گمنام صارف
"عصمت انبیاء" کے نسخوں کے درمیان فرق
←منشأ
imported>E.musavi (←منشأ) |
imported>E.musavi (←منشأ) |
||
سطر 19: | سطر 19: | ||
== منشأ == | == منشأ == | ||
عصمت کے منشاء اور سبب کے بارے میں مختلف نظرات بیان کئے گئے ہیں: [[شیخ مفید]] اور [[سیدِ مرتَضی]] عصمت انبیاء کو ان کے حق میں [[خدا]] کے لطف و کرم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیح الاعتقادات الامامیہ، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۸؛ سید مرتضی، الذخیرہ، ۱۴۱۱ق، ص۱۸۹۔</ref> سیدِ مرتضی ایک اور قول میں [[شیخ طوسی]] اور [[ابن میثم | عصمت کے منشاء اور سبب کے بارے میں مختلف نظرات بیان کئے گئے ہیں: [[شیخ مفید]] اور [[سیدِ مرتَضی]] عصمت انبیاء کو ان کے حق میں [[خدا]] کے لطف و کرم کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔<ref>مفید، تصحیح الاعتقادات الامامیہ، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۸؛ سید مرتضی، الذخیرہ، ۱۴۱۱ق، ص۱۸۹۔</ref> سیدِ مرتضی ایک اور قول میں [[شیخ طوسی]] اور [[ابن میثم بحرانی]] کے ساتھ عصمت انبیا کو ان کے نفسانی مَلَکہ جو ان کے اندر موجود ہوتے ہیں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان سے گناہ سرزد ہونے کی قدرت ہی سلب ہو جاتی ہے اسی بنا پر اس خصوصیت کے ہوتے ہوئے انبیاء سے کبھی بھی گناہ سرزد نہیں ہوتا۔<ref>سید مرتضی، تنزیہ الانبیاء، ص۱۹؛ طوسی، تلخیص المحصل، ۱۹۸۵م، ص۳۶۹؛ بحرانی، النجاہ فی القیامہ، ۱۴۱۷ق، ص۵۵۔</ref> [[علامہ طباطبایی]] طاعت اور گناہ سے متعلق انبیاء کے راسخ اور زوال ناپذیر علم کو ان کی عصمت کا منشأ قرار دیتے ہیں، انبیاء کے علم کی خصوصیت یہ ہے کہ پہلی بات یہ کہ یہ علم قابل تعلیم نہیں ہے بلکہ خدا کا عطا کردہ ہے دوسری بات یہ کہ یہ علم شہوات سے مغلوب نہیں ہوتا۔<ref>طباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱۷، ص۲۹۱؛ ج۵، ص۷۹۔</ref> [[ملا صدرا]] بھی عصمت انبیاء کو خدا کی عطا اور بخشش سمجھتے ہیں جسے خدا اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے عطا فرماتا ہے جس کے ذریعے قوہ واہمہ جو شیطان کے وسوسوں میں آنے کا امکان ہوتا ہے، قوہ عاقلہ کی تسخیر میں چلی جاتی ہے۔<ref> ملا صدرا، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۱ش، ج۵، ص۲۲۴۔</ref> | ||
== دائرہ == | == دائرہ == |