مندرجات کا رخ کریں

"ابوذر غفاری" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 26: سطر 26:
| تالیفات        =
| تالیفات        =
}}
}}
'''جُنْدَب بْن جُنادَه غفاری''' (متوفی 32 ھ)، '''ابوذر غفاری''' کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا شمار [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرم]] ؐ کے ان بزرگ صحابیوں، اور [[امام علی علیہ السلام|امام علی]]ؑکے ان اصحاب میں سے ہوتا ہے جن کے بارے میں [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] دونوں فرقوں کے علماء بہت سارے صفات و فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں۔ علمائے علم رجال انہیں ارکان اربعہ [[شیعہ]] میں شمار کرتے ہیں۔ تیسرے خلیفہ [[عثمان]] کی کارکردگی پر معترض ہونے کی وجہ سے آپ شام جلا وطن ہوئے اور پھر وہاں سے [[ربذہ]] بھیجا گیا اور وہیں پر ہی دنیا سے چل بسے۔
'''جُنْدَب بْن جُنادَہ غفاری''' (متوفی 32 ھ)، '''ابوذر غفاری''' کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کا شمار [[محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرم]] ؐ کے ان بزرگ صحابیوں، اور [[امام علی علیہ السلام|امام علی]]ؑکے ان اصحاب میں سے ہوتا ہے جن کے بارے میں [[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] دونوں فرقوں کے علماء بہت سارے صفات و فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں۔ علمائے علم رجال انہیں ارکان اربعہ [[شیعہ]] میں شمار کرتے ہیں۔ تیسرے خلیفہ [[عثمان]] کی کارکردگی پر معترض ہونے کی وجہ سے آپ شام جلا وطن ہوئے اور پھر وہاں سے [[ربذہ]] بھیجا گیا اور وہیں پر ہی دنیا سے چل بسے۔


{{Quote box
{{Quote box
سطر 52: سطر 52:
ابوذر غفاری [[اسلام]] کے آنے سے بیس سال پہلے متولد ہوئے۔<ref>امین عاملی، اعیان الشیعة، دار التعارف، ج۴، ص۲۲۵</ref> آپ کے والد [[جنادہ]] غفار کے فرزند تھے جبکہ آپ کی والدہ [[رملہ بنت الوقیعہ]] کا تعلق بنی غفار بن ملیل خاندان سے تھا۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج ۱، ص ۲۵۲۔ </ref>آپ کے والد کے لئے یزید، عشرقہ، عبداللہ اور سکن جیسے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔<ref>ابن حبان، مشاہیر علماء الامصار، ص ۳۰۔ الثقات، ج ۳، ص ۵۵۔ تقریب التہذیب، ج ۲، ص ۳۹۵۔</ref>
ابوذر غفاری [[اسلام]] کے آنے سے بیس سال پہلے متولد ہوئے۔<ref>امین عاملی، اعیان الشیعة، دار التعارف، ج۴، ص۲۲۵</ref> آپ کے والد [[جنادہ]] غفار کے فرزند تھے جبکہ آپ کی والدہ [[رملہ بنت الوقیعہ]] کا تعلق بنی غفار بن ملیل خاندان سے تھا۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج ۱، ص ۲۵۲۔ </ref>آپ کے والد کے لئے یزید، عشرقہ، عبداللہ اور سکن جیسے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔<ref>ابن حبان، مشاہیر علماء الامصار، ص ۳۰۔ الثقات، ج ۳، ص ۵۵۔ تقریب التہذیب، ج ۲، ص ۳۹۵۔</ref>


علماء علم رجال اور صحابہ کے بارے میں لکھنے والے مورخین نے کہا ہے کہ ابوذر لمبے قد، گندمی رنگ، نحیف جسم،<ref>عسقلانی، الاصابہ، ج ۷، ص ۱۰۷۔ </ref>سفید بال اور داڑھی،<ref>ابن سعد، طبقات کبری، ج۴، ص ۲۳۔</ref> اور بعض کے مطابق صحت مند جسم کے مالک تھے۔<ref>ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ھ، ج ۲، ص ۴۷۔ </ref>
علماء علم رجال اور صحابہ کے بارے میں لکھنے والے مورخین نے کہا ہے کہ ابوذر لمبے قد، گندمی رنگ، نحیف جسم،<ref>عسقلانی، الاصابہ، ج ۷، ص ۱۰۷۔ </ref>سفید بال اور داڑھی،<ref>ابن سعد، طبقات کبری، ج۴، ص ۲۳۔</ref> اور بعض کے مطابق صحت مند جسم کے مالک تھے۔<ref>ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ھ، ج ۲، ص ۴۷۔ </ref>
{{نقل قول
{{نقل قول
  |عنوان= پیغمبر اکرمؐ کا فرمان ہے
  |عنوان= پیغمبر اکرمؐ کا فرمان ہے
سطر 74: سطر 74:


===نام اور القاب===
===نام اور القاب===
آپ کے اصلی نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور تاریخی کتابوں میں ان کے مختلف نام ذکر ہوئے ہیں جیسے کہ «بدر بن‌ جندب»، «بریر بن‌ عبدالله»، «بریر بن جنادہ»، «بریرہ بن‌ عشرقہ»، «جندب بن‌ عبدالله»، «جندب بن‌ سکن» اور «یزید بن‌ جنادہ»۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابة، دار الکتاب العربی، ج۵، ص۱۸۶؛ مزی، تهذیب الکمال، ۱۴۰۶ق، ج۳۳، ص۲۹۴؛ ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۹؛ امین عاملی، اعیان الشیعة، دار التعارف، ج۴، ص۲۲۵.</ref> لیکن الاستیعاب میں جندب بن جنادہ زیادہ رائج اور صحیح قرار دیا گیا ہے۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۶۵۲.</ref>
