مندرجات کا رخ کریں

"مصحف عثمانی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 21: سطر 21:


==تدوین کنندگان==
==تدوین کنندگان==
مصحف عثمانی کی تدوین کی اصلی ذمہ داری کس کے ذمہ تھی اس حوالے سے مختلف اقوال موجود ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ صرف [[زید بن ثابت]] کو اس کام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جبکہ بعض کے مطابق زید کے علاوہ سعید بن عاص بھی ان کے ساتھ اس کام میں شریک تھا اور بعض نے اس میں اُبَیّ کو بھی شامل کیا ہے،<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۷۔</ref> جبکہ بعض اس کام کی ذمہ پانچ ارکان پر مشتمل ایک گرہ کے ذمہ لگاتی ہے اور بعض کے مطابق [[قریش]] اور [[انصار]] میں سے 12 افراد اس کام پر مأمور تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۹۔</ref>
مصحف عثمانی کی تدوین کی اصلی ذمہ داری کس کے ذمہ تھی اس حوالے سے مختلف اقوال موجود ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ صرف [[زید بن ثابت]] کو اس کام کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جبکہ بعض کے مطابق زید کے علاوہ سعید بن عاص بھی ان کے ساتھ اس کام میں شریک تھا اور بعض نے اس میں اُبَیّ کو بھی شامل کیا ہے،<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۷۔</ref> جبکہ بعض اس کام کی ذمہ پانچ ارکان پر مشتمل ایک گرہ کے ذمہ لگاتی ہے اور بعض کے مطابق [[قریش]] اور [[انصار]] میں سے 12 افراد اس کام پر مأمور تھے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۹۔</ref>


بعض مورخین [[انس بن مالک|اَنَس بن مالک]] اور [[عمر بن خطاب|عمر بن خَطّاب]] کے آزاد کردہ غلام اَسلَم کی نقل کو سب سے زیادہ معتبر قرار دیتے ہیں۔<ref>نگاہ کنید بہ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۷۔</ref> اس نقل کے مطابق اس کام کی ذمہ داری ایک چار نفری گروہ کے ذمہ تھی جن میں زید بن ثابت، [[عبداللہ بن زبیر]]، سعید بن عاص اور عبدالرحمان بن حارث شامل تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹؛ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۳۹و۴۴۰؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۷۔</ref> کتاب [[التمہید فی علوم القرآن]] کے مصنف [[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] اس حوالے سے 12 افراد کی موجودگی سے متعلق نقل ہونے والی روایت کی علت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب مذکورہ چار افراد سے یہ کام انجام نہیں پایا تو یہ لوگ [[عبداللہ بن عباس]] اور انس بن مالک وغیرہ کی مدد حاصل کرتے تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹و۳۴۰۔</ref>
بعض مورخین [[انس بن مالک|اَنَس بن مالک]] اور [[عمر بن خطاب|عمر بن خَطّاب]] کے آزاد کردہ غلام اَسلَم کی نقل کو سب سے زیادہ معتبر قرار دیتے ہیں۔<ref> نگاہ کنید بہ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۷۔</ref> اس نقل کے مطابق اس کام کی ذمہ داری ایک چار نفری گروہ کے ذمہ تھی جن میں زید بن ثابت، [[عبداللہ بن زبیر]]، سعید بن عاص اور عبدالرحمان بن حارث شامل تھے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹؛ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۳۹و۴۴۰؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۷۔</ref> کتاب [[التمہید فی علوم القرآن]] کے مصنف [[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] اس حوالے سے 12 افراد کی موجودگی سے متعلق نقل ہونے والی روایت کی علت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: جب مذکورہ چار افراد سے یہ کام انجام نہیں پایا تو یہ لوگ [[عبداللہ بن عباس]] اور انس بن مالک وغیرہ کی مدد حاصل کرتے تھے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹و۳۴۰۔</ref>


اس چار نفری گروہ کی سرپرستی زید بن ثابت کر رہے تھے۔<ref>حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۴۰؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔</ref> زید [[انصار]] اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے معتمدین میں سے تھا اور [[بیت‌المال]] کا خزانہ دار بھی۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۸۔</ref> اس گروہ کے باقی تین افراد بھی سب کے سب [[قریش]] اور عثمان کے داماد تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۹۔</ref> [[پیغمبر اکرمؐ]] کے جلیل القدر [[صحابہ|صحابی]] [[عبداللہ بن مسعود]] اس انتخاب کے سخت مخالف تھے اور اس پر برملا اعتراض کرتے تھے۔ اس چار نفری گروہ کی سرپرستی زید کے سپرد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے تھے: قرآن کی تدوین کا کام ایک ایسے شخص کے ذمہ لگائی ہے جو میرے مسلمان ہوتے وقت  پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔</ref>
اس چار نفری گروہ کی سرپرستی زید بن ثابت کر رہے تھے۔<ref> حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۴۰؛ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔</ref> زید [[انصار]] اور [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے معتمدین میں سے تھے اور [[بیت‌ المال]] کا خزانہ دار بھی۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۸۔</ref> اس گروہ کے باقی تین افراد بھی سب کے سب [[قریش]] اور عثمان کے داماد تھے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۱۹۔</ref> [[پیغمبر اکرمؐ]] کے جلیل القدر [[صحابہ|صحابی]] [[عبداللہ بن مسعود]] اس انتخاب کے سخت مخالف تھے اور اس پر برملا اعتراض کرتے تھے۔ اس چار نفری گروہ کی سرپرستی زید کے سپرد کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہتے تھے: قرآن کی تدوین کا کام ایک ایسے شخص کے ذمہ لگائی ہے جو میرے مسلمان ہوتے وقت  پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔</ref>


