مندرجات کا رخ کریں

"حضرت فاطمہؑ کا مدفن" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mudabbirhusainrizvi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
اکثر علمائے [[اہل سنت]] نے قبر فاطمہؑ کو بقیع میں جانا ہے۔ بعض شیعہ علماء نے کہا ہے کہ ان کے اس نظریے کے اظہار کا مقصد فاطمہؑ کی قبر کی رازداری پر شیعہ پیروکاروں کے نظریاتی دباؤ کو کم کرنا ہے۔
اکثر علمائے [[اہل سنت]] نے قبر فاطمہؑ کو بقیع میں جانا ہے۔ بعض شیعہ علماء نے کہا ہے کہ ان کے اس نظریے کے اظہار کا مقصد فاطمہؑ کی قبر کی رازداری پر شیعہ پیروکاروں کے نظریاتی دباؤ کو کم کرنا ہے۔


حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے سلسلہ میں «مرقدُ سیّدۃ النِّساءِ فاطمۃ الشہیدۃ الزہراء(س) فی اَیِّ مکان؟!» اور «اَیْنَ قبرُ فاطمۃ(س)» جیسی کتابیں لکھی گئی ہیں۔
حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے سلسلہ میں «مرقدُ سیّدۃ النِّساءِ فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی اَیِّ مکان؟!» اور «اَیْنَ قبرُ فاطمۃؑ» جیسی کتابیں لکھی گئی ہیں۔


==مکان دفن کی اہمیت==
==مکان دفن کی اہمیت==
حضرت فاطمہؑ کے مدفن کے موضوع کو شیعوں کی عقائدی کتابوں میں مورد بحث قرار دیا گیا ہے اور اس کی رازداری کو خلیفہ اول [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کی مذمت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔<ref> برای نمونہ نگاہ کنید بہ علامہ حلی، کشف المراد، ۱۴۱۳ھ، ص۳۷۳۔</ref> شیعہ، فاطمہ(س) کی تدفین کی جگہ کی غیر یقینی صورتحال کو ابوبکر اور [[عمر ابن الخطاب|عمر]] سے فاطمہ کی عدم اطمینان کی وجہ سمجھتے ہیں نیز غصب خلافت اور ماجرائے فدک کو بھی ایک وجہ سمجھتے ہیں۔<ref> برای نمونہ نگاہ کنید بہ تبریزی، سیرہ استاد الفقہاء و المجتہدین میرزا جواد تبریزی، دار الصدیقۃ الشہیدہ، ص۸۹؛ مظاہری، اندیشہ‌ہای ناب، ۱۳۹۰ش، ص۶۵۔</ref> سید محمد حسینی جلالی (متوفی سنہ 1399 ش) کے مطابق حضرت فاطمہؑ نے وصیت کی تھی کہ انہیں مخفیانہ طور پر دفن کیا جائے تاکہ تاریخ ان کی شہادت کے اسباب کو فراموش نہ کر سکے۔<ref> حسینی جلالی، فہرس التراث، ۱۴۳۶ھ، ص۷۱۔</ref>
حضرت فاطمہؑ کے مدفن کے موضوع کو شیعوں کی عقائدی کتابوں میں مورد بحث قرار دیا گیا ہے اور اس کی رازداری کو خلیفہ اول [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کی مذمت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔<ref> برای نمونہ نگاہ کنید بہ علامہ حلی، کشف المراد، ۱۴۱۳ھ، ص۳۷۳۔</ref> شیعہ، فاطمہؑ کی تدفین کی جگہ کی غیر یقینی صورتحال کو ابوبکر اور [[عمر ابن الخطاب|عمر]] سے فاطمہؑ کی عدم اطمینان کی وجہ سمجھتے ہیں نیز غصب خلافت اور ماجرائے فدک کو بھی ایک وجہ سمجھتے ہیں۔<ref> برای نمونہ نگاہ کنید بہ تبریزی، سیرہ استاد الفقہاء و المجتہدین میرزا جواد تبریزی، دار الصدیقۃ الشہیدہ، ص۸۹؛ مظاہری، اندیشہ‌ہای ناب، ۱۳۹۰ش، ص۶۵۔</ref> سید محمد حسینی جلالی (متوفی سنہ 1399 ش) کے مطابق حضرت فاطمہؑ نے وصیت کی تھی کہ انہیں مخفیانہ طور پر دفن کیا جائے تاکہ تاریخ ان کی شہادت کے اسباب کو فراموش نہ کر سکے۔<ref> حسینی جلالی، فہرس التراث، ۱۴۳۶ھ، ص۷۱۔</ref>


