مندرجات کا رخ کریں

"طوفان نوح" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 30: سطر 30:
# دوسرے منابع کے بر خلاف قرآن کریم واحد منبع ہے جس میں خدا اس طوفان کے نزول سے متعلق اظہار پشیمانی نہیں کرتا۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۹۱-۹۵۔</ref>
# دوسرے منابع کے بر خلاف قرآن کریم واحد منبع ہے جس میں خدا اس طوفان کے نزول سے متعلق اظہار پشیمانی نہیں کرتا۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۹۱-۹۵۔</ref>


==طوفان کا آغاز==<!--
==طوفان کا نطقہ آغاز==
بر اساس گزارش قرآن، نقطہ آغاز طوفان تنور« فارَ التَّنُّورُ» بودہ است۔<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۰۔</ref>برخی مفسران معتقدند منظور از تنور «چاہ‌ہای زمین» است برخی دیگر آن تنور را تنور نان  [[حوا]] می‌دانند۔گروہی محل تنور را [[مسجد کوفہ]] کنونی دانستہ‌اند۔ گروہی دیگر نیز منظور آن را فلق صبح و روشنایی سپید دانستہ‌اند۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان،۱۳۵۲ش، ج‌۱۲، ص۵۸؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۸۳؛ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔</ref> بیومی بعد از گزارش قول اخیر کہ بہ [[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]] منسوب شدہ است، عنوان می‌کند کہ اگر چہ ابن کثیر این روایت را غریب دانستہ اما از میان ہمہ روایات و اقوال مختلف ارائہ شدہ این روایت و قول پذیرفتنی تر بہ نظر می‌رسد، علاوہ بر اینکہ این روایت ہمخوان با نصوص قدیمی نیز می‌باشد۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲۔</ref>  
قرآن کریم میں اس طوفان کے نقطہ آغاز کو "فارَ التَّنُّورُ" کا نام دیتے ہیں۔<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۰۔</ref>بعض مفسرین "فارَ التَّنُّورُ" کو زمین میں کھدے ہوئے مختلف کنویں مراد لیتے ہیں جبکہ بعض اسے حضرت [[حوا]] کا تنور قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح بعض مفسرین اس تنور کی جگہ کو موجودہ [[مسجد کوفہ]] کی جگہ قرار دیتے ہیں جبکہ بعض اسے فجر کی سفیدی سے تعبیر کرتے ہیں۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان،۱۳۵۲ش، ج‌۱۲، ص۵۸؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۸۳؛ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔</ref> بیومی قول اخیر جسے [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] سے منسوب کیا جاتا ہے، کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اگر چہ ابن کثیر اس روایت کو غیر مانوس قرار دیتے ہیں لیکن اس واقعے سے مربوط اقوال اور نظریات میں یہ قول سب سے زیادہ مناسب اور قابل قبول نظر آنے کے ساتھ ساتھ پرانے نصوص کے ساتھ بھی زیادہ سازگار ہے۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲۔</ref>  


[[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] اقوالی ہمچون اینکہ مراد از تنور چاہ است، طلوع فجر است یا بلندترین نقطہ زمین است را از فہم بہ دور می‌داند۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔</ref>  
[[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] اس تنور سے مراد کنواں یا طلوع فجر یا زمین کا سب سے بلند ترین مقام قرار دینے والے تمام اقولا کو قابل فہم نہیں سمجھتے۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔</ref>  
==زمان وقوع طوفان و مدت آن==
==طوفان کا آغاز اور اس کی مدت==<!--
در قرآن کریم مطلبی در خصوص زمان و مدت طوفان ذکر نشدہ است اما در برخی از روایات آمدہ است کہ طوفان در سن ۱۹۰۰ سالگی<ref name=":0">جزایری، النور المبین فی قصص الأنبیاء و المرسلین، (قصص قرآن)، ۱۳۸۱، ص۱۱۷۔</ref>، برخی دیگر ۶۰۰ سالگی<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۱۷؛ كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۵۔</ref>، گروہی دیگر ۱۲۰۰ سالگی<ref>مستوفی قزوینی، تاریخ‌ گزیدہ،۱۳۶۴ ش، ص۲۴۔</ref>[[نوح (پیامبر)|حضرت نوح(ع]]) رخ دادہ است۔<ref>رک: [[نوح (پیامبر)]]</ref>  در تورات نیز آمدہ است کہ طوفان در روز ہفتم ماہ دوم سال ۶۰۰ از عمر نوح(ع) آغاز شد و ۴۰ روز در زمین استمرار یافت و آب ۱۵ متر بالا آمد و حدود ۱۵۰ روز طول کشید تا آب فرو بنشیند۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۴۵-۴۶۔</ref>   
در قرآن کریم مطلبی در خصوص زمان و مدت طوفان ذکر نشدہ است اما در برخی از روایات آمدہ است کہ طوفان در سن ۱۹۰۰ سالگی<ref name=":0">جزایری، النور المبین فی قصص الأنبیاء و المرسلین، (قصص قرآن)، ۱۳۸۱، ص۱۱۷۔</ref>، برخی دیگر ۶۰۰ سالگی<ref>طبری، تاریخ طبری، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۱۱۷؛ كاتب واقدی، الطبقات‌ الكبری، ۱۳۷۴ش ،ج‌۱،ص ۲۵۔</ref>، گروہی دیگر ۱۲۰۰ سالگی<ref>مستوفی قزوینی، تاریخ‌ گزیدہ،۱۳۶۴ ش، ص۲۴۔</ref>[[نوح (پیامبر)|حضرت نوح(ع]]) رخ دادہ است۔<ref>رک: [[نوح (پیامبر)]]</ref>  در تورات نیز آمدہ است کہ طوفان در روز ہفتم ماہ دوم سال ۶۰۰ از عمر نوح(ع) آغاز شد و ۴۰ روز در زمین استمرار یافت و آب ۱۵ متر بالا آمد و حدود ۱۵۰ روز طول کشید تا آب فرو بنشیند۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۴۵-۴۶۔</ref>   


confirmed، templateeditor
8,972

ترامیم