مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

15,218 بائٹ کا ازالہ ،  2 جون 2017ء
م
سطر 109: سطر 109:
== قرآن کے مضامین==
== قرآن کے مضامین==
قرآن میں مختلف موضوعات جیسے [[اصول عقاید|اعتقادات]]، [[اخلاق]]، [[احکام شرعی|احکام]]، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: [[توحید]]، [[معاد]]، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرم(ص) کے [[غزوات]]، [[قصص القرآن]]، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور [[شرک]] و نفاق سے منع وغیرہ۔ <ref>خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص۱۶۳۱، ۱۶۳۲.</ref>
قرآن میں مختلف موضوعات جیسے [[اصول عقاید|اعتقادات]]، [[اخلاق]]، [[احکام شرعی|احکام]]، گذشتہ امتوں کی داستانیں، منافقوں اور مشرکوں سے مقابلہ وغیرہ پر مختلف انداز میں بحث کی گئی ہے۔ قرآن میں مطرح ہونے والے اہم موضوعات میں سے بعض یہ ہیں: [[توحید]]، [[معاد]]، صدر اسلام کے واقعات جیسے رسول اکرم(ص) کے [[غزوات]]، [[قصص القرآن]]، عبادات اور تعزیرات کے حوالے سے اسلام کے بینادی احکام، اخلاقی فضایل اور رذایل اور [[شرک]] و نفاق سے منع وغیرہ۔ <ref>خرمشاہی، «قرآن مجید»، ص۱۶۳۱، ۱۶۳۲.</ref>
== جمع و تدوین قرآن ==
قرآن کی جمع و تدوین سے مراد یہ ہے کہ 23 سالہ وحی ـ جو 2 سے 5 آیتوں کی صورت میں نازل ہوتی رہی ہے؛ ـ آخر کار کس طرح کس طرح بین الدفتین اور "مصحف" (موجودہ کتاب) کی صورت میں تدوین ہوئی ہے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن...، ج 2، ص 1634۔</ref>
قرآن کو ایک "[[مصحف]]" کی صورت میں، مختلف زمانوں میں جمع کیا گیا جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
===عصر نبوی(ص) ===
پورے عرصۂ نزول، عصر وحی اور حیات نبوی(ص) کے دوران، قرآن مکتوب مگر منتشر تھا، یعنی صحیفہ ـ صحیفہ تھا۔ اور ابتدائی وسائل تحریر کے ذریعے چمڑے کے ٹکڑوں، شانے کی ہڈیوں یا بھیڑ بکریوں اور اونٹوں کی پسلیوں، کھجور کے درخت کی لکڑیوں اور ہموار شدہ پتھروں، حریر کے ٹکڑوں اور تھوڑا بہت کاغذ کے اوپر تحریر ہوا تھا۔ اس مرحلے میں اہم بات یہ تھی کہ بہت سے [[صحابہ]] حافظ قرآن تھے۔ قرآن کی سورتیں مکمل تھیں اور سورتوں کے نام بھی تھے، لیکن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کی حیات طیبہ کے آخر اور آپ(ص) کے وصال تک "بین الدفتین" جمع نہیں ہوا تھا۔
سوال یہ ہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] نے قرآن کو کتاب و مصحف کی صورت میں جمع کرنے کا اہتمام کیوں نہیں کیا تھا؟
جواباً کہنا چاہئے کہ آپ(ص) کی طرف سے اس سلسلے میں عدم اہتمام کا سبب دو مسائل تھے:
# [[وحی]] کا باب کھلا تھا اور وحی کے ہر مرحلے میں قرآن کی کچھ آیات نازل ہوجایا کرتی تھیں اور آپ(ص) کاتبین وحی سے فرما دیتے تھے کہ ان آیات کو فلاں سورت میں فلاں آیات کے درمیان جگہ دیں۔
# دوسری بات یہ کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے خطابی کلام کے مطابق، آپ ہر وقت قرآن کے بعض احکام کے ممکنہ [[نسخ]] (منسوخی) یا قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کے [[نسخ]] کے منتظر رہتے تھے۔