مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن امام علی نقیؑ" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 38: سطر 38:
چودہویں صدی ہجری کے مورخ [[شیخ عباس قمی]] نے سید حسن براقی (متوفی 1332ھ) سے نقل کیا ہے کہ آپ کی نسل آپ کے پوتے شمس‌الدین محمد (متوفی 832 یا 833ھ) کے ذریعے آگے چلی۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۳۔</ref> شمس‌الدین کا نسب چار واسطوں سے سید محمد کے فرزند علی تک پہنچتا ہے اور چونکہ وہ [[بخارا]] میں متولد اور وہیں پر جوان ہوئے تھے میرسلطان بُخاری کے نام سے مشہور تھے اور ان کی اولاد بخاریوں کے نام سے معروف تھے۔<ref>حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج۳، ص۴۶۱-۴۶۲۔</ref> وہاں سے وہ بلاد روم چلے گئے اور شہر بروسا میں مقیم ہوئے اور وہیں پر مدفون ہیں۔<ref>حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج۳، ص۴۶۱-۴۶۲۔</ref> شیخ عباس قمی اسی طرح سید حسن براقی سے نقل کرتے ہیں کہ سید محمد بَعاج بھی سید محمد کی اواد میں سے تھے۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۳۔</ref> کہا جاتا ہے کہ سادات آل بعاج جو میسان، ذی‌قار، واسط، [[قادسیہ]]، [[بغداد]] اور [[نجف اشرف]]<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۱۰۔</ref> اسی طرح ایران کے شہر خوزستان وغیرہ میں آباد ہیں، بھی سید محمد کے فرزند علی اور احمد کی اولاد ہیں۔<ref>حرزالدین، مراقد المعارف، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۲۶۲(پانویس۲)۔</ref>
چودہویں صدی ہجری کے مورخ [[شیخ عباس قمی]] نے سید حسن براقی (متوفی 1332ھ) سے نقل کیا ہے کہ آپ کی نسل آپ کے پوتے شمس‌الدین محمد (متوفی 832 یا 833ھ) کے ذریعے آگے چلی۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۳۔</ref> شمس‌الدین کا نسب چار واسطوں سے سید محمد کے فرزند علی تک پہنچتا ہے اور چونکہ وہ [[بخارا]] میں متولد اور وہیں پر جوان ہوئے تھے میرسلطان بُخاری کے نام سے مشہور تھے اور ان کی اولاد بخاریوں کے نام سے معروف تھے۔<ref>حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج۳، ص۴۶۱-۴۶۲۔</ref> وہاں سے وہ بلاد روم چلے گئے اور شہر بروسا میں مقیم ہوئے اور وہیں پر مدفون ہیں۔<ref>حسینی مدنی، تحفۃ الازہار، التراث المکتوب، ج۳، ص۴۶۱-۴۶۲۔</ref> شیخ عباس قمی اسی طرح سید حسن براقی سے نقل کرتے ہیں کہ سید محمد بَعاج بھی سید محمد کی اواد میں سے تھے۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۳۔</ref> کہا جاتا ہے کہ سادات آل بعاج جو میسان، ذی‌قار، واسط، [[قادسیہ]]، [[بغداد]] اور [[نجف اشرف]]<ref> بداوی، سبع الجزیرہ، مرکز سبع الدجیل للتبلیغ و الارشاد، ص۱۰۔</ref> اسی طرح ایران کے شہر خوزستان وغیرہ میں آباد ہیں، بھی سید محمد کے فرزند علی اور احمد کی اولاد ہیں۔<ref>حرزالدین، مراقد المعارف، ۱۳۷۱ش، ج۲، ص۲۶۲(پانویس۲)۔</ref>


==اخلاقی کمالات==
==مقام و منزلت==
شیعہ محقق [[باقر شریف قرشی]](متوفی 1433ھ) کے مطابق سید محمد کے اخلاق اور ادب نے ان کو دوسروں سے ممتاز بنایا تھا۔<ref>قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> اسی بنا پر بعض [[شیعہ]] حضرات کا خیال تھا ک [[امام ہادیؑ]] کے بعد [[امامت]] کا منصب سید محمد کو ملے گا۔<ref>قمی، منتہی الآمال، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۱۸۹۱؛ قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> سید محمد ہمیشہ اپنے بھائی [[امام حسن عسکریؑ]] کے ساتھ ہوا کرتے تھے<ref>اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ص۲۱۔</ref> اور باقر شریف قرشی کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری اپنے ذمے لئے تھے۔<ref> قرشی، موسوعۃ سیرۃ اہل البیت الامام الحسن العسکری، ۱۴۳۳ق، ج۳۴، ص۲۶۔</ref> [[شیخ عباس قمی]] کے نقل کے مطابق امام حسن عسکریؑ نے سید محمد کی موت پر اپنے گریبان چاک کئے اور اس کام پر آپ پر اعتراض کرنے والوں کے جواب میں [[حضرت موسی]] کا اپنے بھائی [[حضرت ہارون]] کی موت پر گریبان چاک کرنے کے ساتھ استناد کرتے تھے۔<ref> قمی، سفینۃ البحار، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۴۱۰؛ امین، اعیان الشیعہ، ۱۴۰۳ق، ج۱۰، ص۵۔</ref>


