مندرجات کا رخ کریں

"حضرت ہود" کے نسخوں کے درمیان فرق

2,991 بائٹ کا اضافہ ،  25 نومبر 2020ء
سطر 45: سطر 45:
[[حضرت نوح علیہ السلام]]، قوم عاد کے [[نبی]] تھے۔ قوم عاد، در حقیقت عاد بن عوص کی اولادیں تھیں اور ان کو [[عرب]] کی پہلی نسل شمار کیا جاتا ہے۔<ref>فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۳۱، ص۱۵۲؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳.</ref> کہا گیا ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام اور قوم عاد کا قصہ کسی اور [[آسمانی کتاب]] میں نہیں آیا ہے اور صرف [[قرآن کریم]] نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔<ref>النجار، قصص‌الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۴۹.</ref>
[[حضرت نوح علیہ السلام]]، قوم عاد کے [[نبی]] تھے۔ قوم عاد، در حقیقت عاد بن عوص کی اولادیں تھیں اور ان کو [[عرب]] کی پہلی نسل شمار کیا جاتا ہے۔<ref>فخر رازی، مفاتیح الغیب، ۱۴۲۰ق، ج۳۱، ص۱۵۲؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳.</ref> کہا گیا ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام اور قوم عاد کا قصہ کسی اور [[آسمانی کتاب]] میں نہیں آیا ہے اور صرف [[قرآن کریم]] نے اس کا تذکرہ کیا ہے۔<ref>النجار، قصص‌الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۴۹.</ref>
قرآن کریم کی [[آیات]] کی بنیاد پر قوم عاد لمبے تڑنگے، موٹے تازہ، طاقتور اور چوڑے چکلے تھے۔<ref>سوره قمر، آیه ۲۰؛ سوره الحاقه، آیه ۷؛ سوره اعراف، آیه ۶۹.</ref> [[روایات]] کے حساب سے ان میں سب سے لمبے شخص کا قد ۱۰۰ [[ذراع]] اور سب سے چھوٹے کا قد ۷۰ [[ذراع]] تھا۔<ref>جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۵.</ref> حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم [[احقاف]] کی سرزمین پر رہتے تھے۔<ref> جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۵؛ النجار، قصص‌الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۵۰-۵۱؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳.</ref> احقاف کے علاقہ کا صحیح طور سے تعین کرنے میں ذرا اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے [[جزیرۃ العرب|شبہ جزیرہ عربستان]] اور [[یمن]] و [[عمان]] کے درمیان کا علاقہ مانا ہے۔<ref>قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۶۵. طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۸، ص۲۱۰؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۹، ص۱۳۵-۱۳۶.</ref> بعض [[مفسرین]] کا کہنا ہے کہ قوم عاد کی زندگی اور تمدن کے بارے میں قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا تمدن بڑا ترقی یافتہ اور ان کے شہر آباد تھے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۴۵۶؛ مکارم، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۲۶ص۴۵۲.</ref>
