مندرجات کا رخ کریں

"حضرت ایوب" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 58: سطر 58:
{{نقل قول| عنوان = حضرت ایوب سے منسوب دعا|: |نقل‌ قول=«{{حدیث|اللَّہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ الْيَوْمَ فَأَعِذْنِي وَ أَسْتَجِيرُ بِكَ الْيَوْمَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَاءِ فَأَجِرْنِي وَ أَسْتَغِيثُ بِكَ الْيَوْمَ فَأَغِثْنِي وَ أَسْتَصْرِخُك الْيَوْمَ عَلَى عَدُوِّكَ وَ عَدُوِّي فَاصْرُخْنِي وَ أَسْتَنْصِرُكَ الْيَوْمَ فَانْصُرْنِي وَ أَسْتَعِينُ بِكَ الْيَوْمَ عَلَى أَمْرِي فَأَعِنِّي وَ أَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ فَاكْفِنِي وَ أَعْتَصِمُ‏ بِكَ فَاعْصِمْنِي وَ آمَنُ بِكَ فَآمِنِّي وَ أَسْأَلُكَ فَأَعْطِنِي وَ أَسْتَرْزِقُكَ فَارْزُقْنِي وَ أَسْتَغْفِرُكَ فَاغْفِرْ لِي وَ أَدْعُوكَ فَاذْكُرْنِي وَ أَسْتَرْحِمُكَ فَارْحَمْنِي۔}}»<ref>کفعمی، المصباح (جنۃ الامان الواقیۃ)، ۱۴۰۵ق، ص۲۹۶-۲۹۷۔</ref>|| منبع =| سمت = بائیں| چوڑائی = 300px| بیگ گراؤن کلر =#ffeebb| اندازہ خط = ۱۲px| گیومہ نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
{{نقل قول| عنوان = حضرت ایوب سے منسوب دعا|: |نقل‌ قول=«{{حدیث|اللَّہُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ الْيَوْمَ فَأَعِذْنِي وَ أَسْتَجِيرُ بِكَ الْيَوْمَ مِنْ جَہْدِ الْبَلَاءِ فَأَجِرْنِي وَ أَسْتَغِيثُ بِكَ الْيَوْمَ فَأَغِثْنِي وَ أَسْتَصْرِخُك الْيَوْمَ عَلَى عَدُوِّكَ وَ عَدُوِّي فَاصْرُخْنِي وَ أَسْتَنْصِرُكَ الْيَوْمَ فَانْصُرْنِي وَ أَسْتَعِينُ بِكَ الْيَوْمَ عَلَى أَمْرِي فَأَعِنِّي وَ أَتَوَكَّلُ عَلَيْكَ فَاكْفِنِي وَ أَعْتَصِمُ‏ بِكَ فَاعْصِمْنِي وَ آمَنُ بِكَ فَآمِنِّي وَ أَسْأَلُكَ فَأَعْطِنِي وَ أَسْتَرْزِقُكَ فَارْزُقْنِي وَ أَسْتَغْفِرُكَ فَاغْفِرْ لِي وَ أَدْعُوكَ فَاذْكُرْنِي وَ أَسْتَرْحِمُكَ فَارْحَمْنِي۔}}»<ref>کفعمی، المصباح (جنۃ الامان الواقیۃ)، ۱۴۰۵ق، ص۲۹۶-۲۹۷۔</ref>|| منبع =| سمت = بائیں| چوڑائی = 300px| بیگ گراؤن کلر =#ffeebb| اندازہ خط = ۱۲px| گیومہ نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}


[[امام صادقؑ]] سے منقول ایک حدیث کے مطابق خدا نے حضرت ایوب کو نعمتو سے نوازا تو آپ ہمیشہ خدا کا [[شکر]] ادا کرتے تھے؛ یہاں تک کہ ایک دن [[شیطان]] حضرت ایوب کے شکرگزاری سے متعلق آگاہ ہوئے اور ان سے [[حسد]] کرتے ہوئے کہا: خدایا اگر حضرت ایوب سے دنیاوی نعمات چھین لیں تو پھر ایوب شکر ادا نہیں کرے گا۔ اس بنا پر خدا نے شیطان کو حضرت ایوب کی اولاد اور مال و دولت پر مسلط کیا۔ مختصر عرصے میں حضرت ایوب اولاد اور مال و دولت سے محروم ہو گئے؛ لیکن حضرت ایوب کے شکرگزاری میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے بعد آپ زراعت اور مال مویشیوں سے بھی محروم ہو گئے، پھر بھی ان کی شکرگزاری میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے بعد ابلیس نے حضرت ایوب کے بدن پر دم کیا جس سے ان کے بدن میں بہت ساری زخم پیدا ہوئے اور ان میں کیڑے مکوڑے پیدا ہونے لگے؛ چنانچہ ان کی بدن سے آنے والی بد بو کی وجہ سے ان کو آبادی سے دور کیا گیا؛ لیکن ایوب اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد شیطان حضرت ایوب کے بعض اصحاب کے ساتھ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا ہمارے خیال میں آپ جس مصیبت میں گرفتار ہوئے ہیں وہ آپ کی گناہوں کی وجہ سے ہے۔ اس پر حضرت ایوب نے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے کبھی کھانا نہیں کھایا جب تک کوئی یتیم ان کے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہوئے اور جب بھی خدا کی اطاعت کے دو راہوں میں سے سخت ترین راستے کو انتخاب کیا ہے... اس کے بعد خدا نے ایک فرشتہ‌ ناز فرمایا جس نے اپنا پاؤوں زمین پر مارا تو وہاں سے پانی بہنا شروع ہوا جس سے حضرت ایوب کو غسل دیا گیا جس سے ان کے جسم میں موجود تمام زخم ٹھیک ہو گئے۔<ref> قمی، تفسیرالقمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۹-۲۴۲؛ مجلسی، حیاۃالقلوب، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۵۵۹-۵۶۵۔</ref>