==شیوہ تدوین==
==شیوہ تدوین==
تاریخ کی گواہی کے مطابق مُصحَف عثمانی اس مصحف کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا جسے [[ابوبکر]] کے دور خلافت مبں تدوین کیا گیا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے زمانے میں موجود [[قرآن|قرآنی]] سورتوں کے نسخوں نیز مصحف اُبَیّ سے بھی استفادہ کیا جاتا تھا۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۱و۴۲۲۔</ref> [[عثمان]] نے اس چار نفری گروہ کو سفارش کی تھی کہ کسی جگہ کسی لفظ یا کلمے کے بارے میں اختلاف نظر پایا گیا تو اس سلسلے میں [[قریش]] کے لہجے کو ترجیح دی جائے کیونکہ قرآن قریش کے لہجے میں نازل ہوا ہے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۱و۴۲۲۔</ref>
تاریخ کی گواہی کے مطابق مُصحَف عثمانی اس مصحف کی بنیاد پر مرتب کیا گیا تھا جسے [[ابوبکر]] کے دور خلافت مبں تدوین کیا گیا تھا۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ [[پیغمبر اکرمؐ]] کے زمانے میں موجود [[قرآن|قرآنی]] سورتوں کے نسخوں نیز مصحف اُبَیّ سے بھی استفادہ کیا جاتا تھا۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۱و۴۲۲۔</ref> [[عثمان]] نے اس چار نفری گروہ کو سفارش کی تھی کہ کسی جگہ کسی لفظ یا کلمے کے بارے میں اختلاف نظر پایا گیا تو اس سلسلے میں [[قریش]] کے لہجے کو ترجیح دی جائے کیونکہ قرآن قریش کے لہجے میں نازل ہوا ہے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۱و۴۲۲۔</ref>


کتاب [[تاریخ قرآن (رامیار)|تاریخ قرآن]] کے مصنف [[محمود رامیار]] کے مطابق مصحف عثمانی کو نہایت دقیق طور پر تدوین کیا گیا تھا۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۶۔</ref> وہ مالک بن ابی‌ عامر سے نقل کرتے ہیں کہ تدوین‌ کنندگان جب بھی کسی لفظ سے متعلق اختلاف کا شکار ہوتے تو اس لفظ کی جگہ اس وقت تک خالی چھوڑ دیتے تھے جب تک کوئی ایسا شخص نہ ملے جس نے پیغمبر اکرمؐ سے بذات خود قرآن سن لیا ہو اور اس کلمے کے صحیح تلفظ پر اطمینان حاصل نہ ہو جائے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۶۔</ref> [[فرانس|فرانسیسی]] مستشرق اور مترجم قرآن رژی بلاشر نے فرانسیسی زبان میں لکھا ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ مصحف عثمانی کو مرتب کرنے والوں نے اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ اس کام کو انجام دیئے ہیں اور اس کام میں نہایت احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۷۔</ref>
کتاب [[تاریخ قرآن (رامیار)|تاریخ قرآن]] کے مصنف [[محمود رامیار]] کے مطابق مصحف عثمانی کو نہایت دقیق طور پر تدوین کیا گیا تھا۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۶۔</ref> وہ مالک بن ابی‌ عامر سے نقل کرتے ہیں کہ تدوین‌ کنندگان جب بھی کسی لفظ سے متعلق اختلاف کا شکار ہوتے تو اس لفظ کی جگہ اس وقت تک خالی چھوڑ دیتے تھے جب تک کوئی ایسا شخص نہ ملے جس نے پیغمبر اکرمؐ سے بذات خود قرآن سن لیا ہو اور اس کلمے کے صحیح تلفظ پر اطمینان حاصل نہ ہو جائے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۶۔</ref> [[فرانس|فرانسیسی]] مستشرق اور مترجم قرآن رژی بلاشر نے فرانسیسی زبان میں لکھا ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ مصحف عثمانی کو مرتب کرنے والوں نے اپنی پوری ذمہ داری کے ساتھ اس کام کو انجام دیئے ہیں اور اس کام میں نہایت احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۲۷۔</ref>


