مندرجات کا رخ کریں

"نکاح متعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 9: سطر 9:


==مفہوم‌ اوراہمیت==
==مفہوم‌ اوراہمیت==
موقتی نکاح، مرد اور عورت کی طرف سے دائمی مدت کے بغیر محدود اور معتین مدت کے لیے [[شادی بیاه|شادی]] کرنے کو کہتے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.</ref> نکاح متعہ ان موارد میں سے ہے جن کے بارے میں [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔<ref>کلانتر، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۲۴۵.</ref> اس نوعیت کا نکاح تمام شیعہ فقہاء کی نظر میں مشروع ہے۔<ref>شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۳.</ref> انہوں نے [[فقہی]] ابواب میں سے [[نکاح|باب نکاح]] میں اس سے متعلق [[شرعی احکام]] بیان کیے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۳۹۹.</ref>
موقتی نکاح، مرد اور عورت کی طرف سے دائمی مدت کے بغیر محدود اور معتین مدت کے لیے [[شادی بیاه|شادی]] کرنے کو کہتے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، 1387ش، ج1، ص399.</ref> نکاح متعہ ان موارد میں سے ہے جن کے بارے میں [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔<ref>کلانتر، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1410ق، ج5، ص245.</ref> اس نوعیت کا نکاح تمام شیعہ فقہاء کی نظر میں مشروع ہے۔<ref>شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1412ق، ج2، ص103.</ref> انہوں نے [[فقہی]] ابواب میں سے [[نکاح|باب نکاح]] میں اس سے متعلق [[شرعی احکام]] بیان کیے ہیں۔<ref>مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، 1387ش، ج1، ص399.</ref>


[[ائمہ معصومینؑ]] سے منقول [[احادیث]] کے مطابق نکاح متعہ کے بارے میں ثواب کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔<ref>برای نمونه نگاه کنید به حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۱، ص۱۳-۱۷.</ref> البته بعض روایات میں نکاح متعہ کے بارے میں زیادہ اصرار کرنے سے نہی کی گئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۳۰ق، ج۱۱، ص۱۸-۱۹.</ref> شیعہ فقہاء نے معصومینؑ کی احادیث کی بنیاد پر نہ صرف نکاح متعہ کے حلال ہونے کا [[فتوا]] دیا ہے بلکہ اسے [[مستحب]] بھی سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، ۱۴۱۶ق، ج۲۱، ص۱۳-۱۷؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۸.</ref>
[[ائمہ معصومینؑ]] سے منقول [[احادیث]] کے مطابق نکاح متعہ کے بارے میں ثواب کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔<ref>برای نمونه نگاه کنید به حر عاملی، وسائل الشیعه، 1416ق، ج21، ص13-17.</ref> البته بعض روایات میں نکاح متعہ کے بارے میں زیادہ اصرار کرنے سے نہی کی گئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1430ق، ج11، ص18-19.</ref> شیعہ فقہاء نے معصومینؑ کی احادیث کی بنیاد پر نہ صرف نکاح متعہ کے حلال ہونے کا [[فتوا]] دیا ہے بلکہ اسے [[مستحب]] بھی سمجھتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، 1416ق، ج21، ص13-17؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ق، ج13، ص8.</ref>


نکاح متعہ کے فوائد کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاشرے میں موجود جنسی مسائل کا بہترین حل ہے۔ خصوصا جوانوں اور ان لوگوں کے لیے جو دائمی نکاح کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، ۱۳۷۰ش، ص۳۸۶-۳۸۵؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، ۱۴۲۳ق، ص۹-۱۱.</ref> نیز یہ معاشرے میں رائج منکر و فحشاء اور دیگر سماجی برائیوں کے سد باب کا مناسب طریقہ بھی شمار ہوتا ہے۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، ۱۳۷۰ش، ص۳۸۷.</ref>
نکاح متعہ کے فوائد کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ معاشرے میں موجود جنسی مسائل کا بہترین حل ہے۔ خصوصا جوانوں اور ان لوگوں کے لیے جو دائمی نکاح کرنے پر قدرت نہیں رکھتے ہیں۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، 1370ش، ص386-385؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، 1423ق، ص9-11.</ref> نیز یہ معاشرے میں رائج منکر و فحشاء اور دیگر سماجی برائیوں کے سد باب کا مناسب طریقہ بھی شمار ہوتا ہے۔<ref>کاشف الغطاء، این است آئین ما، 1370ش، ص387.</ref>


نظام جمہوریی اسلامی ایران کے دیوانی قانون (مدنی قانون) میں نکاح متعہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ملک کے آئینی دستور کی چھٹی فصل نکاح متعہ سے متعلق قانون کے لیے مختص کی گئی ہے۔<ref>[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی.</ref>
نظام جمہوریی اسلامی ایران کے دیوانی قانون (مدنی قانون) میں نکاح متعہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس ملک کے آئینی دستور کی چھٹی فصل نکاح متعہ سے متعلق قانون کے لیے مختص کی گئی ہے۔<ref>[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی.</ref>