<ref>ترجمه اتقان، ج 200/1؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔</ref>
چنانچہ جب تک [[وحی]] کا سلسلہ منقطع نہ ہوتا، تدوین اور [[مصحف]] سازی کا کام ممکن نہ تھا۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ ـ یہ جو کہا جاتا ہے کہ جمع قرآن کا کام [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے زمانے میں ہی انجام پایا تھا ـ اس سے [مسلمانوں کے] دلوں میں قرآن کی تحفیظ ہی مراد تھی۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص 211؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔</ref> [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے زمانے میں جمع قرآن سے کو اصطلاحی طور پر "تألیف" کہا جاتا ہے۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص 213؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔</ref> قرآن کے نزول و کتابت کے پورے ایام میں [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] ہمہ جہت نگرانی کرتے تھے اور قرآن کی کتابت اور حفظ (ازبر کرنے) کی تعلیم دیتے اور ترغیب دلاتے تھے۔ آپ(ص) کے زمانے میں 37 افراد حفاظ قرآن تھے۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص 255؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔</ref>
عصر نبوی میں کاتبین [[وحی]] ـ جن میں سے بعض حافظ بھی تھے ـ اور وہ جو اپنے لئے ایک نسخہ اخذ کرتے تھے، 50 افراد تھے۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص 280؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔</ref> نتیجہ یہ ہوا کہ جیسا کہ آخری بار قرائت نبوی سے ثابت ہوچکا تھا، قرآن کی تالیف اور تجمیع کا کام آپ(ص) کے زمانے میں مکمل ہوچکا تھا؛ اس دور میں قرآن اپنے صحیح معنی میں اسی دور میں تالیف ہوا۔ واضح رہے کہ [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] ہر سال ایک بار قرآن [[جبرائیل]] کو پڑھ کر سناتے تھے اور وصال کے سال آپ نے دو بار پڑھ کر سنایا۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص 281؛ نیز ترجمه اتقان، ج 201/1، 205؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص 1634۔</ref>
=== مصحف امام علی  ===
'''مفصل مضمون: ''[[مصحف امام علی علیہ السلام|مصحف امام علی(ع)]]'''''
[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے وصال کے بعد [[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]] نے ـ جو نصّ قطعی اور تصدیق [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبوی(ص)] کے مطابق قرآن مجید سے سب سے زیادہ واقف اور اس کے سب سے بڑے عالم تھے ـ گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرکے گھر کے گوشے میں بیٹھ کر قرآن مجید کو ترتیب نزول کی بنیاد پر ایک مصحف میں جمع کیا اور ابھی وصال [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)] کے چھ مہینے ہی گذرے تھے کہ اس مہم سے فراغت پاچکے اور اپنا جمع کردہ مصحف ایک اونٹ پر لاد کر لوگوں کو دکھایا۔<ref>طباطبائی، قرآن در اسلام، ص113؛ السجستانی، کتاب المصاحف، ص16؛ سیوطی، الاتقان، ج1، ص161۔</ref>