===اعتراضات===
===اعتراضات===
[[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] مصحف عثمانی کے شیوہ تدوین پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس کام میں بہت زیادہ دقت سے کام نہیں لیا گیا اس وجہ سے مصحف عقمانی میں بہت زیادہ املائی غلطیاں رہ گئی ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۸۔</ref> اسی طرح ان صحیفوں کو ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ نہیں کیا گیا جس کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۸۔</ref> آپ ابن‌اَبی‌داوود سے نقل کرتے ہیں کہ [[شام]] والے اپنے اور [[بصرہ]] والوں کے مصحف کو [[کوفہ]] والوں کے مصحف سے زیادہ صحیح جانتے تھے؛ کیونکہ مصحف کوفہ تصحیح اور موزانہ کیئے بغیر بھیجا گیا تھا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۸و۳۴۹۔</ref> اس طرح آپ ابن‌اَبی‌داوود سے ایک اور روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "خود [[عثمان]] نے مصحف عثمانی میں غلطیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا کہ اگر املاء کرنے والا بنی ہُذَیل اور لکھنے والا بنی ثَقیف سے ہوتا تو یہ غلطیاں نہ ہوتی"۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۹۔</ref>
[[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] مصحف عثمانی کے شیوہ تدوین پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس کام میں بہت زیادہ دقت سے کام نہیں لیا گیا اس وجہ سے مصحف عقمانی میں بہت زیادہ املائی غلطیاں رہ گئی ہیں۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۸۔</ref> اسی طرح ان صحیفوں کو ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ نہیں کیا گیا جس کی بنا پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۸۔</ref> آپ ابن‌اَبی ‌داوود سے نقل کرتے ہیں کہ [[شام]] والے اپنے اور [[بصرہ]] والوں کے مصحف کو [[کوفہ]] والوں کے مصحف سے زیادہ صحیح جانتے تھے؛ کیونکہ مصحف کوفہ تصحیح اور موزانہ کیئے بغیر بھیجا گیا تھا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۸و۳۴۹۔</ref> اس طرح آپ ابن‌اَبی ‌داوود سے ایک اور روایت نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "خود [[عثمان]] نے مصحف عثمانی میں غلطیوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد کہا کہ اگر املاء کرنے والا بنی ہُذَیل اور لکھنے والا بنی ثَقیف سے ہوتا تو یہ غلطیاں نہ ہوتی"۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۹۔</ref>


==خصوصیات==
==خصوصیات==
[[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق مُصحَف عثمانی میں بھی دوسرے صحیفوں کی طرح جو مختلف [[صحابہ]] کے پاس موجود تھے، [[سورت|سورتوں]] کی ترتیب بڑی سورتوں سے چھوٹی سورتوں کی طرف تھی اور دوسرے صحیفوں سے بعض چیزوں میں مختلف بھی تھا مثلا دوسرے صحیفوں میں [[سورہ یونس]] [[طولانی سورت|طولانی سورتوں]] میں شامل تھی اس بنا پر یہ قرآن کی ساتویں یا آٹھویں سورت شمار ہوتی تھی لیکن مصحف عثمانی اس سورت کی جگہ [[سورہ انفال]] اور [[سورہ توبہ]] موجود ہیں؛ کیونکہ [[عثمان]] ان دو سورتوں کو ایک سورت شمار کرتا تھا اس بنا پر یہ [[سورہ یونس]] سے طولانی سورت شمار ہوتی ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۴و۳۵۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ [[ابن عباس]] نے اس کام کی وجہ سے عثمان پر اعتراض کیا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref>
[[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق مُصحَف عثمانی میں بھی دوسرے صحیفوں کی طرح جو مختلف [[صحابہ]] کے پاس موجود تھے، [[سورت|سورتوں]] کی ترتیب بڑی سورتوں سے چھوٹی سورتوں کی طرف تھی اور دوسرے صحیفوں سے بعض چیزوں میں مختلف بھی تھا مثلا دوسرے صحیفوں میں [[سورہ یونس]] [[طولانی سورت|طولانی سورتوں]] میں شامل تھی اس بنا پر یہ قرآن کی ساتویں یا آٹھویں سورت شمار ہوتی تھی لیکن مصحف عثمانی اس سورت کی جگہ [[سورہ انفال]] اور [[سورہ توبہ]] موجود ہیں؛ کیونکہ [[عثمان]] ان دو سورتوں کو ایک سورت شمار کرتا تھا اس بنا پر یہ [[سورہ یونس]] سے طولانی سورت شمار ہوتی ہے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۴و۳۵۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ [[ابن عباس]] نے اس کام کی وجہ سے عثمان پر اعتراض کیا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref>


مصحف عثمانی کی دوسرری خصوصیات میں سے ایک حروف پر نقطوں کا نہ ہونا ہے؛<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر "باء"، "تاء"، "یاء" اور "ثاء" سب بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔ اس طرح "جیم"، "حاء" اور "خاء" بھی بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اسی طرح کلمات پر اعراب (زبر، زیر اور پیش) بھی موجود نہیں تھا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر "یُعَلِّمُہ" (اسے تعلیم دیتا ہے) اور "نَعْلَمُہ" (اسے جانتا ہوں) دونوں ایک طرح سے لکھے جاتے تھے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر اس زمانے میں قرآن کی تعلیم کیلئے [[قراء سبعہ]] سے قرآن سننا پڑھتا تھا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵و۳۵۶۔</ref> کتاب [[التمہید]] کے مطابق [[قرائت سبعہ]] کے وجود میں آنے کی عمدہ دلیل اس وقت کے صحیفوں میں نقطوں اور اعراب کا نہ ہونا ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref>
مصحف عثمانی کی دوسرری خصوصیات میں سے ایک حروف پر نقطوں کا نہ ہونا ہے؛<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر "باء"، "تاء"، "یاء" اور "ثاء" سب بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔ اس طرح "جیم"، "حاء" اور "خاء" بھی بغیر نقطہ کے ایک جیسے لکھے جاتے تھے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اسی طرح کلمات پر اعراب (زبر، زیر اور پیش) بھی موجود نہیں تھا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر "یُعَلِّمُہ" (اسے تعلیم دیتا ہے) اور "نَعْلَمُہ" (اسے جانتا ہوں) دونوں ایک طرح سے لکھے جاتے تھے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref> اس بنا پر اس زمانے میں قرآن کی تعلیم کیلئے [[قراء سبعہ]] سے قرآن سننا پڑھتا تھا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵و۳۵۶۔</ref> کتاب [[التمہید]] کے مطابق [[قرائت سبعہ]] کے وجود میں آنے کی عمدہ دلیل اس وقت کے صحیفوں میں نقطوں اور اعراب کا نہ ہونا ہے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۵۔</ref>


بہت زیادہ املائی غلطیوں کا پایا جانا بھی مصحف عثمانی کی ایک اور خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۶۔</ref> [[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق مصحف عثمانی میں 7000 سے بھی زیادہ املائی غلطیاں موجود تھیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۶۔</ref> البتہ انہوں نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ان غلطیوں کے باوجود بھی قرآن کی عظمت اپنی جگہ باقی ہے کیونکہ قرآن کی حقیقت اس کا تلفظ یعنی وہ چیز جسے پڑھا جاتا ہے، نہ مکتوب اور لکھائی اور قرآن کی تلفظ صحیح صورت میں اب بھی باقی ہے اور اسی طرح پڑھا اور تلاوت کی جاتی ہے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۸۔</ref>
بہت زیادہ املائی غلطیوں کا پایا جانا بھی مصحف عثمانی کی ایک اور خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۶۔</ref> [[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق مصحف عثمانی میں 7000 سے بھی زیادہ املائی غلطیاں موجود تھیں۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۸۶۔</ref> البتہ انہوں نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ ان غلطیوں کے باوجود بھی قرآن کی عظمت اپنی جگہ باقی ہے کیونکہ قرآن کی حقیقت اس کا تلفظ یعنی وہ چیز جسے پڑھا جاتا ہے، نہ مکتوب اور لکھائی اور قرآن کی تلفظ صحیح صورت میں اب بھی باقی ہے اور اسی طرح پڑھا اور تلاوت کی جاتی ہے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۸۔</ref>


==تعداد==
==تعداد==
مُصحَف عثمانی کی تدوین کے سلسلے میں منتخب گروہ کے ذریعے تدوین یافتہ نسخوں کی تعداد سے متعلق [[جلال‌الدین سیوطی]] نے مختلف نظریات کو نقل کیا ہے۔<ref>سیوطی، الاتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۱۱۔</ref> اکثر علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس گروہ نے مصحف عثمانی کے چار نسخے مرتب کئے اور انہیں [[مدینہ]]، [[کوفہ]]، [[بصرہ]] اور [[شام]] بھیجے گئے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۰۔</ref> جبکہ سیوطی کے مطابق اس حوالے  سے مشہور قول کے مطابق ان نسخوں کی تعداد پانچ تھی۔<ref>نگاہ کنید بہ سیوطی، الاتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۱۱۔</ref> اس کے علاوہ 6 نسخے، 7 نسخے، آٹھ نسخے اور 9 نسخے کے بارے میں بھی اقوال موجود ہیں۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۲۔</ref>
مُصحَف عثمانی کی تدوین کے سلسلے میں منتخب گروہ کے ذریعے تدوین یافتہ نسخوں کی تعداد سے متعلق [[جلال‌ الدین سیوطی]] نے مختلف نظریات کو نقل کیا ہے۔<ref> سیوطی، الاتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۱۱۔</ref> اکثر علماء اس بات کے معتقد ہیں کہ اس گروہ نے مصحف عثمانی کے چار نسخے مرتب کئے اور انہیں [[مدینہ]]، [[کوفہ]]، [[بصرہ]] اور [[شام]] بھیجے گئے تھے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۰۔</ref> جبکہ سیوطی کے مطابق اس حوالے  سے مشہور قول کے مطابق ان نسخوں کی تعداد پانچ تھی۔<ref> نگاہ کنید بہ سیوطی، الاتقان، ۱۳۶۳ش، ج۱، ص۲۱۱۔</ref> اس کے علاوہ 6 نسخے، 7 نسخے، آٹھ نسخے اور 9 نسخے کے بارے میں بھی اقوال موجود ہیں۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۲۔</ref>


[[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] ابن‌اَبی‌داوود اور [[یعقوبی]] کے اقوال سے یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ مصحف عثمانی کے نسخوں کی تعداد 9 تھی کیونکہ ابن‌اَبی‌داوود کے مطابق سات نسخے تھے جنہیں [[مکہ]]، کوفہ، بصرہ، شام، [[بحرین]]، [[یمن]] اور مدینہ بھیجے گئے جبکہ یعقوبی کے بقول دو اور نسخے بھی تھے جو [[مصر]] اور [[الجزیرہ]] بھیجے گئے تھے۔<ref>نگاہ کنید بہ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۹و۳۵۰۔</ref>
[[محمد ہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] ابن‌ اَبی‌ داوود اور [[یعقوبی]] کے اقوال سے یہ نتیجہ لیتے ہیں کہ مصحف عثمانی کے نسخوں کی تعداد 9 تھی کیونکہ ابن‌ اَبی‌ داوود کے مطابق سات نسخے تھے جنہیں [[مکہ]]، کوفہ، بصرہ، شام، [[بحرین]]، [[یمن]] اور مدینہ بھیجے گئے جبکہ یعقوبی کے بقول دو اور نسخے بھی تھے جو [[مصر]] اور [[الجزیرہ]] بھیجے گئے تھے۔<ref> نگاہ کنید بہ معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۹و۳۵۰۔</ref>