==احتمالی مقامات==
==احتمالی مقامات==
حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے سلسلہ میں علمائے شیعہ نے متعدد احتمال پیش کئے ہیں۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۰۱۔</ref> علمائے شیعہ میں سب سے مشہور نظریہ یہ ہے کہ بی بی کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا ہے۔<ref>حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸؛ انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، دلیلنا، ج۱۶، ص۱۱۳، بہ نقل از التاریخ و السیر (مخطوط)، ص۳۰۔</ref> اگر چہ شیخ اور اکثر علمائے شیعہ کے مطابق جانب سیدہؑ روضہ نبیؐ میں دفن ہیں۔<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> شیعہ مآخذ میں دوسرے احتمال بھی پائے جاتے ہیں جیسے [[بقیع]]<ref>اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ھ، ج۱، ص۵۰۱۔</ref> اور [[عقیل بن ابی طالب]] کا گھر۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۷۹، ص۲۷۔</ref>
حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے سلسلہ میں علمائے شیعہ نے متعدد احتمال پیش کئے ہیں۔<ref>طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ھ، ج۱، ص۳۰۱۔</ref> علمائے شیعہ میں سب سے مشہور نظریہ یہ ہے کہ بی بی کو ان کے گھر میں دفن کیا گیا ہے۔<ref>حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸؛ انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، دلیلنا، ج۱۶، ص۱۱۳، بہ نقل از التاریخ و السیر (مخطوط)، ص۳۰۔</ref> اگر چہ شیخ اور اکثر علمائے شیعہ کے مطابق جانب سیدہؑ روضہ نبیؐ میں دفن ہیں۔<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> شیعہ مآخذ میں دوسرے احتمال بھی پائے جاتے ہیں جیسے [[بقیع]]<ref>اربلی، کشف الغمہ، ۱۳۸۱ھ، ج۱، ص۵۰۱۔</ref> اور [[عقیل بن ابی طالب]] کا گھر۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۷۹، ص۲۷۔</ref>


شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی، حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے تعین کو غیر ممکن سمجھتے ہیں۔<ref>عاملی، مأساۃ الزہرا(س)، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۵۲ و ۲۵۳۔</ref> [[شیخ طوسی]]<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> اور فضل بن حسن طبرسی<ref>طبرسی، تاج الموالید، ۱۴۲۲ھ، ص۸۰۔</ref> کے مطابق تینوں مقامات روضہ نبیؐ، بی بی کا گھر اور بقیع میں زیارت کرنا بہتر ہے۔<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> [[سید ابن طاووس]] نے کتاب [[مصباح الزائر]] میں روضہ نبیؐ کو لیکن کتاب الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنۃ میں [[مسجدالنبی#حجرہ و مرقد نبی(ص)|حجرہ پیامبر(ص)]] کو مکان زیارت سمجھتے ہیں۔<ref>ابن طاووس، الاقبال بالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۱۔</ref>
شیعہ محقق سید جعفر مرتضی عاملی، حضرت فاطمہؑ کے محل دفن کے تعین کو غیر ممکن سمجھتے ہیں۔<ref>عاملی، مأساۃ الزہرا(س)، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۵۲ و ۲۵۳۔</ref> [[شیخ طوسی]]<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> اور فضل بن حسن طبرسی<ref>طبرسی، تاج الموالید، ۱۴۲۲ھ، ص۸۰۔</ref> کے مطابق تینوں مقامات روضہ نبیؐ، بی بی کا گھر اور بقیع میں زیارت کرنا بہتر ہے۔<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> [[سید ابن طاووس]] نے کتاب [[مصباح الزائر]] میں روضہ نبیؐ کو لیکن کتاب الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنۃ میں [[مسجدالنبی#حجرہ و مرقد نبیﷺ|حجرہ پیامبرﷺ]] کو مکان زیارت سمجھتے ہیں۔<ref>ابن طاووس، الاقبال بالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۱۔</ref>
[[سید جعفر مرتضی عاملی]]، تاریخ‌پژوہ شیعہ، تعیین محل قبر حضرت فاطمہؑ را غیرممکن دانستہ است۔<ref>عاملی، مأساۃ الزہرا(س)، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۵۲ و ۲۵۳۔</ref> بہ اعتقاد شیخ طوسی<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> و [[فضل بن حسن طبرسی|امین‌الاسلام طَبْرسی]]<ref>طبرسی، تاج الموالید، ۱۴۲۲ھ، ص۸۰۔</ref> نیز بہتر است [[زیارت]] حضرت فاطمہ(س) در ہر سہ مکان روضۃالنبی، خانہ فاطمہؑ و بقیع انجام گیرد۔<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> [[سید بن طاووس]] در کتاب [[مصباح الزائر (کتاب)|مصباح الزائر]] مکان زیارت را روضۃالنبی،<ref>ابن طاووس، مصباح الزائر، مؤسسۃ آل البیت(ع) لاحیاء التراث، ص۵۲۔</ref> ولی در کتاب [[الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنۃ (کتاب)|الاقبال]]، [[مسجدالنبی#حجرہ و مرقد پیامبر(ص)|حجرہ پیامبر(ص)]] دانستہ است۔<ref>ابن طاووس، الاقبال بالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۱۔</ref>
[[سید جعفر مرتضی عاملی]]، تاریخ‌پژوہ شیعہ، تعیین محل قبر حضرت فاطمہؑ را غیرممکن دانستہ است۔<ref>عاملی، مأساۃ الزہراؑ، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۵۲ و ۲۵۳۔</ref> بہ اعتقاد شیخ طوسی<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> و [[فضل بن حسن طبرسی|امین‌الاسلام طَبْرسی]]<ref>طبرسی، تاج الموالید، ۱۴۲۲ھ، ص۸۰۔</ref> نیز بہتر است [[زیارت]] حضرت فاطمہؑ در ہر سہ مکان روضۃالنبی، خانہ فاطمہؑ و بقیع انجام گیرد۔<ref>شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۷۱۱۔</ref> [[سید بن طاووس]] در کتاب [[مصباح الزائر (کتاب)|مصباح الزائر]] مکان زیارت را روضۃالنبی،<ref>ابن طاووس، مصباح الزائر، مؤسسۃ آل البیتؑ لاحیاء التراث، ص۵۲۔</ref> ولی در کتاب [[الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنۃ (کتاب)|الاقبال]]، [[مسجدالنبی#حجرہ و مرقد پیامبرﷺ|حجرہ پیامبرﷺ]] دانستہ است۔<ref>ابن طاووس، الاقبال بالاعمال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۱۔</ref>
[[فائل:نقشه مرقد پیامبر و بیت فاطمه.jpg|تصغیر|293x293px| مسجد النبی میں بیت فاطمہؑ کے گھر کا نقشہ کہ جسے محل دفن کا ایک احتمال سمجھا جاتا ہے۔]]
[[فائل:نقشه مرقد پیامبر و بیت فاطمه.jpg|تصغیر|293x293px| مسجد النبی میں بیت فاطمہؑ کے گھر کا نقشہ کہ جسے محل دفن کا ایک احتمال سمجھا جاتا ہے۔]]


