"مصحف عثمانی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 61: | سطر 61: | ||
[[محمدہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق [[ائمہ معصومینؑ]] مُصحَف عثمانی کے مخالف نہیں تھے اسی بنا پر [[شیعہ]] موجودہ [[قرآن]] جو اس وقت مسلمانوں کے یہاں موجود ہے کو صحیح اور کامل جانتے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲۔</ref> سیوطی [[امام علیؑ]] سے نقل کرتے ہیں کہ [[عثمان]] نے مصحف عثمانی کو تدوین کرنے کے ضمن میں آپؑ سے مشورہ کیا تھا اور آپ اس کام کے ساتھ موافق تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔</ref> اسی طرح [[وسائل الشیعہ]] میں نقل شدہ ایک حدیث کے مطابق [[امام صادقؑ]] نے ایک شخص کو جو قرآن کی رائج قرأت کے خلاف تلاوت کر رہے تھے اسے اس کام سے منع فرمایا۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۸۲۱۔</ref> | [[محمدہادی معرفت|آیت اللہ معرفت]] کے مطابق [[ائمہ معصومینؑ]] مُصحَف عثمانی کے مخالف نہیں تھے اسی بنا پر [[شیعہ]] موجودہ [[قرآن]] جو اس وقت مسلمانوں کے یہاں موجود ہے کو صحیح اور کامل جانتے ہیں۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۲۔</ref> سیوطی [[امام علیؑ]] سے نقل کرتے ہیں کہ [[عثمان]] نے مصحف عثمانی کو تدوین کرنے کے ضمن میں آپؑ سے مشورہ کیا تھا اور آپ اس کام کے ساتھ موافق تھے۔<ref>معرفت، التمہید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔</ref> اسی طرح [[وسائل الشیعہ]] میں نقل شدہ ایک حدیث کے مطابق [[امام صادقؑ]] نے ایک شخص کو جو قرآن کی رائج قرأت کے خلاف تلاوت کر رہے تھے اسے اس کام سے منع فرمایا۔<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۴، ص۸۲۱۔</ref> | ||
==انجام== | ==انجام== | ||
تاریخی منابع کے مطابق تمام مسلمان مصحف عثمانی کو ایک خاص تقدس اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس کی نگہداری میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے؛ لیکن ان تمام اقدامات اور ان سے مختلف نسخہ جات ننسیخ ہونے کے باوجود،<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔</ref> خود ان صحف کے انجام سے متعلق کوئی دفیق معلومات میسر نہیں ہیں۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> ان صحف کی وجہ سے جو تقدس اور احترام ان کے حامل [[مسجد|مساجد]] اور شہروں کو ملتی تھی، اسے پانے اور محفوظ رکھنے کیلئے سب ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں رہتے تھے۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵۔</ref> اس بنا پر پرانے زمانے سے اب تک مختلف نسخہ جات سے متعلق مصحف عثمانی ہونے کا دعوا کیا جاتا رہا ہے؛<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۸۔</ref> لیکن محققین ان تمام دعوؤں کو نادرست قرار دیتے ہوئے اس بات کے معتقد ہیں کہ اس وقت ان صحف کا کوئی نام و نشان باقی نہیں ہے۔<ref>نگاہ کنید بہ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰؛ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۵و۴۶۶۔</ref> | |||
مثلا تاشکند سمرقند میں موجود قرآن کا ایک نسخہ جو مصحف عثمانی کے نام سے معروف ہے اور کہا جاتا ہے کہ خود [[عثمان]] یہاں موجود تھا اور جب انہیں قتل کیا جا رہا تھا تو یہ اس کی تلاوت کر رہے تھے اسی بنا پر اس پر عثمان کے خون کے چھینٹیں پڑی ہیں جس کے آثار اب بھی باقی ہیں؛<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۶و۴۶۷۔</ref> لیکن [[محمود رامیار]] کے مطابق یہ ادعا درست نہیں کیونکہ مصحف عثمانی کے حوالے سے مشہور یہی ہے کہ یہ نقطوں اور اعراب سے خالی تھے جبکہ مذکورہ نسخے میں اعراب اور نقطے پائے جاتے ہیں اس بنا پر یہ یقین سے کہا جاتا سکتا ہے کہ اس نسخے کی قدمت عثمان کے زمانے تک نہیں پہنچتی۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۶۷۔</ref> اسی طرح [[استانبول]] کے ایک موزیم میں موجود قرآنی نسخے سے متعلق بھی مصحف عثمانی ہونے کا دعوی کیا جاتا ہے؛ لیکن اس میں بھی وہی اشکال موجود ہے جو پہلے والے نسخے میں بیان کیا پس اس بنا پر یہ ادعا بھی درست معلوم نہیں ہوتا۔<ref>نگاہ کنید بہ حجتی، پژوہشی در تاریخ قرآن کریم، ۱۳۶۸ش، ص۴۶۰۔</ref> | |||
== | ==قرآنی نسخوں کی تنسیخ==<!-- | ||
مصحفہایی کہ [[عثمان]] بہ سرزمینہای مختلف اسلامی فرستاد، مورد توجہ ویژہ مسلمانان قرار گرفت۔ در مدتی کمی پس از تدوین مصحفہای عثمانی، نسخہنویسی از آنہا رواج یافت و نسخہہای بسیاری از روی آنہا نوشتہ شد۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔</ref> بہ گزارش [[محمود رامیار]]، از [[قرن دوم قمری]] کسانی خود را وقف کتابت قرآن میکردند۔ برای مثال ابوعمرو شیبانی بیش از ۸۰ نسخہ نوشت و در [[مسجد کوفہ]] گذاشت۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔</ref> نسخہہای قرآن چنان فراوان شد کہ تنہا در یک مورد در سال ۴۰۳ق، الحاکم بامراللہ، خلیفہ [[فاطمیان|فاطمی]]ِ کشور [[مصر]]، ۱۲۹۸ نسخہ قرآن بہ [[مسجد جامع]] عتیق و ۸۱۴ نسخہ بہ مسجد جامع طولونی داد۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔</ref> | مصحفہایی کہ [[عثمان]] بہ سرزمینہای مختلف اسلامی فرستاد، مورد توجہ ویژہ مسلمانان قرار گرفت۔ در مدتی کمی پس از تدوین مصحفہای عثمانی، نسخہنویسی از آنہا رواج یافت و نسخہہای بسیاری از روی آنہا نوشتہ شد۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۱۔</ref> بہ گزارش [[محمود رامیار]]، از [[قرن دوم قمری]] کسانی خود را وقف کتابت قرآن میکردند۔ برای مثال ابوعمرو شیبانی بیش از ۸۰ نسخہ نوشت و در [[مسجد کوفہ]] گذاشت۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔</ref> نسخہہای قرآن چنان فراوان شد کہ تنہا در یک مورد در سال ۴۰۳ق، الحاکم بامراللہ، خلیفہ [[فاطمیان|فاطمی]]ِ کشور [[مصر]]، ۱۲۹۸ نسخہ قرآن بہ [[مسجد جامع]] عتیق و ۸۱۴ نسخہ بہ مسجد جامع طولونی داد۔<ref>رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۹ش، ص۴۷۲۔</ref> | ||