===مصحف امام===
===مصحف امام===
[[علوم قرآن]] کے منابع میں مصحف عثمانی کا وہ نسخہ جو [[مدینہ]] میں موجود تھا، کو مُصحَف الاِمام کہا جاتا ہے؛<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔</ref> لیکن ابن‌جَزَری کے مطابق مُصحَف امام مدینہ میں موجود عام نسخے کے علاوہ کوئی اور نسخہ تھا جو خود عثمان کے پاس موجود تھا۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۲۔</ref> ابن‌کثیر کتاب فضائل القرآن میں لکھتے ہیں کہ مصحف عثمانی کے تمام نسخوں کو نسخہ امام کہا جاتا ہے۔<ref>حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۱۔</ref> کتاب [[التمہید]] کے مطابق دوسرے شہروں میں موجود نسخوں میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں جس نسخے کی طرف رجوع کیا جاتا تھا اسے مصحف امام کہا جاتا تھا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔</ref>
[[علوم قرآن]] کے منابع میں مصحف عثمانی کا وہ نسخہ جو [[مدینہ]] میں موجود تھا، کو مُصحَف الاِمام کہا جاتا ہے؛<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔</ref> لیکن ابن‌جَزَری کے مطابق مُصحَف امام مدینہ میں موجود عام نسخے کے علاوہ کوئی اور نسخہ تھا جو خود عثمان کے پاس موجود تھا۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۲۔</ref> ابن‌کثیر کتاب فضائل القرآن میں لکھتے ہیں کہ مصحف عثمانی کے تمام نسخوں کو نسخہ امام کہا جاتا ہے۔<ref> حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۱۔</ref> کتاب [[التمہید]] کے مطابق دوسرے شہروں میں موجود نسخوں میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں جس نسخے کی طرف رجوع کیا جاتا تھا اسے مصحف امام کہا جاتا تھا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۵۰۔</ref>


==صحابہ اور تابعین کا رد عمل==
==صحابہ اور تابعین کا رد عمل==
مختلف صحف کو یکساں کرنے کے اصل عمل میں تو تمام [[صحابہ]] [[عثمان]] کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔</ref> اور اس کام کے طریقہ کار سے متعلق بھی صرف [[عبداللہ بن مسعود]] کی طرف سے اعتراض سامنے آیا ہے اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اور عثمان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ عبداللہ بن مسعود نے جن افراد کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کو ناتجریہ کار سمجھتے ہوئے اپنے پاس موجود مصحف کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳۔</ref>
مختلف صحف کو یکساں کرنے کے اصل عمل میں تو تمام [[صحابہ]] [[عثمان]] کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۹۔</ref> اور اس کام کے طریقہ کار سے متعلق بھی صرف [[عبداللہ بن مسعود]] کی طرف سے اعتراض سامنے آیا ہے اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اور عثمان کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ عبداللہ بن مسعود نے جن افراد کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کو ناتجریہ کار سمجھتے ہوئے اپنے پاس موجود مصحف کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کیا۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳۔</ref>


اسی طرح مصحف عثمانی میں موجود بعض کلمات کے بارے میں صحابہ کے اختلاف رائ رکھنے کے حوالے سے بھی بعض تاریخی شواہد موجود ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹تا۳۷۳۔</ref> مثال کے طور پر "إنْ ہٰذَانِ لَسَاحِرَان" میں لفظ "ہَذَانِ"(یہ دو)،<ref>سورہ طہ، آیہ ۶۳۔</ref> عربی ادب کے قواعد و ضوابط کے مطابق "ہَذَیْنِ" ہونا چاہئے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹۔</ref> اس بنا پر بعض صحابہ من جملہ [[عایشہ]] اور [[سعید بن جبیر|سعید بن جُبَیر]] اسے غلط سمجھتے ہوئے "ہٰذَیْنِ" تلفظ کرتے تھے۔<ref>ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔</ref> [[مجمع البیان]] میں [[فضل بن حسن طبرسی|طَبرِسی]] کے مطابق [[قراء سبعہ]] میں سے بعض قاری بھی "ہٰذَیْنِ" پڑھتے تھے۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۲۴و۲۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ خود عثمان بھی اسے غلط سمجھتے تھے؛ لیکن چونکہ اس کی وجہ سے کوئی  حلال [[حرام]] یا کوئی حرام‌ [[حلال]] نہیں ہوتا اس وجہ سے اسے تبدیل نہیں کرنے دیا۔<ref>ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔ </ref>
اسی طرح مصحف عثمانی میں موجود بعض کلمات کے بارے میں صحابہ کے اختلاف رائ رکھنے کے حوالے سے بھی بعض تاریخی شواہد موجود ہیں۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹تا۳۷۳۔</ref> مثال کے طور پر "إنْ ہٰذَانِ لَسَاحِرَان" میں لفظ "ہَذَانِ"(یہ دو)،<ref> سورہ طہ، آیہ ۶۳۔</ref> عربی ادب کے قواعد و ضوابط کے مطابق "ہَذَیْنِ" ہونا چاہئے۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۶۹۔</ref> اس بنا پر بعض صحابہ من جملہ [[عایشہ]] اور [[سعید بن جبیر|سعید بن جُبَیر]] اسے غلط سمجھتے ہوئے "ہٰذَیْنِ" تلفظ کرتے تھے۔<ref> ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔</ref> [[مجمع البیان]] میں [[فضل بن حسن طبرسی|طَبرِسی]] کے مطابق [[قراء سبعہ]] میں سے بعض قاری بھی "ہٰذَیْنِ" پڑھتے تھے۔<ref> طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۷۲ش، ج۷، ص۲۴و۲۵۔</ref> کہا جاتا ہے کہ خود عثمان بھی اسے غلط سمجھتے تھے؛ لیکن چونکہ اس کی وجہ سے کوئی  حلال [[حرام]] یا کوئی حرام‌ [[حلال]] نہیں ہوتا اس وجہ سے اسے تبدیل نہیں کرنے دیا۔<ref> ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، ۱۴۲۲ق، ج۶، ص۲۵۰۔ </ref>


جامع البیان میں بھی [[امام علیؑ]] سے نقل ہوئی ہے کہ آپؑ "طَلْحٍ مَنْضُود"<ref>سورہ واقعہ، آیہ ۲۹۔</ref> (تہہ بہ تہہ کیلے)<ref>ترجمہ محمد حسین نجفی۔</ref> کی اصل تلفظ "طَلْعٍ مَنْضُود" (کھجور کے متراکم خوشے) سمجھتے تھے؛ لیکن اس کے باوجود اسے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔<ref>طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۷، ص۱۰۴۔</ref>
جامع البیان میں بھی [[امام علیؑ]] سے نقل ہوئی ہے کہ آپؑ "طَلْحٍ مَنْضُود"<ref> سورہ واقعہ، آیہ ۲۹۔</ref> (تہہ بہ تہہ کیلے)<ref> ترجمہ محمد حسین نجفی۔</ref> کی اصل تلفظ "طَلْعٍ مَنْضُود" (کھجور کے متراکم خوشے) سمجھتے تھے؛ لیکن اس کے باوجود اسے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دی۔<ref> طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۲۷، ص۱۰۴۔</ref>


==شیعہ ائمہ کی رائے==
==شیعہ ائمہ کی رائے==
[[محمدہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق [[ائمہ معصومینؑ]] مُصحَف عثمانی کے مخالف نہیں تھے اسی بنا پر [[شیعہ]] موجودہ [[قرآن]] کو جو اس وقت مسلمانوں کے یہاں موجود ہے، صحیح اور کامل جانتے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲۔</ref> سیوطی [[امام علیؑ]]  سے نقل کرتے ہیں کہ [[عثمان]] نے مصحف عثمانی کی تدوین کرنے کے ضمن میں آپؑ سے مشورہ کیا تھا اور آپ اس کام کے ساتھ موافق تھے۔<ref>معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔</ref> اسی طرح [[وسائل الشیعہ]] میں نقل شدہ ایک حدیث کے مطابق [[امام صادقؑ]] نے ایک شخص کو جو قرآن کی رائج قرأت کے خلاف تلاوت کر رہے تھے، اس کام سے منع فرمایا۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۸۲۱۔</ref>
[[محمدہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق [[ائمہ معصومینؑ]] مُصحَف عثمانی کے مخالف نہیں تھے اسی بنا پر [[شیعہ]] موجودہ [[قرآن]] کو جو اس وقت مسلمانوں کے یہاں موجود ہے، صحیح اور کامل جانتے ہیں۔<ref> معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲۔</ref> سیوطی [[امام علیؑ]]  سے نقل کرتے ہیں کہ [[عثمان]] نے مصحف عثمانی کی تدوین کرنے کے ضمن میں آپؑ سے مشورہ کیا تھا اور آپ اس کام کے ساتھ موافق تھے۔<ref> معرفت، التمہید،  ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔</ref> اسی طرح [[وسائل الشیعہ]] میں نقل شدہ ایک حدیث کے مطابق [[امام صادقؑ]] نے ایک شخص کو جو قرآن کی رائج قرأت کے خلاف تلاوت کر رہے تھے، اس کام سے منع فرمایا۔<ref> حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۸۲۱۔</ref>


==انجام==
==انجام==
تاریخی منابع کے مطابق تمام مسلمان مصحف‌ عثمانی کو ایک خاص تقدس اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی نگہداری میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے؛ لیکن ان تمام تر اقدامات اور ان سے مختلف نسخہ جات تنسیخ ہونے کے باوجود،<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔</ref> خود ان صحف کے انجام سے متعلق کوئی دفیق معلومات میسر نہیں۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> ان صحف کی وجہ سے جو تقدس اور احترام ان کے حامل [[مسجد|مساجد]] اور شہروں کو ملتی تھی، اسے پانے اور محفوظ رکھنے کیلئے سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں رہتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> اس بنا پر پرانے زمانے سے اب تک مختلف نسخہ جات سے متعلق مصحف عثمانی ہونے کا دعوا کیا جاتا رہا ہے؛<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۸۔</ref> لیکن محققین ان تمام دعوؤں کو نادرست قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اس وقت ان صحف کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے۔<ref>نگاہ کنید بہ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۶۔</ref>  
تاریخی منابع کے مطابق تمام مسلمان مصحف‌ عثمانی کو ایک خاص تقدس اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی نگہداری میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے؛ لیکن ان تمام تر اقدامات اور ان سے مختلف نسخہ جات تنسیخ ہونے کے باوجود،<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔</ref> خود ان صحف کے انجام سے متعلق کوئی دفیق معلومات میسر نہیں۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> ان صحف کی وجہ سے جو تقدس اور احترام ان کے حامل [[مسجد|مساجد]] اور شہروں کو ملتی تھی، اسے پانے اور محفوظ رکھنے کیلئے سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں رہتے تھے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> اس بنا پر پرانے زمانے سے اب تک مختلف نسخہ جات سے متعلق مصحف عثمانی ہونے کا دعوا کیا جاتا رہا ہے؛<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۸۔</ref> لیکن محققین ان تمام دعوؤں کو نادرست قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اس وقت ان صحف کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے۔<ref> نگاہ کنید بہ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۶۔</ref>  


