"بیعت النساء" کے نسخوں کے درمیان فرق
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 91: | سطر 91: | ||
[[زمرہ:ہجرت تا وفات نبی کے واقعات]] | [[زمرہ:ہجرت تا وفات نبی کے واقعات]] | ||
[[زمرہ:آٹھویں | [[زمرہ:آٹھویں ہجری کے واقعات]] | ||
[[زمرہ:رسول خدا کے معاہدے]] | [[زمرہ:رسول خدا کے معاہدے]] |
نسخہ بمطابق 23:34، 11 مئی 2018ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم Hakimi (حصہ · شراکت) نے 6 سال قبل کی۔ |
بِیعَت النساء، خواتین کا رسول خداؐ کی بیعت کرنے کو کہا جاتا ہے۔ سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 12 کے تحت یہ بیعت، شرک، چوری، زنا، بچوں کے قتل، پیغمبر اکرمؐ کی نافرمانی اور دوسروں کے بچوں کو اپنے شوہر کی طرف نسبت دینے سے اجتناب کرنے کے بارے میں تھا۔ اس بیعت کی کیفیت کے بارے میں مشہور قول یہ ہے کہ پیغمبر خداؐ نے اپنا ہاتھ پہلے پانی کے طشت میں رکھا اور بیعت کے شرائط کو بیان کیا اور پھر خواتین نے اپنے ہاتھوں کو طشت میں رکھ کر ان شرائط کو قبول کیا۔ یہ بیعت فتح مکہ کے بعد واقع ہوئی، اگر چہ بعض کا کہنا ہے کہ بیعت عقبہ اول ہی کا دوسرا نام بیعت النساء ہے اور یہ پیغمبر اکرمؐ کی مکی زندگی کے آخری ایام میں واقع ہوئی ہے۔
بیعت کی قدمت
بیعت عہد و پیمان اور کسی کی حکومت اور ریاست کو ماننا یا کسی سے وفاداری اور فرمانبرداری کا اعلان کرنے کو کہا جاتا ہے۔[1] اور اسلام سے پہلے کے عرب رسومات میں سے اہم رسم تھی جسے اسلام نے بھی تائید کی۔ دور جاہلیت میں عورتوں کے لیے بیعت اور دیگر اہم امور میں کوئی کردار نہیں تھا۔
تاریخی منابع کے مطابق بیعت عقبہ دوم (۱۳ بعثت) میں خواتیں شامل تھیں۔[2]اور اس دور کی مکی خواتین کی بیعت کی حکایت ہوئی ہے۔[3]رسول خدا کی مدینہ سے ہجرت کے بعد خواتین کبھی گروہ کی شکل میں[4] اور کبھی انفرادی[5] شکل میں آپؐ کی بیعت کرنے آتی تھی، اور کبھی کسی جگہ جمع ہوتی تھیں اور آنحضرت کسی صحابی کو ان سے بیعت لینے کے لیے بھیجتے تھے۔[6]اور کبھی اہم واقعات میں مردوں کے ساتھ بیعت بیعت کرتی تھیں۔ بیعت رضوان میں بعض مسلمان خواتین جیسے؛ ام سلمہ، ام عماره، ام منیع، اور ام عامر اشہلیہ شریک تھیں۔[7]
حوالہ جات
- ↑ لسان العرب، ج۸، ص۲۶، «بیع»
- ↑ السیرة النبویه، ج۱، ص۴۴۱؛ الطبقات، ج۸، ص۳۰۳
- ↑ الطبقات، ج۸، ص۱۸۳؛ الاستیعاب، ج۴، ص۱۸۰۰؛ اسد الغابه، ج۶، ص۴۸؛ المنتظم، ج۵، ص۱۸۰
- ↑ الطبقات، ج۸، ص۸؛ تاریخ دمشق، ج۶۹، ص۴۹
- ↑ تاریخ دمشق، ج۶۹، ص۵۰
- ↑ الطبقات، ج۸، ص۴؛ الدر المنثَور، ج۶، ص۲۰۹؛ مسند احمد، ج۶، ص۴۰۹
- ↑ المغازی، ج۲، ص۵۷۴؛ امتاع الاسماع، ج۱، ص۲۷۶
مآخذ
- سایت حج، مقاله بیعت نساء، حمید رضا مطهری
- دانشنامه جهان اسلام، بیعت عقبه، سید جعفر شهیدی
- ابن أبی الحدید، شرح نهج البلاغة، ج ۱، تحقیق : محمد أبو الفضل إبراهیم، دار إحیاء الکتب العربیة - عیسی البابی الحلبی وشرکاه، ۱۳۷۸- ۱۹۵۹م.
- الاستیعاب:ابن عبدالبر (م.۴۶۳ق.)، به کوشش البجاوی، بیروت،دار الجیل، ۱۴۱۲ق
- اسد الغابه:ابن اثیر (م.۶۳۰ق.)، بیروت،دار الفکر، ۱۴۰۹ق
- الاصابه:ابن حجر العسقلانی (م.۸۵۲ق.)، به کوشش علی معوض و عادل عبدالموجود، بیروت،دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۵ق
- الاصفی:الفیض الکاشانی (م.۱۰۹۱ق.)، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، ۱۴۱۸ق
- امتاع الاسماع:المقریزی (م.۸۴۵ق.)، به کوشش محمد عبدالحمید، بیروت،دار الکتب العلمیه، ۱۴۲۰ق
- انساب الاشراف:البلاذری (م.۲۷۹ق.)، به کوشش زکار و زرکلی، بیروت،دار الفکر، ۱۴۱۷ق
- البحر المحیط:ابوحیان الاندلسی (م.۷۵۴ق.)، بیروت،دار الفکر، ۱۴۱۲ق
- البدایة و النهایه:ابن کثیر (م.۷۷۴ق.)، بیروت، مکتبة المعارف
- تاریخ طبری (تاریخ الامم و الملوک):الطبری (م.۳۱۰ق.)، به کوشش محمد ابوالفضل، بیروت،دار احیاء التراث العربی
- تاریخ مدینة دمشق:ابن عساکر (م.۵۷۱ق.)، به کوشش علی شیری، بیروت،دار الفکر، ۱۴۱۵ق
- تفسیر ابن ابی حاتم (تفسیر القرآن العظیم):ابن ابی حاتم (م.۳۲۷ق.)، به کوشش اسعد محمد، بیروت، المکتبة العصریه، ۱۴۱۹ق
- تفسیر ثعالبی (الجواهر الحسان):الثعالبی (م.۸۷۵ق.)، به کوشش عبدالفتاح و دیگران، بیروت،دار احیاء التراث العربی، ۱۴۱۸ق
- تفسیر قرطبی (الجامع لاحکام القرآن):القرطبی (م.۶۷۱ق.)، بیروت،دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۵ق
- تفسیر القمی:القمی (م.۳۰۷ق.)، به کوشش الجزائری، قم،دار الکتاب، ۱۴۰۴ق
- تفسیر ماوردی (النکت و العیون):الماوردی (م.۴۵۰ق.)، بیروت،دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۲ق
- جامع البیان:الطبری (م.۳۱۰ق.)، بیروت،دار المعرفه، ۱۴۱۲ق
- الدر المنثَور:السیوطی (م.۹۱۱ق.)، بیروت،دار المعرفه، ۱۳۶۵ق
- روض الجنان:ابوالفتوح رازی (م.۵۵۴ق.)، به کوشش یاحقی و ناصح، مشهد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۵ش
- السیرة النبویه:ابن هشام (م.۲۱۳/۲۱۸ق.)، به کوشش السقاء و دیگران، بیروت،دار المعرفه
- صحیح البخاری:البخاری (م.۲۵۶ق.)، بیروت،دار الفکر، ۱۴۰۱ق
- الطبقات الکبری:ابن سعد (م.۲۳۰ق.)، به کوشش محمد عبدالقادر، بیروت،دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۸ق
- الکامل فی التاریخ:ابن اثیر (م.۶۳۰ق.)، بیروت،دار صادر، ۱۳۸۵ق
- الکشاف:الزمخشری (م.۵۳۸ق.)، قم، بلاغت، ۱۴۱۵ق
- لسان العرب:ابن منظور (م.۷۱۱ق.)، قم، ادب الحوزه، ۱۴۰۵ق
- مجمع البیان:الطبرسی (م.۵۴۸ق.)، بیروت،دار المعرفه، ۱۴۰۶ق
- مسند احمد:احمد بن حنبل (م.۲۴۱ق.)، بیروت،دار صادر
- المغازی:الواقدی (م.۲۰۷ق.)، به کوشش مارسدن جونس، بیروت، اعلمی، ۱۴۰۹ق
- المنتظم:ابن جوزی (م.۵۹۷ق.)، به کوشش محمد عبدالقادر و دیگران، بیروت،دار الکتب العلمیه، ۱۴۱۲ق.
- تاریخ الاسلام السیاسی والدینی والثقافی والاجتماعی: حسن ابراهیم حسن،، ج۱، قاهره ۱۹۶۴م، چاپ افست بیروت، بیتا.
- الروض الانف فی شرح السیرة النبویة لابن هشام:عبدالرحمان بن عبدالله سهیلی،، چاپ عبدالرحمان وکیل، قاهره ۱۳۸۹ق/۱۹۶۹م.