آپ کے اصلی نام کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے اور تاریخی کتابوں میں ان کے مختلف نام ذکر ہوئے ہیں جیسے کہ «بدر بن‌ جندب»، «بریر بن‌ عبداللہ»، «بریر بن جنادہ»، «بریرہ بن‌ عشرقہ»، «جندب بن‌ عبداللہ»، «جندب بن‌ سکن» اور «یزید بن‌ جنادہ»۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابة، دار الکتاب العربی، ج۵، ص۱۸۶؛ مزی، تہذیب الکمال، ۱۴۰۶ق، ج۳۳، ص۲۹۴؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۴۹؛ امین عاملی، اعیان الشیعة، دار التعارف، ج۴، ص۲۲۵.</ref> لیکن الاستیعاب میں جندب بن جنادہ زیادہ رائج اور صحیح قرار دیا گیا ہے۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۶۵۲.</ref>
===زوجہ اور اولاد===
===زوجہ اور اولاد===
جو کچھ منابع میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق آپ کا "ذر" نامی ایک بیٹا تھا اور اسی وجہ سے آپ کی کنیت ابوذر بن گئی اور اسی کنیت سے اکثر و بیشتر پہچانے جاتے ہیں۔{{حوالہ درکار}}[[کلینی]] باب وفات ذَر میں ایک روایت بھی بیان کرتے ہیں۔<ref>کافی، ج ۳، ص ۲۵۔</ref> آپ کی زوجہ کو بھی «ام ذر» کہا گیا ہے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ھ، ج ۱۵، ص ۹۹۔ </ref>
جو کچھ منابع میں ذکر ہوا ہے اس کے مطابق آپ کا "ذر" نامی ایک بیٹا تھا اور اسی وجہ سے آپ کی کنیت ابوذر بن گئی اور اسی کنیت سے اکثر و بیشتر پہچانے جاتے ہیں۔{{حوالہ درکار}}[[کلینی]] باب وفات ذَر میں ایک روایت بھی بیان کرتے ہیں۔<ref>کافی، ج ۳، ص ۲۵۔</ref> آپ کی زوجہ کو بھی «ام ذر» کہا گیا ہے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ھ، ج ۱۵، ص ۹۹۔ </ref>


==اسلام قبول کرنا==
==اسلام قبول کرنا==
ابوذر سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں۔<ref>ذهبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۴۰۶؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج ۱، ص ۲۵۲.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ ابوذر [[اسلام]] سے پہلے بھی ایک خدا کو مانتے تھے اور [[رسول اللہ|حضرت پیغمبر]] (ص) کی [[بعثت]] سے تین سال پہلے بھی خدا کی عبادت کرتے تھے۔<ref>شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۹ق، ج ۱۱، ص ۳۲۲.</ref> ابن حبیب بغدادی کہتا ہے کہ ابوذر جاہلیت کے زمانے میں بھی [[شراب]] اور ازلام کو حرام سمجھتے تھے۔<ref>بغدادی، المُحبَّر، ۱۳۶۱ھ، ص۲۳۷.</ref> اور اسلام کے ظہور کے بعد رسول اکرمؐ پر سب سے پہلے [[ایمان]] لانے والوں میں سے تھے۔ روایت ہے کہ ابوذر نے کہا کہ میں اسلام لانے والوں میں سے چوتھی فرد تھا۔ میں [[حضرت پیغمبر(ص)]] کے پاس گیا کہا: آپ پر سلام ہو اے اللہ کے رسول؛اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی اللہ نہیں ہے اور محمد اس کا بندہ اور بھیجا ہوا پیغمبر ہے۔ پھر آپ (ص) کے چہرے پر خوشی اور مسرت دیکھی تھی۔<ref>ابن حبان، الصحیح، ۱۴۱۴ق، ج۱۶، ص۸۳.</ref>
ابوذر سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں سے ہیں۔<ref>ذہبی، تاریخ الاسلام، ۱۴۰۷ق، ج ۳، ص ۴۰۶؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج ۱، ص ۲۵۲.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ ابوذر [[اسلام]] سے پہلے بھی ایک خدا کو مانتے تھے اور [[رسول اللہ|حضرت پیغمبر]]ؐ کی [[بعثت]] سے تین سال پہلے بھی خدا کی عبادت کرتے تھے۔<ref>شوشتری، قاموس الرجال، ۱۴۱۹ق، ج ۱۱، ص ۳۲۲.</ref> ابن حبیب بغدادی کہتا ہے کہ ابوذر جاہلیت کے زمانے میں بھی [[شراب]] اور ازلام کو حرام سمجھتے تھے۔<ref>بغدادی، المُحبَّر، ۱۳۶۱ھ، ص۲۳۷.</ref> اور اسلام کے ظہور کے بعد رسول اکرمؐ پر سب سے پہلے [[ایمان]] لانے والوں میں سے تھے۔ روایت ہے کہ ابوذر نے کہا کہ میں اسلام لانے والوں میں سے چوتھی فرد تھا۔ میں [[حضرت پیغمبر(ص)]] کے پاس گیا کہا: آپ پر سلام ہو اے اللہ کے رسول؛اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی اللہ نہیں ہے اور محمد اس کا بندہ اور بھیجا ہوا پیغمبر ہے۔ پھر آپؐ کے چہرے پر خوشی اور مسرت دیکھی تھی۔<ref>ابن حبان، الصحیح، ۱۴۱۴ق، ج۱۶، ص۸۳.</ref>


