مندرجات کا رخ کریں

"حدیث شد رحال" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mudabbirhusainrizvi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 15: سطر 15:
  | سنی مآخذ= [[صحیح بخاری]] و [[صحیح مسلم]]
  | سنی مآخذ= [[صحیح بخاری]] و [[صحیح مسلم]]
}}
}}
'''حدیث شَدُّ رِحال''' وہ [[حدیث]] ہے جس میں [[پیغمبر اکرمؐ]] نے [[مسجد الحرام]]، [[مسجد النبی]] اور [[مسجد الاقصی]] کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث میں وارد ہوا ہے کہ: قصد سفر زیارت نہ کرو مگر تین مساجد کے لئے۔
'''حدیث شَدُّ رِحال''' وہ [[حدیث]] ہے جس میں [[پیغمبر اکرمؐ]] نے [[مسجد الحرام]]، [[مسجد النبی]] اور [[مسجد الاقصی]] کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ اس حدیث میں وارد ہوا ہے کہ: سفر زیارت کا قصد نہ کرو مگر تین مساجد کے لئے۔


گروہ [[وہابی]] اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انبیاء، ائمہ اور اولیاء کے قبور کی [[زیارت]] کے لئے سفر کرنا [[حرام]] اور [[شرک]] ہے۔  جب کہ اکثر شیعہ و سنی علما نے [[وہابیوں]] کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے اس روایت کو ان تینوں مسجدوں کی فضیلت میں شمار کیا ہے۔
گروہ [[وہابی]] اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انبیاء، ائمہ اور اولیاء کے قبور کی [[زیارت]] کے لئے سفر کرنا [[حرام]] اور [[شرک]] ہے۔  جب کہ اکثر شیعہ و سنی علما نے [[وہابیوں]] کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے اس روایت کو ان تینوں مسجدوں کی فضیلت میں شمار کیا ہے۔
سطر 23: سطر 23:


==وہابیوں کا نظریہ ==
==وہابیوں کا نظریہ ==
گروہ وہابی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتا ہئے کہ انبیاء، ائمہ اور اولیاء کے قبور کی زیارت کے لئے سفر کرنا حرام اور [[شرک]] ہے۔<ref> ابن تیمیہ، کتب و رسائل و فتاوى ابن تیمیہ، ج۲۷، ص۱۹۶؛ سلیمان بن عبداللہ، شرح کتاب التوحید، الریاض، ص۳۱۲۔</ref>
گروہ وہابی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انبیاء، ائمہ اور اولیاء کے قبور کی زیارت کے لئے سفر کرنا حرام اور [[شرک]] ہے۔<ref> ابن تیمیہ، کتب و رسائل و فتاوى ابن تیمیہ، ج۲۷، ص۱۹۶؛ سلیمان بن عبداللہ، شرح کتاب التوحید، الریاض، ص۳۱۲۔</ref>


ساتویں صدی ہجری میں [[ابن تیمیہ حرانی]] وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے اس حدیث کی بنا پر قبر پیغمبر اکرمؐ کے لئے سفر زیارت کو حکم حرمت کا فتوی دیا تھا۔ اس کے دعوے کے مطابق جو شخص بھی اپنے سفر کو زیارت قبر پیغمبر اکرمؐ کے قصد سے انجام دے تو گویا اس نے اجماع مسلمین کی مخالفت کی اور [[پیغمبر اکرمؐ]] کی شریعت سے خارج ہو گیا۔ اور وہ اس کام کو شرک بھی سمجھتا تھا۔<ref> عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۰ و ۱۰۱۔</ref> وہ یہ بھی کہتا ہے کہ قبر پیغمبر کی زیارت کے لئے سفر کرنا سفر گناہ و معصیت ہے اور ایسے سفر میں نماز بھی قصر ہوگی۔<ref> عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۱۔</ref>
ساتویں صدی ہجری میں [[ابن تیمیہ حرانی]] وہ پہلا شخص تھا کہ جس نے اس حدیث کی بنا پر قبر پیغمبر اکرمؐ کے لئے سفر زیارت کو حکم حرمت کا فتوی دیا تھا۔ اس کے دعوے کے مطابق جو شخص بھی اپنے سفر کو زیارت قبر پیغمبر اکرمؐ کے قصد سے انجام دے تو گویا اس نے اجماع مسلمین کی مخالفت کی اور [[پیغمبر اکرمؐ]] کی شریعت سے خارج ہو گیا۔ اور وہ اس کام کو شرک بھی سمجھتا تھا۔<ref> عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۰ و ۱۰۱۔</ref> وہ یہ بھی کہتا تھا کہ قبر پیغمبر کی زیارت کے لئے سفر کرنا سفر گناہ و معصیت ہے اور ایسے سفر میں نماز بھی قصر ہوگی۔<ref> عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۱۔</ref>
   