سطر 20: سطر 20:
علمائے شیعہ کے درمیان مشہور قول یہ ہے کہ بی بی سیدہؑ اپنے گھر میں دفن ہیں۔<ref>حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸؛ انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، دلیلنا، ج۱۶، ص۱۱۳، بہ نقل از التاریخ و السیر (مخطوط)، ص۳۰۔</ref> [[شیخ صدوق]]،<ref>شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔</ref> [[ابن ادریس حلی]]،<ref>ابن ادریس حلی، االسرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ۱۴۱۰ھ۔</ref> [[سید ابن طاووس|ابن طاووس]]،<ref>ابن طاووس، الاقبال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۳۔</ref> [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]]<ref>علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۵، ص۳۴۹۔</ref> اور [[سید محسن امین]]<ref>امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۲۲۔</ref> بھی اس امکان کو دوسرے امکانات سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ [[ حضرات امام رضاؑ]] کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جس کی بنا پر حضرت زہراؑ اپنے گھر میں دفن ہوئیں ہیں اور [[بنی امیہ]] نے جب [[مسجد النبی]] کی توسیع کی تو وہ گھر اس مسجد میں داخل ہو گیا۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔</ref>
علمائے شیعہ کے درمیان مشہور قول یہ ہے کہ بی بی سیدہؑ اپنے گھر میں دفن ہیں۔<ref>حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸؛ انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، دلیلنا، ج۱۶، ص۱۱۳، بہ نقل از التاریخ و السیر (مخطوط)، ص۳۰۔</ref> [[شیخ صدوق]]،<ref>شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔</ref> [[ابن ادریس حلی]]،<ref>ابن ادریس حلی، االسرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، ۱۴۱۰ھ۔</ref> [[سید ابن طاووس|ابن طاووس]]،<ref>ابن طاووس، الاقبال، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۱۶۳۔</ref> [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]]<ref>علامہ مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۵، ص۳۴۹۔</ref> اور [[سید محسن امین]]<ref>امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۲۲۔</ref> بھی اس امکان کو دوسرے امکانات سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ [[ حضرات امام رضاؑ]] کی اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ جس کی بنا پر حضرت زہراؑ اپنے گھر میں دفن ہوئیں ہیں اور [[بنی امیہ]] نے جب [[مسجد النبی]] کی توسیع کی تو وہ گھر اس مسجد میں داخل ہو گیا۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ شیخ صدوھ، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۵۷۲۔</ref>


بعض شیعہ علماء کے مطابق ایک روایت جس میں امام علی (ع) نے فاطمہؑ کو "پیغمبر اکرم (ص) کے پاس مدفون" کے طور پر متعارف کرایا ہے،<ref>نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ھ، خطبہ۲۰۲، ص۳۱۹؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۶۴۔</ref> وہ بی بی سیدہؑ کے ان کے گھر میں دفن ہونے کی تائید کرتی ہیں، اس لئے کہ رسول اللہؐ کے محل دفن سے جو سب سے نزدیک جگہ ہے وہ بیت فاطمہؑ ہے۔ {{یادداشت|حضرت فاطمہؑ کا گھر رسول اللہؐ کے گھر سے ملا ہوا تھا (امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۱۳۔) اور رسول اللہؐ اپنے گھر میں دفن ہوئے۔ (مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸۔)}}<ref>نمونہ کے طور پر دیکھئے مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸؛ حسن‌زادہ آملی، ہزار و یک نکتہ، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۴۴۶۔</ref> قبر رسولؐ کے پاس دفن ہونے کا اعزاز اس امکان کی ایک اور تصدیق ہے جس طرح [[امام حسنؑ]] نے امکان کی صورت میں رسول اللہؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔<ref>نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۲۔</ref>
بعض شیعہ علماء کے مطابق ایک روایت جس میں امام علیؑ نے فاطمہؑ کو "پیغمبر اکرمﷺ کے پاس مدفون" کے طور پر متعارف کرایا ہے،<ref>نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، ۱۴۱۴ھ، خطبہ۲۰۲، ص۳۱۹؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۶۴۔</ref> وہ بی بی سیدہؑ کے ان کے گھر میں دفن ہونے کی تائید کرتی ہیں، اس لئے کہ رسول اللہؐ کے محل دفن سے جو سب سے نزدیک جگہ ہے وہ بیت فاطمہؑ ہے۔ {{یادداشت|حضرت فاطمہؑ کا گھر رسول اللہؐ کے گھر سے ملا ہوا تھا (امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۳۱۳۔) اور رسول اللہؐ اپنے گھر میں دفن ہوئے۔ (مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸۔)}}<ref>نمونہ کے طور پر دیکھئے مازندرانی، شرح الکافی، ۱۳۸۴ش، ج۷، ص۲۰۸؛ حسن‌زادہ آملی، ہزار و یک نکتہ، ۱۳۷۶ش، ج۳، ص۴۴۶۔</ref> قبر رسولؐ کے پاس دفن ہونے کا اعزاز اس امکان کی ایک اور تصدیق ہے جس طرح [[امام حسنؑ]] نے امکان کی صورت میں رسول اللہؐ کے پہلو میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔<ref>نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۲۔</ref>


