"نکاح متعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
←فقہی احکام
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 32: | سطر 32: | ||
==فقہی احکام == | ==فقہی احکام == | ||
{{ | {{نقل قول | ||
|عنوان=[[ | |عنوان=[[[[صیغہ ازدواج|صیغہ ازدواج موقت]] | ||
| | |نقل قول=عورت کہے: زَوَّجْتُکَ نَفْسی عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ میں نے خود کو معین حق مہر اور مدت کے لیے تمہارے نکاح میں قرار دیا<br> | ||
مرد کہے: «قَبِلْتُ التَّزْویجَ عَلَی المَهْرِ الْمَعْلُومِ فی المُدَّةِ المَعْلُومَة؛ میں نے معین حق مہر اور مدت کے مطابق قبول کیا۔<ref>ملاحظہ کریں: بنیهاشمی خمینی، رساله توضیح المسایل (مراجع)، دفتر انتشارات اسلامی، ج۲، ص۴۵۳.</ref> | |||
|منبع= | |منبع= | ||
|عرض=150px | |عرض=150px | ||
}} | }} | ||
شیعہ فقہاء کے فتوا | شیعہ فقہاء کے فتوا کے مطابق نکاح متعہ کے چند فقہی احکام مندرجہ ذیل ہیں: | ||
* نکاح متعہ کی مدت اور مہریہ کی مقدار صیغہ عقد میں معلوم و مشخص ہونا چاہیے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۲ و ص۱۷۲.</ref> شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق اگر نکاح متعہ میں مدت کا ذکر نہ کیا جائے تو | * نکاح متعہ کی مدت اور [[مہریہ]] کی مقدار [[عقد نکاح|صیغہ عقد]] میں معلوم و مشخص ہونا چاہیے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۲ و ص۱۷۲.</ref> شیعہ مشہور فقہاء کے مطابق اگر نکاح متعہ میں مدت کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ خود بخود [[دائمی شادی|دائمی نکاح]] میں تبدیل ہوجائے گا۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۷۲.</ref> | ||
* بعض فقہاء کی رائے کے مطابق اگر عاقدین عربی زبان میں صیغہ جاری نہیں کرسکتے ہیں تو دونوں کی طرف سے عربی زبان سے آشنا کسی کو وکیل بنانا ممکن ہونے کے باوجود وہ کسی دوسری زبان میں عقد جاری کرسکتے ہیں۔<ref>خمینی، تحریر الوسیله، ۱۴۳۴ق، ج۲، ص۲۶۴.</ref> بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ بہر صورت صیغہ عقد کسی بھی زبان میں جاری کرسکتے ہیں۔<ref>شیخ انصاری، کتاب النکاح، ۱۴۳۰ق، ص۷۹؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۱۶، ص۲۱۵ و ج۲۴، ص۲۱۵؛ خویی، کتاب النکاح، دار العلم، ج۲، ص۱۶۴.</ref> | * بعض فقہاء کی رائے کے مطابق اگر عاقدین عربی زبان میں صیغہ جاری نہیں کرسکتے ہیں تو دونوں کی طرف سے عربی زبان سے آشنا کسی کو وکیل بنانا ممکن ہونے کے باوجود وہ کسی دوسری زبان میں عقد جاری کرسکتے ہیں۔<ref>خمینی، تحریر الوسیله، ۱۴۳۴ق، ج۲، ص۲۶۴.</ref> بعض دوسرے فقہاء کہتے ہیں کہ بہر صورت صیغہ عقد کسی بھی زبان میں جاری کرسکتے ہیں۔<ref>شیخ انصاری، کتاب النکاح، ۱۴۳۰ق، ص۷۹؛ سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۱۶، ص۲۱۵ و ج۲۴، ص۲۱۵؛ خویی، کتاب النکاح، دار العلم، ج۲، ص۱۶۴.</ref> | ||
* مسلمان مرد اور اہل کتاب عورت کے مابین نکاح متعہ صحیح اور جائز ہے؛<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹؛ بحرانی، الحدائق الناضرة، ۱۴۰۶ق، ج۲۴، ص۴.</ref> لیکن مسلمان عورت اہل کتاب مرد کے ساتھ نکاح متعہ نہیں کرسکتی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹.</ref> نیز مسلمان مرد اور عورت کا کسی غیر اہل کتاب(کافر) سے نکاح متعہ جائز نہیں ہے اور حرام ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۲۷.</ref> | * مسلمان مرد اور اہل کتاب عورت کے مابین نکاح متعہ صحیح اور جائز ہے؛<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹؛ بحرانی، الحدائق الناضرة، ۱۴۰۶ق، ج۲۴، ص۴.</ref> لیکن مسلمان عورت اہل کتاب مرد کے ساتھ نکاح متعہ نہیں کرسکتی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۲۹.</ref> نیز مسلمان مرد اور عورت کا کسی غیر اہل کتاب (یعنی کافر) سے نکاح متعہ جائز نہیں ہے اور حرام ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۲۷.</ref> | ||