   
سعودی عرب میں سپریم فتویٰ بورڈ {{یادداشت|سعودی عرب میں اعلی ترین مذہبی اتھارٹی جو ابن تیمیہ اور [[محمد ابن عبد الوہاب]] کے خیالات کی پیروی کرتا ہے۔}} حدیث شد رحال سے استناد کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ قبر پیغمبر کی زیارت کے لئے [[مدینہ]] کا سفر کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی مدینہ کا سفر تجارت، طلب علم یا اسی جیسی دوسری چیز کے لئے کر رہا ہے تو وہ خاص شرائط کے ساتھ قبر پیغمبر کی زیارت کر سکتا ہے۔<ref> عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۱۔</ref>
سعودی عرب میں سپریم فتویٰ بورڈ {{یادداشت|سعودی عرب میں اعلی ترین مذہبی اتھارٹی جو ابن تیمیہ اور [[محمد ابن عبد الوہاب]] کے خیالات کی پیروی کرتا ہے۔}} حدیث شد رحال سے استناد کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ قبر پیغمبر کی زیارت کے لئے [[مدینہ]] کا سفر کرنا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی مدینہ کا سفر تجارت، طلب علم یا اسی جیسی دوسری چیز کے لئے کر رہا ہے تو وہ خاص شرائط کے ساتھ قبر پیغمبر کی زیارت کر سکتا ہے۔<ref> عباسی، رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور، ۱۳۹۱ش، ص۱۰۱۔</ref>
سطر 32: سطر 32:
بعض علمائے مذاہب اسلامی نے حدیث شد رحال کے سلسلے میں [[ابن تیمیہ]] کے جواب اور اس کے دعوے کو ردّ کرنے کے لئے کتابیں لکھی ہیں۔<ref> عباسی‌مقدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۳۔</ref> عالم [[اہل سنت]] خلیل احمد کے مطابق یہ حدیث، [[مسجد نبوی]] کی [[زیارت]] کے ممنوع ہونے پر دلالت نہیں کر رہی بلکہ نصّ روایت شدّ رحال کے جواز پر دلالت کر رہی ہے اس لئے کہ جس سبب کی بنیاد پر تینوں مسجدیں دیگر تمام مساجد یا اماکن مشرفہ سے جدا ہوئی ہیں وہ خاص فضیلت ہے جو ان تینوں مساجد سے مخصوص ہے۔<ref> خلیل احمد، مباحث فی عقائد أہل السنۃ ، ۱۴۲۵ھ، ص۴۷۔</ref> جصاص جو اہل سنت کے مفسر ہیں ان کے مطابق یہ حدیث فقط ان تین مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔<ref> جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ھ،ج۱، ص۳۰۲۔</ref>
بعض علمائے مذاہب اسلامی نے حدیث شد رحال کے سلسلے میں [[ابن تیمیہ]] کے جواب اور اس کے دعوے کو ردّ کرنے کے لئے کتابیں لکھی ہیں۔<ref> عباسی‌مقدم، بررسی متنی و سندی روایت شد رحال، ۱۳۹۱، ص۱۹۳۔</ref> عالم [[اہل سنت]] خلیل احمد کے مطابق یہ حدیث، [[مسجد نبوی]] کی [[زیارت]] کے ممنوع ہونے پر دلالت نہیں کر رہی بلکہ نصّ روایت شدّ رحال کے جواز پر دلالت کر رہی ہے اس لئے کہ جس سبب کی بنیاد پر تینوں مسجدیں دیگر تمام مساجد یا اماکن مشرفہ سے جدا ہوئی ہیں وہ خاص فضیلت ہے جو ان تینوں مساجد سے مخصوص ہے۔<ref> خلیل احمد، مباحث فی عقائد أہل السنۃ ، ۱۴۲۵ھ، ص۴۷۔</ref> جصاص جو اہل سنت کے مفسر ہیں ان کے مطابق یہ حدیث فقط ان تین مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔<ref> جصاص، احکام القرآن، ۱۴۰۵ھ،ج۱، ص۳۰۲۔</ref>


چاروں مذاہب کے بعض علمائے اہل سنت نے شرح [[صحیح بخاری]]، [[صحیح مسلم]] اور بعض دوسری کتابوں میں اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: یہ حدیث صرف تینوں مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔<ref> نووی، صحیح مسلم مع شرح الامام النووی، ج۴، ص۳۲۶۔</ref> علمائے شافعی میں سے ابن حجر عسقلانی،<ref> ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، دارالمعرفہ، ج۳، ص۶۵۔</ref> ملا علی قاری حنفی،<ref> محمد قاری، مرقات المفاتیح، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۷۱۔</ref> ابن عابدین فقیہ حنفی،<ref> ابن عابدین، حاشیہ رد المختار على الدر المختار، ۱۴۲۱ھ، ج۲، ص۶۲۷۔</ref> زرقانی فقیہ مالکی<ref>زرقانی، شرح الزرقانی،۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۳۲۰۔</ref> اور ابن قدامہ حنبلی<ref> ابن قدامہ، المغنی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۵۲۔</ref>  کا بھی یہی نظریہ ہے۔
چاروں مذاہب کے بعض علمائے اہل سنت نے شرح [[صحیح بخاری]]، [[صحیح مسلم]] اور بعض دوسری کتابوں میں اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: یہ حدیث صرف تینوں مساجد کی فضیلت پر دلالت کر رہی ہے۔<ref> نووی، صحیح مسلم مع شرح الامام النووی، ج۴، ص۳۲۶۔</ref> علمائے شافعی میں سے ابن حجر عسقلانی،<ref> ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، دارالمعرفہ، ج۳، ص۶۵۔</ref> ملا علی قاری حنفی،<ref> محمد قاری، مرقات المفاتیح، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۷۱۔</ref> فقیہ حنفی ابن عابدین،<ref> ابن عابدین، حاشیہ رد المختار على الدر المختار، ۱۴۲۱ھ، ج۲، ص۶۲۷۔</ref> فقیہ مالکی زرقانی<ref>زرقانی، شرح الزرقانی،۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۳۲۰۔</ref> اور ابن قدامہ حنبلی<ref> ابن قدامہ، المغنی، ۱۴۰۵ھ، ج۲، ص۵۲۔</ref>  کا بھی یہی نظریہ ہے۔


==شیعوں کا نظریہ==
==شیعوں کا نظریہ==
سطر 44: سطر 44:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
*ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، کتب و رسائل و فتاوى ابن تیمیۃ، تحقیق عبدالرحمن بن محمد بن قاسم العاصمی النجدی، [بی‌جا]، مکتبۃ ابن تیمیہ، [بی‌تا
*ابن تیمیہ، احمد بن عبدالحلیم، کتب و رسائل و فتاوى ابن تیمیۃ، تحقیق عبدالرحمن بن محمد بن قاسم العاصمی النجدی، [بی‌جا]، مکتبۃ ابن تیمیہ، [بےتا
*ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، دارالمعرفۃ، [بی‌تا
*ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، فتح الباری شرح صحیح البخاری، بیروت، دارالمعرفۃ، [بےتا
*ابن عابدین، محمدامین بن عمر، حاشیہ رد المختار على الدر المختار شرح تنویر الأبصار، بیروت، دار الفکر للطباعۃ والنشر، ۱۴۲۱ھ۔
*ابن عابدین، محمدامین بن عمر، حاشیہ رد المختار على الدر المختار شرح تنویر الأبصار، بیروت، دار الفکر للطباعۃ والنشر، ۱۴۲۱ھ۔
*ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، المغنی فی فقہ الإمام أحمد بن حنبل الشیبانی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۵ھ۔
*ابن قدامہ، عبداللہ بن احمد، المغنی فی فقہ الإمام أحمد بن حنبل الشیبانی، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۵ھ۔
سطر 51: سطر 51:
*بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق مصطفى دیب البغا، بیروت، دار ابن کثیر، الیمامہ، ۱۴۰۷ھ۔
*بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق مصطفى دیب البغا، بیروت، دار ابن کثیر، الیمامہ، ۱۴۰۷ھ۔
*زرقانی، محمد بن عبدالباقی، شرح الزرقانی على موطأ الإمام مالک، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔
*زرقانی، محمد بن عبدالباقی، شرح الزرقانی على موطأ الإمام مالک، بیروت، دار الکتب العلمیہ، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔
*سلیمان بن عبداللہ، شرح کتاب التوحید، الریاض، مکتبہ الریاض الحدیثہ، [بی‌تا
*سلیمان بن عبداللہ، شرح کتاب التوحید، الریاض، مکتبہ الریاض الحدیثہ، [بےتا
*شہید اول، محمد بن جمال‌الدین، ذکرى الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت (ع) لإحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
*شہید اول، محمد بن جمال‌الدین، ذکرى الشیعۃ فی أحکام الشریعۃ، قم، مؤسسہ آل البیت (ع) لإحیاء التراث، چاپ اول، ۱۴۱۹ھ۔
*عباسی، حبیب، «رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور»، در مجلہ سراج منیر، پاییز و زمستان ۱۳۹۱ش، شمارہ ۷ و ۸۔
*عباسی، حبیب، «رد نظر وہابیت از سوی اہل سنت در حرمت زیارت قبور»، در مجلہ سراج منیر، پاییز و زمستان ۱۳۹۱ش، شمارہ ۷ و ۸۔
*علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب، مشہد، مؤسسہ الطبع والنشر فی الآستانہ الرضویہ المقدسہ، ۱۴۱۲ھ۔
*علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب، مشہد، مؤسسہ الطبع والنشر فی الآستانہ الرضویہ المقدسہ، ۱۴۱۲ھ۔
*علی بن سلطان محمد قاری، مرقات المفاتیح شرح مشکاہ المصابیح، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۲ھ۔
*علی بن سلطان محمد قاری، مرقات المفاتیح شرح مشکاہ المصابیح، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، ۱۴۲۲ھ۔
*عینی، بدرالدین محمود بن أحمد، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، [بی‌تا
*عینی، بدرالدین محمود بن أحمد، عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، [بےتا
*مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبد الباقی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، [بی‌تا
*مسلم بن الحجاج النیسابوری، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبد الباقی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، [بےتا
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
==بیرونی روابط==
==بیرونی روابط==
گمنام صارف