مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

23,125 بائٹ کا ازالہ ،  2 جون 2017ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 110: سطر 110:
قرآن میں مختلف موضوعات جیسے [[اصول عقاید|اعتقادات]]، [[اخلاق]]، [[احکام شرعی|احکام]]، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: [[توحید]]، [[معاد]]، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرم(ص) کے [[غزوات]]، [[قصص القرآن]]، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور [[شرک]] و نفاق سے منع وغیرہ۔ <ref>خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص۱۶۳۱، ۱۶۳۲.</ref>
قرآن میں مختلف موضوعات جیسے [[اصول عقاید|اعتقادات]]، [[اخلاق]]، [[احکام شرعی|احکام]]، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: [[توحید]]، [[معاد]]، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرم(ص) کے [[غزوات]]، [[قصص القرآن]]، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور [[شرک]] و نفاق سے منع وغیرہ۔ <ref>خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص۱۶۳۱، ۱۶۳۲.</ref>


== قرائت اور بڑے قرّاء ==
==تحریف ناپذیری قرآن==
مشاورت اور غور و تدبر کے باوجود قرآن مجید میں اختلاقِ قرائات [قرائتیں جعل کرنے] کا سلسلہ شروع ہوا؛ اور یہ سلسلہ شروع ہونا ناگزیر تھا۔ درحقیقت اس سلسلے نے موجودہ قرائات سے جنم لیا تھا۔ حتی حیات [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] اور آپ کی موجودگی میں کبھی دو قسم کے تلفظات کا اختلاف دکھائی دیتا تھا؛ اور آپ ان میں سے ایک تلفظ یا کبھی دونوں تلفظات کو منظور کرلیتے تھے۔ اور [[حدیث سبعۃ احرف|حدیث سبعة اَحرُف]] (یعنی یہ کہ قرآن کی سات مقبول صورتیں ہیں) اسی تناظر میں وارد ہوئی ہے۔ یعنی آپ(ص) عسر و حرج [اور تنگی اور دشواری] کو ختم کرنا چاہتے تھے حتی کہ قرآن ہمہ گیر ہوجائے اور کوئی بھی صاحب لہجہ اپنے آپ کو قرآن سے اور قرآن کو اپنے آپ سے بیگانہ تصور نہ کرے؛ چنانچہ آپ اس حوالے سے سخت گیری نہیں کرتے تھے اور تلفظ کے اختلاف کو ـ اس حد تک کہ معنی میں خلل نہ ڈالے ـ خطیر یا خطرناک قرار نہيں دیتے تھے۔ قرائتوں کے اختلاف کے اہم ترین اسباب کچھ یوں تھے:
{{اصلی| تحریف قرآن}}
# لہجوں کا اخلاف۔ مثال کے طور پر [[بنو تمیم]] "حتی حین" کو "عتّی عین" پڑھتے تھے۔
جب قرآن کی تحریف سے بحث کی جاتی ہے تو معمولا اس سے جو مراد قرآن میں کسی کلمے کا اضافہ یا کمی مراد لیا جاتا ہے۔ [[ابوالقاسم خوئی|آیت الله خوئی]] لکھتے ہیں: مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں ہوا ہے۔ لہذا اس معنی میں قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔ لیکن قرآن سے کسی لفظ یا الفاظ کے حذف ہونے اور کم ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۰.</ref> آپ کے بقول شیعہ علماء کے درمیان مشہور نظریہ کے مطابق اس معنی میں بھی قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہوئی ہے۔<ref>خوئی، البیان فی تفسیر القرآن، ۱۴۳۰ق، ص۲۰۱.</ref>
# عربی خط اور مصاحف امام میں اعراب کا نہ ہونا۔ حتی کہ [[ابوالاسود دؤلی]] نے [[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]] کی ہدایت پر بعض اقدامات انجام دیئے لیکن اس کے کمال و تکمیل میں دو یا تین صدیوں کا عرصہ لگا۔
# حروف پر اعجام یا نقطوں اور نشانات کا نہ ہونا۔ اس نقص کے خاتمہ کے لئے [[حجاج بن یوسف]] [کی عراق پر حکومت] کے دوران بعض کوششیں ہوئیں جن کی تکمیل تیسری صدی کے اواخر تک طول کھینچ گئی۔
# صحابہ اور قراء اور مجموعی طور پر قرآنی محققین کے فردی اجتہادات؛ جن میں سے ہر ایک آیت یا اس کے کلمات  کے بارے میں اپنا خاص نحوی، معنوی اور تفسیری استنباط رکھتا تھا۔
# اسلام کے عہد اول [اور صدر اول] اور مہد اول (یعنی [[مکہ]] اور [[مدینہ]]) سے دوری۔
# سجاوندی علائم<ref>رموز اوقاف :۔ تلاوت اور تجوید کی سہولت کے لیے مختلف قرآنی جملوں پر ایسے اشارے لکھ دیئۓ گئے جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ اس جگہ وقف کرنا (سانس لینا) کیسا ہے؟ ان اشارات کو "رموزِ اوقاف" کہتے ہیں، اور ان کا مقصد یہ ہے کہ ایک غیر عربی داں انسان بھی جب تلاوت کرے تو صحیح مقام پر وقف کر سکے، اور غلط جگہ سانس توڑنے سے معنی میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو، اس میں سے اکثر رموز سب سے پہلے ابوعبد اللہ محمد بن طیفور سجاوندی نے وضع کئے ہیں۔(النشری القر آت العشر ج1 ص225)۔</ref> اور وقف و ابتداء اور ہر قسم کے وصل و فصل ـ جن کو وجود میں لانے کا کام بعد میں علم تجوید و قرائت نے اپنے عہدے لیا ـ کا نہ ہونا۔ دوسری صدی ہجری کے اواخر اور تیسری صدی کے اوائل تدوین قرائات کی تحریک شروع ہوئی اور بہت سے قرا‏ئت شناسوں نے موجودہ قرائتوں میں سے صحیح ترین اور بہترین قرائات کو منتخب اور ثبت کرنے کا عزم کیا۔ سب سے پہلے جن لوگوں نے اس کام کا اہتمام کیا ان میں [[ہارون بن موسی]] (پیدائش 201 وفات291ہجری) اور [[ابو عبید قاسم بن سلام|ابوعبید قاسم بن سلّام]] (پیدائش 157- وفات 224ہجری) تھے جنہوں نے 25 ثقہ اور قابل اعتماد قاریوں کا سراغ لگایا اور ان کی قرا‏ئات کو ثبت کیا جن میں [[قراء سبعہ]] (سات قاری) بھی شامل تھے۔ ایک صدی بعد [[ابوبکر بن مجاہد]] (پیدائش 245 وفات 324 ہجری) ـ جو قرآن کے نمایاں محقق تھے ـ نے سنہ 322 ہجری میں بہت سے قاریوں میں سے [[قراء سبعہ]] <ref>[[عبد الله بن كثير المكي]]، [[نافع بن أبي نعيم المدني]]، [[عبد الله بن عامر الشامي]]، [[أبو عمرو بن العلاء البصري]]، [[عاصم]]، [[حمزة]] و[[الكسائي]] جو سب کوفی تھے۔</ref> کو منتخب کیا جو اس کے بعد قرائت قرآن کا پہلے درجے کے مرجع اور حوالے کے طور پر تسلیم کئے گئے۔ اس کے بعد 3 مزید بڑے قراء<ref>[[ابو جعفر]]، [[یعقوب]] اور [[خلف]]۔</ref> کو اس گروہ سے ملحق کیا گیا اور یوں درجہ اول کے قراء [[قراء عشرہ]] کے نام سے مشہور ہوئے۔  البتہ چودہ قراء اور 20 قراء جیسے نام اور عناوین بھی بعد کی تاریخ میں دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم 10 قراء یا [[قراء عشرہ]] وہ افراد ہیں جن کی روایت [[تبع تابعین]] (یعنی تابعین کے بعد آنے والی نسل سے تعلق رکھنے والے) کے توسط سے [[تابعین]] تک اور [[تابعین]] کے توسط سے [[صحابہ]] ـ منجملہ [[کاتبین وحی]]، حفاظ قرآن اور دیگر ـ تک اور پھر [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] تک پہنچتی ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1636۔</ref>
 
=== قرائے سبعہ اور قرائے عشرہ ===
بہت سے قاریوں نے [[قرائے سبعہ]] سے قرائت نقل کی ہے لیکن بعد کے محققین قرآن اور علمائے قرائت نے ہر قاری کے لئے ـ ضبط و صحت سند، نیز سات قاریوں اور ان کے ، اور ان کے مُقریوں، کے ساتھ معیت و ہمراہی اور شاگردی کی مدت، کے لحاظ سے زيادہ قابل قبول اور صحیح و دقیق ـ دو راویوں کو معیار قرار دیا اور یوں روایات کی تعداد 14 ہوئی۔
 
'''قرائے سبعہ (سات قاریوں) اور ان کے چودہ راویوں کے نام'''
{{ستون آ|2}}
# [[عبداللہ بن عامر دمشقی]] (م 118ہجری)
## ان کا پہلا راوی: [[ہشام بن عمار]]
## دوسرا راوی: [[ابن ذکوان]]
# [[عبداللہ بن کثیر مکی]] (45-120ہجری)
## پہلا راوی: [[احمد بن محمد البزی|البَزّی، احمد بن محمد]] (170-ح 243ہجری)
## دوسرا  راوی: [[ابوعمرو محمد بن عبدالرحمن]] ملقب به قُنبُل (195-291ہجری)
# [[عاصم بن ابی النجود]] (76-128ہجری)
## پہلا راوی: [[حفص بن سلیمان]] (90-ح 180ہجری)
## دوسرا  راوی: [[شعبہ بن عیّاش]] (95-194ہجری)
# [[زبّان بن علاء]] ابوعمرو بصری (ح68-154ہجری)
## پہلا راوی: [[حفص بن عمر الدوری]] (م246ہجری)
## دوسرا  راوی: [[صالح بن زیاد|ابوشعیب سوسی، صالح بن زیاد]] (190-261ہجری)
# [[حمزه بن حبیب کوفی]] (80-156ہجری)
## پہلا راوی: [[خلّاد بن خالد کوفی]]، ابوعیسی شیبانی (142-220ہجری)
## دوسرا  راوی: [[خلف بن ہشام]] (150-220ہجری)
# [[نافع بن عبدالرحمن مدنی]] (70-169ہجری)
## پہلا راوی: وَرش، [[عثمان بن سعید مصری]] (110-197ہجری)
## دوسرا  راوی: قالون، [[عیسی بن مینا]] (120-ح220ہجری)
# [[علی بن حمزه کسائی|کسائی، علی بن حمزہ]] (119-189ہجری)
## پہلا راوی: [[لیث بن خالد]] (م 240ہجری)
## دوسرا  راوی: [[حفص بن عمر الدوری]] (حفص بر عمر الدوری ابو عمرو البصری یعنی زبّان بن علاء کے راوی بھی تھے)۔
{{ستون خ}}
ان سات قاریوں کے ساتھ تین مزید قاریوں کا اضافہ کیا جائے تو قراء عشرہ بن جاتے ہیں:
{{ستون آ|2}}
8۔ [[خلف بن هشام]] (150-229ہجری)
# پہلا راوی: اسحاق ([[ابویعقوب اسحاق بن ابراهیم بغدادی]]) (م286ہجری)
# دوسرا  راوی: ادریس، ابوالحسن عبدالکریم.
9۔ [[یعقوب بن اسحاق]] (117-205ہجری)
# پہلا راوی: رُوَیس، [[محمد بن متوکل]] (م234ہجری)
# دوسرا  راوی: روح، ابوالحسن [[روح بن عبدالمؤمن هذلی]] (م234ہجری)
10۔ [[ابوجعفر یزید بن قعقاع]] (م130ہجری)
# پہلا راوی: عیسی، [[ابوالحارث عیسی بن وردان مدنی]] (م160ہجری)
# دوسرا  راوی: ابن جماز، [[سلیمان بن مسلم]] (م ب170ہجری)
{{ستون خ}}
قرآن کے شیعہ محققین اور [[:زمرہ:شیعہ اصولیون]] نے [[قرائے سبعہ]] اور [[قرائے عشرہ]] کی حجیت (حجت ہونے) کے بارے میں بحث کی ہے۔<ref>خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص1636-1637۔</ref>
 
== مکی اور مدنی ==
 
'''مفصل مضمون: ''[[مکی اور مدنی]]'''''
 
قرآن کے [[شیعہ]] اور [[اہل سنت|سنی]] محققین نے مکیی اور مدنی سورتوں اور آیتوں کی شناخت کے لئے تین قواعد اور معیار وضع کئے ہیں:
# "مکانی قاعدہ"، اس قاعدے کے مطابق "وہ سورتیں اور آیتیں جو [[مکہ]] اور اس کے اطراف میں نازل ہوئی ہیں خواہ وہ ہجرت سے قبل نازل ہوئی ہوں خواہ ہجرت کے بعد، وہ مکی ہیں اور جو سورتیں اور آیتیں [[مدینہ]] اور اس کے اطراف میں نازل ہوئی ہیں وہ مدنی ہیں"۔
# "انسانی قاعدہ"، اس قاعدے کے مطابق وہ سورتیں اور آیتیں جن میں خطاب مکی عوام سے ہے، ان میں عام طور پر "یا ایها الناس" یا "یا بنی آدم" جیسے خطابات بروئے کار لائے گئے ہیں اور جن آیات اور سورتوں میں خطاب مدنی عوام سے ہے ان میں عام طور پر "یا ایها الذین آمنوا" جیسا خطاب استعمال ہوا ہے۔
# "زمانی قاعدہ"، محققین نے اس قاعدے کو زیادہ جامع اور مانع قرار دیا ہے۔ اس قاعدے کے مطابق وہ سورتیں اور آیتیں جو [[ہجرت]] سے قبل نازل ہوئی ہیں وہ مکی آیات ہیں اور وہ سورتیں اور آیتیں جو [[ہجرت]] کے بعد نازل ہوئی ہیں وہ مدنی ہیں خواہ وہ [[مکہ]] میں [[غزوہ|غزوات]] اور سفروں کے دوران ہی کیوں نہ نازل ہوئی ہوں۔<ref>ترجمه اتقان، 46/1-47؛ مناهل العرفان، 186/1-187؛ تاریخ قرآن، رامیار، ص601-603؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔</ref> مکی اور مدنی کی شناخت "سماعی" ہے اور قاعدہ و معیار وہی ہے جو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] اور [[صحابہ]] اور [[تابعین]] سے ہم تک پہنچا ہے۔
 
== ناسخ و منسوخ ==
 
'''مفصل مضمون: ''[[نسخ]]'''''
 
[[نسخ]] کے معنی لغت میں ابطال اور ازالہ کے ہیں اور علوم قرآنی کی اصطلاح میں سابقہ تشریع (اور حکم) ـ جو بظاہر دوام کا متقاضی تھا ـ کی تنسیخ ہے لاحقہ تشریع و حکم کے ذریعے۔ [یعنی ایک حکم جو بظاہر دائم و باقی ہے کو بعد میں نئے آنا والا حکم، منسوخ کردے]، یوں کہ ان دو احکام و تشریعات ذاتا جمع نہیں کئے جاسکتے یا انہيں جمع کرنا صریح و آشکار تنافی وتضاد یا اجماع یا نص صریح (واضح شرعی حکم) کی وجہ سے، ممکن نہ ہو۔<ref>التمهید، ج270/2؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔</ref> [اس صورت میں سابقہ حکم منسوخ ہوجاتا ہے]  واضح تر یہ کہ "ایک شرعی حکم دوسرے شرعی حکم کے ذریعے منسوخ ہوجائے"۔<ref>مناهل العرفان، ج72/2؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔</ref> یا "ایک آیت کی قرائت یا اس میں نازل ہونے والے حکم کی نسبت مؤمنین کے تعبد کا خاتمہ یا اس آیت کی قرائت اور اس کے ضمن میں آنے والے حکم، دونوں کا خاتمہ۔<ref>تفسیر بیضاوی؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔</ref>
 
اللہ تعالی نے خود بھی قرآن میں نسخ کے واقع ہونے کی تصریح کی ہے۔ ارشاد فرماتا ہے:
<font color=green>
:{{حدیث|'''"مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"۔'''}}<ref>سورہ بقرت آیت 106۔</ref></font><br/>
:ترجمہ: جس آیت کو ہم منسوخ کر دیتے ہیں یا وہ بھلا دی جاتی ہے۔ تو ہم اس سے بہتر یا اس کے مثل دوسری نازل کر دیتے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے۔ یا
<font color=green>
:{{حدیث|'''"وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُواْ إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ"۔'''}}<ref>سورہ نحل، آیت 101۔</ref></font><br/>
:ترجمہ: اور جب بدل کر لے آتے ہیں ہم ایک آیت کو دوسری آیت کی جگہ اور اللہ ہی خوب جانتا ہے اسے جو وہ اتارتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ تم تو بس اپنے دل سے گھڑتے ہو بلکہ ان میں سے اکثر علم نہیں رکھتے۔ نیز
:<font color=green>{{حدیث|'''"يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاء وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ"۔'''}}<ref>سورہ رعد آیت 39۔</ref></font><br/>
:اللہ جو چاہتا ہے مٹاتا ہے اور برقرار رکھتا ہے اور اس کے پاس ام الکتاب [اصل نوشتہ] ہے۔ [[شیعہ]] محققین کے نزدیک بھی اور [[اہل سنت|سنی]] محققین کے نزدیک بھی، نسخ قرآن میں بھی اور [[سنت]] میں بھی روا ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔</ref>
 
== شأن نزول (= اسباب نزول) ==
 
'''مفصل مضمون: ''[[اسباب نزول]]'''''
 
آیات قرآنی کو دو اہم قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ قرآنی آیات کا بڑا حصہ ان آیات پر مشتمل ہے جو صرف اللہ کی مشیت سے ـ بغیر تحفظات و محرکات کے ـ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] پر نازل ہوئی ہیں۔ دوسری قسم کی آیات ـ جن کی تعداد پہلی قسم سے کم ہے ـ وہ آیات ہیں جو کسی واقعے اور حادثے کے رونما ہونے یا کسی سوال کے پیش آنے کی بنا پر نازل ہوئی ہیں۔ سبب نزول یا شأن نزول در حقیقت اسی واقعے اور حادثے یا سوال کا نام ہے جو عصر رسالت میں پیش آئے ہیں اور کسی آیت یا آیات کے نزول کا سبب یا محرک قرار پائے ہیں۔ اور کس قدر زیادہ ہی وہ آیات قرآنی جو لفظ  "يسئلونك" [= وہ آپ سے پوچھتے ہیں] یہ لفظ "سؤال" کے مشتقات یا "يستفتونك" [وہ آپ سے استفتاء کرتے ہیں] سے شروع ہوئی ہیں۔ یہ آیات ایسے وقت [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اکرم(ص)]] پر نازل ہوئی ہیں جب آپ(ص) سے کسی حکم یا حکمت کے بارے میں سوال کیا گیا ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1637۔</ref>
 
== محکم اور متشابہ ==
 
مفصل مضامین ''[[محکم و متشابہ]]، [[تأویل]] و [[راسخون فی العلم]]
 
"محکم" اِحکام سے ہے اور اس کے معنی "إتقان" کے ہیں اور "کلمۂ محکمہ" اور "آیت محکمہ" سے مراد وہ کلمہ اور آیت ہے جس کے معنی واضح ہیں اور یہ کلمہ یا آیت ذومعانی اور مبہم نہیں ہے؛ اور [[راغب اصفہانی]] کے بقول "ان میں لفظ اور معنی کے لحاظ سے کسی شک کی گنجائش نہیں ہے"، جیسے: تشریعِ احکام کی آیات "[[آیات الاحکام]]" اور قرآنی مواعظ، آداب و اخلاقیات سے متعلق آیات۔ متشابہ "تشابہ" سے ہے۔ تشابہ کے معنی ایک جیسے ہونے اور ایک دوسرے کے مانند ہونے کے ہیں۔ تشابہ شبہہ اور اشتباہ کی جڑ اور مادہ ایک ہے۔ [[راغب]] کے بقول "متشابہ آیت وہ ہے جس کا ظاہر اس کے باطن کو بیان نہیں کرتا"۔  "[[شیخ طوسی]]" کہتے ہیں: "محکم وہ ہے جس کی مراد اس کے وضوح کی بنا پر، کسی بیرونی دلیل یا قرینے کے بغیر،  صرف اس کے ظاہر کی طرف توجہ کرکے، سمجھی جاسکے... اور متشابہ وہ ہے کہ اس کے ظاہر کو توجہ دینے سے اس کی اصل مراد کا ادراک نہ کیا جاسکے مگر یہ کہ کسی بیرونی قرینے (اور نشانی) کو اس سے ملادیا جائے جو اس کی مراد و معنی کو واضح کردے۔<ref>تبیان، ذیل تفسیر آیه 7 سورہ آل عمران؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1637-1638۔</ref>
 
بالفاظ دیگر، متشابہ وہ لفظ ہے جس میں معانی کی ایسی مختلف صورتوں کا احتمال پایا جاتا ہے جن کو شک و شبہے کا سامنا ہو چنانچہ یہ لفظ تاویل کا محتاج ہے اور وہ صحیح تاویل کے قابل بھی ہے اور فاسد و غلط تاویل کے قابل بھی۔ خلقت (یعنی انسانوں، آسمانوں، تقدیر و صفات و افعال پروردگار) کی اکثر آیات کریمہ<ref>التمهید، ج8/3؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638۔</ref> اور آیات قرآنی کی عظيم اکثریت محکم اور قلیل آیات قرآنی (تقریبا 200 آیات)<ref>التمهید، ج14/3؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638۔</ref> متشابہ ہیں۔
 
بعض متکلمین اور جدل پسندوں نے بعض آیات سے استناد کرکے قرآن میں متشابہ آیات کا کلی طور پر انکار کیا ہے۔ انھوں نے جن آیات کا سہارا لیا ہے وہ کچھ یوں ہیں:<font color=green><br/>{{حدیث| '''"هَذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ}}"</font>
(ترجمہ: یہ تمام لوگوں کے لیے واضح تذکرہ ہے)۔'''<ref>سورہ آل عمران آیت 138۔</ref> <br/>
<font color=green>{{حدیث|'''"كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ"}}</font> (ترجمہ: وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مضبوط اتاری گئی ہیں، پھر یہ کہ انہیں واضح بنایا گیا ہے اس ٹھیک ٹھیک کام کرنے والے کی طرف سے جو بڑا باخبر ہے)۔'''<ref>سورہ ہود آیت 1۔</ref> <br/>اور بعض دوسروں نے بعض دیگر آیات کریمہ کا حوالہ دے کر دعوی کیا ہے کہ قرآن کی پوری آیات ہی متشابہات ہیں۔ یہ افراد جن آیات سے استناد کرتے ہیں ان میں ذیل کی آیت شامل ہے:
<font color=green> <br/>{{حدیث| '''"اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَاباً مُّتَشَابِهاً" }}</font>(ترجمہ: اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے، وہ کتاب ایک جو پوری ایک ہی طرح کی ہے)۔'''<ref>سورہ زمر آیت 23۔</ref> <br/>[[اخباریون]] کا تقریبا یہی خیال ہے کیونکہ وہ معصوم سے منقولہ روایات و احادیث کا سہارا لئے بغیر قرآن کی تفسیر کو جائز نہيں سمجھتے۔<ref>التمهید، ج15/3؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج2، ص1638۔</ref> <br/> بہر حال خداوند متعال فصیح ترین اور حسین ترین انداز سے قرآن میں محکمات و متشبابہات پر تصریح فرماتا ہے اور ہر ایک کی وضاحت بھی کرتا ہے: <br/> <font color=green>{{حدیث|'''"هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ"}}</font> (ترجمہ: وہ [خدا] وہی ہے جس نے آپ پر یہ کتاب اتاری، اس میں سے کچھ محکم آیتیں ہیں جو کتاب کی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں،سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ صرف متشابہ آیات کی پیروی کرتے ہیں فتنہ انگیزی [اور گمراہ کرنے] کی غرض سے اور من پسند تاویلیں کرنے [اور معنی گڑھنے کی نیت سے]، حالانکہ اس کے اصل معنی کو کوئی نہیں جانتا سوا اللہ اور ان کے جو علم میں کامل پختگی رکھنے والے [اور راسخ] ہیں)۔'''<ref>سورہ آل عمران آیت 7۔</ref>
 
== تحدّی (چیلنج یا للکار) اور اعجاز قرآن ==
 
=== تحدّی (چیلنج یا للکار) ===
=== تحدّی (چیلنج یا للکار) ===


confirmed، templateeditor
9,103

ترامیم