بعض شیعہ علماء نے گھر کے امکان کو ان روایات سے ناسازگار قرار دیا ہے کہ جس میں امام علیؑ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی لاش کو دفنانے کے لیے گھر سے باہر نکالا تھا۔<ref>حمود، أبہی المداد، ۱۴۲۳ھ، ج۲، ص۵۴۷۔</ref> اس کے جواب میں ممکن ہے کہا جائے کہ جنازہ اصل نہ ہو بلکہ جنازے کا چہرہ ہو،<ref>حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸۔</ref> یا قبروں کے بنانے کے لئے تشییع جنازہ کا انعقاد اور قبر کے اصلی جگہ کی پہچان نہ ہو پانے کے لئے انجام دیا گیا تھا۔<ref>ترابی، «جستاری در چگونگی و مکان دفن حضرت فاطمہ زہرا(س) در منابع نخستین»، ص۱۳۱۔</ref> ایک شیعہ عالم کا خیال ہے کہ جنازہ، علی (ع) اور فاطمہؑ کے گھر سے، جو [[بقیہ]] کے قریب واقع تھا، فاطمہ (ع) کے دوسرے گھر تک پہنچایا گیا۔<ref>نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۶۶۔</ref> ان کے مطابق رسولؐ کی رحلت کے بعد حضرت زہراؑ کے گھر پر حملہ بھی اسی گھر میں ہوا جو بقیع کے قریب تھا۔<ref>نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۶۳۔</ref>
بعض شیعہ علماء نے گھر کے امکان کو ان روایات سے ناسازگار قرار دیا ہے کہ جس میں امام علیؑ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی لاش کو دفنانے کے لیے گھر سے باہر نکالا تھا۔<ref>حمود، أبہی المداد، ۱۴۲۳ھ، ج۲، ص۵۴۷۔</ref> اس کے جواب میں ممکن ہے کہا جائے کہ جنازہ اصل نہ ہو بلکہ جنازے کا چہرہ ہو،<ref>حسینی شیرازی، الدعاء و الزیارۃ، ۱۴۱۴ھ، ص۵۸۸۔</ref> یا قبروں کے بنانے کے لئے تشییع جنازہ کا انعقاد اور قبر کے اصلی جگہ کی پہچان نہ ہو پانے کے لئے انجام دیا گیا تھا۔<ref>ترابی، «جستاری در چگونگی و مکان دفن حضرت فاطمہ زہراؑ در منابع نخستین»، ص۱۳۱۔</ref> ایک شیعہ عالم کا خیال ہے کہ جنازہ، علیؑ اور فاطمہؑ کے گھر سے، جو [[بقیہ]] کے قریب واقع تھا، فاطمہؑ کے دوسرے گھر تک پہنچایا گیا۔<ref>نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۶۶۔</ref> ان کے مطابق رسولؐ کی رحلت کے بعد حضرت زہراؑ کے گھر پر حملہ بھی اسی گھر میں ہوا جو بقیع کے قریب تھا۔<ref>نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۶۳۔</ref>


===روضۃالنبیؐ===
===روضۃالنبیؐ===
سطر 42: سطر 42:
علامہ مجلسی نے کتاب مصباح الانوار سے کہ جس کے مصنف کے بارے میں اختلاف ہے، ایک روایت نقل کی ہے کہ فاطمہؑ، عقیل کے گھر میں دفن ہیں۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۷۹، ص۲۷۔</ref> عقیل کا گھر قبرستان بقیع سے باہر تھا لیکن نزدیک تھا۔<ref> قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۸۔</ref> وہ گھر [[عباس بن عبد المطلب]] اور ائمہ بقیع (چار ائمہ) کے دفن کے بعد ایک عمومی زیارت گاہ کی شکل میں بدل گیا۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۷۔</ref> اور بقیع کے توسعہ کے بعد اس سے ملحق ہو گیا۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۸۱۔</ref>
علامہ مجلسی نے کتاب مصباح الانوار سے کہ جس کے مصنف کے بارے میں اختلاف ہے، ایک روایت نقل کی ہے کہ فاطمہؑ، عقیل کے گھر میں دفن ہیں۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۷۹، ص۲۷۔</ref> عقیل کا گھر قبرستان بقیع سے باہر تھا لیکن نزدیک تھا۔<ref> قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۸۔</ref> وہ گھر [[عباس بن عبد المطلب]] اور ائمہ بقیع (چار ائمہ) کے دفن کے بعد ایک عمومی زیارت گاہ کی شکل میں بدل گیا۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۷۔</ref> اور بقیع کے توسعہ کے بعد اس سے ملحق ہو گیا۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۸۱۔</ref>


