"طوفان نوح" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←تفصیلات) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 11: | سطر 11: | ||
قرآن کریم میں 12 دفعہ طوفان نوح کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ قرآن کریم میں طوفان نوح کی داستان کو بھی دیگر [[قصص القرآن|قرآنی داستانوں]] کی مختلف حوالوں سے مکرر بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود مکمل تفصیلات کو ذکر نہیں ہوئی ہے۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۰۔</ref> بعض محققین معتقد ہیں کہ تاریخی اور حدیثی منابع میں اس داستان کی تفصیلات میں مختلف اور متعدد چیزوں کا اضافہ کیا گیا ہے جن میں سے بہت ساری چیزیں خرافات کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۰۔</ref> | قرآن کریم میں 12 دفعہ طوفان نوح کی طرف اشارہ ہوا ہے۔ قرآن کریم میں طوفان نوح کی داستان کو بھی دیگر [[قصص القرآن|قرآنی داستانوں]] کی مختلف حوالوں سے مکرر بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود مکمل تفصیلات کو ذکر نہیں ہوئی ہے۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۰۔</ref> بعض محققین معتقد ہیں کہ تاریخی اور حدیثی منابع میں اس داستان کی تفصیلات میں مختلف اور متعدد چیزوں کا اضافہ کیا گیا ہے جن میں سے بہت ساری چیزیں خرافات کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۰۔</ref> | ||
==طوفان کی وسعت== | ==طوفان کی وسعت== | ||
بعض [[مفسر|مفسرین]] اس بات کے معتقد ہیں کہ اگرچہ قرآن میں اس بات کی تصریح نہیں کی گئی ہے کہ یہ طوفان پوری دنیا میں آیا تھا یا کسی خاص منطقے میں، لیکن بہت ساری [[آیت|آیات]] کے ظاہر سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ طوفان کسی خاص منطقے میں نہیں بلکہ یہ ایک ایسا حادثہ تھا جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۰۳؛ بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹، ج۴، ص۷۸؛ النجار، قصص الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۳۶۔</ref> کیونکہ اس داستان سے مربوط آیات میں لفظ ارض(زمین) بطور مطلق استعمال ہوا ہے اور اس سے کسی خاص منطقے کی طرف اشارہ نہیں ہے۔<ref>آیہ ۴۴ سورہ ہود؛ آیہ ۲۶ سورہ نوح۔</ref> اس کے علاوہ اس داستان سے مربوط آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت نوح نے روی زمین پر موجود تمام حیوانات کا ایک ایک نمونہ انتخاب کیا تھا جو خود اس مطلب پر گواہ ہے کہ یہ طوفان ایک عالمگیر حادیثہ تھا نہ یہ کہ کسی خاص منطقے سے متعلق ہو۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۰۳</ref> | |||
[[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] | [[سید محمدحسین طباطبائی|علامہ طباطبایی]] اس طوفان کی عالمگیریت کو ثابت کرنے کیلئے [[سورہ ہود]] کی آیت نمبر 43، [[سورہ نوح]] کی آیت نمبر 26 اور [[سورہ صافات]] کی آیت نمبر 77 سے استناد کرتے ہیں۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۲۹۳۔</ref> علامہ طباطبائی کے بقول ماہرین ارضیات(geologist) کی تحقیق بھی اس طوفان کے عالمگیر ہونے کو ثابت کرتی ہیں۔<ref>طباطبایی، ترجمہ تفسیر المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۱۰، ص۲۹۶۔ النجار، قصص الانبیاء، ۱۴۰۶ق، ص۳۶۔</ref> [[آیت اللہ]] [[ناصر مکارم شیرازی|مکارم شیرازی]] بھی اس بارے میں کہتے ہیں کہ زمین شناسی کی تاریخ میں بعض ادوار کو سیلابی بارشوں سے نام سے یاد کرتے ہیں اگر ان ادوار کو زمین پر جانداروں کی پیدائش سے پهلے کا حساب نہ کریں تو یہ ادوار طوفان نوح پر قابل انطباق ہیں۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۹، ص۱۰۳۔</ref> اس کے مقابلے میں بعض لوگوں اس طوفان کے عالمگیر ہونے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: آثار قدیمہ کے کتیبوں من جملہ [[سومری]]، [[بابلی]] اور [[یہود|یہودی]] آثار کے مطالعے سے اس طوفان کے عالمگیر نہ ہونا ثابت ہوتا ہے۔<ref> بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹، ج۴، ص۷۸-۹۱۔</ref> | ||
=== کعبہ | === کعبہ اور طوفان نوح ===<!-- | ||
در برخی از [[روایات]]، آمدہ است کہ در جریان طوفان نوح زمین کعبہ تنہا جایی بود کہ زیر آب نرفت و از سیل در امان ماند۔ <ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۴-۷۶۔</ref> گفتہ شدہ کہ نام بیت العتیق برای کعبہ بہ دلیل در امان ماندن آن از طوفان نوح است۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج،۲ ص۵۶۔</ref> در برخی منابع نیز آمدہ است کہ [[جبرئیل]] بہ دستور خداوند کعبہ را بہ آسمان چہارم برد تا در سیل آسیب نبیند۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۴-۷۶۔</ref> | در برخی از [[روایات]]، آمدہ است کہ در جریان طوفان نوح زمین کعبہ تنہا جایی بود کہ زیر آب نرفت و از سیل در امان ماند۔ <ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۴-۷۶۔</ref> گفتہ شدہ کہ نام بیت العتیق برای کعبہ بہ دلیل در امان ماندن آن از طوفان نوح است۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ۱۳۵۲ش، ج،۲ ص۵۶۔</ref> در برخی منابع نیز آمدہ است کہ [[جبرئیل]] بہ دستور خداوند کعبہ را بہ آسمان چہارم برد تا در سیل آسیب نبیند۔<ref>بیومی مہرام، بررسی تاریخی قصص القرآن، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۷۴-۷۶۔</ref> | ||