* باکرہ لڑکی کے ساتھ نکاح متعہ مکروہ ہے اور نکاح متعہ کرنے کی صورت میں اس کی بکارت کو زائل کرنا مکروہ ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۰.</ref> | * باکرہ لڑکی کے ساتھ نکاح متعہ [[مکروہ]] ہے اور نکاح متعہ کرنے کی صورت میں اس کی بکارت کو زائل کرنا مکروہ ہے۔<ref>نجفی، جواهر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۳۰، ص۱۶۰.</ref> | ||
* نکاح متعہ کے نتیجے میں اگر مجامعت متحقق ہوچکی ہے تو نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد عورت کو چاہیے کہ عدت پوری کرے، یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو یائسہ نہ ہوں، (یائسہ کی عدت نہیں ہوتی) وہ عورت جو حیض کی عمر میں ہو اور یائسہ نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ 45 دن عدت پوری کرے اور اگر با قاعدہ سے حیض آتا ہو تو بعض فقہاء کے فتوا کے مطابق دو حیض عدت پوری کرنی ہوگی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲.</ref> | * نکاح متعہ کے نتیجے میں اگر [[جماع|مجامعت]] متحقق ہوچکی ہے تو نکاح متعہ کی مدت ختم ہونے کے بعد عورت کو چاہیے کہ عدت پوری کرے، یہ حکم ان عورتوں کے لیے ہے جو [[یائسہ]] نہ ہوں، (یائسہ کی عدت نہیں ہوتی) وہ عورت جو [[حیض]] کی عمر میں ہو اور یائسہ نہ ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ 45 دن [[عدت]] پوری کرے اور اگر با قاعدہ سے حیض آتا ہو تو بعض فقہاء کے فتوا کے مطابق دو حیض عدت پوری کرنی ہوگی۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲.</ref> | ||
* اگر مجامعت متحقق ہونے سے پہلے عقد کی مدت پوری ہوجائے یا مرد اس متعین مدت کو معاف کردے تو اس صورت میں عدت پوری کرنا ضروری نہیں۔<ref>سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۱۰۱.</ref> | * اگر مجامعت متحقق ہونے سے پہلے عقد کی مدت پوری ہوجائے یا مرد اس متعین مدت کو معاف کردے تو اس صورت میں عدت پوری کرنا ضروری نہیں۔<ref>سبزواری، مهذب الاحکام، دار التفسیر، ج۲۵، ص۱۰۱.</ref> | ||
* اگر نکاح متعہ کے دوران مرد وفات پائے تو مجامعت متحقق نہیں پانے کی صورت میں بھی عورت کو چاہیے کہ عدت وفات پوری کرے جو کہ 4 مہینے 10دس ہے۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲؛ شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۷.</ref> | * اگر نکاح متعہ کے دوران مرد وفات پائے تو مجامعت متحقق نہیں پانے کی صورت میں بھی عورت کو چاہیے کہ [[وفات کی عدہ|عدت وفات]] پوری کرے جو کہ 4 مہینے 10دس ہے۔<ref>محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۵۳۲؛ شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۷.</ref> | ||
* نکاح متعہ میں طلاق نہیں ہوتی؛ بلکہ یہاں مدت پوری ہوجانے یا مرد کی طرف سے متعین مدت کو معاف کرنے سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔<ref>شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۵.</ref> | * نکاح متعہ میں [[طلاق]] نہیں ہوتی؛ بلکہ یہاں مدت پوری ہوجانے یا مرد کی طرف سے متعین مدت کو معاف کرنے سے میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے گی۔<ref>شهید ثانی، الروضة البهیة فی شرح اللمعة الدمشقیة، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۱۰۵.</ref> | ||
==کتابیات== | ==کتابیات== |