[[ابن عباس]] نے ابوذر کے اسلام لانے کے بارے میں یوں [[روایت]] کی ہے کہ جب ابوذر کو مکہ میں حضرت پیغمبر (ص) کی بعثت کی خبر ملی، تو آپ نے اپنے بھائی انیس سے کہا کہ اس سر زمین پر جاؤ اور مجھے اس مرد کے علم کے بارے میں خبر لے آو جس کا دعوی ہے کہ اسے آسمان سے خبریں آتی ہیں، ان کی باتوں کو سن کر میرے پاس واپس آجاو۔ اس کا بھائی [[مکہ]] پہنچا، اور [[رسول اللہ|حضرت پیغمبر]] (ص) کی باتوں کو سن کر واپس ابوذر کے پاس پہنچا۔ پھر ابوذر مکہ گئے اور حضرت پیغمبر (ص) کی تلاش میں نکلے۔ ابوذر کہتے ہیں: جب صبح ہوئی تو میں امام علی (ع) کے ہمراہ حضرت پیغمبر (ص) کے گھر گیا<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۶۵۴.</ref> اور اسلامی رسم کے مطابق کہا: آپ پر سلام ہو اے رسول خداؐ اور میں پہلا فرد تھا جو آپؐ پر اس طرح سلام بھیجتا تھا ۔۔۔ اور پھر رسول خداؐ نے مجھے اسلام کی پیشکش دی اور میں نے [[شہادتین]] اپنی زبان پر جاری کیا۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ح ۴، ص ۱۶۵۴۔ </ref>
[[ابن عباس]] نے ابوذر کے اسلام لانے کے بارے میں یوں [[روایت]] کی ہے کہ جب ابوذر کو مکہ میں حضرت پیغمبرؐ کی بعثت کی خبر ملی، تو آپ نے اپنے بھائی انیس سے کہا کہ اس سر زمین پر جاؤ اور مجھے اس مرد کے علم کے بارے میں خبر لے آو جس کا دعوی ہے کہ اسے آسمان سے خبریں آتی ہیں، ان کی باتوں کو سن کر میرے پاس واپس آجاو۔ اس کا بھائی [[مکہ]] پہنچا، اور [[رسول اللہ|حضرت پیغمبر]]ؐ کی باتوں کو سن کر واپس ابوذر کے پاس پہنچا۔ پھر ابوذر مکہ گئے اور حضرت پیغمبرؐ کی تلاش میں نکلے۔ ابوذر کہتے ہیں: جب صبح ہوئی تو میں امام علی (ع) کے ہمراہ حضرت پیغمبرؐ کے گھر گیا<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۶۵۴.</ref> اور اسلامی رسم کے مطابق کہا: آپ پر سلام ہو اے رسول خداؐ اور میں پہلا فرد تھا جو آپؐ پر اس طرح سلام بھیجتا تھا ۔۔۔ اور پھر رسول خداؐ نے مجھے اسلام کی پیشکش دی اور میں نے [[شہادتین]] اپنی زبان پر جاری کیا۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ح ۴، ص ۱۶۵۴۔ </ref>
ابوذر کے اسلام لانے کا ماجرا [[شیعہ]] کتابوں میں کسی اور طریقے سے بیان ہوا ہے اور کلینی نے ابوذر کا اسلام لانے کے ماجرا کو امام صادق (ع) سے منقول ایک روایت میں بیان کیا ہے۔<ref>کلینی، کافی، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۲۹۷ و ۲۹۸.</ref>
ابوذر کے اسلام لانے کا ماجرا [[شیعہ]] کتابوں میں کسی اور طریقے سے بیان ہوا ہے اور کلینی نے ابوذر کا اسلام لانے کے ماجرا کو امام صادق (ع) سے منقول ایک روایت میں بیان کیا ہے۔<ref>کلینی، کافی، ۱۳۶۳ش، ج۸، ص۲۹۷ و ۲۹۸.</ref>


سطر 89: سطر 89:
[[امام محمد باقرؑ]] فرماتے ہیں: [[رسول اللہ|رسول خداؐ]] کے بعد سب لوگ امام علیؑ کو چھوڑ گئے اور آپ کا انکار کیا سوائے تین لوگوں کے، سلمان، ابوذر اور مقداد۔ عمار نے بھی آپؑ کو چھوڑا لیکن دوبارہ آپؑ کی جانب واپس پلٹ آئے۔<ref>مفید، الاختصاص، ۱۴۱۴ق، ص۱۰.</ref>
[[امام محمد باقرؑ]] فرماتے ہیں: [[رسول اللہ|رسول خداؐ]] کے بعد سب لوگ امام علیؑ کو چھوڑ گئے اور آپ کا انکار کیا سوائے تین لوگوں کے، سلمان، ابوذر اور مقداد۔ عمار نے بھی آپؑ کو چھوڑا لیکن دوبارہ آپؑ کی جانب واپس پلٹ آئے۔<ref>مفید، الاختصاص، ۱۴۱۴ق، ص۱۰.</ref>
[[امام جعفر صادقؑ]] نے ابوذر کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ ابوذر کی بیشتر عبادت غور و فکر تھی ۔۔۔ خدا کے خوف سے اس قدر روئے کہ آنکھیں زخمی ہو گئیں۔<ref>صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۰ و ۴۲.</ref> امام جعفر صادقؑ نے ایک اور روایت میں فرمایا ہے کہ ابوذر کہتے ہیں کہ مجھے تین ایسی چیزیں ملیں جنہیں لوگ ناپسند کرتے ہیں، میں ان کو پسند کرتا ہوں، موت، غربت، بیماری۔ امامؑ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ابوذر کا مطلب یہ ہے کہ موت خدا کی اطاعت میں اس زندگی سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو اور بیماری خدا کی اطاعت میں اس صحت سے بہتر ہے جس میں خدا کی نافرمانی ہو اور غربت خدا کی اطاعت میں اس امیری سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو۔<ref>کلینی، کافی، ج ۸، ص ۲۲۔ </ref>