[[امام صادقؑ]] سے منقول ایک [[حدیث]] کے مطابق خدا نے حضرت ایوب کو نعمتو سے نوازا تو آپ ہمیشہ خدا کا [[شکر]] ادا کرتے تھے؛ یہاں تک کہ ایک دن [[شیطان]] حضرت ایوب کے شکر گزاری سے متعلق آگاہ ہوا اور ان سے [[حسد]] کرتے ہوئے کہا: خدایا اگر حضرت ایوب سے دنیاوی نعمات چھین لے تو پھر ایوب شکر ادا نہیں کرے گا۔ اس بنا پر خدا نے شیطان کو حضرت ایوب کی اولاد اور مال و دولت پر مسلط کیا۔ مختصر عرصے میں حضرت ایوب اولاد اور مال و دولت سے محروم ہو گئے؛ لیکن حضرت ایوب کی شکر گزاری میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے بعد آپ زراعت اور مال مویشیوں سے بھی محروم ہو گئے، پھر بھی ان کی شکرگزاری میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے بعد ابلیس نے حضرت ایوب کے بدن پر دم کیا جس سے ان کے بدن میں بہت سارے زخم پیدا ہوئے اور ان میں کیڑے مکوڑے پیدا ہونے لگے؛ چنانچہ ان کے بدن سے آنے والی بد بو کی وجہ سے ان کو آبادی سے دور کیا گیا؛ لیکن ایوب اسی طرح خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔ اس کے بعد شیطان حضرت ایوب کے بعض [[اصحاب]] کے ساتھ ان کے پاس گیا اور ان سے کہا ہمارے خیال میں آپ جس مصیبت میں گرفتار ہوئے ہیں وہ آپ کی گناہوں کی وجہ سے ہے۔ اس پر حضرت ایوب نے قسم کھا کر کہا کہ انہوں نے کبھی کھانا نہیں کھایا جب تک کوئی یتیم ان کے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہو اور جب بھی خدا کی اطاعت کے دو راہوں میں سے سخت ترین راستے کو انتخاب کیا ہے ... اس کے بعد خدا نے ایک فرشتہ‌ نازل فرمایا جس نے اپنا پاؤوں زمین پر مارا تو وہاں سے پانی بہنا شروع ہوا جس سے حضرت ایوب کو [[غسل]] دیا گیا جس سے ان کے جسم میں موجود تمام زخم ٹھیک ہو گئے۔<ref> قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۲۳۹-۲۴۲؛ مجلسی، حیاۃ القلوب، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۵۵۹-۵۶۵۔</ref>
 
[[علامہ طباطبایی]] اس حدیث کو [[اہل‌ بیتؑ]] سے منقول دوسری احادیث کے منافی قرار دیتے ہیں؛<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۴-۲۱۷۔</ref> [[امام محمد باقر علیہ‌السلام|امام محمد باقرؑ]] سے منقول ہے کہ حضرت ایوب کے بدن پر نہ کوئی زخم ایجاد ہوا تھا اور نہ کوئی کیڑے پیدا ہوئے تھے اسی طرح ان کے چہرے پر بھی کسی قسم کا کوئی عیب پیدا نہیں ہوا تھا؛ بلکہ لوگوں کے حضرت ایوب سے دور ہونے کی وجہ فقر و تتگدستی اور ظاہری کمزوری تھی؛ چونکہ لوگ خدا کے نزدیک ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ ­نہیں تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ آپ بہت جلد شفا پائیں گے۔<ref> صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۳۹۹-۴۰۰۔</ref> اسی طرح مذکور حدیث ان احادیث کے ساتھ بھی منافات رکھتی ہے جن کی بنا پر حضرت ایوب سمیت خدا کے دوسرے تمام انبیاء [[معصوم]] ہیں؛<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۴-۲۱۷۔</ref> کیونکہ [[عصمت]] کے مراتب میں سے ایک یہ ہے کہ انیباء میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو لوگوں کی ان سے دوری کا سبب بنے؛ کیونکہ لوگوں کا انبیاء سے دور ہونا [[بعثت]] کے اہداف کے ساتھ منافات رکھتا ہے۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض‌الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۳، ص۲۱۳؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، مؤسسۃ الامام الصادق، ص۱۱۴۔</ref>