==نکاح متعہ اسلامی فرقوں کی نگاہ میں==
==نکاح متعہ اسلامی فرقوں کی نگاہ میں==
مسلمان دانشور حضرات نکاح متعہ کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں: شیعہ فقہاء کی نظر میں نکاح متعہ ایک مشروع عمل ہے؛ لیکن دیگر فِرَق منجملہ [[اہل‌ سنت]]،<ref>جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، ۱۴۲۷ق، ج۴۱، ص۳۳۳-۳۳۴؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۷.</ref> [[زیدیہ]]،<ref>ملاحظہ کریں: احمد بن عیسی، رأب الصدع، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۸۷۶-۸۷۷.</ref>  [[اسماعیلیہ]]<ref>ملاحظہ کریں: نعمان مغربی، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۲۹.</ref> اور اباضیہ<ref>مالحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، ۱۴۳۸ق، ج۷، ص۳۵۳-۳۵۴.</ref>  اسے [[جائز]] نہیں سمجھتے ہیں۔
مسلمان دانشور حضرات نکاح متعہ کے جواز یا عدم جواز کے سلسلے میں اختلاف نظر رکھتے ہیں: شیعہ فقہاء کی نظر میں نکاح متعہ ایک مشروع عمل ہے؛ لیکن دیگر فِرَق منجملہ [[اہل‌ سنت]]،<ref>جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1427ق، ج41، ص333-334؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ق، ج13، ص7.</ref> [[زیدیہ]]،<ref>ملاحظہ کریں: احمد بن عیسی، رأب الصدع، 1428ق، ج2، ص876-877.</ref>  [[اسماعیلیہ]]<ref>ملاحظہ کریں: نعمان مغربی، دعائم الاسلام، 1385ش، ج2، ص229.</ref> اور اباضیہ<ref>مالحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، 1438ق، ج7، ص353-354.</ref>  اسے [[جائز]] نہیں سمجھتے ہیں۔


[[شہید ثانی]] کے مطابق تمام شیعہ فقہاء نکاح متعہ کو جائز سمھجتے ہیں۔<ref>شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۳.</ref> شیعہ فقہاء نکاح متعہ کے اثبات کے سلسلے میں [[قرآن کریم|قرآن]] کی [[آیات]] منجملہ [[آیت متعہ]] سے استناد کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقه القرآن، ۱۳۷۳ش، ج۲، ص۱۴۹-۱۵۳؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۷۹-۸۰؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۱۰.</ref> نیز اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ سے [[تواتر]] کی حد تک اس کی مشروعیت کے بارے میں [[احادیث]] نقل ہوئی ہیں۔<ref>سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۷۹؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، ۱۴۲۴ق، ج۵، ص۱۵.</ref> دیگر فِرَق اسلامی کے علما کا کہنا ہے کہ نکاح متعہ عصر رسول خداؐ میں رائج تھا پھر اس کا حکم منسوخ ہونے کی وجہ سے [[حرام]] ہوچکا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، ۱۴۲۷ق، ج۴۱، ص۳۳۳-۳۳۴؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۷؛ احمد بن عیسی، رأب الصدع، ۱۴۲۸ق، ج۲، ص۸۷۶-۸۷۷؛ نعمان مغربی، دعائم الاسلام، ۱۳۸۵ش، ج۲، ص۲۲۹؛ جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، ۱۴۳۸ق، ج۷، ص۳۵۳-۳۵۴.</ref>
[[شہید ثانی]] کے مطابق تمام شیعہ فقہاء نکاح متعہ کو جائز سمھجتے ہیں۔<ref>شهید ثانی، الروضة الفقهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1412ق، ج2، ص103.</ref> شیعہ فقہاء نکاح متعہ کے اثبات کے سلسلے میں [[قرآن کریم|قرآن]] کی [[آیات]] منجملہ [[آیت متعہ]] سے استناد کرتے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: فاضل مقداد، کنز العرفان فی فقه القرآن، 1373ش، ج2، ص149-153؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج25، ص79-80؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص10.</ref> نیز اس بات کے بھی مدعی ہیں کہ پیغمبرخداؐ اور ائمہ معصومینؑ سے [[تواتر]] کی حد تک اس کی مشروعیت کے بارے میں [[احادیث]] نقل ہوئی ہیں۔<ref>سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج25، ص79؛ مکارم شیرازی، کتاب النکاح، 1424ق، ج5، ص15.</ref> دیگر فِرَق اسلامی کے علما کا کہنا ہے کہ نکاح متعہ عصر رسول خداؐ میں رائج تھا پھر اس کا حکم منسوخ ہونے کی وجہ سے [[حرام]] ہوچکا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1427ق، ج41، ص333-334؛ محقق کرکی، جامع المقاصد، 1414ق، ج13، ص7؛ احمد بن عیسی، رأب الصدع، 1428ق، ج2، ص876-877؛ نعمان مغربی، دعائم الاسلام، 1385ش، ج2، ص229؛ جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، 1438ق، ج7، ص353-354.</ref>


== کیا نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے؟ ==
== کیا نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے؟ ==
تمام [[مسلمان]] علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ نکاح متعہ پیغمر اسلامؐ کے دور میں مشروع تھا۔<ref>قرطبی، تفسیر القرطبی، ۱۳۸۴ق، ج۵، ص۱۳۲؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، ۱۴۲۳ق، ص۱۵.</ref> اہل سنت کے بعض منابع حدیثی میں [[خلیفہ دوم]] [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]] سے کچھ روایتوں کو نقل کیا گیا ہے۔ ان احادیث کے مطابق حضرت عمر نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خود انہوں نے اس سے [[نہی عن المنکر|نہی]] کی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۱، ص۳۵۲؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۲۸؛ سرخسی، المبسوط، ۱۴۱۴ق، ج۴، ص۲۷.</ref> ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ انہوں نے کہا دو قسم کے متعے پیغمبر خداؐ کے زمانے میں جائز تھے؛ لیکن میں ان دونوں سے نہی کرتا ہوں اور اس کے ارتکاب کرنے والے کو سزا دیتا ہوں، ان میں سے ایک نکاح متعہ ہے اور دوسرا مُتعہ حج۔<ref>قرطبی، تفسیر قرطبی، ۱۳۸۴ق، ج۲، ص۳۹۲؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۰، ص۴۳.</ref>  
تمام [[مسلمان]] علما کا متفقہ نظریہ ہے کہ نکاح متعہ پیغمر اسلامؐ کے دور میں مشروع تھا۔<ref>قرطبی، تفسیر القرطبی، 1384ق، ج5، ص132؛ سبحانی، متعة النساء فی الکتاب و السنة، 1423ق، ص15.</ref> اہل سنت کے بعض منابع حدیثی میں [[خلیفہ دوم]] [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]] سے کچھ روایتوں کو نقل کیا گیا ہے۔ ان احادیث کے مطابق حضرت عمر نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ خود انہوں نے اس سے [[نہی عن المنکر|نہی]] کی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، 1415ق، ج1، ص352؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، 1419ق، ج9، ص328؛ سرخسی، المبسوط، 1414ق، ج4، ص27.</ref> ان میں سے ایک حدیث یہ ہے کہ انہوں نے کہا دو قسم کے متعے پیغمبر خداؐ کے زمانے میں جائز تھے؛ لیکن میں ان دونوں سے نہی کرتا ہوں اور اس کے ارتکاب کرنے والے کو سزا دیتا ہوں، ان میں سے ایک نکاح متعہ ہے اور دوسرا مُتعہ حج۔<ref>قرطبی، تفسیر قرطبی، 1384ق، ج2، ص392؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج10، ص43.</ref>  


شیعہ حضرات چند احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ کو سب سے پہلے [[حضرت عمر]] نے حرام قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کی ہے۔<ref>ماحظہ کریں: عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۷۵؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، ۱۴۲۰ق، ج۱۰، ص۴۴.</ref> ان کے مطابق حضرت عمر کا یہ عمل دین میں [[بدعت]] اور نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے۔ نیز پیغمبر خداؐ کی جانب سے رائج شدہ ایک مشروع عمل کی مخالفت بھی ہے۔<ref>شرف الدین، النص و الاجتهاد، ۱۴۰۴ق، ص۲۰۷-۲۰۸؛ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۶، ص۲۱۳؛ عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۱۰.</ref> [[اہل سنت]] عالم دین عَسقلانی (۷۷۳–۸۵۲ھ) بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ کی زندگی کے پورے دوران، دوران خلافت ابو بکر اور خود حضرت عمر کے دور خلافت میں بھی کچھ مدت تک نکاح معتہ ایک جائز اور مشروع عمل کے طور پر رائج رہا؛ عمر بن خطاب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کی ممانعت کی اور اسے حرام قرار دیا۔<ref>عسقلانی، فتح الباری، ۱۳۷۹ق، ج۹، ص۱۷۴.</ref>
شیعہ حضرات چند احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ کو سب سے پہلے [[حضرت عمر]] نے حرام قرار دیتے ہوئے اس کی ممانعت کی ہے۔<ref>ماحظہ کریں: عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج3، ص75؛ فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ق، ج10، ص44.</ref> ان کے مطابق حضرت عمر کا یہ عمل دین میں [[بدعت]] اور نص کے مقابلے میں اجتہاد ہے۔ نیز پیغمبر خداؐ کی جانب سے رائج شدہ ایک مشروع عمل کی مخالفت بھی ہے۔<ref>شرف الدین، النص و الاجتهاد، 1404ق، ص207-208؛ امینی، الغدیر، 1416ق، ج6، ص213؛ عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج3، ص10.</ref> [[اہل سنت]] عالم دین عَسقلانی (773–852ھ) بھی اس سلسلے میں کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلامؐ کی زندگی کے پورے دوران، دوران خلافت ابو بکر اور خود حضرت عمر کے دور خلافت میں بھی کچھ مدت تک نکاح معتہ ایک جائز اور مشروع عمل کے طور پر رائج رہا؛ عمر بن خطاب نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اس کی ممانعت کی اور اسے حرام قرار دیا۔<ref>عسقلانی، فتح الباری، 1379ق، ج9، ص174.</ref>


