مندرجات کا رخ کریں

"طوفان نوح" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 34: سطر 34:


[[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] اس تنور سے مراد کنواں یا طلوع فجر یا زمین کا سب سے بلند ترین مقام قرار دینے والے تمام اقولا کو قابل فہم نہیں سمجھتے۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔</ref>  
[[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] اس تنور سے مراد کنواں یا طلوع فجر یا زمین کا سب سے بلند ترین مقام قرار دینے والے تمام اقولا کو قابل فہم نہیں سمجھتے۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔</ref>  
==طوفان کا آغاز اور اس کی مدت==<!--
==طوفان کا آغاز اور اس کی مدت==
در قرآن کریم مطلبی در خصوص زمان و مدت طوفان ذکر نشدہ است اما در برخی از روایات آمدہ است کہ طوفان در سن ۱۹۰۰ سالگی<ref name=":0">جزایری، النور المبین فی قصص الأنبیاء و المرسلین، (قصص قرآن)، ۱۳۸۱، ص۱۱۷۔</ref>، برخی دیگر ۶۰۰ سالگی<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۱۷؛ كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۵۔</ref>، گروہی دیگر ۱۲۰۰ سالگی<ref>مستوفی قزوینی، تاریخ‌ گزیدہ،۱۳۶۴ ش، ص۲۴۔</ref>[[نوح (پیامبر)|حضرت نوح(ع]]) رخ دادہ است۔<ref>رک: [[نوح (پیامبر)]]</ref> در تورات نیز آمدہ است کہ طوفان در روز ہفتم ماہ دوم سال ۶۰۰ از عمر نوح(ع) آغاز شد و ۴۰ روز در زمین استمرار یافت و آب ۱۵ متر بالا آمد و حدود ۱۵۰ روز طول کشید تا آب فرو بنشیند۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۴۵-۴۶۔</ref>   
قرآن کریم میں اس طوفان کے آغاز اور اس کی مدت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا لیکن بعض احادیث میں آیا ہے کہ یہ طوفان [[حضرت نوح]] کی 1900 سالگی<ref name=":0">جزایری، النور المبین فی قصص الأنبیاء و المرسلین، (قصص قرآن)، ۱۳۸۱، ص۱۱۷۔</ref>،600  سالگی<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۱۷؛ كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۵۔</ref> یا 1200 سالگی<ref>مستوفی قزوینی، تاریخ‌ گزیدہ،۱۳۶۴ ش، ص۲۴۔</ref> میں آیا ہے۔<ref> [[حضرت نوح]]</ref> تورات میں آیا ہے کہ طوفان نوح حضرت نوح کی 600 سالگی کے دوسرے مہنے کے ساتویں تاریخ کو آیا تھا اور اس کی مدت 40 دن تھی اور پانی سطح زمین سے تقریبا 15 فٹ اوپر آیا تھا جس کے خشک ہونے کیلیئے 150 دن لگے تھے۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۴۵-۴۶۔</ref>   


برخی زمان آغاز طوفان نوح را دہم [[رجب (ماہ)|رجب]]<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳۔</ref> و برخی دیگر دوم رجب<ref>كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۶۔</ref> دانستہ‌اند۔ بسیاری از مورخین نقل کردہ اند کہ در جریان طوفان نوح چہل روز پیوستہ از آسمان آب بارید و از زمین آب جوشید۔<ref>یعقوبی، ترجمہ تاریخ‌یعقوبی، ۱۳۷۹ق، ج‌۱،ص:۱۳۔</ref> مدت زمان طول کشیدن طوفان را نیز برخی ۶ ماہ<ref>كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۶؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۲۔</ref>، برخی ۱۵۰ روز و برخی دیگر ۵ ماہ، برخی ۱۳ ماہ و برخی ۲۷ روز عنوان کردہ‌اند۔<ref>ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۱۱۱-۱۱۲؛ ندایی، تاریخ انبیاء از آدم تا خاتم، ۱۳۸۹ش، ص۴۴-۴۶۔</ref> [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]] در کتاب «[[حیات القلوب (کتاب)|تاریخ پیامبران]]» بر اساس روایتی کہ آن را معتبر می‌داند نقل کردہ است کہ نوح با قومش ہفت شبانہ روز در کشتی ماند۔<ref>مجلسی، تاریخ پیامبران، ۱۳۸۰، ج۱،‌ص ۲۷۳۔</ref>  
بعض مورخین کے مطابق طوفان نوح [[10 رجب]] کو<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۲-۱۳۳۔</ref> جبکہ بعض کے نزدیک [[2 رجب]]<ref>كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۶۔</ref> کو شروع ہوا تھا۔ اکثر مورخین نقل کرتے ہیں کہ اس طوفان کے موقع پر 40 دن مسلسل آسمان سے بارش برستی تھی اور زمین سے بھی پانی پھوٹ پڑتا تھا۔<ref>یعقوبی، ترجمہ تاریخ‌یعقوبی، ۱۳۷۹ق، ج‌۱،ص:۱۳۔</ref> اس کی مدت کو بعض مرخین 6 ماہ<ref>كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۶؛ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۳۲۔</ref>، بعض 150 دن بعض 5 ماہ بعض 13 ماہ جبکہ بعض 27 دن ذکر کرتے ہیں۔<ref>ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۱۱۱-۱۱۲؛ ندایی، تاریخ انبیاء از آدم تا خاتم، ۱۳۸۹ش، ص۴۴-۴۶۔</ref> [[محمدباقر مجلسی|علامہ مجلسی]] اپنی کتاب "[[حیات القلوب (کتاب)]]" میں معتبر احادیث کی روشنی میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت نوح اپنی قوم کے ساتھ سات دن اور 7 راتیں کشتی میں رہے۔<ref>مجلسی، تاریخ پیامبران، ۱۳۸۰، ج۱،‌ص ۲۷۳۔</ref>  


در خصوص مقدار بالا آمدن آب نیز اختلاف است۔ بر اساس گزارش قرآن مبنی بر اینکہ ہیچ محل امنی برای کافران، حتی بلندترین کوہ‌ہا بر روی زمین نخواہد بود<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۳۔</ref> می‌توان نتیجہ گرفت کہ مقدار بالا آمدن آب تا حدی بودہ کہ بلندترین کوہ‌ہا را نیز در بر گرفتہ است برخی عنوان کردہ‌اند کہ اندازہ آن ۱۵ ذراع بودہ است و برخی گفتہ‌اند کہ ۸۰ ذراع بودہ است۔<ref>ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۸۰۔</ref>
سطح زمین سے کتنی بلندی تک پانی آیا اس بارے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ البتہ قرآن کریم اس حوالے سے یوں گویا ہے کہ اس دن کافروں کیلئے کہیں پر کوئی جائے امن حتی پہاڑ کی چوٹیوں میں بھی نہیں ملے گی،<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۳۔</ref> اس سے یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ اس دن پانی کی سطح اتنی بلند ہوئی تھی کہ پہاڑوں کی چوٹیوں تک پہنچ گئی تھی۔ بعض کے بقول اس دن پانی سطح زمین سے 15 یا 80 فٹ اوپر آیا تھا۔<ref>ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۸۰۔</ref>
-->


==متعلقہ صفحات==
==متعلقہ صفحات==
confirmed، templateeditor
8,972

ترامیم