[[علامہ طباطبایی]] اس حدیث کو [[اہل‌ بیتؑ]] سے منقول دوسری احادیث کے منافی قرار دیتے ہیں؛<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۴-۲۱۷۔</ref> [[امام محمد باقر علیہ‌السلام|امام محمد باقرؑ]] سے منقول ہے کہ حضرت ایوب کے بدن پر نہ کوئی زخم ایجاد ہوا تھا اور نہ کوئی کیڑے پیدا ہوئے تھے اسی طرح ان کے چہرے پر بھی کسی قسم کی کوئی عیب پیدا نہیں ہوا تھا؛ بلکہ لوگوں کا حضرت ایوب سے دور ہونے کی وجہ فقر و تتگدستی اور ظاہری کمزوری تھی؛ چونکہ لوگ خدا کے نزدیک ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ ­نہیں تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ آپ بہت جلد شفا پائیں گے۔<ref> صدوق، الخصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۳۹۹-۴۰۰۔</ref> اسی طرح مذکور حدیث ان احادیث کے ساتھ بھی منافات رکھتا ہے جن کی بنا پر حضرت ایوب سمیت خدا کے دوسرے تمام انبیاء [[معصوم]] ہیں؛<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۷، ص۲۱۴-۲۱۷۔</ref> کیونکہ [[عصمت]] کے مراتب میں سے ایک یہ ہے کہ انیباء میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جو لوگوں کی ان سے دوری کا سبب بنے؛ کیونکہ لوگوں کا انبیاء سے دور ہونا [[بعثت]] کے اہداف کے ساتھ منافات رکھتے ہیں۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض‌الجنان، ۱۴۰۸ق، ج۱۳، ص۲۱۳؛ سبحانی، منشور عقاید امامیہ، مؤسسۃ الامام الصادق، ص۱۱۴۔</ref>
=== کتاب مقدس میں حضرت ایوب کا تذکرہ===
=== کتاب مقدس میں حضرت ایوب کا تذکرہ===
عہد عتیق کی 39 کتابوں میں سے ایک کتاب ایوب ہے۔ اس کتاب میں خدا کی طرف سے حضرت ایوب کو عطا کی گئی نعمات،<ref>کتاب مقدس، ایوب، ۱:۱-۶</ref> ان سے امتحان لئے جانے کی داستان، شیطان کا ان کے بدن اور مال دو دولت پر مسلط ہونا<ref>کتاب مقدس، ایوب، ۱-۲۔</ref> اور بعض جوانوں کا حضرت ایوب سے خطا سرزند کا اعتراف لینے کی کوشش<ref>کتاب مقدس، ایوب، ۳-۲۷۔‌</ref> وغیره سے بحث ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عہد عتیق میں قرآن کے برخلاف حضرت ایوب کو ایک بے صبر اور ناشکر انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔<ref> کلباسی، «نقد و بررسی آرای مفسران در تفسیر آیہ ۴۴ سورہ ص و تازیانہ‌زدن ایوب بہ ہمسرش»، ص۱۲۰۔</ref> اسی طرح کتاب مقدس حضرت ایوب کی قسم کی داستان ذکر نہیں ہوئی ہے۔<ref> کلباسی، «نقد و بررسی آرای مفسران در تفسیر آیہ ۴۴ سورہ ص و تازیانہ‌زدن ایوب بہ ہمسرش»، ص۱۲۰۔</ref>
عہد عتیق کی 39 کتابوں میں سے ایک کتاب ایوب ہے۔ اس کتاب میں خدا کی طرف سے حضرت ایوب کو عطا کی گئی نعمات،<ref>کتاب مقدس، ایوب، ۱:۱-۶</ref> ان سے امتحان لئے جانے کی داستان، شیطان کا ان کے بدن اور مال دو دولت پر مسلط ہونا<ref>کتاب مقدس، ایوب، ۱-۲۔</ref> اور بعض جوانوں کا حضرت ایوب سے خطا سرزند کا اعتراف لینے کی کوشش<ref>کتاب مقدس، ایوب، ۳-۲۷۔‌</ref> وغیره سے بحث ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عہد عتیق میں قرآن کے برخلاف حضرت ایوب کو ایک بے صبر اور ناشکر انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔<ref> کلباسی، «نقد و بررسی آرای مفسران در تفسیر آیہ ۴۴ سورہ ص و تازیانہ‌زدن ایوب بہ ہمسرش»، ص۱۲۰۔</ref> اسی طرح کتاب مقدس حضرت ایوب کی قسم کی داستان ذکر نہیں ہوئی ہے۔<ref> کلباسی، «نقد و بررسی آرای مفسران در تفسیر آیہ ۴۴ سورہ ص و تازیانہ‌زدن ایوب بہ ہمسرش»، ص۱۲۰۔</ref>
گمنام صارف