لیکن اہل سنت کے اکثر علما اپنے منابع حدیثی<ref>برای نمونه نگاه کنید به بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۲۲ق، ج۵، ص۱۳۵؛ نووی، شرح النووی علم مسلم، ۱۳۹۲ق، ج۹، ص۱۸۰.</ref> میں سے کچھ احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ پیغمبراسلامؐ کے دور میں ہی منسوخ ہوچکا تھا۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌رشد، بدایة المجتهد، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۸۰.</ref> علمائے اہل سنت کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عصر پیغمبر خداؐ میں [[سورہ مؤمنون|سورہ مومنون]] کی آیات نمبر5 سے 7 تک جب [[نزول قرآن|نازل]] ہوئی تو نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا۔<ref>ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۸۷ و ج۳، ص۳۳۰؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۲۹.</ref> یہ گروہ ان دو آیات سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ [[مومنین]] [[پاکدامن]] ہوتے ہیں وہ اپنی جنسی خواہشات کو صرف اپنی بیویوں اور کنیزوں سے تسکین کرتے ہیں اور جو لوگ ان دو چیزوں کے علاوہ کسی تیسرے طریقے سے اپنی جنسی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں گویا انہوں نے حدود الہی کو توڑ ڈالا ہے۔ چونکہ نکاح متعہ مذکورہ دو طریقوں سے ہٹ کر کوئی تیسرا طریقہ ہے لہذا اس پر عمل کرنا حدود الہی کی رعایت نہ کرنے کے مترادف ہے۔<ref>جصاص، احکام القرآن، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۱۸۷ و ج۳، ص۳۳۰؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۴۱۹ق، ج۹، ص۳۲۹.</ref>
لیکن اہل سنت کے اکثر علما اپنے منابع حدیثی<ref>برای نمونه نگاه کنید به بخاری، صحیح البخاری، 1422ق، ج5، ص135؛ نووی، شرح النووی علم مسلم، 1392ق، ج9، ص180.</ref> میں سے کچھ احادیث سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نکاح متعہ پیغمبراسلامؐ کے دور میں ہی منسوخ ہوچکا تھا۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌رشد، بدایة المجتهد، 1425ق، ج3، ص80.</ref> علمائے اہل سنت کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عصر پیغمبر خداؐ میں [[سورہ مؤمنون|سورہ مومنون]] کی آیات نمبر5 سے 7 تک جب [[نزول قرآن|نازل]] ہوئی تو نکاح متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا۔<ref>ملاحظہ کریں: جصاص، احکام القرآن، 1415ق، ج2، ص187 و ج3، ص330؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، 1419ق، ج9، ص329.</ref> یہ گروہ ان دو آیات سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ [[مومنین]] [[پاکدامن]] ہوتے ہیں وہ اپنی جنسی خواہشات کو صرف اپنی بیویوں اور کنیزوں سے تسکین کرتے ہیں اور جو لوگ ان دو چیزوں کے علاوہ کسی تیسرے طریقے سے اپنی جنسی تسکین کا سامان فراہم کرتے ہیں گویا انہوں نے حدود الہی کو توڑ ڈالا ہے۔ چونکہ نکاح متعہ مذکورہ دو طریقوں سے ہٹ کر کوئی تیسرا طریقہ ہے لہذا اس پر عمل کرنا حدود الہی کی رعایت نہ کرنے کے مترادف ہے۔<ref>جصاص، احکام القرآن، 1415ق، ج2، ص187 و ج3، ص330؛ ماوردی، الحاوی الکبیر، 1419ق، ج9، ص329.</ref>


اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ سورہ مومنون کی 5ویں اور 7ویں آیت [[مکہ]] میں نازل ہوئی ہیں اور جس آیت کے ذریعے نکاح متعہ کی مشروعیت ثابت کی جاتی ہے وہ ان آیات کے بعد [[مدینہ]] میں نازل ہوئی ہے اور نسخ کرنے والی پہلے نازل ہو اور نسخ شدہ آیت بعد میں نازل ہو، ایسا ممکن نہیں۔<ref>عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۲۱۲.</ref> اس پر مستزاد یہ کہ نکاح متعہ میں عاقدین کی جانب سے مدت متعین ہوتی ہے اور شرعی طور پر عورت مرد کی بیوی شمار ہوتی ہے لہذا اس طریقے سے ان دونوں کا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا حدود الہی کی مخالفت محسوب نہیں ہوتی۔<ref>زمخشری، الکشاف، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۷۷؛ عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۲۱۴.</ref>
اس کے جواب میں کہا گیا ہے کہ سورہ مومنون کی 5ویں اور 7ویں آیت [[مکہ]] میں نازل ہوئی ہیں اور جس آیت کے ذریعے نکاح متعہ کی مشروعیت ثابت کی جاتی ہے وہ ان آیات کے بعد [[مدینہ]] میں نازل ہوئی ہے اور نسخ کرنے والی پہلے نازل ہو اور نسخ شدہ آیت بعد میں نازل ہو، ایسا ممکن نہیں۔<ref>عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج1، ص212.</ref> اس پر مستزاد یہ کہ نکاح متعہ میں عاقدین کی جانب سے مدت متعین ہوتی ہے اور شرعی طور پر عورت مرد کی بیوی شمار ہوتی ہے لہذا اس طریقے سے ان دونوں کا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا حدود الہی کی مخالفت محسوب نہیں ہوتی۔<ref>زمخشری، الکشاف، 1407ق، ج3، ص177؛ عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج1، ص214.</ref>


==فقہی احکام  ==
==فقہی احکام  ==
{{نقل قول | عنوان = [[صیغہ ازدواج|صیغہ ازدواج موقت]]| نقل‌ قول = {{حدیث|عورت کہے:‌ زَوَّجْتُکَ نَفْسی عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ میں نے خود کو معین حق مہر اور مدت کے لیے تمہارے نکاح میں قرار دیا<br>
{{نقل قول | عنوان = [[صیغہ ازدواج|صیغہ ازدواج موقت]]| نقل‌ قول = {{حدیث|عورت کہے:‌ زَوَّجْتُکَ نَفْسی عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ میں نے خود کو معین حق مہر اور مدت کے لیے تمہارے نکاح میں قرار دیا<br>
مرد کہے: «قَبِلْتُ التَّزْویجَ عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ میں نے معین حق مہر اور مدت کے مطابق قبول کیا۔ }}
مرد کہے: «قَبِلْتُ التَّزْویجَ عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ میں نے معین حق مہر اور مدت کے مطابق قبول کیا۔ }}
|تاریخ بایگانی | مآخذ = <small> ملاحظہ کریں: بنی‌هاشمی خمینی، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج۲، ص۴۵۳.</small> | تراز = چپ| چوڑائی= 230px | اندازہ خط = 15px|بیگ کراونڈ کلر=#ecfcf4| گیومہ نقل‌ قول = | سمت مآخذ = درمیان}}
|تاریخ بایگانی | مآخذ = <small> ملاحظہ کریں: بنی‌هاشمی خمینی، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج2، ص453.</small> | تراز = چپ| چوڑائی= 230px | اندازہ خط = 15px|بیگ کراونڈ کلر=#ecfcf4| گیومہ نقل‌ قول = | سمت مآخذ = درمیان}}
شیعہ فقہاء کے فتوا کے مطابق نکاح متعہ کے چند فقہی احکام مندرجہ ذیل ہیں:
شیعہ فقہاء کے فتوا کے مطابق نکاح متعہ کے چند فقہی احکام مندرجہ ذیل ہیں:


* نکاح متعہ کی مدت اور [[مہریہ]] کی مقدار [[عقد نکاح|صیغہ عقد]] میں معلوم و مشخص ہونا چاہیے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۲ و ص۱۷۲.</ref> شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق اگر نکاح متعہ میں مدت کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ خود بخود [[دائمی شادی|دائمی نکاح]] میں تبدیل ہوجائے گا۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۷۲.</ref>
* نکاح متعہ کی مدت اور [[مہریہ]] کی مقدار [[عقد نکاح|صیغہ عقد]] میں معلوم و مشخص ہونا چاہیے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج30، ص162 و ص172.</ref> شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق اگر نکاح متعہ میں مدت کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ خود بخود [[دائمی شادی|دائمی نکاح]] میں تبدیل ہوجائے گا۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج30، ص172.</ref>
* بعض فقہاء کی رائے کے مطابق اگر عاقدین عربی زبان میں صیغہ جاری نہیں کرسکتے ہیں تو دونوں کی طرف سے عربی زبان سے آشنا کسی کو وکیل بنانا ممکن ہونے کے باوجود وہ کسی دوسری زبان میں عقد جاری کرسکتے ہیں۔<ref>خمینی، تحریر الوسیله، ۱۴۳۴ق، ج۲، ص۲۶۴.</ref> بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ بہر صورت صیغہ عقد کسی بھی زبان میں جاری کرسکتے ہیں۔<ref>شیخ انصاری، کتاب النکاح، ۱۴۳۰ق، ص۷۹؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۱۶، ص۲۱۵ و ج۲۴، ص۲۱۵؛ خویی، کتاب النکاح، دار العلم، ج۲، ص۱۶۴.</ref>
* بعض فقہاء کی رائے کے مطابق اگر عاقدین عربی زبان میں صیغہ جاری نہیں کرسکتے ہیں تو دونوں کی طرف سے عربی زبان سے آشنا کسی کو وکیل بنانا ممکن ہونے کے باوجود وہ کسی دوسری زبان میں عقد جاری کرسکتے ہیں۔<ref>خمینی، تحریر الوسیله، 1434ق، ج2، ص264.</ref> بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ بہر صورت صیغہ عقد کسی بھی زبان میں جاری کرسکتے ہیں۔<ref>شیخ انصاری، کتاب النکاح، 1430ق، ص79؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج16، ص215 و ج24، ص215؛ خویی، کتاب النکاح، دار العلم، ج2، ص164.</ref>
* مسلمان مرد اور اہل کتاب عورت کے مابین نکاح متعہ صحیح اور جائز ہے؛<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹؛ بحرانی، الحدائق الناضرة، ۱۴۰۶ق، ج۲۴، ص۴.</ref> لیکن مسلمان عورت اہل کتاب مرد کے ساتھ نکاح متعہ نہیں کرسکتی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹.</ref> نیز مسلمان مرد اور عورت کا کسی غیر اہل کتاب (یعنی کافر) سے نکاح متعہ جائز نہیں ہے اور حرام ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۲۷.</ref>
* مسلمان مرد اور اہل کتاب عورت کے مابین نکاح متعہ صحیح اور جائز ہے؛<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ق، ج2، ص529؛ بحرانی، الحدائق الناضرة، 1406ق، ج24، ص4.</ref> لیکن مسلمان عورت اہل کتاب مرد کے ساتھ نکاح متعہ نہیں کرسکتی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ق، ج2، ص529.</ref> نیز مسلمان مرد اور عورت کا کسی غیر اہل کتاب (یعنی کافر) سے نکاح متعہ جائز نہیں ہے اور حرام ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج30، ص27.</ref>
* باکرہ لڑکی کے ساتھ نکاح متعہ [[مکروہ]] ہے اور نکاح متعہ کرنے کی صورت میں اس کی بکارت کو زائل کرنا مکروہ ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۰.</ref>
* باکرہ لڑکی کے ساتھ نکاح متعہ [[مکروہ]] ہے اور نکاح متعہ کرنے کی صورت میں اس کی بکارت کو زائل کرنا مکروہ ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ش، ج30، ص160.</ref>
* نکاح متعہ کے نتیجے میں اگر [[جماع|مجامعت]] متحقق ہوچکی ہے تو نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد عورت کو چاہیے کہ عدت پوری کرے، یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو [[یائسہ]] نہ ہوں، (یائسہ کی عدت نہیں ہوتی) وہ عورت جو [[حیض]] کی عمر میں ہو اور یائسہ نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ 45 دن [[عدت]] پوری کرے اور اگر با قاعدہ سے حیض آتا ہو تو بعض فقہاء کے فتوا کے مطابق دو حیض عدت پوری کرنی ہوگی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲.</ref>
* نکاح متعہ کے نتیجے میں اگر [[جماع|مجامعت]] متحقق ہوچکی ہے تو نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد عورت کو چاہیے کہ عدت پوری کرے، یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو [[یائسہ]] نہ ہوں، (یائسہ کی عدت نہیں ہوتی) وہ عورت جو [[حیض]] کی عمر میں ہو اور یائسہ نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ 45 دن [[عدت]] پوری کرے اور اگر با قاعدہ سے حیض آتا ہو تو بعض فقہاء کے فتوا کے مطابق دو حیض عدت پوری کرنی ہوگی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ق، ج2، ص532.</ref>
* اگر مجامعت متحقق ہونے سے پہلے عقد کی مدت پوری ہوجائے یا مرد اس متعین مدت کو معاف کردے تو اس صورت میں عدت پوری کرنا ضروری نہیں۔<ref>سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۱۰۱.</ref>
* اگر مجامعت متحقق ہونے سے پہلے عقد کی مدت پوری ہوجائے یا مرد اس متعین مدت کو معاف کردے تو اس صورت میں عدت پوری کرنا ضروری نہیں۔<ref>سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج25، ص101.</ref>
* اگر نکاح متعہ کے دوران مرد وفات پائے تو مجامعت متحقق نہیں پانے کی صورت میں بھی عورت کو چاہیے کہ [[وفات کی عدہ|عدت وفات]] پوری کرے جو کہ 4 مہینے 10دس ہے۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲؛ شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۷.</ref>
* اگر نکاح متعہ کے دوران مرد وفات پائے تو مجامعت متحقق نہیں پانے کی صورت میں بھی عورت کو چاہیے کہ [[وفات کی عدہ|عدت وفات]] پوری کرے جو کہ 4 مہینے 10دس ہے۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، 1409ق، ج2، ص532؛ شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1412ق، ج2، ص107.</ref>
* نکاح متعہ میں [[طلاق]] نہیں ہوتی؛ بلکہ یہاں مدت پوری ہوجانے یا مرد کی طرف سے متعین مدت کو معاف کرنے سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔<ref>شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۵.</ref>
* نکاح متعہ میں [[طلاق]] نہیں ہوتی؛ بلکہ یہاں مدت پوری ہوجانے یا مرد کی طرف سے متعین مدت کو معاف کرنے سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔<ref>شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، 1412ق، ج2، ص105.</ref>