دورہ قاجار کے محمد حسین فراہانی، شاعر اور مصنف نے [[سنہ 1302 ہجری]] اور [[سنہ 1303 ہجری]] کے درمیان اپنے سفر نامے میں ائمہ بقیع کی قبر میں ایک ایسی قبر کی موجودگی کی اطلاع دی ہے جو حضرت فاطمہ (س) اور شیعوں کی طرف منسوب ہے۔ اور شیعہ و سنی اس جگہ زیارت پڑھتے ہیں۔<ref> فراہانی، سفرنامہ میرزا محمد حسین فراہانی، ۱۳۶۲ش، ص۲۲۹۔</ref>
دورہ قاجار کے محمد حسین فراہانی، شاعر اور مصنف نے [[سنہ 1302 ہجری]] اور [[سنہ 1303 ہجری]] کے درمیان اپنے سفر نامے میں ائمہ بقیع کی قبر میں ایک ایسی قبر کی موجودگی کی اطلاع دی ہے جو حضرت فاطمہؑ اور شیعوں کی طرف منسوب ہے۔ اور شیعہ و سنی اس جگہ زیارت پڑھتے ہیں۔<ref> فراہانی، سفرنامہ میرزا محمد حسین فراہانی، ۱۳۶۲ش، ص۲۲۹۔</ref>


علمائے اہل سنت کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ قبر حضرت فاطمہؑ بقیع میں موجود ہے۔<ref> نمونہ کے طور پر دیکھیں سمہودی، وفاء الوفاء، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۹۳؛ ابن نجار، الدرۃ الثمینہ فی اخبار المدینہ، شرکۃ دار الارقم، ص۱۶۶؛ اسی طرح دیکھیں قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔</ref> ان لوگوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ امام حسنؑ نے اپنے دفن ہونے کی وصیت اپنی ماں کے قبر کے بغل میں کی تھی۔<ref> محب‌الدین طبری، ذخائر العقبی، ۱۳۵۶ھ، ص۵۴ و ۱۴۱۔</ref> اس کے مقابلہ میں شیعوں ایک روایت کی بنا پر<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۷۔</ref> اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ فاطمہ جو بقیع میں دفن ہیں وہ حضرت علیؑ کی ماں [[فاطمہ بنت اسد]] ہیں۔<ref> برای نمونہ نگاہ کنید بہ قمی، الانوار البہیۃ، الجماعۃ المدرسین بقم المشرفۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص۱۷۴؛ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔</ref> ایک شیعہ عالم، محمد صادق نجمی کا خیال ہے کہ سنی مصنفین نے فاطمہ (ع) کی قبر کو بقیع کے اندر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ فاطمہ کی قبر کی رازداری پر شیعہ پیروکاروں کے نظریاتی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۸۔</ref>
علمائے اہل سنت کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ قبر حضرت فاطمہؑ بقیع میں موجود ہے۔<ref> نمونہ کے طور پر دیکھیں سمہودی، وفاء الوفاء، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۹۳؛ ابن نجار، الدرۃ الثمینہ فی اخبار المدینہ، شرکۃ دار الارقم، ص۱۶۶؛ اسی طرح دیکھیں قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔</ref> ان لوگوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ امام حسنؑ نے اپنے دفن ہونے کی وصیت اپنی ماں کے قبر کے بغل میں کی تھی۔<ref> محب‌الدین طبری، ذخائر العقبی، ۱۳۵۶ھ، ص۵۴ و ۱۴۱۔</ref> اس کے مقابلہ میں شیعوں ایک روایت کی بنا پر<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۱۷۔</ref> اس بات کے معتقد ہیں کہ وہ فاطمہ جو بقیع میں دفن ہیں وہ حضرت علیؑ کی ماں [[فاطمہ بنت اسد]] ہیں۔<ref> برای نمونہ نگاہ کنید بہ قمی، الانوار البہیۃ، الجماعۃ المدرسین بقم المشرفۃ، مؤسسۃ النشر الاسلامی، ص۱۷۴؛ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۲۰۹۔</ref> ایک شیعہ عالم، محمد صادق نجمی کا خیال ہے کہ سنی مصنفین نے فاطمہؑ کی قبر کو بقیع کے اندر متعارف کرانے کی کوشش کی ہے تاکہ فاطمہ کی قبر کی رازداری پر شیعہ پیروکاروں کے نظریاتی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۸۔</ref>
اہل سنت مآخذ میں حضرت زہراؑ کے دفن کے سلسلہ میں دوسرے احتمالات بھی موجود ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: ان کا گھر،<ref>ابن جوزی، مثیر الغرام، ۱۴۱۵ھ، ص۴۶۴۔</ref> روضۃالنبی،<ref> سبط ابن جوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ۱۴۳۴ھ، ج۵، ص۶۰۔</ref> عقیل ابن ابی طالب کے گھر کا باہری حصہ<ref> ابن شبۃ، تاریخ المدینہ، ۱۳۹۹ھ، ج۱، ص۱۰۵۔</ref> اور [[بیت الاحزان۔<ref> دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۱۷۶۔</ref>
اہل سنت مآخذ میں حضرت زہراؑ کے دفن کے سلسلہ میں دوسرے احتمالات بھی موجود ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: ان کا گھر،<ref>ابن جوزی، مثیر الغرام، ۱۴۱۵ھ، ص۴۶۴۔</ref> روضۃالنبی،<ref> سبط ابن جوزی، مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، ۱۴۳۴ھ، ج۵، ص۶۰۔</ref> عقیل ابن ابی طالب کے گھر کا باہری حصہ<ref> ابن شبۃ، تاریخ المدینہ، ۱۳۹۹ھ، ج۱، ص۱۰۵۔</ref> اور [[بیت الاحزان۔<ref> دیار بکری، تاریخ الخمیس، دار صادر، ج۲، ص۱۷۶۔</ref>


