"طوفان نوح" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 22: | سطر 22: | ||
جیمز فریزر کا کہنا ہے کہ طوفان نوح کی داستان من جملہ ان داستانوں میں سے ہے جو دنیا کے مختلف اقوام و ملل جیسے مشرق وسطی، [[بر صغیر]]، [[میانمار|برمہ]]، [[چین]]، [[مالدیو]]، [[استرالیا]]، جزایر اقیانوس آرام اور بہارتی کمیونٹی میں رائج تھی البتہ ہر منطقے میں اس کی روایات مختلف تھیں۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۹۱-۹۵۔</ref> | جیمز فریزر کا کہنا ہے کہ طوفان نوح کی داستان من جملہ ان داستانوں میں سے ہے جو دنیا کے مختلف اقوام و ملل جیسے مشرق وسطی، [[بر صغیر]]، [[میانمار|برمہ]]، [[چین]]، [[مالدیو]]، [[استرالیا]]، جزایر اقیانوس آرام اور بہارتی کمیونٹی میں رائج تھی البتہ ہر منطقے میں اس کی روایات مختلف تھیں۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۹۱-۹۵۔</ref> | ||
===اس طوفان سے متعلق قرآن اور دیگر منابع میں اختلاف=== | ===اس طوفان سے متعلق قرآن اور دیگر منابع میں اختلاف=== | ||
# | # طوفان سے مربوط منابع میں [[قرآن|قرآن کریم]] واحد منبع ہے جس میں [[حضرت نوح]] کو خدا کے [[پیغمبر]] کے عنوان سے معرفی کرتا ہے۔ | ||
# | # قرآن کریم کے مطابق حضرت نوح پر ایمان لانے والے اس طوفان سے محفوظ رہ گئے تھے جبکہ دیگر منابع میں صرف خاندان نوح کو اس طوفان سے محفوظ رہنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ | ||
# | # قرآن کریم کی رو سے حضرت نوح کا بیٹا اور آپ کی بیوی نجات پانے والوں میں سے نہیں ہیں جبکہ دیگر منابع انہیں بھی نجات پانے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ | ||
# | # اس حوالے سے قرآن کریم میں دوسرے منابع کے بر خلاف کسی قسم کی دوگانہ گی نہیں پایا جاتا۔ | ||
# | # دیگر منابع کے برخلاف قرآن کریم واحد منبع ہے جس میں یہ واقعے مادیت سے پاک و منزہ ہے۔ | ||
# | # دوسرے منابع کے بر خلاف قرآن کریم واحد منبع ہے جس میں خدا اس طوفان کے نزول سے متعلق اظہار پشیمانی نہیں کرتا۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۹۱-۹۵۔</ref> | ||
==آغاز | ==طوفان کا آغاز==<!-- | ||
بر اساس گزارش قرآن، نقطہ آغاز طوفان تنور« فارَ التَّنُّورُ» بودہ است۔<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۰۔</ref>برخی مفسران معتقدند منظور از تنور «چاہہای زمین» است برخی دیگر آن تنور را تنور نان [[حوا]] میدانند۔گروہی محل تنور را [[مسجد کوفہ]] کنونی دانستہاند۔ گروہی دیگر نیز منظور آن را فلق صبح و روشنایی سپید دانستہاند۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان،۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۵۸؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۸۳؛ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔</ref> بیومی بعد از گزارش قول اخیر کہ بہ [[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]] منسوب شدہ است، عنوان میکند کہ اگر چہ ابن کثیر این روایت را غریب دانستہ اما از میان ہمہ روایات و اقوال مختلف ارائہ شدہ این روایت و قول پذیرفتنی تر بہ نظر میرسد، علاوہ بر اینکہ این روایت ہمخوان با نصوص قدیمی نیز میباشد۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲۔</ref> | بر اساس گزارش قرآن، نقطہ آغاز طوفان تنور« فارَ التَّنُّورُ» بودہ است۔<ref>سورہ ہود، آیہ ۴۰۔</ref>برخی مفسران معتقدند منظور از تنور «چاہہای زمین» است برخی دیگر آن تنور را تنور نان [[حوا]] میدانند۔گروہی محل تنور را [[مسجد کوفہ]] کنونی دانستہاند۔ گروہی دیگر نیز منظور آن را فلق صبح و روشنایی سپید دانستہاند۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲؛ طبرسی، ترجمہ تفسیر مجمع البیان،۱۳۵۲ش، ج۱۲، ص۵۸؛ ابن کثیر، قصص الانبیاء، ۱۴۱۱ق، ص۸۳؛ طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴، ج۱۰، ص۳۴۰۔</ref> بیومی بعد از گزارش قول اخیر کہ بہ [[امام علی علیہ السلام|امام علی(ع)]] منسوب شدہ است، عنوان میکند کہ اگر چہ ابن کثیر این روایت را غریب دانستہ اما از میان ہمہ روایات و اقوال مختلف ارائہ شدہ این روایت و قول پذیرفتنی تر بہ نظر میرسد، علاوہ بر اینکہ این روایت ہمخوان با نصوص قدیمی نیز میباشد۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۲۔</ref> | ||