=== ابوبکر کا دور===
[[یمامہ]] کی روداد (اور "ردہ" کی جنگوں کے نام سے مشہور، لڑائیوں میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کے ہاتھوں اسلام سے پلٹنے والے باغیوں ـ منجملہ نبوت کے جھوٹے دعویداروں (متنبیوں) ـ کی سرکوبی) ميں بڑی تعداد میں حفاظ قرآن قتل ہوئے (جن کی تعداد ستر تک بھی بتائی گئی ہے)، اور اسلام کے نوبنیاد معاشرے کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] نے [[عمر بن خطاب|عمر]] کی اس تجویز سے اتفاق کیا کہ قرآن کے تحفظ کی غرض سے اس کی تجمیع اور تدوین کے لئے فوری اقدام عمل میں لایا جانا چاہئے۔ اس کام کے لئے [[زید بن ثابت]] کا تعین کیا گیا جو نہایت محنتی اور نوجوان ترین کاتب وحی ہونے کے ساتھ حافظ قرآن بھی تھے، اور اپنا خاص مصحف بھی رکھتے تھے۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1634۔</ref> [[زید بن ثابت|زید]] نے قرآن کے منتشر مکتوبات کو جمع کیا اور ہر آیت پر دو گواہ و شاہد (ایک شاہد کتابت سے اور ایک حفظ سے) سے قائم کئے؛ خواہ دسوں حفاظ قرآن اور کاتبین وحی نے اس آیت کی تصدیق کیوں نہ کی ہو۔ [[زید بن ثابت|زید]] کا قرآن جمع ہوا لیکن پھر بھی صحیفوں کی صورت میں تھا اور مصحف (وکتاب) کی صورت میں نہ تھا۔ آخر کار اس قرآن کو ایک صندوق میں رکھا گیا اور ایک شخص کو اس کی نگہبانی اور حفاظت کے لئے متعین کیا۔ [[زید بن ثابت]] کا یہ کام 14 مہینوں کے عرصے تک یا زیادہ سے زیادہ سنہ 13 ہجری میں [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کی وفات تک جاری رہا۔ [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کی وصیت کے مطابق قرآن کا یہ نسخہ [[عمر بن خطاب|عمر]] کی تحویل میں دیا گیا اور [[عمر بن خطاب|عمر]] کی وفات کے بعد اس کو ان کی زوجۂ رسول(ص) [[حفصہ بنت عمر]] کے سپرد کیا گیا۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref>
=== عثمان کا دور ===
'''مفصل مضمون: ''[[مصحف عثمانی]]'''''
[[عثمان بن عفان|عثمان]] کو سنہ 24 ہجری میں عہدہ خلافت ملا۔ اس دور میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتوحات نصیب ہوئیں اور قرآن تازہ مفتوحہ سرزمینوں تک بھی پہنچ گیا اور کلمات قرآن کی قرائت کے سلسلے میں شدید مشکلات اور اختلافات ظہور پذیر ہوئے۔ یہ صورت حال [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی کہ وہ جمع و تدوین قرآن کا ناقص کام کسی نتیجے پر پہنچانے کا اہتمام کریں اور قرآن اور اسلامی معاشرے کو اتنشار سے تحفظ فراہم کریں۔ [[عثمان بن عفان|عثمان]]  نے اس کام کے لئے [[زید بن ثابت]]، [[سعید بن عاص]]، عبداللہ بن زبیر]] اور [[عبدالرحمن بن حارث]] پر مشتمل انجمن تشکیل دی۔ اس انجمن نے اپنا کام [[قریش]] اور [[انصار]] کے 12 افراد کے تعاون سے شروع کیا۔ اس کام میں [[حضرت علی علیہ السلام|حضرت علی(ع)]] ایک لحاظ سے ناظر و نگران کا کردار ادا کررہے تھے اور ان افراد کو واضح نویسی کی ترغیب دلا رہے تھے۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص423؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref> ان افراد نے قرآن کے قطعی اور حتمی نسخے کی کتابت کا آغاز کیا۔ ان افراد نے سب سے پہلے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے دور کے تمام صحیفوں اور مکتوبات قرآنی کو جمع کیا؛ اس کے بعد [[ابوبکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]] کے زمانے میں [[زید بن ثابت]] کے جمع کردہ نسخہ ـ جو [[حفصہ بنت عمر]] کے پاس محفوظ تھا ـ امانتاً اخذ کیا۔ طے یہ پایا تھا کہ ہرگاہ انجمن کے تین افراد نے کسی لفظ یا کلمے کی کتابت میں اختلاف کیا، اس کلمے کو [[قریش]] کے لہجے کے مطابق تحریر کیا جائے۔ یوں حتمی تدوین کا کام [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ(ص)]] کے دور سے باقیماندہ صحیفوں، اور افراد کے مخصوص نسخوں، [[حفصہ بنت عمر|حفصہ]] کے پاس رکھے [[زید بن ثابت|زيد]] کے تدوین کردہ مجموعے، نیز [[زید بن ثابت|زید]] کے مخصوص صحیفے، حفاظ کے حفظ اور شاہدوں کی شہادت کے سہارے آگے بڑھا اور یوں [[مصحف امام]] (یعنی) باضابطہ اور حتمی نسخہ ـ جو [[مصحف عثمانی]] کے نام سے مشہور ہوا، 4 سے 5 سال (سنہ 24 ہجری کے بعد سے سنہ 30 ہجری سے قبل تک) کے عرصے میں مکمل ہوا اور اس مصحف سے نسخہ برداری کرتے ہوئے 5 یا 6 مزید نسخے تیار کیا گئے جن میں دو نسخے [[مدینہ]] اور [[مکہ]] میں رہے اور 3 یا چار نسخوں میں سے ہر ایک کو، ایک حافظ قرآن کے ہمراہ اہم اسلامی مراکز (یعنی) "[[بصرہ]]، "[[کوفہ]]"، "[[شام]]" اور "[[بحرین]]" بھجوایا گیا۔ اس کے بعد [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے حکم پر تمام کتبے اور مکتوبات، کھالوں، سفید رنگ کے نازک پتھروں، ہڈیوں، چمڑوں، حریروں وغیرہ کو ـ جنہیں حتمی نسخے کی تدوین کے لئے صحابہ سے اخذ کیا گیا تھا ـ پانی اور سرکے میں ابال کر محو کیا گیا۔ بعض محققین نے کہا ہے کہ ان منتشر آثار کو آگ لگا کر جلا دیا گیا یا پھر کسی اور روش سے مٹا دیا گیا تا کہ اختلاف کی جڑ اکھڑ جائے اور اصطلاحاً "توحید نصّ"  کا امکان میسر ہو [یعنی  مصحف امام = مصحف عثمانی کو ہی پورے عالم اسلام میں واحد حتمی نسخے کے طور پر تسلیم کیا جائے]۔<ref>تاریخ قرآن، رامیار، ص407-431؛ بحوالۂ خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref>
یہ مصحف ابتدائی شکل کے خط کوفی میں لکھا گیا تھا اور اعراب اور حروف کی حرکات کے علائم کا اندراج تو در کنار، اس کے حروف پر نقطے تک نہيں لگے تھے اور بعد کی دو صدیوں کے دوران، اس مصحف سے نسخہ برداری شدہ نسخوں میں حروف نے نقطے پا لئے۔ (مزید تفصیل مصحف امام یا مصحف عثمانی کے ساتھ ساتھ دیگر نسخوں ـ منجملہ [[امام علیہ السلام|حضرت علی(ع)]] سے منسوب مصحف، ابن مسعود اور دیگر صحابہ کے اختصاصی نسخوں ـ کی کیفیت جاننے، اور عثمان کی کاوش کی صحت و درستی اور ان کے اس عمل کی [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنین(ع)]] کی طرف سے تصدیق و تائید نیز [[ائمہ معصومین علیہم السلام]] کی طرف سے مصحف عثمانی کو تسلیم کئے جانے کے بارے میں مزید اطلاعات کے لئے رجوع کریں: [[قرآن کی تحریف ناپذیری]])۔<ref>خرمشاهی، دانشنامه قرآن و قرآن پژوهی، ج2، ص1635۔</ref>


== قرائت اور بڑے قرّاء ==
== قرائت اور بڑے قرّاء ==
confirmed، templateeditor
9,103

ترامیم