سطر 50: سطر 50:


[[فائل:قطعه خوشنویسی درباره حضرت فاطمه.jpg|تصغیر|300x300px| مرجع تقلید [[حسین وحید خراسانی]] کا شعر کہ جس کا مضمون قبر فاطمہؑ کا مخفی ہونا ہے۔]]
[[فائل:قطعه خوشنویسی درباره حضرت فاطمه.jpg|تصغیر|300x300px| مرجع تقلید [[حسین وحید خراسانی]] کا شعر کہ جس کا مضمون قبر فاطمہؑ کا مخفی ہونا ہے۔]]
علمائے شیعہ حضرت زہراؑ کے قبر کے مخفی ہونے اور ان کے مخفی دفن ہونے کو خود ان کی وصیت شمار کرتے ہیں۔<ref> برای نمونہ دیکھئے طبرسی، تاج الموالید، ۱۴۲۲ھ، ص۸۰؛ ناجی جزائری، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراء(س) فی ای مکان؟!، ۱۳۹۵ش، ص۱۶۔</ref> شیعہ مآخذ کی بنا پر، فاطمہ نے اس وصیت کی وجہ علی (ع) کی طرف کی خلافت پر قبضہ، غصب فدک اور مسلمانوں کی مدد نہ کرنا قرار دیا ہے۔<ref> خصیبی، الہدایۃ الکبری، ۱۴۱۹ھ، ص۱۷۸؛ فتال نیشابوری، روضۃ‌ الواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۵۱۔</ref> شیخ مفید<ref> شیخ مفید، الامالی، ۱۴۱۳ھ، ص۲۸۱۔</ref> اور کتاب دلائل الامامہ کے مصنف<ref> طبری آملی صغیر، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۳۔</ref> کے مطابق حضرت فاطمہؑ کی وصیت تھی کہ انہیں مخفیانہ دفن کیا جائے۔
علمائے شیعہ حضرت زہراؑ کے قبر کے مخفی ہونے اور ان کے مخفی دفن ہونے کو خود ان کی وصیت شمار کرتے ہیں۔<ref> برای نمونہ دیکھئے طبرسی، تاج الموالید، ۱۴۲۲ھ، ص۸۰؛ ناجی جزائری، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی ای مکان؟!، ۱۳۹۵ش، ص۱۶۔</ref> شیعہ مآخذ کی بنا پر، فاطمہ نے اس وصیت کی وجہ علیؑ کی طرف کی خلافت پر قبضہ، غصب فدک اور مسلمانوں کی مدد نہ کرنا قرار دیا ہے۔<ref> خصیبی، الہدایۃ الکبری، ۱۴۱۹ھ، ص۱۷۸؛ فتال نیشابوری، روضۃ‌ الواعظین، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۵۱۔</ref> شیخ مفید<ref> شیخ مفید، الامالی، ۱۴۱۳ھ، ص۲۸۱۔</ref> اور کتاب دلائل الامامہ کے مصنف<ref> طبری آملی صغیر، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۳۔</ref> کے مطابق حضرت فاطمہؑ کی وصیت تھی کہ انہیں مخفیانہ دفن کیا جائے۔