[[امام جعفر صادقؑ]] نے ابوذر کی عبادت کے بارے میں فرمایا کہ ابوذر کی بیشتر عبادت غور و فکر تھی ۔۔۔ خدا کے خوف سے اس قدر روئے کہ آنکھیں زخمی ہو گئیں۔<ref>صدوق، الخصال، ۱۴۰۳ق، ص۴۰ و ۴۲.</ref> امام جعفر صادقؑ نے ایک اور روایت میں فرمایا ہے کہ ابوذر کہتے ہیں کہ مجھے تین ایسی چیزیں ملیں جنہیں لوگ ناپسند کرتے ہیں، میں ان کو پسند کرتا ہوں، موت، غربت، بیماری۔ امامؑ نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ابوذر کا مطلب یہ ہے کہ موت خدا کی اطاعت میں اس زندگی سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو اور بیماری خدا کی اطاعت میں اس صحت سے بہتر ہے جس میں خدا کی نافرمانی ہو اور غربت خدا کی اطاعت میں اس امیری سے بہتر ہے جس میں خدا کی معصیت ہو۔<ref>کلینی، کافی، ج ۸، ص ۲۲۔ </ref>
شیعہ کتابوں میں، سلمان، مقداد اور عمار کے ساتھ ابوذر غفاری کو اسلام میں موجود چار ارکان میں سے ایک قرار دیا ہے۔<ref>طوسی، رجال طوسی، ۱۴۱۵ق، ص۵۹۸؛ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۴ق، ص۶ و ۷.</ref> [[شیخ مفید]]، [[امام موسی کاظم علیہ السلام]] سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ [[قیامت]] کے دن، ایک ندا آئے گی کہ کہاں ہیں رسول خدا (ص) کے وہ حواری جنہوں نے عہد نہیں توڑا تھا؟ تو اس وقت سلمان، مقداد اور ابوذر اپنی جگہ سے اٹھیں گے۔<ref>مفید، الاختصاص، ص ۶۱۔ </ref>
شیعہ کتابوں میں، سلمان، مقداد اور عمار کے ساتھ ابوذر غفاری کو اسلام میں موجود چار ارکان میں سے ایک قرار دیا ہے۔<ref>طوسی، رجال طوسی، ۱۴۱۵ق، ص۵۹۸؛ مفید، الاختصاص، ۱۴۱۴ق، ص۶ و ۷.</ref> [[شیخ مفید]]، [[امام موسی کاظم علیہ السلام]] سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ [[قیامت]] کے دن، ایک ندا آئے گی کہ کہاں ہیں رسول خداؐ کے وہ حواری جنہوں نے عہد نہیں توڑا تھا؟ تو اس وقت سلمان، مقداد اور ابوذر اپنی جگہ سے اٹھیں گے۔<ref>مفید، الاختصاص، ص ۶۱۔ </ref>


[[آقا بزرگ تہرانی]] نے ابوذر کے حالات زندگی اور فضائل کے بارے میں دو کتابیں، ابو منصور ظفر بن حمدون بادرائی کی کتاب اخبار ابی ذر،<ref>تہرانی، الذریعہ، ج ۱، ص ۳۱۶۔ </ref> اور شیخ صدوق کی کتاب، اخبار ابی ذر الغفاری و فضائلہ<ref>تہرانی، الذریعہ، ج ۱، ص ۳۱۷۔ </ref> کا ذکر کیا ہے۔
[[آقا بزرگ تہرانی]] نے ابوذر کے حالات زندگی اور فضائل کے بارے میں دو کتابیں، ابو منصور ظفر بن حمدون بادرائی کی کتاب اخبار ابی ذر،<ref>تہرانی، الذریعہ، ج ۱، ص ۳۱۶۔ </ref> اور شیخ صدوق کی کتاب، اخبار ابی ذر الغفاری و فضائلہ<ref>تہرانی، الذریعہ، ج ۱، ص ۳۱۷۔ </ref> کا ذکر کیا ہے۔
سطر 95: سطر 95:


[[بحر العلوم]]، ابوذر کو حواریوں میں سے ایک سمجھتے ہیں جو سید المرسلین کی راہ پر چلے، اور اہل بیتؑ کے فضائل بیان کرنے اور ان کے دشمنوں کے عیوب اور نقص بیان کرنے میں بڑے سخت تھے۔<ref>بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۴۹.</ref>
[[بحر العلوم]]، ابوذر کو حواریوں میں سے ایک سمجھتے ہیں جو سید المرسلین کی راہ پر چلے، اور اہل بیتؑ کے فضائل بیان کرنے اور ان کے دشمنوں کے عیوب اور نقص بیان کرنے میں بڑے سخت تھے۔<ref>بحرالعلوم، الفوائد الرجالیہ، ۱۳۶۳ش، ج۲، ص۴۹.</ref>
ابو نعیم اصفہانی کہتا ہے: ابوذر نے حضرت پیغمبر (ص) کی خدمت کی اور اصول سیکھے اور باقی سب کچھ ترک کیا۔ ابوذر نے اسلام اور اللہ کی شریعت کے نازل ہونے سے پہلے بھی کبھی سود نہ لیا تھا۔ حق کی راہ میں، الزام لگانے والے کبھی ان پر کوئی الزام نہیں لگا سکے اور حکومتی طاقت کبھی انہیں خوار نہ کر سکی۔<ref>اصفہانی، حلیہ الاولیاء، ج ۱، ص ۱۵۶ و ۱۵۷۔ </ref>
ابو نعیم اصفہانی کہتا ہے: ابوذر نے حضرت پیغمبرؐ کی خدمت کی اور اصول سیکھے اور باقی سب کچھ ترک کیا۔ ابوذر نے اسلام اور اللہ کی شریعت کے نازل ہونے سے پہلے بھی کبھی سود نہ لیا تھا۔ حق کی راہ میں، الزام لگانے والے کبھی ان پر کوئی الزام نہیں لگا سکے اور حکومتی طاقت کبھی انہیں خوار نہ کر سکی۔<ref>اصفہانی، حلیہ الاولیاء، ج ۱، ص ۱۵۶ و ۱۵۷۔ </ref>


===امام علیؑ سے دوستی===
===امام علیؑ سے دوستی===
سطر 106: سطر 106:
===شام جلا وطنی===
===شام جلا وطنی===
ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ عثمان کی طرف سے [[مروان بن حکم]]، [[زید بن ثابت]] اور چند دوسرے لوگوں کو بیت المال سے مال دینے اور اس پر ابوذر کی مخالفت اور احتجاج باعث بنا کہ انہیں شام جلا وطن کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابوذر گلی کوچوں میں علنی طور اعتراض کرتے تھے اسی وجہ سے عثمان نے انہیں مدینہ سے شام جلاوطن کردیا۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۸، ص ۲۵۶۔ </ref>لیکن ابوذر شام میں معاویہ کے کاموں پر اعتراض کرتے تھے اور ایک دن معاویہ نے 300 دینار ابوذر کے لیے بھیج دیا تو ابوذر نے دینار لانے والے سے کہا: اگر یہ بیت المال سے میرا اس سال کا حصہ ہے جو اب تک نہیں دیا تھا تو میں اسے رکھ دیتا ہوں لیکن اگر ہدیہ ہے تو اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے اور اسے واپس کر دیا۔ جب معاویہ نے دمشق میں قصر خضراء بنایا تو ابوذر نے کہا: اے معاویہ! اگر اس قصر کو بیت المال کے پیسوں سے بنایا ہے تو خیانت ہے اور اگر اپنے پیسوں سے بنایا ہے تو اسراف ہے۔
ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ عثمان کی طرف سے [[مروان بن حکم]]، [[زید بن ثابت]] اور چند دوسرے لوگوں کو بیت المال سے مال دینے اور اس پر ابوذر کی مخالفت اور احتجاج باعث بنا کہ انہیں شام جلا وطن کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابوذر گلی کوچوں میں علنی طور اعتراض کرتے تھے اسی وجہ سے عثمان نے انہیں مدینہ سے شام جلاوطن کردیا۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۸، ص ۲۵۶۔ </ref>لیکن ابوذر شام میں معاویہ کے کاموں پر اعتراض کرتے تھے اور ایک دن معاویہ نے 300 دینار ابوذر کے لیے بھیج دیا تو ابوذر نے دینار لانے والے سے کہا: اگر یہ بیت المال سے میرا اس سال کا حصہ ہے جو اب تک نہیں دیا تھا تو میں اسے رکھ دیتا ہوں لیکن اگر ہدیہ ہے تو اس کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے اور اسے واپس کر دیا۔ جب معاویہ نے دمشق میں قصر خضراء بنایا تو ابوذر نے کہا: اے معاویہ! اگر اس قصر کو بیت المال کے پیسوں سے بنایا ہے تو خیانت ہے اور اگر اپنے پیسوں سے بنایا ہے تو اسراف ہے۔
اس طرح سے ہمیشہ معاویہ سے کہتا تھا: خدا کی قسم تم نے ایسے کام انجام دیا ہے جنہیں میں نہیں جانتا ہوں؛ اور خدا کی قسم! ایسے کام نہ تو اللہ کی کتاب میں ہیں اور نہ ہی پیغمبر اکرم کی سنت میں؛ میں ایسے حق کو دیکھ رہا ہوں جو بجھا جا رہا ہے اور ایسے باطل کو دیکھ رہا ہوں جو زندہ ہو رہا ہے، سچ کو دیکھ رہا ہوں جسے جھٹلایا جا رہا ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ ابوذر کی انہی باتوں کی وجہ سے ایک دن معاویہ نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ٹھہرایا۔ ابوذر نے بھی جواب میں کہہ دیا: میں نہ تو اللہ کا دشمن ہوں اور نہ ہی اللہ کے رسول کا، اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تو تم اور تمہارا باپ ہے جنہوں نے دکھاوے کے طور پر اسلام قبول کیا لیکن دل میں کفر چھپا رکھا اور اللہ کے رسول نے یقینا تم پر لعنت کی اور کئی بار تمہیں بد دعا کی کہ تمہارا پیٹ کبھی نہ بھرے۔ معاویہ نے کہا: وہ شخص میں نہیں ہوں۔ تو ابوذر نے کہا: کیوں نہیں تم ہی وہ شخص ہو؛ میں رسول اللہ کے پاس تھا آپ نے مجھ سے ہی کہا اور میں نے خود سنا ہے کہ فرماتے تھے: یا اللہ اس (معاویہ) پر لعنت بھیج اور اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے مگر مٹی سے۔ یہ سن کر معاویہ نے ابوذر کو جیل بھیجنے کا حکم دیا۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۸، صص ۲۵۶-۲۵۸.</ref> <ref>امین، اعیان الشیعہ، ج۴، ص۲۳۷.</ref>
اس طرح سے ہمیشہ معاویہ سے کہتا تھا: خدا کی قسم تم نے ایسے کام انجام دیا ہے جنہیں میں نہیں جانتا ہوں؛ اور خدا کی قسم! ایسے کام نہ تو اللہ کی کتاب میں ہیں اور نہ ہی پیغمبر اکرم کی سنت میں؛ میں ایسے حق کو دیکھ رہا ہوں جو بجھا جا رہا ہے اور ایسے باطل کو دیکھ رہا ہوں جو زندہ ہو رہا ہے، سچ کو دیکھ رہا ہوں جسے جھٹلایا جا رہا ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ ابوذر کی انہی باتوں کی وجہ سے ایک دن معاویہ نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا اور انہیں اللہ اور اس کے رسول کا دشمن ٹھہرایا۔ ابوذر نے بھی جواب میں کہہ دیا: میں نہ تو اللہ کا دشمن ہوں اور نہ ہی اللہ کے رسول کا، اللہ اور اس کے رسول کے دشمن تو تم اور تمہارا باپ ہے جنہوں نے دکھاوے کے طور پر اسلام قبول کیا لیکن دل میں کفر چھپا رکھا اور اللہ کے رسول نے یقینا تم پر لعنت کی اور کئی بار تمہیں بد دعا کی کہ تمہارا پیٹ کبھی نہ بھرے۔ معاویہ نے کہا: وہ شخص میں نہیں ہوں۔ تو ابوذر نے کہا: کیوں نہیں تم ہی وہ شخص ہو؛ میں رسول اللہ کے پاس تھا آپ نے مجھ سے ہی کہا اور میں نے خود سنا ہے کہ فرماتے تھے: یا اللہ اس (معاویہ) پر لعنت بھیج اور اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے مگر مٹی سے۔ یہ سن کر معاویہ نے ابوذر کو جیل بھیجنے کا حکم دیا۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۸، صص ۲۵۶-۲۵۸.</ref> <ref>امین، اعیان الشیعہ، ج۴، ص۲۳۷.</ref>
اور اسی طرح کہا گیا ہے کہ ابوذر شام میں لوگوں کو پیغمبر (ص) اور [[اہل بیت (ع)]] کے فضائل بیان کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ اسی لیے [[معاویہ]] نے لوگوں کو اس کی محفل میں شرکت کرنے سے منع کر دیا، اور [[عثمان]] کو خط لکھ کر ابوذر کے کاموں سے آگاہ کیا اور عثمان کے جواب ملنے کے بعد معاویہ نے ابوذر کو مدینہ کی جانب روانہ کر دیا۔<ref>امین، اعیان الشیعہ، ج ۴، ص ۲۳۷۔ </ref>
اور اسی طرح کہا گیا ہے کہ ابوذر شام میں لوگوں کو پیغمبرؐ اور [[اہل بیت (ع)]] کے فضائل بیان کرنے کی تلقین کرتا تھا۔ اسی لیے [[معاویہ]] نے لوگوں کو اس کی محفل میں شرکت کرنے سے منع کر دیا، اور [[عثمان]] کو خط لکھ کر ابوذر کے کاموں سے آگاہ کیا اور عثمان کے جواب ملنے کے بعد معاویہ نے ابوذر کو مدینہ کی جانب روانہ کر دیا۔<ref>امین، اعیان الشیعہ، ج ۴، ص ۲۳۷۔ </ref>


=== ربذہ جلاوطنی===
=== ربذہ جلاوطنی===
سطر 120: سطر 120:
  |مآخذ=(تفسیر قمی، ج١، ص٢٩٥) |سمت=دایاں |چوڑائی=220px |حاشیہ= |فونٹ سائز= |مآخذ کی سمت =left}}
  |مآخذ=(تفسیر قمی، ج١، ص٢٩٥) |سمت=دایاں |چوڑائی=220px |حاشیہ= |فونٹ سائز= |مآخذ کی سمت =left}}


ابوذر [[ذی الحجہ]] [[سنہ 32 ہجری]] اور عثمان کی دورہ خلافت کے زمانے میں ربذہ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۳۵۴۔</ref> ابن کثیر لکھتا ہے: وفات کے وقت ان کی بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی ان کے پاس موجود نہ تھا۔<ref>ابن کثیر، البدایۃ و النهایۃ، ۱۹۸۶م، ج۷، ۱۶۵.</ref> خیر الدین زرکلی کہتا ہے: «ابوذر اس حال میں دنیا سے گئے کہ گھر میں انہیں کفن دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔»<ref>زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۰م، ج ۲، ص ۱۴۰. </ref> مہران بن میمون بیان کرتا ہے: «جو کچھ میں نے ابوذر کے گھر میں دیکھا اس کی قیمت دو درہم سے زیادہ نہ تھی۔»<ref>امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج۴، ص۲۲۹.</ref>
ابوذر [[ذی الحجہ]] [[سنہ 32 ہجری]] اور عثمان کی دورہ خلافت کے زمانے میں ربذہ میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج ۳، ص ۳۵۴۔</ref> ابن کثیر لکھتا ہے: وفات کے وقت ان کی بیوی اور بچوں کے علاوہ کوئی ان کے پاس موجود نہ تھا۔<ref>ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۹۸۶م، ج۷، ۱۶۵.</ref> خیر الدین زرکلی کہتا ہے: «ابوذر اس حال میں دنیا سے گئے کہ گھر میں انہیں کفن دینے کے لئے کچھ نہ تھا۔»<ref>زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۰م، ج ۲، ص ۱۴۰. </ref> مہران بن میمون بیان کرتا ہے: «جو کچھ میں نے ابوذر کے گھر میں دیکھا اس کی قیمت دو درہم سے زیادہ نہ تھی۔»<ref>امین عاملی، اعیان الشیعۃ، دار التعارف، ج۴، ص۲۲۹.</ref>
<br />بیان ہوا ہے کہ ابوذر کی بیوی ام ذر روتے ہوئے کہتی تھیں
<br />بیان ہوا ہے کہ ابوذر کی بیوی ام ذر روتے ہوئے کہتی تھیں
:: تم جنگل میں مر جاؤ گے اور میرے پاس تمہیں [[کفن]] دینے کے لئے کوئی کپڑا تک نہیں، تو ابوذر کہتے تھے: تم رونا مت بلکہ تم خوش رہو کیونکہ ایک دن [[رسول اللہ|رسول خدا (ص)]] نے لوگوں کے درمیان جہاں میں بھی موجود تھا، فرمایا: تم میں سے ایک فرد جنگل میں اس دنیا سے جائے گا اور مومنین کی ایک جماعت اسے دفن کرے گی۔ اور اب وہ تمام لوگ جو میرے اس وقت میرے ہمراہ اس محفل میں تھے وہ شہر میں اور تمام لوگوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے جو کچھ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا تھا وہ میرے بارے میں فرمایا ہے۔<ref>امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج ۴، ص ۲۴۱۔ </ref>
