnews۔ir/news/581497 علت حرام گوشت بودن ماهیان بدون پولک چیست؟]، سایت مشرق۔</ref>
بغیر چھلکے کی مچھلیوں کا کھانا حرام ہونے کی یہ وجہ بتائی گئی ہے کہ اس نوعیت کی مچھلیاں بنیادی طور پر گوشت خور ہا مردار کھانے والی ہوتی ہیں لہذا ان کا گوشت چھلکے کے نہ ہونے کی وجہ سے  آلودہ ہوتا ہے۔<ref>[https://www۔mashreghnews۔ir/news/581497 علت حرام گوشت بودن ماہیان بدون پولک چیست؟]، سایت مشرق۔</ref>


===مچھلی کے انڈے کا حکم===
===مچھلی کے انڈے کا حکم===
اکثر فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق مچھلی کے انڈوں (خاویار) کھانے کا حکم مچھلی ہی کے تابع ہے۔ لہذا جن مچھلیوں کا کھانا حلال ہے ان کے انڈوں کا کھانا بھی حلال ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: علامه حلی، تحریر الأحکام الشرعیة، مشهد، ج‌۲، ص۱۶۰؛ شهید اول، اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ھ، ص۲۳۵۔</ref> بعض فقہاء نے اس کے حلال یا حرام ہونے کا ایک اور معیار بیان کیا ہے: اگر ان انڈوں کی بیرونی جلد کھردری اور سخت ہوں تو حلال ہے اور اگر یہ نرم ہوں تو ان کا کھانا حرام ہے؛<ref> دیلمی، المراسم العلویة، ۱۴۰۴ھ، ص۲۰۷۔</ref> لیکن دیگر بعض علما کہتے ہیں کہ یہ معیار اس صورت میں ہے جب مچھلی کے حلال گوشت یا حرام گوشت ہونے کی تشخیص ممکن نہ ہو۔<ref>علامه حلی، تحریر الأحکام الشرعیة، مشهد، ج‌۲، ص۱۶۰؛ شهید اول، اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ھ، ص۲۳۵۔</ref>
اکثر فقہاء کے فتاویٰ کے مطابق مچھلی کے انڈوں (خاویار) کھانے کا حکم مچھلی ہی کے تابع ہے۔ لہذا جن مچھلیوں کا کھانا حلال ہے ان کے انڈوں کا کھانا بھی حلال ہے۔<ref> ملاحظہ کریں: علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، مشہد، ج‌2، ص160؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص235۔</ref> بعض فقہاء نے اس کے حلال یا حرام ہونے کا ایک اور معیار بیان کیا ہے: اگر ان انڈوں کی بیرونی جلد کھردری اور سخت ہوں تو حلال ہے اور اگر یہ نرم ہوں تو ان کا کھانا حرام ہے؛<ref> دیلمی، المراسم العلویۃ، 1404ھ، ص207۔</ref> لیکن دیگر بعض علما کہتے ہیں کہ یہ معیار اس صورت میں ہے جب مچھلی کے حلال گوشت یا حرام گوشت ہونے کی تشخیص ممکن نہ ہو۔<ref>علامہ حلی، تحریر الأحکام الشرعیۃ، مشہد، ج‌2، ص160؛ شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص235۔</ref>


==چھلکے دار مچھلی کی حلیّت شیعوں سے مخصوص حکم==
==چھلکے دار مچھلی کی حلیّت شیعوں سے مخصوص حکم==
بعض شیعہ فقہاء جیسے [[شیخ طوسی]] اور [[سید مرتضی]] چھلکے دار مچھلی کے حلال ہونے اور باقی سمندری حیوانات کے حرام ہونے کو شیعہ امامیہ سے مختص حکم جانتے ہیں۔<ref> طوسی، المبسوط، ۱۳۷۸ھ، ج‌۶، ص۲۷۶؛ شریف مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵ھ، ص۴۰۰۔</ref> بعض فقہاء نے اس سلسلے میں [[حدیث متواتر|تواتر احادیث]]،<ref> کوه‌کمره‌ای، «تحقیق بر التنقیح الرائع»، ۱۴۰۴ھ، ج‌۴، ص۳۱۔‌</ref> اصحاب کے مابین شہرت<ref> اردبیلی، مجمع الفائدة، ۱۴۰۳ھ، ج‌۱۱، ص۱۸۷۔</ref> اور اجماع کا دعوا کرتے ہوے<ref> راوندی، فقه القرآن، ۱۴۰۵ھ، ج‌۲، ص۲۴۹۔</ref> اسے اصول مذہب شیعہ میں سے گردانا ہے۔<ref> ابن‌ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ھ، ج‌۳، ص۹۹۔‌</ref>  