امام علیؑ نے رات کے وقت حضرت زہراؑ کو مخفیانہ دفن کیا تھا۔<ref> ابن شبۃ، تاریخ المدینہ، ۱۳۹۹ھ، ج۱، ص۱۰۷۔</ref> دفن کے بعد قبر کے آثار کو بھی مٹا دیا تھا۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ھ، ج۲، ص۴۹۰۔</ref> اس کے بعد قبر کی چالیس<ref> طبری آملی، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۶؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، ۱۴۱۹ھ، ص۱۷۹۔</ref> یا ایک قول کے مطابق سات دوسری قبریں بنائی تاکہ قبر فاطمہؑ مشخص نہ ہو سکے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۶۳۔</ref>
امام علیؑ نے رات کے وقت حضرت زہراؑ کو مخفیانہ دفن کیا تھا۔<ref> ابن شبۃ، تاریخ المدینہ، ۱۳۹۹ھ، ج۱، ص۱۰۷۔</ref> دفن کے بعد قبر کے آثار کو بھی مٹا دیا تھا۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۴۲۹ھ، ج۲، ص۴۹۰۔</ref> اس کے بعد قبر کی چالیس<ref> طبری آملی، دلائل الامامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۶؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، ۱۴۱۹ھ، ص۱۷۹۔</ref> یا ایک قول کے مطابق سات دوسری قبریں بنائی تاکہ قبر فاطمہؑ مشخص نہ ہو سکے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۳۶۳۔</ref>
بعض دوسرے شیعہ مآخذ میں آیا ہے کہ [[عمر بن خطاب]]{{یادداشت| بعض مآخذ نے اس بات کے نقل کرنے والے کا نام نہیں لیا ہے اور اسے صرف اقتدار والوں(وُلَاۃ الْأَمْرِ) کی تفسیر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ (طبری آملی، دلائل الإمامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۶۔)}} نے ارادہ کیا کہ تمام قبروں کو کھودے اور پھر نماز جنازہ پڑھے لیکن امام علیؑ کی دھمکی کے بعد اس کام کو انجام نہیں دیا۔<ref> ہلالی، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۸۷۱؛ مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۲۸، ص۳۰۴۔</ref>
بعض دوسرے شیعہ مآخذ میں آیا ہے کہ [[عمر بن خطاب]]{{یادداشت| بعض مآخذ نے اس بات کے نقل کرنے والے کا نام نہیں لیا ہے اور اسے صرف اقتدار والوں(وُلَاۃ الْأَمْرِ) کی تفسیر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ (طبری آملی، دلائل الإمامۃ، ۱۴۱۳ھ، ص۱۳۶۔)}} نے ارادہ کیا کہ تمام قبروں کو کھودے اور پھر نماز جنازہ پڑھے لیکن امام علیؑ کی دھمکی کے بعد اس کام کو انجام نہیں دیا۔<ref> ہلالی، کتاب سلیم بن قیس الہلالی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۸۷۱؛ مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۲۸، ص۳۰۴۔</ref>
ابھی تک کوئی ایسی قبر نہیں ہے جسے حضرت فاطمہؑ کی قبر سے نسبت دی جائے۔<ref> عاملی، مأساۃ الزہرا(س)، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۵۲ و ۲۵۳؛ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳۔</ref> علمائے شیعہ [[قاضی نور اللہ شوشتری]]<ref> شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۲۸، ص۵۳۴۔</ref> اور سید محمد شیرازی<ref> حسینی شیرازی، فاطمۃ الزہراء افضل اسوۃ للنساء، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۳۱۔</ref> نے حضرت زہراؑ کی قبر کے آشکار ہونے کے سلسلہ میں دعوی کیا ہے کہ وہ [[ظہور]] [[امام مہدیؑ]] کے بعد انہیں کے ذریعہ آشکار ہوگی البتہ اس دعوے کی کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے۔
ابھی تک کوئی ایسی قبر نہیں ہے جسے حضرت فاطمہؑ کی قبر سے نسبت دی جائے۔<ref> عاملی، مأساۃ الزہراؑ، ۱۴۱۸ھ، ج۱، ص۲۵۲ و ۲۵۳؛ نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۳۔</ref> علمائے شیعہ [[قاضی نور اللہ شوشتری]]<ref> شوشتری، احقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۲۸، ص۵۳۴۔</ref> اور سید محمد شیرازی<ref> حسینی شیرازی، فاطمۃ الزہراء افضل اسوۃ للنساء، ۱۴۱۴ھ، ج۱، ص۳۱۔</ref> نے حضرت زہراؑ کی قبر کے آشکار ہونے کے سلسلہ میں دعوی کیا ہے کہ وہ [[ظہور]] [[امام مہدیؑ]] کے بعد انہیں کے ذریعہ آشکار ہوگی البتہ اس دعوے کی کوئی دلیل بیان نہیں کی ہے۔
اہل سنت تاریخ نگار علی بن عبد اللہ سمہودی وفات [[سنہ 11 ہجری]] کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کی رازداری کی ایک وجہ ابتدائے اسلام میں پلاسٹر اور اینٹوں والی قبروں کی مضبوطی کا فقدان ہے۔۔<ref> سمہودی، وفاء الوفاء، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۹۳۔</ref> اس وجہ کو مورد تنقید قرار دیا گیا ہے کیونکہ [[صحابہ]] اور پیغمبر (ص) کے خاندان کے دوسرے افراد کی قبریں مشخص و معین ہیں۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۴۔</ref>
اہل سنت تاریخ نگار علی بن عبد اللہ سمہودی وفات [[سنہ 11 ہجری]] کے مطابق حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی قبر کی رازداری کی ایک وجہ ابتدائے اسلام میں پلاسٹر اور اینٹوں والی قبروں کی مضبوطی کا فقدان ہے۔۔<ref> سمہودی، وفاء الوفاء، ۱۴۱۹ھ، ج۳، ص۹۳۔</ref> اس وجہ کو مورد تنقید قرار دیا گیا ہے کیونکہ [[صحابہ]] اور پیغمبر کے خاندان کے دوسرے افراد کی قبریں مشخص و معین ہیں۔<ref> نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۴۔</ref>
این دلیل مورد نقد قرار گرفتہ زیرا قبرہای شماری از [[صحابہ]] و دیگر اقوام [[پیامبر(ص)]] مشخص است۔<ref>نجمی، تاریخ حرم ائمہ بقیع و آثار دیگر در مدینہ منورہ، ۱۳۸۶ش، ص۱۱۴۔</ref>
 