:: تم جنگل میں مر جاؤ گے اور میرے پاس تمہیں [[کفن]] دینے کے لئے کوئی کپڑا تک نہیں، تو ابوذر کہتے تھے: تم رونا مت بلکہ تم خوش رہو کیونکہ ایک دن [[رسول اللہ|رسول خداؐ]] نے لوگوں کے درمیان جہاں میں بھی موجود تھا، فرمایا: تم میں سے ایک فرد جنگل میں اس دنیا سے جائے گا اور مومنین کی ایک جماعت اسے دفن کرے گی۔ اور اب وہ تمام لوگ جو میرے اس وقت میرے ہمراہ اس محفل میں تھے وہ شہر میں اور تمام لوگوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے جو کچھ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا تھا وہ میرے بارے میں فرمایا ہے۔<ref>امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج ۴، ص ۲۴۱۔ </ref>
پھر اس کے بعد [[عبداللہ بن مسعود]] اور اس کے بعض دوسرے ساتھیوں کا وہاں سے گزر ہوا جس میں حجر بن ادبر، [[مالک اشتر]] اور [[انصار]] کے بعض دوسرے جوان بھی تھے انہوں نے [[غسل]] اور [[کفن]] دیا اور عبداللہ بن مسعود نے [[نماز جنازہ]] پڑھائی۔<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۵۳.؛ ابن خیاط، طبقات خلیفہ، ۱۴۱۴ق، ص۷۱.؛ ابن حبان، الثقات، ۱۳۹۳ق، ج۳، ص۵۵.</ref> تاریخ یعقوبی کے مطابق جلیل القدر [[حذیفہ بن یمانی]] بھی تدفین کرنے والوں میں شامل تھے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج۲، ص۶۸.</ref>
پھر اس کے بعد [[عبداللہ بن مسعود]] اور اس کے بعض دوسرے ساتھیوں کا وہاں سے گزر ہوا جس میں حجر بن ادبر، [[مالک اشتر]] اور [[انصار]] کے بعض دوسرے جوان بھی تھے انہوں نے [[غسل]] اور [[کفن]] دیا اور عبداللہ بن مسعود نے [[نماز جنازہ]] پڑھائی۔<ref>ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۲۵۳.؛ ابن خیاط، طبقات خلیفہ، ۱۴۱۴ق، ص۷۱.؛ ابن حبان، الثقات، ۱۳۹۳ق، ج۳، ص۵۵.</ref> تاریخ یعقوبی کے مطابق جلیل القدر [[حذیفہ بن یمانی]] بھی تدفین کرنے والوں میں شامل تھے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ترجمہ آیتی، ج۲، ص۶۸.</ref>
اور تمام منابع کے مطابق، ابوذر کی قبر ربذہ میں ہے۔<ref>حموی، معجم البلدان، ۱۳۹۹ھ، ج۳، ص۲۴؛ طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۳۱.</ref> تیسری صدی کے حنبلی عالم حربی نے اپنی کتاب المناسک میں ذکر کیا ہے کہ ربذہ میں ایک [[مسجد]] پیغمبر اکرم کے صحابی ابوذر کے نام تھی اور کہا گیا ہے کہ ابوذر کی قبر بھی اسی مسجد میں ہے۔<ref>حربی، المناسک، ۱۹۶۹ء، ص۳۲۷.</ref>
اور تمام منابع کے مطابق، ابوذر کی قبر ربذہ میں ہے۔<ref>حموی، معجم البلدان، ۱۳۹۹ھ، ج۳، ص۲۴؛ طریحی، مجمع البحرین، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۱۳۱.</ref> تیسری صدی کے حنبلی عالم حربی نے اپنی کتاب المناسک میں ذکر کیا ہے کہ ربذہ میں ایک [[مسجد]] پیغمبر اکرم کے صحابی ابوذر کے نام تھی اور کہا گیا ہے کہ ابوذر کی قبر بھی اسی مسجد میں ہے۔<ref>حربی، المناسک، ۱۹۶۹ء، ص۳۲۷.</ref>
سطر 133: سطر 133:
==مآخذ ==
==مآخذ ==
{{طومار}}
{{طومار}}
*ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ‌دار إحیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ق.
*ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ‌دار إحیاء الکتب العربیہ، ۱۳۷۸ق.
*ابن اثیر، علی، اسد الغابہ، بیروت، ‌دار الکتاب العربی.
*ابن اثیر، علی، اسد الغابہ، بیروت، ‌دار الکتاب العربی.
*ابن حبان، محمد، الثقات، مؤسسة الکتب الثقافیہ، ۱۳۹۳ق.
*ابن حبان، محمد، الثقات، مؤسسة الکتب الثقافیہ، ۱۳۹۳ق.
*ابن حبان، محمد، صحیح ابن حبان، بیروت، مؤسسة الرسالہ، ۱۴۱۴ق.
*ابن حبان، محمد، صحیح ابن حبان، بیروت، مؤسسة الرسالہ، ۱۴۱۴ق.
*ابن حبان، محمد، کتاب المجروحین، تحقیق: محمود إبراهیم زاید، مکہ، دار الباز، بی‌ تا.
*ابن حبان، محمد، کتاب المجروحین، تحقیق: محمود إبراہیم زاید، مکہ، دار الباز، بی‌ تا.
*ابن حبان، محمد، مشاهیر علماء الأمصار، دار الئفاء، ۱۴۱۱ق.
*ابن حبان، محمد، مشاہیر علماء الأمصار، دار الئفاء، ۱۴۱۱ق.
*ابن خیاط، خلیفہ، طبقات خلیفہ، بیروت، ‌دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
*ابن خیاط، خلیفہ، طبقات خلیفہ، بیروت، ‌دار الفکر، ۱۴۱۴ق.
*ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، ‌دار صادر.
*ابن سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، ‌دار صادر.
*ابن عبد البر، احمد، الاستیعاب، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق.
*ابن عبد البر، احمد، الاستیعاب، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق.
*ابن کثیر، اسماعیل، البدایة و النهایة، بیروت، دار الفکر، ۱۹۸۶ء.
*ابن کثیر، اسماعیل، البدایة و النہایة، بیروت، دار الفکر، ۱۹۸۶ء.
*اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۰۵ق.
*اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، بیروت، دار الأضواء، ۱۴۰۵ق.
*الأمینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج۹، بیروت، دار الکتب العربی، ۱۳۹۷-۱۹۷۷ء.
*الأمینی، عبد الحسین، الغدیر فی الکتاب و السنة و الادب، ج۹، بیروت، دار الکتب العربی، ۱۳۹۷-۱۹۷۷ء.
*امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف.
*امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف.
*بحر العلوم، محمد مهدی، الفوائد الرجالیہ، تهران، مکتبة الصادق، ۱۳۶۳ش.
*بحر العلوم، محمد مہدی، الفوائد الرجالیہ، تہران، مکتبة الصادق، ۱۳۶۳ش.
*بغدادی، محمد بن حبیب، المحبر، مطبعة الدائرة، ۱۳۶۱ق.
*بغدادی، محمد بن حبیب، المحبر، مطبعة الدائرة، ۱۳۶۱ق.
*تهرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دار الاضواء.
*تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ، بیروت، دار الاضواء.
*حربی، ابو اسحاق، المناسک و أماکن طرق الحج و معالم الجزيرة، ریاض، منشورات دار الیمامة للبحث والترجمة والنشر، ۱۹۶۹ء.
*حربی، ابو اسحاق، المناسک و أماکن طرق الحج و معالم الجزيرة، ریاض، منشورات دار الیمامة للبحث والترجمة والنشر، ۱۹۶۹ء.
*حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، ۱۳۹۹ق.
*حموی، یاقوت، معجم البلدان، بیروت، ‌دار إحیاء التراث العربی، ۱۳۹۹ق.
*ذهبی، محمد، تاریخ الاسلام، بیروت، ‌دار الکتاب العربی، ۱۴۰۷ق.
*ذہبی، محمد، تاریخ الاسلام، بیروت، ‌دار الکتاب العربی، ۱۴۰۷ق.
*ذهبی، محمد، سیر أعلام النبلاء، بیروت، مؤسسة الرسالہ، ۱۴۱۳ق.
*ذہبی، محمد، سیر أعلام النبلاء، بیروت، مؤسسة الرسالہ، ۱۴۱۳ق.
*زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، ‌دار العلم، ۱۹۸۰ء.
*زرکلی، خیر الدین، الاعلام، بیروت، ‌دار العلم، ۱۹۸۰ء.
*شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۹ق.
*شوشتری، محمد تقی، قاموس الرجال، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۹ق.
سطر 162: سطر 162:
*طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ق.
*طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ق.
*عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق.
*عسقلانی، ابن حجر، الاصابہ، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق.
*عسقلانی، ابن حجر، تقریب التهذیب، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق.
*عسقلانی، ابن حجر، تقریب التہذیب، بیروت، ‌دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۵ق.
*قمی، علی بن إبراهیم، تفسیر القمی، قم، مؤسسہ دار الکتاب، ۱۴۰۴ق.
*قمی، علی بن إبراہیم، تفسیر القمی، قم، مؤسسہ دار الکتاب، ۱۴۰۴ق.
*کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، تهران، ‌دار الکتب الإسلامیہ، ۱۳۶۳ش.
*کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، تہران، ‌دار الکتب الإسلامیہ، ۱۳۶۳ش.
*مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۴۰۳ق.
*مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، مؤسسة الوفاء، ۱۴۰۳ق.
*مدنی، سید علی خان، الدرجات الرفیعہ، قم، بصیرتی، ۱۳۹۷ق.
*مدنی، سید علی خان، الدرجات الرفیعہ، قم، بصیرتی، ۱۳۹۷ق.
*مزی، یوسف، تهذیب الکمال، بیروت، مؤسسة الرسالہ، ۱۴۰۶ق.
*مزی، یوسف، تہذیب الکمال، بیروت، مؤسسة الرسالہ، ۱۴۰۶ق.
*مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، بیروت، دارالمفید، ۱۴۱۴ق.
*مفید، محمد بن نعمان، الاختصاص، بیروت، دارالمفید، ۱۴۱۴ق.
*نهج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شهیدی، تهران، علمی و فرهنگی، ۱۳۷۷ش.
*نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، تہران، علمی و فرہنگی، ۱۳۷۷ش.
*یعقوبی، ابن واضح احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراهیم آیتی، تهران، علمی و فرهنگی، ۱۳۷۸ش.
*یعقوبی، ابن واضح احمد بن ابی یعقوب، تاریخ یعقوبی، ترجمہ محمد ابراہیم آیتی، تہران، علمی و فرہنگی، ۱۳۷۸ش.
*یعقوبی، ابن واضح، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ‌دار صادر.
*یعقوبی، ابن واضح، تاریخ الیعقوبی، بیروت، ‌دار صادر.
*یوسفی، محمد رضا، در جستجوی آرمان‌ شهر نبوی: رویکرد اقتصادی ـ سیاسی ابوذر، قم، مؤسسہ انتشارات دانشگاه مفید، ۱۳۸۶ش
*یوسفی، محمد رضا، در جستجوی آرمان‌ شہر نبوی: رویکرد اقتصادی ـ سیاسی ابوذر، قم، مؤسسہ انتشارات دانشگاہ مفید، ۱۳۸۶ش
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم