"دعائے اللہم کن لولیک" کے نسخوں کے درمیان فرق
←سند اور اعتبار
سطر 41: | سطر 41: | ||
==سند اور اعتبار== | ==سند اور اعتبار== | ||
دعائے اللہم کن لولیک، روائی اور دعاؤں کی کتابوں میں صرف [[محمد بن عیسی بن عبید|محمد بن عیسی بن عُبَید]] سے {{نوٹ|دعا کی سند یوں ہے: {{عربی|«مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی بِإِسْنَادِهِ عَنِ الصَّالِحِینَ ع}}»(کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۲؛ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۶۳۰؛ ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۶۱۱.) تہذیب میں | دعائے اللہم کن لولیک، روائی اور دعاؤں کی کتابوں میں صرف [[محمد بن عیسی بن عبید|محمد بن عیسی بن عُبَید]] سے {{نوٹ|دعا کی سند یوں ہے: {{عربی|«مُحَمَّدُ بْنُ عِیسَی بِإِسْنَادِهِ عَنِ الصَّالِحِینَ ع}}»(کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۲؛ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۶۳۰؛ ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۶۱۱.) تہذیب میں {{عربی|«الصَّالِحِینَ»}} کی جگہ {{عربی|«الصَّادِقِینَ»}} آیا ہے(طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۰۲) اقبال کی سند ذرا مکمل ہے اور اس طرح سے ہے: {{عربی|«ذَکَرَهُ ابْنُ أَبِی قُرَّةَ فِی کتَابِهِ-: فَقَالَ بِإِسْنَادِهِ إِلَی عَلِی بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِی بْنِ فَضَّالٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَی بْنِ عُبَیدِ بِإِسْنَادِهِ عَنِ الصَّالِحِینَ ع...}}»(سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۸۵).}} نقل ہوئی ہے <ref>دیکھئے: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۲؛ طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۰۲و۱۰۳؛ طوسی، مصباح المتہجد، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۶۳۰؛ ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۶۱۲؛ سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۸۵.</ref> | ||
محمد بن عیسی کی [[وثاقت]] کے بارے میں اختلاف ہے۔<ref>دیکھئے: علامہ حلی، رجال العلامۃ الحلی، ۱۴۱۱ق، ص۱۴۲.</ref> [[نجاشی]] نے<ref>نجاشی، رجال نجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۳۳۳.</ref> انھیں [[ثقہ]] کہا ہے اور [[شیخ طوسی]] نے<ref>طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۹۱.</ref> ضعیف شمار کیا ہے۔ [[علامہ حلی]] کے مطابق، محمد بن عیسی کی وثاقت کو قبول کرلینا ہی نظر قوی ہے۔<ref>علامہ حلی، رجال العلامۃ الحلی، ۱۴۱۱ق، ص۱۴۲.</ref> | محمد بن عیسی کی [[وثاقت]] کے بارے میں اختلاف ہے۔<ref>دیکھئے: علامہ حلی، رجال العلامۃ الحلی، ۱۴۱۱ق، ص۱۴۲.</ref> [[نجاشی]] نے<ref>نجاشی، رجال نجاشی، ۱۳۶۵ش، ص۳۳۳.</ref> انھیں [[ثقہ]] کہا ہے اور [[شیخ طوسی]] نے<ref>طوسی، رجال الطوسی، ۱۳۷۳ش، ص۳۹۱.</ref> ضعیف شمار کیا ہے۔ [[علامہ حلی]] کے مطابق، محمد بن عیسی کی وثاقت کو قبول کرلینا ہی نظر قوی ہے۔<ref>علامہ حلی، رجال العلامۃ الحلی، ۱۴۱۱ق، ص۱۴۲.</ref> | ||
[[علامہ مجلسی]] کے بقول دعا کی [[سند روایت|سند]]، [[مرسل]] ہے۔<ref>مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۳۹۴؛ مجلسی، ملاذالاخیار فی فہم تہذیب الاخبار، ۱۴۰۶ق، ج۵، ص۱۰۶.</ref> اس کے باوجود محسن قرائتی کہتے ہیں کہ [[الکافی]]<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۲، ح۴.</ref> ، [[تہذیب الأحکام]]<ref>طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۰۲، ح۳۷.</ref> اور دیگر معتبر کتابوں جیسے [[المزار الکبیر]] تالیف [[ابن مشہدی]]،<ref>ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۶۱۲.</ref> [[المصباح کفعمی|المصباح]] تالیف [[کفعمی]]<ref>کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۸۶.</ref> اور[[اقبال الاعمال]] تالیف [[سید بن طاووس]]؛<ref>سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۸۵.</ref> میں اس دعا کا موجود ہونا اور دعا کے مندرجات و مفاہیم کا [[عقل]] و [[نقل]] سے سازگار ہونا اور پھر یہ کہ اس دعا کے تمام جملات کا الگ الگ کرکے دوسری دعاؤں میں بھی وارد ہونا، یہ سب اس بات پر شاہد ہے کہ دعا کی صحت و اعتبار پر بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔<ref>قرائتی، شرح دعای سلامتی امام زمان(عج)، ۱۳۹۳ش، ص۲۶-۲۹.</ref> | [[علامہ مجلسی]] کے بقول دعا کی [[سند روایت|سند]]، [[مرسل]] ہے۔<ref>مجلسی، مرآة العقول، ۱۴۰۴ق، ج۱۶، ص۳۹۴؛ مجلسی، ملاذالاخیار فی فہم تہذیب الاخبار، ۱۴۰۶ق، ج۵، ص۱۰۶.</ref> اس کے باوجود محسن قرائتی کہتے ہیں کہ [[الکافی]]<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۶۲، ح۴.</ref> ، [[تہذیب الأحکام]]<ref>طوسی، تہذیب الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۱۰۲، ح۳۷.</ref> اور دیگر معتبر کتابوں جیسے [[المزار الکبیر]] تالیف [[ابن مشہدی]]،<ref>ابن مشہدی، المزار الکبیر، ۱۴۱۹ق، ص۶۱۲.</ref> [[المصباح کفعمی|المصباح]] تالیف [[کفعمی]]<ref>کفعمی، المصباح، ۱۴۰۵ق، ص۵۸۶.</ref> اور[[اقبال الاعمال]] تالیف [[سید بن طاووس]]؛<ref>سید بن طاووس، اقبال الاعمال، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۸۵.</ref> میں اس دعا کا موجود ہونا اور دعا کے مندرجات و مفاہیم کا [[عقل]] و [[نقل]] سے سازگار ہونا اور پھر یہ کہ اس دعا کے تمام جملات کا الگ الگ کرکے دوسری دعاؤں میں بھی وارد ہونا، یہ سب اس بات پر شاہد ہے کہ دعا کی صحت و اعتبار پر بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔<ref>قرائتی، شرح دعای سلامتی امام زمان(عج)، ۱۳۹۳ش، ص۲۶-۲۹.</ref> |