==کتابیات==
==کتابیات==
شیعہ علما نے نکاح متعہ کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں اور رسالے تدوین کیے ہیں۔ [[حوزہ علمیہ قم]] کے استاد نجم الدین طبسی نے اسی موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا فارسی زبان میں "ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه" کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب کے کتاب نامہ والے حصے میں شیعہ علما کی طرف سے نکاح متعہ اور اس کی مشروعیت سے متعلق لکھی گئی 46 کتابوں کا تعارف کیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طبسی، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، ۱۳۹۱ش، ص۱۳۶-۱۳۹.</ref> چند آثار یہ ہیں:
شیعہ علما نے نکاح متعہ کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں اور رسالے تدوین کیے ہیں۔ [[حوزہ علمیہ قم]] کے استاد نجم الدین طبسی نے اسی موضوع پر ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا فارسی زبان میں "ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه" کے عنوان سے ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب کے کتاب نامہ والے حصے میں شیعہ علما کی طرف سے نکاح متعہ اور اس کی مشروعیت سے متعلق لکھی گئی 46 کتابوں کا تعارف کیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: طبسی، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، 1391ش، ص136-139.</ref> چند آثار یہ ہیں:
*'''خلاصة الایجاز فی المتعة:''' یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں نکاح متعہ کی مشروعیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کی فضیلت، کیفیت اور دوسرے دیگر احکام کو اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔<ref>شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، ۱۴۱۴ق، ص۱۸.</ref> بعض علما نے اس کتاب کو [[شیخ مفید]] کی طرف نسبت دی ہے۔<ref>شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، ۱۴۱۴ق، ص۱۸.</ref> جبکہ بعض دیگر علما نے اسے [[شہید اول]]<ref>افندی، ریاض العلماء، ۱۴۰۱ق، ج۵، ص۱۸۸.</ref> سے منسوب کیا ہے اور کچھ علما نے اسے [[محقق کرکی]] کی طرف نسبت دی ہے۔<ref>زمانی‌نژاد، «مقدمه»، در کتاب خلاصة الایجاز فی المتعة، ۱۴۱۴ق، ص۱۱.</ref>
*'''خلاصة الایجاز فی المتعة:''' یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے جس میں نکاح متعہ کی مشروعیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کی فضیلت، کیفیت اور دوسرے دیگر احکام کو اس کتاب میں ذکر کیا گیا ہے۔<ref>شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، 1414ق، ص18.</ref> بعض علما نے اس کتاب کو [[شیخ مفید]] کی طرف نسبت دی ہے۔<ref>شیخ مفید، خلاصة الایجاز فی المتعة، 1414ق، ص18.</ref> جبکہ بعض دیگر علما نے اسے [[شہید اول]]<ref>افندی، ریاض العلماء، 1401ق، ج5، ص188.</ref> سے منسوب کیا ہے اور کچھ علما نے اسے [[محقق کرکی]] کی طرف نسبت دی ہے۔<ref>زمانی‌نژاد، «مقدمه»، در کتاب خلاصة الایجاز فی المتعة، 1414ق، ص11.</ref>
*'''زواج المتعة:''' اس کتاب کو سید جعفر مرتضی عاملی نے 3 جلدوں میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت اور اس کے بعض دیگر احکام کو بیان کرنے کے علاوہ اہل سنت علما کی اس کے بارے میں آراء کو بیان کیا ہے؛ ساتھ ہی ان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: عاملی، زواج المتعة، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۴۲.</ref>
*'''زواج المتعة:''' اس کتاب کو سید جعفر مرتضی عاملی نے 3 جلدوں میں تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت اور اس کے بعض دیگر احکام کو بیان کرنے کے علاوہ اہل سنت علما کی اس کے بارے میں آراء کو بیان کیا ہے؛ ساتھ ہی ان کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: عاملی، زواج المتعة، 1423ق، ج1، ص42.</ref>
*'''الزواج الموقت فی الاسلام:''' کے مصنف سید مرتضی عسکری ہیں۔ سید مرتضی نے اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت کو قرآن و سنت کے تناظر میں بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں شیعہ اور اہل سنت علما کے نظریات کا جائزہ بھی لیا ہے۔<ref>عسکری، الزواج الموقت فی الاسلام، ص۷.</ref>
*'''الزواج الموقت فی الاسلام:''' کے مصنف سید مرتضی عسکری ہیں۔ سید مرتضی نے اس کتاب میں نکاح متعہ کی مشروعیت کو قرآن و سنت کے تناظر میں بیان کیا ہے اور اس سلسلے میں شیعہ اور اہل سنت علما کے نظریات کا جائزہ بھی لیا ہے۔<ref>عسکری، الزواج الموقت فی الاسلام، ص7.</ref>