مثلا تاشقند سمرقند میں موجود قرآن کا ایک نسخہ مصحف عثمانی کے نام سے معروف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن خود [[عثمان]] کے یہاں موجود تھا اور جب انہیں قتل کیا جا رہا تھا تو وہ اس کی تلاوت کر رہے تھے اسی لئے اس پر عثمان کے خون کے آثار باقی ہیں؛<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۶و۴۶۷۔</ref> لیکن [[محمود رامیار]] کے مطابق یہ ادعا درست نہیں کیونکہ مصحف عثمانی کے حوالے سے مشہور یہی ہے کہ یہ نقطوں اور اعراب سے خالی تھے جبکہ مذکورہ نسخے میں اعراب اور نقطے پائے جاتے ہیں اس بنا پر یہ یقین سے کہا جاتا سکتا ہے کہ اس نسخے کی قدمت عثمان کے زمانے تک نہیں پہنچتی ہے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۷۔</ref> اسی طرح [[استانبول]] کے ایک موزیم میں موجود قرآنی نسخے سے متعلق بھی مصحف عثمانی ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے؛ لیکن اس میں بھی وہی اشکال موجود ہے جو پہلے والے نسخے میں بیان کیا پس اس بنا پر یہ ادعا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔<ref> حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰۔</ref>
مثلا تاشقند سمرقند میں موجود قرآن کا ایک نسخہ مصحف عثمانی کے نام سے معروف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قرآن خود [[عثمان]] کے یہاں موجود تھا اور جب انہیں قتل کیا جا رہا تھا تو وہ اس کی تلاوت کر رہے تھے اسی لئے اس پر عثمان کے خون کے آثار باقی ہیں؛<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۶و۴۶۷۔</ref> لیکن [[محمود رامیار]] کے مطابق یہ ادعا درست نہیں کیونکہ مصحف عثمانی کے حوالے سے مشہور یہی ہے کہ یہ نقطوں اور اعراب سے خالی تھے جبکہ مذکورہ نسخے میں اعراب اور نقطے پائے جاتے ہیں اس بنا پر یہ یقین سے کہا جاتا سکتا ہے کہ اس نسخے کی قدمت عثمان کے زمانے تک نہیں پہنچتی ہے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۷۔</ref> اسی طرح [[استانبول]] کے ایک موزیم میں موجود قرآنی نسخے سے متعلق بھی مصحف عثمانی ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے؛ لیکن اس میں بھی وہی اشکال موجود ہے جو پہلے والے نسخے میں بیان کیا پس اس بنا پر یہ ادعا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔<ref> حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰۔</ref>


==قرآنی نسخوں کی تنسیخ==
==قرآنی نسخوں کی تنسیخ==
جن صحیفوں کو [[عثمان]] نے مختلف اسلامی مناطق میں بھیجا تھا اسے مسلمانوں کے یہاں نہایت پذیرائی ملی۔ یوں اس کی تدویں کے مختصر مدت میں ہی ان سے دوسرے نسخہ جات تنسیخ ہونے لگے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔</ref> [[محمود رامیار]] کے مطابق [[دوسری صدی ہجری]] میں بعض افراد خود کو قرآن کی کتابت کیلئے وقف کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر ابوعمرو شیبانی نے تقریبا 80 سے زیادہ قرآن مجید کے نسخے تحریر کر کے انہیں [[مسجد کوفہ]] میں رکھ دیا تھا۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔</ref> اس طرح قرآن کے نسخوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا تھا کہ صرف سنہ 403ھ میں [[مصر]] کے [[فاطمیان|فاطمی]]ِ خلیفہ الحاکم بامراللہ نے 1298 نسخے [[مسجد جامع]] عتیق کیلئے اور 814 نسخے مسجد جامع طولونی کیلئے دئے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔</ref>
جن صحیفوں کو [[عثمان]] نے مختلف اسلامی مناطق میں بھیجا تھا اسے مسلمانوں کے یہاں نہایت پذیرائی ملی۔ یوں اس کی تدویں کے مختصر مدت میں ہی ان سے دوسرے نسخے تنسیخ ہونے لگے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔</ref> [[محمود رامیار]] کے مطابق [[دوسری صدی ہجری]] میں بعض افراد خود کو قرآن کی کتابت کیلئے وقف کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر ابو عمرو شیبانی نے تقریبا 80 سے زیادہ قرآن مجید کے نسخے تحریر کر کے انہیں [[مسجد کوفہ]] میں رکھ دیا تھا۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔</ref> اس طرح قرآن کے نسخوں کی تعداد میں اس قدر اضافہ ہوا تھا کہ صرف سنہ 403ھ میں [[مصر]] کے [[فاطمیان|فاطمی]]ِ خلیفہ الحاکم بامراللہ نے 1298 نسخے [[مسجد جامع]] عتیق کیلئے اور 814 نسخے مسجد جامع طولونی کیلئے دئے۔<ref> رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔</ref>