بعض شیعہ فقہاء جیسے [[شیخ طوسی]] اور [[سید مرتضی]] چھلکے دار مچھلی کے حلال ہونے اور باقی سمندری حیوانات کے حرام ہونے کو شیعہ امامیہ سے مختص حکم جانتے ہیں۔<ref> طوسی، المبسوط، 1378ھ، ج‌6، ص276؛ شریف مرتضی، الانتصار، 1415ھ، ص400۔</ref> بعض فقہاء نے اس سلسلے میں [[حدیث متواتر|تواتر احادیث]]،<ref> کوہ‌کمرہ‌ای، «تحقیق بر التنقیح الرائع»، 1404ھ، ج‌4، ص31۔‌</ref> اصحاب کے مابین شہرت<ref> اردبیلی، مجمع الفائدۃ، 1403ھ، ج‌11، ص187۔</ref> اور اجماع کا دعوا کرتے ہوے<ref> راوندی، فقہ القرآن، 1405ھ، ج‌2، ص249۔</ref> اسے اصول مذہب شیعہ میں سے گردانا ہے۔<ref> ابن‌ادریس حلی، السرائر، 1410ھ، ج‌3، ص99۔‌</ref>  


غیر امامیہ فقہاء مچھلیوں کے حلال ہونے کو ان کے چھلکے دار ہونے سے مختص نہیں کرتے۔ [[ابوحنیفہ]] کے نزدیک ہر قسم کی مچلھی حلال ہے۔ اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور [[مالک بن انس]] تمام قسم کے دریائی حیوانات کو حلال سمجھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، کنز العرفان، ۱۴۲۵ھ، ج‌۱، ص۳۲۸۔</ref> اس بنا پر بعض فقہاء چھلکے دار مچھلیوں کی حلیت کو تمام [[مسلمانوں]] کا اجماعی حکم تسلیم کرتے ہیں اور غیر چھلکے دار مچھلی اور وہ دریائی حیوانات جو مچھلی محسوب نہیں ہوتے، ان کی حرمت کو اصحاب امامیہ کا اجماعی مسئلہ گردانتے ہیں۔<ref> اردبیلی، مجمع الفائدة، ۱۴۰۳ھ، ج‌۱۱، ص۱۸۷۔</ref>
غیر امامیہ فقہاء مچھلیوں کے حلال ہونے کو ان کے چھلکے دار ہونے سے مختص نہیں کرتے۔ [[ابوحنیفہ]] کے نزدیک ہر قسم کی مچلھی حلال ہے۔ اسی طرح محمد بن ادریس شافعی اور [[مالک بن انس]] تمام قسم کے دریائی حیوانات کو حلال سمجھتے ہیں۔<ref>فاضل مقداد، کنز العرفان، 1425ھ، ج‌1، ص328۔</ref> اس بنا پر بعض فقہاء چھلکے دار مچھلیوں کی حلیت کو تمام [[مسلمانوں]] کا اجماعی حکم تسلیم کرتے ہیں اور غیر چھلکے دار مچھلی اور وہ دریائی حیوانات جو مچھلی محسوب نہیں ہوتے، ان کی حرمت کو اصحاب امامیہ کا اجماعی مسئلہ گردانتے ہیں۔<ref> اردبیلی، مجمع الفائدۃ، 1403ھ، ج‌11، ص187۔</ref>


==احادیث کی رو سے چند مصادیق==
==احادیث کی رو سے چند مصادیق==
بعض فقہاء نے مختلف روایات کی بنیاد پر حلال گوشت اور حرام گوشت مچھلیوں کے نام<ref>ملاحظہ کریں: مفید، المقنعة، ۱۴۱۳ھ، ص۵۷۶؛ طوسی، النهایة، ۱۴۰۰ھ، ص۵۷۶؛ طوسی، المبسوط، ۱۳۷۸ھ، ج‌۶، ص۲۷۶؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، ۱۴۰۸ھ، ج‌۳، ص۱۶۹؛ علامه حلی، تبصرة المتعلمین، ۱۴۱۱ھ، ص۱۶۳۔</ref> اور اس سلسلے میں علما کے حکم کو جمع کیا ہے۔<ref> فاضل آبی، کشف الرموز، ۱۴۱۷ھ، ج‌۲، ص۳۶۱۔‌</ref>
بعض فقہاء نے مختلف روایات کی بنیاد پر حلال گوشت اور حرام گوشت مچھلیوں کے نام<ref>ملاحظہ کریں: مفید، المقنعۃ، 1413ھ، ص576؛ طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص576؛ طوسی، المبسوط، 1378ھ، ج‌6، ص276؛ محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج‌3، ص169؛ علامہ حلی، تبصرۃ المتعلمین، 1411ھ، ص163۔</ref> اور اس سلسلے میں علما کے حکم کو جمع کیا ہے۔<ref> فاضل آبی، کشف الرموز، 1417ھ، ج‌2، ص361۔‌</ref>


کچھوا، مینڈک اور کیکڑا سمندری جانور ہیں جن پر مچھلی کا اطلاق نہ ہونے اور ان کے چھلکے دار نہ ہونے کی وجہ سے احادیث میں حرام قرار دیا گیا ہے۔<ref> شهید اول، اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ھ، ص۲۳۵۔</ref> اس کے علاوہ آزاد مچھلی(Salmon) (باریک چھلکے والی چھوٹی مچھلی)، نیلے ٹڈی یا کیکڑے، طِمْر اور طِمْرانی کو مچھلیوں کی حلال اقسام میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref> شیخ بهایی، جامع عباسی، ۱۴۲۹ھ، ص۷۵۴۔</ref>
کچھوا، مینڈک اور کیکڑا سمندری جانور ہیں جن پر مچھلی کا اطلاق نہ ہونے اور ان کے چھلکے دار نہ ہونے کی وجہ سے احادیث میں حرام قرار دیا گیا ہے۔<ref> شہید اول، اللمعۃ الدمشقیۃ، 1410ھ، ص235۔</ref> اس کے علاوہ آزاد مچھلی(Salmon) (باریک چھلکے والی چھوٹی مچھلی)، نیلے ٹڈی یا کیکڑے، طِمْر اور طِمْرانی کو مچھلیوں کی حلال اقسام میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref> شیخ بہایی، جامع عباسی، 1429ھ، ص754۔</ref>


بعض فقہاء جیسے [[شیخ طوسی]]<ref>طوسی، النهایة، ۱۴۰۰ھ، ص۵۷۶۔</ref> [[محقق حلی]]<ref>محقق حلی، شرائع الإسلام، ۱۴۰۸ھ، ج‌۳، ص۱۶۹۔</ref> اور کیدری مصنف کتاب "اصباح الشیعۃ بمصباح الشریعۃ"<ref>کیدری، إصباح الشیعة، ۱۴۱۶ھ، ص۳۸۷۔‌</ref> نے احادیث سے استناد کرتے ہوئے بعض سمندری جانوروں جیسے بام مچھلی(Moray) زمّار یا زِمّیر کو [[مکروہ]] جانا ہے اور بعض دیگر فقہاء نے ان پر مچھلی کا نام صدق نہ آنے یا ان پر چھلکے نہ ہونے کی وجہ سے حرام گوشت حیوانات میں شمار کیا ہے۔<ref> ابن‌ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ھ، ج‌۳، ص۹۹۔‌</ref> موخر الذکر گروہ نے کراہت پر دلالت کرنے والی احادیث کو [[تقیہ]] پر حمل کیا ہے۔<ref>شهید اول، الدروس الشرعیة، ۱۴۱۷ھ، ج‌۳، ص۸۔‌</ref> احادیث میں مذکور بعض حیوانات پر مچھلی کا اطلاق آنے کے حوالے سے اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شعرانی، ترجمه و شرح تبصرة المتعلمین، ۱۴۱۶ھ، ج‌۲، ص۶۳۴۔‌</ref>
بعض فقہاء جیسے [[شیخ طوسی]]<ref>طوسی، النہایۃ، 1400ھ، ص576۔</ref> [[محقق حلی]]<ref>محقق حلی، شرائع الإسلام، 1408ھ، ج‌3، ص169۔</ref> اور کیدری مصنف کتاب "اصباح الشیعۃ بمصباح الشریعۃ"<ref>کیدری، إصباح الشیعۃ، 1416ھ، ص387۔‌</ref> نے احادیث سے استناد کرتے ہوئے بعض سمندری جانوروں جیسے بام مچھلی(Moray) زمّار یا زِمّیر کو [[مکروہ]] جانا ہے اور بعض دیگر فقہاء نے ان پر مچھلی کا نام صدق نہ آنے یا ان پر چھلکے نہ ہونے کی وجہ سے حرام گوشت حیوانات میں شمار کیا ہے۔<ref> ابن‌ادریس حلی، السرائر، 1410ھ، ج‌3، ص99۔‌</ref> موخر الذکر گروہ نے کراہت پر دلالت کرنے والی احادیث کو [[تقیہ]] پر حمل کیا ہے۔<ref>شہید اول، الدروس الشرعیۃ، 1417ھ، ج‌3، ص8۔‌</ref> احادیث میں مذکور بعض حیوانات پر مچھلی کا اطلاق آنے کے حوالے سے اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شعرانی، ترجمہ و شرح تبصرۃ المتعلمین، 1416ھ، ج‌2، ص634۔‌</ref>


==چھلکے کی مقدار اور اس کا مصداق==
==چھلکے کی مقدار اور اس کا مصداق==
بعض [[مجتہدین]] کے فتوا کے مطابق مچھلی کے پورے جسم پر چھلکا موجود ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے بعض حصوں پر چھلکا ہو کافی ہے۔<ref>مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهل‌بیت، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت(ع)، ۱۴۲۶ھ، ج‌۲، ص۲۹۱۔</ref> مچھلی چھلکا دار ہے یا نہیں اس کا تعین کرنا مکلف کی ذمہ داری ہے<ref> گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ھ، ج‌۳، ص۶۳۔</ref> یا یہ کہ ماہرین اسے چھلکا دار کہے۔<ref> بهجت، استفتاءات، ۱۴۲۸ھ، ج‌۴، ص۳۷۶۔</ref>
بعض [[مجتہدین]] کے فتوا کے مطابق مچھلی کے پورے جسم پر چھلکا موجود ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے بعض حصوں پر چھلکا ہو کافی ہے۔<ref>مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، 1426ھ، ج‌2، ص291۔</ref> مچھلی چھلکا دار ہے یا نہیں اس کا تعین کرنا مکلف کی ذمہ داری ہے<ref> گلپایگانی، مجمع المسائل، 1409ھ، ج‌3، ص63۔</ref> یا یہ کہ ماہرین اسے چھلکا دار کہے۔<ref> بہجت، استفتاءات، 1428ھ، ج‌4، ص376۔</ref>


بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر کسی مچھلی کے بارے میں شک ہوجائے کہ وہ چھلکا دار ہے یا نہیں، اس صورت میں حرمت کا حکم جاری ہوگا؛<ref> حکیم، منهاج الصالحین، ۱۴۱۰ھ، ج‌۲، ص۳۶۷۔</ref> مگر یہ کہ مسلمانوں کے بازار میں اسے خرید لی جائے<ref> تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج‌۲، ص۳۹۳۔‌</ref> یا یہ کہ ایک عادل گواہ اس کے چھلکے دار ہونے کی گواہی دے۔<ref>خویی، صراط النجاة، ۱۴۱۶ھ، ج‌۲، ص۴۰۶‌؛ بجنوردی، القواعد الفقهیة، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۴۱۔</ref> بنابرایں جو مچھلیاں غیر مسلموں کے بازاروں میں خرید و فروخت کی جاتی ہیں؛ مشکوک ہونے کی صورت میں ان کے کھانے سے پرہیز کیا جائے۔<ref> تبریزی، صراط النجاة، ۱۴۲۷ھ، ج‌۵، ص۴۰۶۔</ref>
بعض فقہاء کا کہنا ہے کہ اگر کسی مچھلی کے بارے میں شک ہوجائے کہ وہ چھلکا دار ہے یا نہیں، اس صورت میں حرمت کا حکم جاری ہوگا؛<ref> حکیم، منہاج الصالحین، 1410ھ، ج‌2، ص367۔</ref> مگر یہ کہ مسلمانوں کے بازار میں اسے خرید لی جائے<ref> تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج‌2، ص393۔‌</ref> یا یہ کہ ایک عادل گواہ اس کے چھلکے دار ہونے کی گواہی دے۔<ref>خویی، صراط النجاۃ، 1416ھ، ج‌2، ص406‌؛ بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج3، ص41۔</ref> بنابرایں جو مچھلیاں غیر مسلموں کے بازاروں میں خرید و فروخت کی جاتی ہیں؛ مشکوک ہونے کی صورت میں ان کے کھانے سے پرہیز کیا جائے۔<ref> تبریزی، صراط النجاۃ، 1427ھ، ج‌5، ص406۔</ref>


جن مچھلیوں کے چھلکے کو صرف ذرہ بین سے دیکھا جاسکتا ہے ان کی حلیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ازون‌ برون(starry sturgeon) ، فیل‌ماہی(Beluga Fish)، تاس‌ماہی(Sturgeon Fish)،<ref>گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ھ، ج‌۳، ص۶۳-۶۴۔</ref> شارک(Shark)<ref>تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج‌۱، ص۴۰۲؛ بهجت، استفتاءات، ۱۴۲۸ھ، ج‌۴، ص۳۷۶؛ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، ۱۴۲۷ھ، ج‌۱، ص۲۸۶؛ صافی گلپایگانی، جامع الأحکام، ۱۴۱۷ھ، ج‌۱، ص۲۸۶۔‌</ref> اور ماہی خاویار<ref>تبریزی، صراط النجاة، ۱۴۲۷ھ، ج‌۵، ص۴۰۶؛ گلپایگانی، مجمع المسائل، ۱۴۰۹ھ، ج‌۳، ص۶۳۔</ref> ان مچھلیوں کے اقسام ہیں جن کے بارے میں مجتہدین سے شرعی سوالات کیے گئے ہیں۔
جن مچھلیوں کے چھلکے کو صرف ذرہ بین سے دیکھا جاسکتا ہے ان کی حلیت کے بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ ازون‌ برون(starry sturgeon) ، فیل‌ماہی(Beluga Fish)، تاس‌ماہی(Sturgeon Fish)،<ref>گلپایگانی، مجمع المسائل، 1409ھ، ج‌3، ص63-64۔</ref> شارک(Shark)<ref>تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج‌1، ص402؛ بہجت، استفتاءات، 1428ھ، ج‌4، ص376؛ مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، 1427ھ، ج‌1، ص286؛ صافی گلپایگانی، جامع الأحکام، 1417ھ، ج‌1، ص286۔‌</ref> اور ماہی خاویار<ref>تبریزی، صراط النجاۃ، 1427ھ، ج‌5، ص406؛ گلپایگانی، مجمع المسائل، 1409ھ، ج‌3، ص63۔</ref> ان مچھلیوں کے اقسام ہیں جن کے بارے میں مجتہدین سے شرعی سوالات کیے گئے ہیں۔


بعض [[مراجع تقلید]] کے مطابق مچھلی کے چھلکے بغیر ذرہ بین کے دکھائی دینا چاہیے اور عرف میں اسے چھلکا کہا جائے۔<ref> تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج‌۲، ص۳۹۰۔</ref> اسی بنا پر آیت‌ الله تبریزی کا عقیدہ ہے کہ خاویار مچھلی کا چھلکا دار ہونا ثابت نہیں ہے۔<ref> تبریزی، صراط النجاة، ۱۴۲۷ھ، ج‌۵، ص۴۰۶۔</ref> بعض مجتہدین جیسے [[محمد تقی بہجت|آیت‌ الله بہجت]] نے چھلکے کو ذرہ بین کے ذریعے دیکھے جانے کو کافی جانا ہے۔<ref> بهجت، استفتاءات، ۱۴۲۸ھ، ج‌۴، ص۳۷۶۔</ref> [[ناصر مکارم شیرازی|آیت‌ الله مکارم شیرازی]] نے شارک مچھلی کی حلیت کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں عرف<ref> استفتاءات جدید مکارم، ج‌۱، ص: ۲۸۲‌</ref> یا اہل خبرہ کی تشخیص<ref>مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، ۱۴۲۷ھ، ج‌۱، ص۲۸۶۔</ref> کو ان کے حلال ہونے میں کافی ہے۔  
بعض [[مراجع تقلید]] کے مطابق مچھلی کے چھلکے بغیر ذرہ بین کے دکھائی دینا چاہیے اور عرف میں اسے چھلکا کہا جائے۔<ref> تبریزی، استفتاءات جدید، قم، ج‌2، ص390۔</ref> اسی بنا پر آیت‌ اللہ تبریزی کا عقیدہ ہے کہ خاویار مچھلی کا چھلکا دار ہونا ثابت نہیں ہے۔<ref> تبریزی، صراط النجاۃ، 1427ھ، ج‌5، ص406۔</ref> بعض مجتہدین جیسے [[محمد تقی بہجت|آیت‌ اللہ بہجت]] نے چھلکے کو ذرہ بین کے ذریعے دیکھے جانے کو کافی جانا ہے۔<ref> بہجت، استفتاءات، 1428ھ، ج‌4، ص376۔</ref> [[ناصر مکارم شیرازی|آیت‌ اللہ مکارم شیرازی]] نے شارک مچھلی کی حلیت کی بابت سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں عرف<ref> استفتاءات جدید مکارم، ج‌1، ص: 282‌</ref> یا اہل خبرہ کی تشخیص<ref>مکارم شیرازی، استفتاءات جدید، 1427ھ، ج‌1، ص286۔</ref> کو ان کے حلال ہونے میں کافی ہے۔  


بعض محققین کے مطابق مچھلی کے حلال ہونے کا دار و مدار اس کا چھلکا دار ہونا ہے چاہے اسے ذرہ بین کے ذریعے تشخیص دی جائے یا عام طریقے سے۔<ref>جمعی از مؤلفان، مجله فقه اهل‌بیت(ع)، ج‌۴۳، ص۲۳۷۔‌</ref>
بعض محققین کے مطابق مچھلی کے حلال ہونے کا دار و مدار اس کا چھلکا دار ہونا ہے چاہے اسے ذرہ بین کے ذریعے تشخیص دی جائے یا عام طریقے سے۔<ref>جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل‌بیت(ع)، ج‌43، ص237۔‌</ref>


==متعلقہ مضامین==
==متعلقہ مضامین==
سطر 49: سطر 49:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*ابن‌ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
*ابن‌ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1410ھ۔
*اردبیلی، احمد بن علی، مجمع الفائدة و البرهان فی شرح إرشاد الأذهان، تحقیق آقا مجتبی عراقی و علی‌پناه اشتهاردی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۳ھ۔
*اردبیلی، احمد بن علی، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح إرشاد الأذہان، تحقیق آقا مجتبی عراقی و علی‌پناہ اشتہاردی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1403ھ۔
*بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقهیة، تحقیق مهدی مهریزی و محمدحسن درایتی، قم، نشر الهادی، ۱۴۱۹ھ۔
*بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقہیۃ، تحقیق مہدی مہریزی و محمدحسن درایتی، قم، نشر الہادی، 1419ھ۔
*بهجت، محمدتقی، استفتاءات، قم، دفتر حضرت آیت‌الله بهجت، ۱۴۲۸ھ۔
*بہجت، محمدتقی، استفتاءات، قم، دفتر حضرت آیت‌اللہ بہجت، 1428ھ۔
*تبریزی، جواد، استفتاءات جدید، قم، بی‌جا، بی‌تا۔
*تبریزی، جواد، استفتاءات جدید، قم، بی‌جا، بی‌تا۔
*تبریزی، جواد، صراط النجاة، قم، دارالصدیقه الشهیده، ۱۴۲۷ھ۔
*تبریزی، جواد، صراط النجاۃ، قم، دارالصدیقہ الشہیدہ، 1427ھ۔
*جمعی از مؤلفان، مجله فقه اهل‌بیت(ع)، فارسی، قم، موسسه دائر المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهل‌بیت(ع)، بی‌تا۔
*جمعی از مؤلفان، مجلہ فقہ اہل‌بیت(ع)، فارسی، قم، موسسہ دائر المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت(ع)، بی‌تا۔
*حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعة، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع)، ۱۴۰۹ھ۔
*حرّ عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، قم، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، 1409ھ۔
*حکیم، سید محسن، منهاج الصالحین (المحشی)، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۱۰ھ۔
*حکیم، سید محسن، منہاج الصالحین (المحشی)، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1410ھ۔
*خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیلة، قم، مؤسسه مطبوعات دارالعلم، بی‌تا۔
*خمینی، سید روح‌اللہ، تحریر الوسیلۃ، قم، مؤسسہ مطبوعات دارالعلم، بی‌تا۔
*خویی، سید ابوالقاسم، صراط النجاة (المحشی)، قم، مکتب نشر المنتخب، ۱۴۱۶ھ۔
*خویی، سید ابوالقاسم، صراط النجاۃ (المحشی)، قم، مکتب نشر المنتخب، 1416ھ۔
*دیلمی، سلار، المراسم العلویة و الأحکام النبویة، تحقیق محمود بستانی، قم، منشورات الحرمین، ۱۴۰۴ھ۔
*دیلمی، سلار، المراسم العلویۃ و الأحکام النبویۃ، تحقیق محمود بستانی، قم، منشورات الحرمین، 1404ھ۔
*راوندی، قطب‌الدین، فقه القرآن للراوندی، قم، انتشارات کتابخانه آیت‌الله مرعشی، ۱۴۰۵ھ۔
*راوندی، قطب‌الدین، فقہ القرآن للراوندی، قم، انتشارات کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی، 1405ھ۔
*شریف مرتضی، علی بن حسین موسوی، الانتصار فی انفرادات الإمامیة، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۵ق
*شریف مرتضی، علی بن حسین موسوی، الانتصار فی انفرادات الإمامیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1415ق
*شعرانی، ابوالحسن، تبصرة المتعلمین فی أحکام الدین، ترجمه و شرح، تهران، منشورات إسلامیة، چاپ پنجم، ۱۴۱۹ھ۔
*شعرانی، ابوالحسن، تبصرۃ المتعلمین فی أحکام الدین، ترجمہ و شرح، تہران، منشورات إسلامیۃ، چاپ پنجم، 1419ھ۔