==متعلقہ مضمون==
==متعلقہ مضمون==
سطر 59: سطر 59:
== مآخذ ==
== مآخذ ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*ابن‌رشد، محمد بن احمد، بدایة المجتهد، قاهره، دار الحدیث، ۱۴۲۵ق.
*ابن‌رشد، محمد بن احمد، بدایة المجتهد، قاهره، دار الحدیث، 1425ق.
*احمد بن عیسی، رأب الصدع، بیروت، دار المحجة البیضاء، ۱۴۲۸ق.
*احمد بن عیسی، رأب الصدع، بیروت، دار المحجة البیضاء، 1428ق.
*امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، ۱۴۱۶ق.
*امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیة، 1416ق.
*بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، ۱۴۰۶ق.
*بحرانی، یوسف، الحدائق الناضرة، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1406ق.
*بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دمشق، دار طوق النجاة، چاپ اول، ۱۴۲۲ق.
*بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، دمشق، دار طوق النجاة، چاپ اول، 1422ق.
* بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، بی‌تا.
* بنی‌هاشمی خمینی، محمدحسن، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، بی‌تا.
*جصاص، ابوبکر احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۵ق.
*جصاص، ابوبکر احمد بن علی، احکام القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1415ق.
*جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، کویت، دارالسلاسل، ۱۴۲۷ق.
*جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، کویت، دارالسلاسل، 1427ق.
*جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، عمان، وزارة الاوقاف و الشؤون الدینیة، چاپ اول، ۱۴۳۸ق.
*جمعی از نویسندگان، موسوعة الفقه الاباضی، عمان، وزارة الاوقاف و الشؤون الدینیة، چاپ اول، 1438ق.
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، ۱۴۱۶ق.
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعه، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، 1416ق.
*خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، تهران، مؤسسة تنظیم ونشر آثار امام الخمینی، چاپ اول، ۱۴۳۴ق.  
*خمینی، سید روح‌الله، تحریر الوسیله، تهران، مؤسسة تنظیم ونشر آثار امام الخمینی، چاپ اول، 1434ق.  
*خویی، سید ابوالقاسم، کتاب النکاح، قم، دار العلم، بی‌تا.
*خویی، سید ابوالقاسم، کتاب النکاح، قم، دار العلم، بی‌تا.
*زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، ۱۴۰۷ق.
*زمخشری، محمود بن عمر، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1407ق.
*سبحانی، جعفر، متعة النساء فی الکتاب و السنة، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، ۱۴۲۳ق.
*سبحانی، جعفر، متعة النساء فی الکتاب و السنة، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1423ق.
*سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بی‌تا.
*سبزواری، سید عبدالاعلی، مهذب الاحکام، قم، دار التفسیر، بی‌تا.
*سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفة، ۱۴۱۴ق.
*سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دار المعرفة، 1414ق.
*شرف الدین، عبدالحسین، النص و الاجتهاد، بیروت، ابومجتبی، ۱۴۰۴ق.
*شرف الدین، عبدالحسین، النص و الاجتهاد، بیروت، ابومجتبی، 1404ق.
*شهید ثانی، زین الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تعلیقه: سلطان العلماء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، چاپ اول، ۱۴۱۲ق.
*شهید ثانی، زین الدین بن علی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تعلیقه: سلطان العلماء، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، چاپ اول، 1412ق.
*شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، قم، مجمع الفکر الاسلامی، ۱۴۳۰ق.
*شیخ انصاری، مرتضی، کتاب النکاح، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1430ق.
*شیخ مفید، محمد بن محمد، خلاصة الایجاز فی المتعة، بیروت، دار المفید، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
*شیخ مفید، محمد بن محمد، خلاصة الایجاز فی المتعة، بیروت، دار المفید، چاپ دوم، 1414ق.
*طبسی، نجم الدین، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، قم، انتشارات دلیل ما، ۱۳۹۱ش.
*طبسی، نجم الدین، ازدواج موقت در رفتار و گفتار صحابه، ترجمه محمدحسین شیرازی، قم، انتشارات دلیل ما، 1391ش.
*عاملی، سیدجعفر مرتضی، زواج المتعة، بیروت، المرکز الإسلامی لدراسات، ۱۴۲۳ق.
*عاملی، سیدجعفر مرتضی، زواج المتعة، بیروت، المرکز الإسلامی لدراسات، 1423ق.
*عسکری، سیدمرتضی، الزواج الموقت فی الاسلام، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.
*عسکری، سیدمرتضی، الزواج الموقت فی الاسلام، بی‌جا، بی‌نا، بی‌تا.
*عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دار المعرفة، ۱۳۷۹ق.
*عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری، بیروت، دار المعرفة، 1379ق.
*فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقه القرآن، تهران، انتشارات مرتضوی، ۱۳۷۳ش.
*فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، کنز العرفان فی فقه القرآن، تهران، انتشارات مرتضوی، 1373ش.
*فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
*فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1420ق.
*[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: ۱۵ شهریور ۱۴۰۲ش.
*[https://rc.majlis.ir/fa/law/show/92778 «قانون مدنی»]، سایت مرکز پژوهش‌های مجلس شورای اسلامی، تاریخ بازدید: 15 شهریور 1402ش.
*قرطبی، شمس الدین، تفسیر القرطبی، قاهره، دار الکتب المصریة، چاپ دوم، ۱۳۸۴ق.
*قرطبی، شمس الدین، تفسیر القرطبی، قاهره، دار الکتب المصریة، چاپ دوم، 1384ق.
* کاشف الغطاء، محمد حسین، این است آئین ما، ترجمه ناصر مکارم، مدرسه امام امیرالمؤمنین(ع)، قم، ۱۳۷۰ش.
* کاشف الغطاء، محمد حسین، این است آئین ما، ترجمه ناصر مکارم، مدرسه امام امیرالمؤمنین(ع)، قم، 1370ش.
*کلانتر، سیدمحمد، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تألیف شهید ثانی، قم، انتشارات داوری، ۱۴۱۰ق.
*کلانتر، سیدمحمد، «حاشیه»، در کتاب الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، تألیف شهید ثانی، قم، انتشارات داوری، 1410ق.
*ماوردی، علی بن محمد، الحاوی الکبیر، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، ۱۴۱۹ق.
*ماوردی، علی بن محمد، الحاوی الکبیر، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1419ق.
*محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تعلیقه: سیدصادق شیرازی، تهران، انتشارات استقلال، چاپ دوم، ۱۴۰۹ق.
*محقق حلی، جعفر بن حسن، شرایع الاسلام، تعلیقه: سیدصادق شیرازی، تهران، انتشارات استقلال، چاپ دوم، 1409ق.
*محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ دوم، ۱۴۱۴ق.
*محقق کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ دوم، 1414ق.
*مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسة الامام علی بن ابی طالب(ع)، ۱۴۲۴ق.
*مکارم شیرازی، ناصر، کتاب النکاح، قم، مدرسة الامام علی بن ابی طالب(ع)، 1424ق.
*مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، قم، دایرة المعارف الفقه الاسلامی، ۱۳۸۷ش.
*مؤسسه دایرة المعارف الفقه الاسلامی، فرهنگ فقه فارسی، قم، دایرة المعارف الفقه الاسلامی، 1387ش.
*نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، ۱۴۰۴ق.
*نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاءالثراث العربی، 1404ق.
*نعمان مغربی، محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام عن اهل بیت رسول الله علیه و علیهم افضل السلام، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیضی، قاهره، دارالمعارف، ۱۳۸۳ق.
*نعمان مغربی، محمد، دعائم الاسلام و ذکر الحلال و الحرام و القضایا و الاحکام عن اهل بیت رسول الله علیه و علیهم افضل السلام، تحقیق: آصف بن علی اصغر فیضی، قاهره، دارالمعارف، 1383ق.
*نووی، ابوزکریا، شرح النووی علی مسلم، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۳۹۲ق.
*نووی، ابوزکریا، شرح النووی علی مسلم، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1392ق.
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


سطر 115: سطر 115:
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->موجود
  | جامعیت = <!--مفقود، موجود-->موجود
  | غیرمربوط مطلب= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | غیرمربوط مطلب= <!--موجود، مفقود-->مفقود
  | خوب ٹھہرنے کی تاریخ=<!-- ۲۲ نومبر ۲۰۱۹ {{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | خوب ٹھہرنے کی تاریخ=<!-- 22 نومبر 2019 {{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | منتخب ٹھہرنے کی تاریخ =<!-- ۲۲ نومبر ۲۰۱۹ {{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | منتخب ٹھہرنے کی تاریخ =<!-- 22 نومبر 2019 {{subst:#time:xij xiF xiY}}-->
  | وضاحت = }}</onlyinclude>
  | وضاحت = }}</onlyinclude>


سطر 130: سطر 130:
[[زمرہ:شیعوں سے مخصوص احکام]]
[[زمرہ:شیعوں سے مخصوص احکام]]
[[زمرہ:ویکی شیعہ کے بنیادی مقالہ‌ جات]]
[[زمرہ:ویکی شیعہ کے بنیادی مقالہ‌ جات]]
[[تصحیح شدہ مقالے]]
[[زمرہ:تصحیح شدہ مقالے]]
confirmed، movedable
5,562

ترامیم