==مونوگراف==
==مونوگراف==
وہ کتابیں جو حضرت زہراؑ کے محل دفن کے موضوع پر لکھی گئیں ہیں وہ درج ذیل ہیں:
وہ کتابیں جو حضرت زہراؑ کے محل دفن کے موضوع پر لکھی گئیں ہیں وہ درج ذیل ہیں:
*سید ہاشم ناجی موسوی جزائری کی کتاب '''مرقدُ سیّدۃ النِّساءِ فاطمۃ الشہیدۃ الزہراء(س) فی اَیِّ مکان؟!''': اس کتاب میں فاطمہ (س) کی قبر کو چھپانے کی وجہ اور تدفین کے احتمالات کے بارے میں شیعہ مآخذ کی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔<ref> ناجی جزائری، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراء(س) فی ای مکان؟!، ۱۳۹۵ش، فہرست۔</ref> انتشارات دانش نے اس کتاب کو سنہ 1395 شمسی میں طبع کیا۔<ref> ناجی جزائری، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراء(س) فی ای مکان؟!، ۱۳۹۵ش، شناسہ کتاب۔</ref>
*سید ہاشم ناجی موسوی جزائری کی کتاب '''مرقدُ سیّدۃ النِّساءِ فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی اَیِّ مکان؟!''': اس کتاب میں فاطمہؑ کی قبر کو چھپانے کی وجہ اور تدفین کے احتمالات کے بارے میں شیعہ مآخذ کی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔<ref> ناجی جزائری، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی ای مکان؟!، ۱۳۹۵ش، فہرست۔</ref> انتشارات دانش نے اس کتاب کو سنہ 1395 شمسی میں طبع کیا۔<ref> ناجی جزائری، مرقد سیدۃ النساء فاطمۃ الشہیدۃ الزہراءؑ فی ای مکان؟!، ۱۳۹۵ش، شناسہ کتاب۔</ref>
* حسین راضی کی کتاب '''اَیْنَ قبرُ فاطمۃ(س)''': اس کتاب میں حضرت فاطمہ (س) کے مدفن ہونے کے احتمالات بیان کیے گئے ہیں اور صحیح احتمال ان کا مکان بیان کیا گیا ہے۔<ref> راضی، این قبر فاطمہ(س)، ۱۴۳۲ھ، ص۱۳۵۔</ref> دار المحجۃ البیضاء نے اس کتاب کو بیروت میں [[سنہ 1432 ھ]] میں طبع کیا۔<ref> راضی، این قبر فاطمہ(س)، ۱۴۳۲ھ، شناسنامہ کتاب۔</ref>
* حسین راضی کی کتاب '''اَیْنَ قبرُ فاطمۃؑ''': اس کتاب میں حضرت فاطمہؑ کے مدفن ہونے کے احتمالات بیان کیے گئے ہیں اور صحیح احتمال ان کا مکان بیان کیا گیا ہے۔<ref> راضی، این قبر فاطمہؑ، ۱۴۳۲ھ، ص۱۳۵۔</ref> دار المحجۃ البیضاء نے اس کتاب کو بیروت میں [[سنہ 1432 ھ]] میں طبع کیا۔<ref> راضی، این قبر فاطمہؑ، ۱۴۳۲ھ، شناسنامہ کتاب۔</ref>
اسی طرح ام المحسن کی کتاب «قبر مادرم کجاست؟ در جستجوی مزار بی‌ نشان مادرم زہرا(س)» ہے۔<ref>«[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/560175 کتاب شناسی قبر مادرم کجاست؟]»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران.</ref> اور
اسی طرح ام المحسن کی کتاب «قبر مادرم کجاست؟ در جستجوی مزار بی‌ نشان مادرم زہراؑ» ہے۔<ref>«[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/560175 کتاب شناسی قبر مادرم کجاست؟]»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران.</ref> اور
مہرداد ویس کرمی کی اسی موضوع پر کتاب «راز ص‍دف: ق‍ب‍ر م‍خ‍ف‍ی ح‍ض‍رت ف‍اطم‍ہ(س) از م‍ن‍ظر س‍ی‍اس‍ی و ع‍رف‍ان‍ی‌» طبع ہوئی۔<ref>«[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/789797 کتاب شناسی راز صدف]»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران۔</ref>
مہرداد ویس کرمی کی اسی موضوع پر کتاب «راز ص‍دف: ق‍ب‍ر م‍خ‍ف‍ی ح‍ض‍رت ف‍اطم‍ہؑ از م‍ن‍ظر س‍ی‍اس‍ی و ع‍رف‍ان‍ی‌» طبع ہوئی ہے۔<ref>«[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/789797 کتاب شناسی راز صدف]»، سازمان اسناد و کتابخانہ ملی جمہوری اسلامی ایران۔</ref>


== حوالہ جات==
== حوالہ جات==
گمنام صارف