*شهید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیة فی فقه الإمامیة، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۷ھ۔
*شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1417ھ۔
*شهید اول، محمد بن مکی، اللمعة الدمشقیة فی فقه الإمامیة، محمدتقی و علی اصغر مروارید، بیروت، دارالتراث، ۱۴۱۰ھ۔
*شہید اول، محمد بن مکی، اللمعۃ الدمشقیۃ فی فقہ الإمامیۃ، محمدتقی و علی اصغر مروارید، بیروت، دارالتراث، 1410ھ۔
*شهید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، قم، کتاب‌فروشی داوری، ۱۴۱۰ھ۔
*شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، قم، کتاب‌فروشی داوری، 1410ھ۔
*شهید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الأفهام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسة المعارف الإسلامیة، ۱۴۱۳ھ۔
*شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، مسالک الأفہام إلی تنقیح شرائع الإسلام، قم، مؤسسۃ المعارف الإسلامیۃ، 1413ھ۔
*شیخ بهایی، بهاء‌الدین، جامع عباسی و تکمیل آن محشی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ جدید، ۱۴۲۹ھ۔
*شیخ بہایی، بہاء‌الدین، جامع عباسی و تکمیل آن محشی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ جدید، 1429ھ۔
*صافی گلپایگانی، لطف‌الله، جامع الأحکام، قم، انتشارات حضرت معصومه(س)، ۱۴۱۷ھ۔
*صافی گلپایگانی، لطف‌اللہ، جامع الأحکام، قم، انتشارات حضرت معصومہ(س)، 1417ھ۔
*صدوھ، محمّد بن علی، من لایحضره الفقیه، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
*صدوھ، محمّد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقه الإمامیة، تحقیق سید محمدتقی کشفی، تهران، مکتبه المرتضویه، چاپ سوم، ۱۳۸۷ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الإمامیۃ، تحقیق سید محمدتقی کشفی، تہران، مکتبہ المرتضویہ، چاپ سوم، 1387ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، النهایة فی مجرد الفقه و الفتاوی، بیروت، دارالکتب العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۰ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، النہایۃ فی مجرد الفقہ و الفتاوی، بیروت، دارالکتب العربی، چاپ دوم، 1400ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، تهذیب الاحکام، تحقیق حسن الموسوی، تهران، دارالکتب الاسلامیه، ۱۴۰۷ھ۔
*طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، تحقیق حسن الموسوی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1407ھ۔
*علامه حلی، حسن بن یوسف، تبصرة المتعلمین فی أحکام الدین، تحقیق محمدهادی یوسفی غروی، تهران، مؤسسه چاپ و نشر، ۱۴۱۱ھ۔
*علامہ حلی، حسن بن یوسف، تبصرۃ المتعلمین فی أحکام الدین، تحقیق محمدہادی یوسفی غروی، تہران، مؤسسہ چاپ و نشر، 1411ھ۔
*علامه حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیة علی مذهب الإمامیة، مشهد، مؤسسه آل‌البیت(ع)، بی‌تا۔
*علامہ حلی، حسن بن یوسف، تحریر الأحکام الشرعیۃ علی مذہب الإمامیۃ، مشہد، مؤسسہ آل‌البیت(ع)، بی‌تا۔
*علامه حلی، حسن بن یوسف، قواعد الأحکام فی معرفة الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۳ھ۔
*علامہ حلی، حسن بن یوسف، قواعد الأحکام فی معرفۃ الحلال و الحرام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1413ھ۔
*غفاری، علی‌اکبر و محمدجواد صدر بلاغی، ترجمه و شرح من لا یحضره الفقیه، تهران، نشر صدوھ، ۱۴۰۹ھ۔
*غفاری، علی‌اکبر و محمدجواد صدر بلاغی، ترجمہ و شرح من لا یحضرہ الفقیہ، تہران، نشر صدوھ، 1409ھ۔
*فاضل آبی،حسن بن ابی‌طالب، کشف الرموز فی شرح مختصر النافع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ سوم، ۱۴۱۷ھ۔
*فاضل آبی،حسن بن ابی‌طالب، کشف الرموز فی شرح مختصر النافع، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ سوم، 1417ھ۔
*فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله سیوری، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، قم، انتشارات کتاب‌خانه آیة الله مرعشی نجفی، ۱۴۰۴ھ۔
*فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ سیوری، التنقیح الرائع لمختصر الشرائع، قم، انتشارات کتاب‌خانہ آیۃ اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
*فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقه القرآن، قم، انتشارات مرتضوی، ۱۴۲۵ھ۔
*فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، قم، انتشارات مرتضوی، 1425ھ۔
*کیدری، محمد بن حسین، إصباح الشیعة بمصباح الشریعة، قم، موسسه امام صادق(ع)، ۱۴۱۶ھ۔
*کیدری، محمد بن حسین، إصباح الشیعۃ بمصباح الشریعۃ، قم، موسسہ امام صادق(ع)، 1416ھ۔
*گلپایگانی، سید محمدرضا، مجمع المسائل للگلبایگانی، قم، دارالقرآن الکریم، چاپ دوم، ۱۴۰۹ھ۔
*گلپایگانی، سید محمدرضا، مجمع المسائل للگلبایگانی، قم، دارالقرآن الکریم، چاپ دوم، 1409ھ۔
*مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهل‌بیت، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل‌بیت(ع)، قم، مؤسسه دائره المعارف فقه اسلامی بر مذهب اهل‌بیت(ع)، ۱۴۲۶ھ۔
*مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرہ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بیت(ع)، 1426ھ۔
*مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعه لدرر اخبار الائمه الاطهار، بیروت، مؤسسه الطبع و النشر، ۱۴۱۰ھ۔
*مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعہ لدرر اخبار الائمہ الاطہار، بیروت، مؤسسہ الطبع و النشر، 1410ھ۔
*محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسه اسماعیلیان، ۱۴۰۸ھ۔
*محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الإسلام فی مسائل الحلال و الحرام، قم، مؤسسہ اسماعیلیان، 1408ھ۔
*مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعه، قم، کنگره جهانی شیخ مفید، ۱۴۱۳ھ۔
*مفید، محمد بن محمد بن نعمان، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی شیخ مفید، 1413ھ۔
*مکارم شیرازی، ناصر، استفتاءات جدید، قم، انتشارات مدرسه امام علی بن ابی طالب(ع)، ۱۴۲۷ھ۔
*مکارم شیرازی، ناصر، استفتاءات جدید، قم، انتشارات مدرسہ امام علی بن ابی طالب(ع)، 1427ھ۔
*«علت حرام گوشت بودن ماهیان بدون پولک چیست؟»، سایت مشرھ، تاریخ انتشار:۱۳۹۵/۱۱/۱۰ہجری شمسی، تاریخ بازدید: ۱۳۹۸/۱۰/۲۵ہجری شمسی۔
*«علت حرام گوشت بودن ماہیان بدون پولک چیست؟»، سایت مشرھ، تاریخ انتشار:1395/11/10ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 1398/10/25ہجری شمسی۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
confirmed، movedable
5,154

ترامیم