آج کل مسلمانوں کے یہاں موجود قرآن بھی انہی نسخوں سے شایع کی جاتی ہیں جن کو مصحف عثمانی سے تنسیخ کئے گئے تھے۔ موجودہ قرآن پہلی دفعہ سنہ 950ھ کو [[اٹلی]] میں شایع ہوا؛ لیکن [[کلیسا]] کے حکم پر اسے نابود کیا گیا۔ اس کے بعد سنہ 1104ھ پھر سنہ1108ھ میں یورپ میں شایع کیا گیا۔ پہلی بار مسلمانوں کے توسط سے سنہ 1200ھ میں مولاعثمان نے سن پیترزبورگ [[روس]] میں قرآن کی اشاعت کا کام انجام دیا۔<ref>[http://www۔maarefquran۔org/index۔php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن۔]</ref>
آج کل مسلمانوں کے یہاں موجود قرآن بھی انہی نسخوں سے شایع کی جاتی ہیں جن کو مصحف عثمانی سے تنسیخ کئے گئے تھے۔ موجودہ قرآن پہلی دفعہ سنہ 950ھ کو [[اٹلی]] میں شایع ہوا؛ لیکن [[کلیسا]] کے حکم پر اسے نابود کیا گیا۔ اس کے بعد سنہ 1104ھ پھر سنہ 1108ھ میں یورپ میں شایع کیا گیا۔ پہلی بار مسلمانوں کے توسط سے سنہ 1200ھ میں مولا عثمان نے سن پیترزبرگ [[روس]] میں قرآن کی اشاعت کا کام انجام دیا۔<ref>[http://www۔maarefquran۔org/index۔php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن۔]</ref>


اسلامی ممالک میں [[ایران]] پہلا اسلامی ملک ہے جس نے قرآن کی اشاعت کا کام انجام دیا۔ ایران میں سنہ 1243 اور 1248ھ کو قرآن کے دو لیتھوگراف تہیہ کئے گئے۔ اس کے بعد دوسرے اسلامی ممالک جیسے [[ترکی]]، [[مصر]] اور [[عراق]] نے بھی قرآن کی مختلف طباعتیں شایع کی ہیں۔<ref>[http://www۔maarefquran۔org/index۔php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن۔]</ref>
اسلامی ممالک میں [[ایران]] پہلا اسلامی ملک ہے جس نے قرآن کی اشاعت کا کام انجام دیا۔ ایران میں سنہ 1243 اور 1248ھ کو قرآن کے دو لیتھوگراف تہیہ کئے گئے۔ اس کے بعد دوسرے اسلامی ممالک جیسے [[ترکی]]، [[مصر]] اور [[عراق]] نے بھی قرآن کی مختلف طباعتیں شایع کی ہیں۔<ref>[http://www۔maarefquran۔org/index۔php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، پیشینہ چاپ قرآن کریم، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن۔]</ref>
سطر 77: سطر 77:


==مآخذ==
==مآخذ==
*قرآن کریم، ترجمہ محمدمہدی فولادوند۔
* قرآن کریم، ترجمہ محمد مہدی فولادوند۔
* ثعلبى نیشابورى، احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۲۲ق۔
* ثعلبى نیشابورى، احمد بن ابراہیم، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول، ۱۴۲۲ق۔
* حجتی، سیدمحمدباقر، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۶۸ش۔
* حجتی، سید محمد باقر، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، چاپ پنجم، ۱۳۶۸ش۔
* حر عاملی، محمد بن حسن‏، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام‏، چاپ اول، ۱۴۰۹ق۔
* حر عاملی، محمد بن حسن‏، وسائل الشیعہ، قم، مؤسسۃ آل البيت عليہم السلام‏، چاپ اول، ۱۴۰۹ق۔
* رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیرکبیر، چاپ سوم، ۱۳۶۹ش۔
* رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیر کبیر، چاپ سوم، ۱۳۶۹ش۔
* سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، الرضی-بیدار-عزیزی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش۔
* سیوطی، جلال الدین عبدالرحمن، الإتقان فی علوم القرآن، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، قم، الرضی-بیدار-عزیزی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش۔
* طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان فى تفسير القرآن،  تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
* طبرسى، فضل بن حسن، مجمع البيان فى تفسير القرآن،  تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، ۱۳۷۲ش۔
* طبرى،  محمد بن جرير، جامع البیان فى تفسیر القرآن، بيروت، ارالمعرفہ، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔
* طبرى،  محمد بن جرير، جامع البیان فى تفسیر القرآن، بيروت، ارالمعرفہ، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔
* [http://www۔maarefquran۔org/index۔php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن۔]
* [http://www۔maarefquran۔org/index۔php/page,viewArticle/LinkID,4333 معرفت، «پیشینہ چاپ قرآن کریم»، سایت دانشنامہ موضوعی قرآن۔]
* معرفت، محمدہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔
* معرفت، محمد ہادی، التمہید فی علوم القرآن، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔
{{قرآن}}
{{قرآن}}


[[fa:مصحف عثمانی]]
[[fa:مصحف عثمانی]]
گمنام صارف