قرآن کریم کی [[آیات]] کی بنیاد پر قوم عاد لمبے تڑنگے، موٹے تازہ، طاقتور اور چوڑے چکلے تھے۔<ref>سوره قمر، آیه ۲۰؛ سوره الحاقه، آیه ۷؛ سوره اعراف، آیه ۶۹.</ref> [[روایات]] کے حساب سے ان میں سب سے لمبے شخص کا قد ۱۰۰ [[ذراع]] اور سب سے چھوٹے کا قد ۷۰ [[ذراع]] تھا۔<ref>جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۵.</ref> حضرت ہود علیہ السلام اور ان کی قوم [[احقاف]] کی سرزمین پر رہتے تھے۔<ref> جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۵؛ النجار، قصص‌الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۵۰-۵۱؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۹۳.</ref> احقاف کے علاقہ کا صحیح طور سے تعین کرنے میں ذرا اختلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے [[جزیرۃ العرب|شبہ جزیرہ عربستان]] اور [[یمن]] و [[عمان]] کے درمیان کا علاقہ مانا ہے۔<ref>قرشی، قاموس قرآن، ۱۳۷۱ش، ج۵، ص۶۵. طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۸، ص۲۱۰؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۹، ص۱۳۵-۱۳۶.</ref> بعض [[مفسرین]] کا کہنا ہے کہ قوم عاد کی زندگی اور تمدن کے بارے میں قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا تمدن بڑا ترقی یافتہ اور ان کے شہر آباد تھے۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۰، ص۴۵۶؛ مکارم، تفسیر نمونه، ۱۳۷۱ش، ج۲۶ص۴۵۲.</ref>
==عذاب الہی==
کہتے ہیں کہ حضرت ہود علیہ السلامنے ۷۶۰ سال تک اپنی قوم کی [[ہدایت]] کی؛ لیکن انھوں نے مسلسل آپ کو جھٹلایا اور آپ کا مذاق اڑایا۔<ref> قطب راوندی، قصص الانبیاء، ۱۴۳۰ق، ج۱، ص۲۷۴.</ref> قوم عاد کی نافرمانی اور [[عذاب]] الہی کے تقاضے کے بعد،<ref>سوره اعراف، آیه ۷۰.</ref> حضرت ہود علیہ السلام نے عذاب الہی کی خبر دی۔<ref>سوره اعراف، آیه ۷۱.</ref> اللہ کے حکم سے [[سرزمین احقاف]] پر جو کہ ایک سرسبز و شاداب سرزمین تھی، سات سال تک پانی نہیں برسا اور وہ لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔<ref> جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۶.</ref> اس کے بعد [[اللہ]] نے قوم عاد کے عذاب کے لئے ایک سیاہ بادل بھیجا۔ انھوں نے سمجھا کہ یہ بادل بارش لیکر آیا ہے اور ان کے خداؤں نے اسے بھیجا ہے؛ لیکن حضرت ہود علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ عذاب ہے جسے خداوند عالم نے تمہارے لئے مقرر فرمایا ہے۔<ref>سوره احقاف، آیه ۲۴.</ref> اس کے بعد ایک بہت تیز ٹھنڈی آندھی چلی۔ آندھی اتنی تیز تھی کہ وہ [[کافر]]وں کو کھجورکے درختوں کی طرح زمین سے اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیتی تھی۔<ref>سوره قمر، آیه ۱۸-۲۱.</ref>
[[قرآن]] کریم کی آیات کے لحاظ سے یہ آندھی سات دن اور سات رات تک چلتی رہی۔<ref>سوره الحاقه، آیه ۶-۸.</ref> اس آندھی نے قوم عاد کو نیست و نابود کردیا۔ ان میں سے صرف حضرت ہود علیہ السلام اور ان کے [[اصحاب]] نے اس عذاب سے نجات پائی۔<ref>سوه هود، آیه ۵۸؛ سوره اعراف، آیه ۷۲؛ سوره الحاقه، آیه ۶-۸.</ref> وہ لوگ اللہ کے حکم سے ایک گڑھے میں چھپ گئے تھے۔<ref>جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۶.</ref> جزائری نے وہب سے نقل کیا ہے کہ [[عرب]] کی [[تاریخ]] میں کچھ ایام (بَرْدُ اْلعَجوز) یعنی (بُڑھیا کا ٹھنڈا موسم) کے نام سے مشہور ہیں جن کو کچھ لوگوں نے وہی قوم عاد کا عذاب بتایا ہے۔<ref> جزایری، النور المبین، ۱۳۸۱ق، ص۱۳۶.</ref>
[[ابن قتیبہ]] کے بقول حضرت ہود علیہ السلام اور آپ کے اصحاب [[مکہ]] چلے گئے تھے اور وہیں قیام کیا تھا اور پھر ہمیشہ وہیں رہے۔<ref>ابن قتيبه، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۲۸.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
17

ترامیم