ابو جعفر سید محمد بیحد بلند اخلاق اور ادب کے حامل تھے۔ اور یہ خوبیاں انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ شیعوں کا یہ ماننا تھا کہ منصب امامت [[امام علی نقی علیہ السلام]] کے بعد ان تک پہچے گا۔
تیسری اور چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مورخین [[سعد بن عبداللہ اشعری]] اور [[حسن بن موسی نوبختی]] کے مطابق شیعوں کی ایک جماعت نے امام ہادیؑ کی شہادت کے بعد سید محمد کی وفات سے انکار کرتے ہوئے ان کی امامت کے قائل ہو گئے اور سید محمد کو اپنے والد گرامی کا جانشین اور [[مہدی موعود]] قرار دیتے تھے؛ کیونکہ ان کے بقول امام ہادیؑ نے امامت کے لئے ان کی معرفی کی تھی اور چونکہ امام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینا جائز نہیں اور [[بداء]] حاصل نہیں ہوا ہے پس حقیقت میں وہ ان کی موت نہیں ہوئی ہے اور ان کے والد امام ہادیؑ سے ان کو لوگوں کے گزند سے محفوظ کرنے کے لئے ان کو چھپایا ہے۔<ref> اشعری قمی، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱؛ نوبختی، فرق الشیعہ، ۱۴۰۴ق، ص۹۴۔</ref> یہ لوگ مذکورہ تمام باتوں پر عقیدہ رکھتے تھے حالانکہ سید محمد امام ہادیؑ کی زندگی میں ہی اس دنیا سے چلے گئے تھے<ref> اشعری، المقالات و الفرق، ۱۳۶۰ش، ص۱۰۱۔</ref> اور امام ہادیؑ نے سید محمد کے وفات کے دن آپ کی خدمت میں تلسیت کے لئے آنے والے لوگوں کے سامنے [[امام حسن عسکریؑ]] کی امامت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۶۔</ref> ایک حدیث کے مطابق اس وقت آپ کی خدمت میں [[آل ابی‌طالب]]، [[بنی‌ہاشم]] اور [[قریش]] وغیرہ کے 150 سے بھی زیادہ لوگ موجود تھے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۳۶۳ش، ج‏۵۰، ص۲۴۵۔</ref>


الکلانی ان کی شخصیت کے بارے میں اس طرح سے کہتے ہیں:
شیعہ محدیث میرزا حسین نوری(متوفی 1320ھ) کے مطابق سید محمد کے کرامات [[متواتر]] طور پر اور [[اہل سنت]] کے یهاں بھی مشہور ہیں؛ اسی بنا پر [[عراق]] کے لوگ ان کے نام کی [[قسم]] کھانے سے خوف محسوس کرتے ہیں، اگر کسی شخص پر کسی چیز کے چرائے جانے کی تہمت لگائی جاتی تو اس چیز کو متعلقہ شخص کو دے دیتے ہیں لیکن سید محمد کی قسم نہیں کھاتے ہیں۔<ref>نوری، نجم الثاقب، ۱۳۸۴ق، ج۱، ص۲۷۲۔</ref> بعض منابع میں سید محمد سے بعض [[کرامت]] نقل ہوئی ہیں؛ من جملہ یہ کہ محمدعلی اردوبادی (۱۳۱۲-۱۳۸۰ھ) نے اپنی کتاب "حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادیؑ" میں ان کی تقریبا 60 کرامات کا ذکر کیا ہے۔<ref> اردوبادی، حیاۃ و کرامات ابوجعفر محمد بن الامام علی الہادی(ع)، ۱۴۲۷ق، ص۵۰ بہ بعد۔</ref>
:میں ابو جعفر سید محمد کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت وہ عنفوان شباب اور کمسنی کی منزل میں تھے۔ میں ان سے زیادہ با وقار، بزرگوار، جلیل القدر اور پاکیزہ نفس کسی کو نہیں پایا۔ اس وقت [[امام حسن عسکری علیہ السلام]] [[حجاز]] میں صغر سنی کے عالم میں تھے اور سید محمد ان کی بیحد ستایش کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنے بھائی [[امام حسن عسکریؑ]] کے ہمراہ رہتے تھے اور ان جدا نہیں ہوتے تھے۔ اور امامؑ نے بھی ان کی تعلیم و تربیت اپنے ذمہ لی ہوئی تھی اور انہیں اپنے علوم و معارف اور آداب سے مستفیض فرماتے تھے۔<ref>قرشی، زندگانی امام حسن عسکریؑ ، ،ص:۲۳ </ref>  
 
چونکہ سید محمد صاحب استعداد اور لیاقت تھے لہذا شیعہ یہ تصور کرتے تھے کہ اگلے امام وہی ہوں گے۔ لیکن [[امام علی نقیؑ]] کی زندگی میں ہی ان کی وفات کے بعد امامؑ نے امر امامت میں اپنے جانشین کے سلسلہ میں شیعوں کی رہنمائی فرمائی اور انہیں امام حسن عسکریؑ کی امامت سے آگاہ کیا۔<ref>قرشی، زندگانی امام حسن عسکریؑ ، ،ص:۲۳ </ref>


==وفات==
==وفات==
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم