مندرجات کا رخ کریں

"بت شکنی کا واقعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 16: سطر 16:


==فضیلت شمار ہونا==
==فضیلت شمار ہونا==
[[فائل:شکستن بت‌ها در فتح مکه کتاب سیره النبی قرن یازدهم.jpg|alt=شکستن بت‌ہا در کعبہ بعد از فتح مکہ در کتاب سیرہ النبی کہ در قرن یازدہم ہجری بہ دستور سلطان مراد سوم حاکم عثمانی و توسط سید سلیمان کسیم پاشا تہیہ شدہ است۔|thumb|345x345px|کعبہ کی بت شکنی کے واقعہ کی نقاشی، جو تیرہویں صدی میں جو سلطان مراد سوم حاکم عثمانی کے حکم سے  سید سلیمان کسیم پاشا نے تیار کی۔]]
[[فائل:شکستن بت‌ها در فتح مکه کتاب سیره النبی قرن یازدهم.jpg|alt=شکستن بت‌ہا در کعبہ بعد از فتح مکہ در کتاب سیرہ النبی کہ در قرن یازدہم ہجری بہ دستور سلطان مراد سوم حاکم عثمانی و توسط سید سلیمان کسیم پاشا تہیہ شدہ است۔|thumb|345x345px|کعبہ کی بت شکنی کے واقعہ کی نقاشی، جو تیرہویں صدی میں سلطان مراد سوم حاکم عثمانی کے حکم سے  سید سلیمان کسیم پاشا نے تیار کی۔]]


پیغمبر کے ذریعہ حضرت علی کو اپنے کاندھوں پر سوار کرنا حضرت علی کی مخصوص فضیلتوں میں شمار کیا گیا ہے۔<ref> نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲؛ بستی، کتاب المراتب، ۱۴۲۱ھ، ص۱۲۴۔</ref> یہ واقعہ، فضائل کی کتابوں میں<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> و در سرودہ‌ہای شاعران<ref> بکری، الأنوار، ۱۴۱۱ھ، ص۱۴۸؛ حر عاملی، إثبات الہداۃ، ۱۴۲۵ھ، ج۳، ص۴۲۴۔</ref> آیا ہے۔  
پیغمبر کے ذریعہ حضرت علی کو اپنے کاندھوں پر سوار کرنا حضرت علی کی مخصوص فضیلتوں میں شمار کیا گیا ہے۔<ref> نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲؛ بستی، کتاب المراتب، ۱۴۲۱ھ، ص۱۲۴۔</ref> یہ واقعہ، فضائل کی کتابوں میں<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> اور شعراء کے اشعار و قصائد میں بھی آیا ہے۔<ref> بکری، الأنوار، ۱۴۱۱ھ، ص۱۴۸؛ حر عاملی، إثبات الہداۃ، ۱۴۲۵ھ، ج۳، ص۴۲۴۔</ref> آیا ہے۔  


اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلا بت شکن اور حضرت علیہ السلام کو آخری بے شکن قرار دیا۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۹۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۵۔</ref> کچھ روایتوں میں حضرت علیہ السلام کو  «کاسِر الاصنام» (بتوں کو توڑنے والا) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔<ref> ابن شاذان، الروضۃ، ۱۴۲۳ھ، ص۳۱۔</ref> یا یہ کہ حضرت علیہ السلام کو «علی» یعنی بلند مرتبہ<ref> راغب اصفہانی، مفردات ألفاظ القرآن، ۱۴۱۲ھ، ص۵۸۳۔</ref> اس لئے کیا گیا ہے کہ آپ نے دوش رسول پر سوار ہوکر بت شکنی کی۔<ref> ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۱۸ھ، ص۱۵۔</ref>  
اس واقعہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے [[حضرت ابراہیم علیہ السلام]] کو پہلا بت شکن اور حضرت علی علیہ السلام کو آخری بت شکن قرار دیا۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۹۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۵۔</ref> کچھ روایتوں میں حضرت علی علیہ السلام کو  {{عربی|«کاسِر الاصنام»}} (بتوں کو توڑنے والا) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔<ref> ابن شاذان، الروضۃ، ۱۴۲۳ھ، ص۳۱۔</ref> یا یہ کہ حضرت علی علیہ السلام کو «علی» یعنی بلند مرتبہ<ref> راغب اصفہانی، مفردات ألفاظ القرآن، ۱۴۱۲ھ، ص۵۸۳۔</ref> اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ نے دوش رسول پر سوار ہوکر بت شکنی کی۔<ref> ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ۱۴۱۸ھ، ص۱۵۔</ref>  


'''چھ رکنی شورا میں بے شکنی کا تذکرہ'''
'''چھ رکنی شورا میں بت شکنی کا تذکرہ'''


حضرت علیہ السّلام بت شکنی غ واقعہ پر فخر کرتے تھے<ref> ابن شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶؛ ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۸۵۔</ref> اور کہتے تھے: میں تھا جس نے مہر نبوت پر قدم رکھا تھا <ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref> عمر بن خطاب کے بعد خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی جانے والی [[چھ رکنی شورا]] میں آپ نے سب سے اقرار لیا کہ آپ کے سوا کوئی اس فضیلت کا حامل نہیں ہے۔<ref> طبرسی، الإحتجاج، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۱۳۸؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۱، ص۳۳۴، ۳۷۹؛ بحرانی، حلیۃ الأبرار، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۲۹۔</ref> اسی طرح کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب آرزو کرتے تھے کہ کاش یہ فضیلت مجھے مکمل گئی ہوتی۔<ref> ابن شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref>
حضرت علی علیہ السّلام بت شکنی واقعہ پر فخر کرتے تھے<ref> ابن شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶؛ ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۸۵۔</ref> اور کہتے تھے: میں تھا جس نے مہر نبوت پر قدم رکھا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref> عمر بن خطاب کے بعد خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی جانے والی [[چھ رکنی شورا]] میں آپ نے سب سے اقرار لیا کہ آپ کے سوا کوئی اس فضیلت کا حامل نہیں ہے۔<ref> طبرسی، الإحتجاج، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۱۳۸؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۱، ص۳۳۴، ۳۷۹؛ بحرانی، حلیۃ الأبرار، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۲۹۔</ref> اسی طرح کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب آرزو کرتے تھے کہ کاش یہ فضیلت مجھے مل گئی ہوتی۔<ref> ابن شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref>


==موقع==
==موقع==
17

ترامیم