مندرجات کا رخ کریں

"ابراہیم بن ادہم" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 49: سطر 49:
مختلف تاریخی منابع میں ابراہیم ادہم کی تاریخ وفات مختلف ہے اس بنا پر [[سنہ ۱۶۰ ہجری قمری|۱۶۰ھ]]<ref>خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔</ref> [[سنہ ۱۶۱ ہجری قمری|۱۶۱ھ]]<ref>سلمی، طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵؛ ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۹؛ روزبہان ثانی، تحفۃ أہل العرفان، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۔</ref>، [[سنہ ۱۶۲ ہجری قمری|۱۶۲ھ]]<ref>ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۲۸۲؛ پیرجمال اردستانی، مرآت الأفراد، ۱۳۷۱ش، ص۳۳۲۔</ref>، یا [[سنہ ۱۶۶ ہجری قمری|۱۶۶ھ]]<ref>خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔</ref> کو ان کی تاریخ وفات کے طور پر ذکر کئے ہیں۔  آپ طبیعی موت وفات پا گئے؛<ref> خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷ بہ نقل از تذکرہ الاولیا</ref> اگرچہ بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ آپ رومیوں کے ساتھ لڑی گئی کسی غزوہ یا جنگ میں<ref> روزبہان ثانی، تحفۃ أہل العرفان، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۔</ref> [[روم]] کے شہر "سوقین" میں مارا گیا۔<ref>زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس،۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۲۳۲؛ خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔</ref> ان کے محل دفن کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور [[شام]] کے ساحلی شہر منطقہ [[صور]] ان میں سے ایک ہے۔<ref>ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۹؛ مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کریں: زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۳۱۔</ref>
مختلف تاریخی منابع میں ابراہیم ادہم کی تاریخ وفات مختلف ہے اس بنا پر [[سنہ ۱۶۰ ہجری قمری|۱۶۰ھ]]<ref>خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔</ref> [[سنہ ۱۶۱ ہجری قمری|۱۶۱ھ]]<ref>سلمی، طبقات الصوفیۃ، ۱۴۲۴ق، ص۱۵؛ ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۹؛ روزبہان ثانی، تحفۃ أہل العرفان، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۔</ref>، [[سنہ ۱۶۲ ہجری قمری|۱۶۲ھ]]<ref>ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۲۸۲؛ پیرجمال اردستانی، مرآت الأفراد، ۱۳۷۱ش، ص۳۳۲۔</ref>، یا [[سنہ ۱۶۶ ہجری قمری|۱۶۶ھ]]<ref>خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔</ref> کو ان کی تاریخ وفات کے طور پر ذکر کئے ہیں۔  آپ طبیعی موت وفات پا گئے؛<ref> خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷ بہ نقل از تذکرہ الاولیا</ref> اگرچہ بعض مورخین اس بات کے معتقد ہیں کہ آپ رومیوں کے ساتھ لڑی گئی کسی غزوہ یا جنگ میں<ref> روزبہان ثانی، تحفۃ أہل العرفان، ۱۳۸۲ش، ص۲۱۔</ref> [[روم]] کے شہر "سوقین" میں مارا گیا۔<ref>زبیدی، تاج العروس من جواہر القاموس،۱۴۱۴ق، ج۱۳، ص۲۳۲؛ خوارزمی، ینبوع الأسرار، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۳۷۷۔</ref> ان کے محل دفن کے بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور [[شام]] کے ساحلی شہر منطقہ [[صور]] ان میں سے ایک ہے۔<ref>ابن الملقن، طبقات الأولیاء، ۱۴۲۷ق، ص۳۹؛ مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کریں: زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹م، ج۱، ص۳۱۔</ref>
==مقام و منزلت==
==مقام و منزلت==
ابراهیم ادهم در کنار [[حسن بصری]] (درگذشته ۱۱۰ق)، مالک دینار، [[رابعه عدویه]]، [[شقیق بلخی]] و [[معروف کرخی]] (درگذشته ۲۰۰ق) از طبقه نخستین عرفان و تصوف در [[اسلام]] بوده است.<ref>احمدپور، کتاب‌شناخت اخلاق اسلامی، گزارش تحلیلی میراث مکاتب اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۳۷.</ref> {{یادداشت|هرچند برخی معتقدند که برخی از اصحاب امام علی(ع) چون سلمان فارسی، اویس قرنی، کمیل بن زیاد، رشید هجری و میثم تمار، جز طبقه اول عارفان هستند که عامه عرفا ایشان را پس از امام علی(ع) در راس سلسله‌های خود قرار داده‌اند؛(طباطبایی، شیعه در اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۱۱۰.)}} برخی معتقدند که نام [[صوفی]] در زمان ابراهیم ادهم رواج یافت.<ref>احمدپور، کتاب‌شناخت اخلاق اسلامی، گزارش تحلیلی میراث مکاتب اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۳۷</ref>
ابراہیم ادہم [[حسن بصری]] (متوفی ۱۱۰ھ)، مالک دینار، [[رابعہ عدویہ]]، [[شقیق بلخی]] اور [[معروف کرخی]] (متوفی ۲۰۰ھ) کے ساتھ [[اسلام|اسلامی]] عرفان و تصوف کے پہلے طبقے میں شامل ہیں۔<ref>احمدپور، کتاب‌شناخت اخلاق اسلامی، گزارش تحلیلی میراث مکاتب اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۳۷۔</ref> {{نوٹ|اگرچہ بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ امام علیؑ کے بعض اصحاب جیسے سلمان فارسی، اویس قرنی، کمیل بن زیاد، رشید ہجری اور میثم تمار عرفان و تصوف کے پہلے طبقے میں ہیں اور عرفاء نے امام علیؑ کے بعد ان کی پیروی کی ہیں؛(طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۱۱۰۔)}} بعض معتقد ہیں کہ [[صوفی]] کا نام ہی ابراہیم ادہم کے زمانے سے رائج ہوا۔<ref>احمدپور، کتاب‌شناخت اخلاق اسلامی، گزارش تحلیلی میراث مکاتب اخلاق اسلامی، ۱۳۸۵ش، ص۳۷</ref>


صوفیان بلخ، از جمله ابراهیم ادهم، تحت تأثیر مکتب [[بصره]]، ویژگی‌هایی از قبیل مبالغه در [[زهد]]، [[عبادت]]، خوف و التزام به [[فقیر|فقر]] داشته‌اند.<ref>سلمی، مجموعة آثار أبوعبد الرحمن سلمی، ۱۳۶۹ش، ج۲، ص۳۵۸.</ref> ابراهیم ادهم همچنین تحت‌تأثیر چهره‌های برجسته تصوف از جمله حسن بصری و [[سفیان ثوری]] هم بوده است.<ref>کانون نشر و ترویج فرهنگ اسلامی حسنات اصفهان، سیری در سپهر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷.</ref> در عین حال، تصوف [[شام]]، تأثیر بسیاری از ابراهیم ادهم گرفته<ref>کانون نشر و ترویج فرهنگ اسلامی حسنات اصفهان، سیری در سپهر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷.</ref> و تحول زهد و عبادت‌ورزی و نیز ایجاد ریاضت‌های صوفیانه، نتیجه تأثیرات او قلمداد شده است.<ref>کانون نشر و ترویج فرهنگ اسلامی حسنات اصفهان، سیری در سپهر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷.</ref>
بلخ کے صوفی من جملہ ابراہیم ادہم مکتب [[بصرہ]] سے متأثر تھے اس بنا پر [[زہد]]، [[عبادت]]، خوف اور [[فقیر|فقر]] میں بہت زیادہ شدت اختیار کرتے تھے۔<ref>سلمی، مجموعۃ آثار أبوعبد الرحمن سلمی، ۱۳۶۹ش، ج۲، ص۳۵۸۔</ref> ابراہیم ادہم اسی طرح تصوف و عرفان کے چیدہ اشخاص من جملہ حسن بصری اور [[سفیان ثوری]] سے بھی متأثر تھے۔<ref>کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷۔</ref> لیکن [[شام]] کا مکتب تصوف کافی حد تک خود ابراہیم ادہم سے متأثر تھے<ref>کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷۔</ref> اور زہد اور عبادت‌ نیز صوفیانہ ریاضتوں میں ابراہیم ادہم سے متأثر تھے۔<ref>کانون نشر و ترویج فرہنگ اسلامی حسنات اصفہان، سیری در سپہر اخلاق، ۱۳۸۹ش، ج۱، ص۱۰۷۔</ref>


ابراهیم ادهم، از جمله [[محدثین]] به شمار آمده<ref>دائره المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، ذیل واژه ابراهیم ادهم، ص۴۰۵</ref> و در کتب رجالی اهل سنت، بسیار مدح شده و از اصحاب [[ابوحنیفه]] و [[سفیان ثوری]] دانسته شده است.<ref>شیروانی، ریاض السیاحة، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۲.</ref> ابوحنیفه، امام مذهب [[حنفیان|حنفی]] در [[اهل سنت]]<ref>عطار نیشابوری، تذکره الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۶.</ref> و [[جنید بغدادی]]، از او با القابی احترام‌آمیز یاد کرده‌اند؛<ref>عطار نیشابوری، تذکره الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۵.</ref> به طوری که این القاب در شعر [[عارفان]] نیز بازتاب داشته است.<ref>اسیری لاهیجی، أسرار الشهود فی معرفه الحق المعبود، بی‌تا، ص۱۸۲.</ref> به گفته زین العابدین شیروانی (۱۱۹۴-۱۲۵۳ق)، نویسنده و شاعر صوفی، نامی از ابراهیم ادهم در کتب رجالی متقدم [[شیعه]] ذکر نشده است.<ref>شیروانی، ریاض السیاحه، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۱.</ref> سید محسن اعرجی کاظمی (۱۱۳۰-۱۲۲۷ق)، فقیه [[شیعه]]، ابراهیم ادهم را در کنار [[کمیل بن زیاد]]، [[بشر بن حارث مروزی]] و [[بایزید بسطامی]]، از رجال شیعی [[صوفی]] دانسته است.<ref>اعرجی کاظمی، عدة الرجال، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۶۰.</ref>
ابراہیم ادہم من جملہ [[محدثین]] میں بھی شمار ہوتے ہیں<ref>دائرہ المعارف بزرگ اسلامی، ج۱، ذیل واژہ ابراہیم ادہم، ص۴۰۵</ref> اور [[اہل سنت]]  کتب رجال میں ان کی بہت زیادہ مدح کی گئی ہے اور انہیں [[ابوحنیفہ]] اور [[سفیان ثوری]] کے اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔<ref>شیروانی، ریاض السیاحۃ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۲۔</ref> مذہب [[حنفی|حنفیہ]] کے امام ابوحنیفہ <ref>عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۶۔</ref> اور [[جنید بغدادی]] انہیں نہایت قابل احترام القاب کے ساتھ یاد کرتے ہیں؛<ref>عطار نیشابوری، تذکرہ الأولیاء، ۱۹۰۵م، ص۸۵۔</ref> یہاں تک کہ یہ یالقاب عرفانی اشعار میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔<ref>اسیری لاہیجی، أسرار الشہود فی معرفہ الحق المعبود، بی‌تا، ص۱۸۲۔</ref> صوفی شاعر اور قلم کار زین العابدین شیروانی (۱۱۹۴-۱۲۵۳ھ) کے مطابق متقدم [[شیعہ]] کتب رجال میں ابراہیم ادہم کا نام ذکر نہیں ہوا ہے۔<ref>شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۱۱۔</ref> شیعہ فقیہ سید محسن اعرجی کاظمی (۱۱۳۰-۱۲۲۷ھ) ابراہیم ادہم کو [[کمیل بن زیاد]]، [[بشر بن حارث مروزی]] اور [[بایزید بسطامی]] کے ساتھ شیعہ [[صوفی|صوفیوں]] میں سے قرار دیتے ہیں۔<ref>اعرجی کاظمی، عدۃ الرجال، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۶۰۔</ref>


وی سرسلسله برخی از طریقت‌های صوفی دانسته شده است؛<ref>شیروانی، ریاض السیاحه، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۷؛ میرزا شیرازی، مناهج أنوار المعرفة فی شرح مصباح الشریعة، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵.</ref> بر این اساس، طریقت [[ادهمیه]]<ref>گولپینارلی، مولانا جلال الدین، ۱۳۶۳ش، ص۲۴۶؛ مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ۱۳۷۲ش، ص۳۰۹.</ref> و [[نقشبندیه]]، خود را به واسطه ابراهیم ادهم متصل به [[امام سجاد علیه‌السلام|امام سجاد(ع)]] می‌دانند.<ref>میرزا شیرازی، مناهج أنوار المعرفة فی شرح مصباح الشریعة، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵.</ref> {{یادداشت|برخی نیز معتقدند رشته انتساب ابراهیم ادهم در طریقت از جانب فضیل عیاض و او از جانب عبدالواحد بن زید و او از جانب کمیل بن زیاد و او از امیرالمومنین(ع) است.(شیروانی، ریاض السیاحه، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸.) سلسله چشتیه این سلسله را پذیرفته‌اند؛(شیروانی، ریاض السیاحه، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۴۰.) هرچند برخی معتقدند که ادهمیه و چشتیه به واسطه ابراهیم ادهم به امام باقر(ع) متصل می‌شوند(شیروانی، ریاض السیاحة، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸؛ شیروانی، بستان السیاحه، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۷.) و همچنین سلسله حسینیه نیز به واسطه ابراهیم ادهم به امام باقر(ع) می‌رسند.( شیروانی، بستان السیاحه، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۶.)}}
آپ کو بعض صوفی طریقت کے سربراہ مانے جاتے ہیں؛<ref>شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۷؛ میرزا شیرازی، مناہج أنوار المعرفۃ فی شرح مصباح الشریعۃ، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵۔</ref> اس بنا پر طریقت [[ادہمیہ]]<ref>گولپینارلی، مولانا جلال الدین، ۱۳۶۳ش، ص۲۴۶؛ مشکور، فرہنگ فرق اسلامی، ۱۳۷۲ش، ص۳۰۹۔</ref> اور [[نقشبندیہ]] خود کو ابراہیم ادہم کے توسط سے [[امام سجاد علیہ‌السلام|امام سجادؑ]] سے متصل قرار دیتے ہیں۔<ref>میرزا شیرازی، مناہج أنوار المعرفۃ فی شرح مصباح الشریعۃ، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۶۴۵۔</ref> {{نوٹ|بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ ابراہیم ادہم طریقت میں فضیل عیاض کے توسط سے اور وہ عبدالواحد بن زید کے توسط سے اور وہ کمیل بن زیاد کے توسط سے امیرالمومنینؑ سے متصل ہیں۔(شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸۔) سلسلہ چشتیہ اس سلسلہ کو مانتے ہیں؛(شیروانی، ریاض السیاحہ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۴۰۔) اگرچہ بعض معتقد ہیں کہ ادہمیہ اور چشتیہ ابراہیم ادہم کے توسط سے امام باقرؑ سے متصل ہیں(شیروانی، ریاض السیاحۃ، ۱۳۶۱ش، ج۱، ص۳۸؛ شیروانی، بستان السیاحہ، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۷۔) اسی طرح سلسلہ حسینیہ بھی ابراہیم ادہم کے توسط سے امام باقرؑ تک پہنچتے ہیں۔( شیروانی، بستان السیاحہ، ۱۳۱۵ش، ص۳۴۶۔)}}


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، templateeditor
8,601

ترامیم