مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ کربلا" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbasi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{مشابہت|عاشورا}}
{{مشابہت|عاشورا}}
{{محرم کی عزاداری}}
{{محرم کی عزاداری}}
'''واقعۂ کربلا''' یا '''واقعۂ عاشورا''' [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول(ص)]] اور ان کے چاہنے والوں کے لئے غم انگیز ترین واقعہ ہے جو دس [[محرم الحرام]] سنہ 61 ہجری  کو [[کربلائے معلی|کربلا]] میں رونما ہوا۔ اس واقعے میں [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) 56 سال کی عمر میں قلیل ساتھیوں کے ہمراہ، [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کی سرکردگی میں [[یزید بن معاویہ]] کی فوج کے ساتھ ایک نا عادلانہ جنگ میں جام شہادت نوش کرگئے اور آپ کے پسماندگان اسیر کرکے [[کوفہ]] اور [[شام]] لے جائے گئے۔ [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]] ہر سال اس واقعے کی مناسبت سے [[عزاداری]] مناتے ہیں۔
'''واقعۂ کربلا''' یا '''واقعۂ عاشورا''' [[اہل بیت علیہم السلام|اہل بیت]] [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسولؐ]] اور ان کے چاہنے والوں کے لئے غم انگیز ترین واقعہ ہے جو دس [[محرم الحرام]] سنہ 61 ہجری  کو [[کربلائے معلی|کربلا]] میں رونما ہوا۔ اس واقعے میں [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ 56 سال کی عمر میں قلیل ساتھیوں کے ہمراہ، [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کی سپہ سالاری میں [[یزید بن معاویہ]] کی فوج کے ساتھ ایک نا عادلانہ جنگ میں جام شہادت نوش کرگئے اور آپ کے پسماندگان اسیر کرکے [[کوفہ]] اور [[شام]] لے جائے گئے۔ [[شیعہ|شیعیان اہل بیت]] ہر سال اس واقعے کی مناسبت سے [[عزاداری]] مناتے ہیں۔


یہ واقعہ [[15 رجب]] سنہ 60 ہجری قمری کو [[معاویہ]] کی موت اور اس کے بیٹے یزید کی تخت نشینی کے بعد شروع ہوا۔ [[مدینہ]] کے گورنر نے امام حسین(ع) سے یزید کیلئے بیعت لینے کی کوشش کی لیکن امام حسین نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجے میں امام حسین(ع) کو مدینہ چھوڑ کر مکہ کی طرف حرکت کرنا پڑا۔ اس سفر میں آپ(ع) کے اہل خانہ سمیت [[بنی ہاشم]] آپ(ع) کے چاہنے والوں کی ایک جماعت نے آپ(ع) کا ساتھ دیا۔
یہ واقعہ [[15 رجب]] سنہ 60 ہجری قمری کو [[معاویہ]] کی موت اور اس کے بیٹے یزید کی تخت نشینی کے بعد شروع ہوا۔ [[مدینہ]] کے گورنر نے امام حسینؑ سے یزید کیلئے [[بیعت]] لینے کی کوشش کی لیکن امام حسین نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجے میں امام حسینؑ کو [[مدینہ]] چھوڑ کر [[مکہ]] کی طرف حرکت کرنا پڑا۔ اس سفر میں آپؑ کے اہل خانہ سمیت [[بنی ہاشم]] آپؑ کے چاہنے والوں کی ایک جماعت نے آپؑ کا ساتھ دیا۔


امام حسین(ع) تقریبا چار مہینے تک مکہ میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران ایک طرف سے یزید کے کارندے آپ کو شہید کرنے کے درپے تھے تو دوسری طرف سے کوفہ والوں کی متعدد خط مل رہے تھے۔ لہذا امام حسین(ع) نے مکہ مکرمہ کی حرمت اور کوفہ والوں کی دعوت کا لحاظ رکھتے ہوئے [[8 ذوالحجہ]] کو مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کیا۔ کوفہ پہنچنے سے پہلے امام کو کوفہ والوں کی بے وفائی اور آپ کے سفیر مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ہوئی جسے آپ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے اپنا نمائنده بنا کر کوفہ روانہ کیا تھا۔ اسی دوران [[حر بن یزید ریاحی]]  کی سرکردگی میں یزید کی فوج نے آپ کا راستہ روک لیا۔ وہاں سے آپ نے [[کربلا]] کا رخ کیا جہاں عمر بن سعد کی فوج سے آمنا سامنا ہوا جو [[عبیداللہ بن زیاد]] کی طرف سے بھیجی گئی تھی۔
امام حسینؑ تقریبا چار مہینے تک مکہ میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران ایک طرف سے یزید کے کارندے آپ کو [[شہید]] کرنے کے درپے تھے تو دوسری طرف سے کوفہ والوں کی متعدد خط مل رہے تھے۔ لہذا امام حسینؑ نے مکہ مکرمہ کی حرمت اور کوفہ والوں کی دعوت کا لحاظ رکھتے ہوئے [[8 ذوالحجہ]] کو مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کیا۔ کوفہ پہنچنے سے پہلے امام کو کوفہ والوں کی بے وفائی اور آپ کے سفیر مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر ہوئی جسے آپ نے کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے اپنا نمائنده بنا کر کوفہ روانہ کیا تھا۔ اسی دوران [[حر بن یزید ریاحی]]  کی سرکردگی میں یزید کی فوج نے آپ کا راستہ روک لیا۔ وہاں سے آپ نے [[کربلا]] کا رخ کیا جہاں عمر بن سعد کی فوج سے آمنا سامنا ہوا جو [[عبیداللہ بن زیاد]] کی طرف سے بھیجی گئی تھی۔


[[روز عاشورا]]، [[10 محرم الحرام]] سن 61 ہجری کو دونوں لشکروں کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس میں امام حسین(ع) کے لشکر سے آپ کے بھائی [[حضرت عباس بن علی]] اور چھ ماہہ بیٹا [[عبداللہ بن حسین|علی اصغر]] سمیت بنی‌ہاشم کے 17 اور آپ کے با وفا اصحاب میں سے تقریبا 50 افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ بعض [[مورخین]] کے مطابق [[شمر بن ذی الجوشن]] نے امام حسین(ع) کو شہید کیا۔ عمر بن سعد کی فوج نے شہداء کربلا کے جسموں پر گھوڑے دوڑائے۔ روز عاشور عصر کے وقت عمر سعد کے حکم سے آپ(ع) کے پسماندگان پر ہجوم لایا گیا اور [[خیمہ‌گاہ|خیموں]] کو آگ لگا دی گئی۔ شیعہ اس رات کو [[شام غریباں]] کا نام دیتے ہیں۔ اس جنگ میں [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجاد(ع)]] بیماری کی وجہ سے نہ لڑ سکے یوں امام کے لشکر سے صرف آپ زندہ بچ گئے تھے۔ لشکر یزید نے امام سجاد(ع) اور [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب]] سمیت امام حسین(ع) کے اہل خانہ اور دوسری خواتین اور بچوں کو اسیر کر کے شہداء کے سروں کے ساتھ کوفہ ابن زیاد پھر وہاں سے یزید کے پاس شام بھیجا گیا۔
[[روز عاشورا]]، [[10 محرم الحرام]] سن 61 ہجری کی صبح دونوں لشکروں کے درمیان جنگ شروع جس میں امام حسینؑ کے لشکر سے آپ کے بھائی [[حضرت عباس بن علی]] اور چھ ماہہ بیٹا [[عبداللہ بن حسین|علی اصغر]] سمیت بنی‌ ہاشم کے 17 اور آپ کے با وفا اصحاب میں سے تقریبا 50 افراد نے جام شہادت نوش کیا۔ بعض [[مورخین]] کے مطابق [[شمر بن ذی الجوشن]] نے امام حسینؑ کو شہید کیا۔ عمر بن سعد کی فوج نے شہداء کربلا کے جسموں پر گھوڑے دوڑائے۔ روز عاشور عصر کے وقت عمر سعد کے حکم سے آپؑ کے پسماندگان پر ہجوم لایا گیا اور [[خیمہ‌گاہ|خیموں]] کو آگ لگا دی گئی۔ شیعہ اس رات کو [[شام غریباں]] کا نام دیتے ہیں۔ اس جنگ میں [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]] بیماری کی وجہ سے نہ لڑ سکے یوں امام کے لشکر سے صرف آپ زندہ بچ گئے تھے۔ لشکر یزید نے امام سجادؑ اور [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب]] سمیت امام حسینؑ کے اہل خانہ اور دوسری خواتین اور بچوں کو اسیر کر کے شہداء کے سروں کے ساتھ کوفہ ابن زیاد پھر وہاں سے یزید کے پاس شام بھیجا گیا۔


== امام حسین(ع) کا یزید کی بیعت سے انکار ==
== انکار بیعت ==
15 [[رجب المرجب|رجب]] سنہ 60 ہجری کو [[معاویہ]] کی موت کے بعد، لوگوں سے یزید کی بیعت لی گئی۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۴۲؛ بَلاذُری، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۵۵؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۲.</ref> [[یزید]] نے بر سر اقتدار آنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ان چیدہ چیدہ افراد سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے [[معاویہ]] کے زمانے میں یزید کی بیعت کرنے سے انکار کیا تھا۔<ref> محمد بن جریرالطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص338۔</ref> اسی بنا پر اس نے [[مدینہ]] کے گورنر [[ولید بن عتبہ|ولید بن عتبہ بن ابی سفیان]] کو ایک خط کے ذریعے [[معاویہ]] کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصر تحریر میں [[ولید بن عتبہ|ولید]] کو "[[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]، [[عبداللہ بن عمر]] اور [[عبداللہ بن زبیر]] سے زبردستی [[بیعت]] لینے اور نہ ماننے کی صورت میں اس کا سر قلم کرنے کی ہدایت کی"۔ <ref>ابومخنف الازدی، مقتل الحسین(ع)،ص3؛ الطبری، وہی، ص338؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص180 اور علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔</ref>  
15 [[رجب المرجب|رجب]] سنہ 60 ہجری کو [[معاویہ]] کی موت کے بعد، لوگوں سے یزید کی بیعت لی گئی۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۴۲؛ بَلاذُری، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۵۵؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۲.</ref> [[یزید]] نے بر سر اقتدار آنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ان چیدہ چیدہ افراد سے بیعت لینے کا فیصلہ کیا جنہوں نے [[معاویہ]] کے زمانے میں یزید کی بیعت کرنے سے انکار کیا تھا۔<ref> محمد بن جریرالطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص338۔</ref> اسی بنا پر اس نے [[مدینہ]] کے گورنر [[ولید بن عتبہ|ولید بن عتبہ بن ابی سفیان]] کو ایک خط کے ذریعے [[معاویہ]] کی موت کی خبر دی اور ساتھ ہی ایک مختصر تحریر میں [[ولید بن عتبہ|ولید]] کو "[[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]، [[عبداللہ بن عمر]] اور [[عبداللہ بن زبیر]] سے زبردستی [[بیعت]] لینے اور نہ ماننے کی صورت میں اس کا سر قلم کرنے کی ہدایت کی"۔ <ref>ابومخنف الازدی، مقتل الحسینؑ،ص3؛ الطبری، وہی، ص338؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص9-10؛ الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص180 اور علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص14۔</ref>  


اس کی بعد [[یزید]] کی طرف سے ایک اور خط پہنچا جس میں موافقین اور مخالفین کے نام اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی(ع)]] کا سر بھی اس خط کے جواب کے ساتھ بھیجوانے کی تاکید کی گئی تھی۔<ref>شیخ صدوق؛ الامالی،ص152؛ ابن اعثم؛ وہی ماخذ، ص18 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص185۔</ref> چنانچہ [[ولید بن عتبہ|ولید]] نے [[مروان بن حکم|مروان]] سے [[مشورہ]] کیا؛<ref>ابومخنف؛ وہی ماخذ، صص3-4؛ الدینوری، وہی ماخذ، ص227 و الطبری، وہی ماخذ، صص338-339 اور رجوع کریں: ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔</ref> اور اس کی تجویز پر مذکورہ افراد کو دارالامارہ بلوایا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔</ref>
اس کی بعد [[یزید]] کی طرف سے ایک اور خط پہنچا جس میں موافقین اور مخالفین کے نام اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علیؑ]] کا سر بھی اس خط کے جواب کے ساتھ بھیجوانے کی تاکید کی گئی تھی۔<ref>شیخ صدوق؛ الامالی،ص152؛ ابن اعثم؛ وہی ماخذ، ص18 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص185۔</ref> چنانچہ [[ولید بن عتبہ|ولید]] نے [[مروان بن حکم|مروان]] سے [[مشورہ]] کیا؛<ref>ابومخنف؛ وہی ماخذ، صص3-4؛ الدینوری، وہی ماخذ، ص227 و الطبری، وہی ماخذ، صص338-339 اور رجوع کریں: ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔</ref> اور اس کی تجویز پر مذکورہ افراد کو دارالامارہ بلوایا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ج5، صص338-339؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص10؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص181 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص14۔</ref>


[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] اپنے 30<ref>ابن اعثم؛ مقتل الحسین(ع)، وہی ماخذ، ص18 و سید بن طاوس؛ اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔</ref> عزیز و اقارب کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔<ref>الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183۔الدینوری، وہی ماخذ، ص227؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183 و ابن شهرآشوب؛ وہی ماخذ، ص88</ref> ولید نے ابتداء میں [[معاویہ]] کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے  "[[امام حسین علیہ السلام|حسین(ع)]] سے اپنے لئے [[بیعت]] لینے کی تاکید کی تھی"۔ اس موقع پر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے ولید سے کہا: "کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں رات کی تاریکی میں یزید کی بیعت کروں؟ میرا خیال ہے کہ تمہارا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کے سامنے یزید کی بیعت کروں"۔ ولید نے کہا: "میری رائے بھی یہی ہے"۔ <ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص228؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص32 و عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]]، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے مہلت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں"۔<ref>ابومخنف، وہی ماخذ، ص5؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص33 و ابن اعثم؛ مقتل الحسین(ع)، وہی ماخذ، ص19۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] اپنے 30<ref>ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص18 و سید بن طاوس؛ اللہوف، تہران، جہان، 1348ش، ص17۔</ref> عزیز و اقارب کے ہمراہ دارالامارہ پہنچے۔<ref>الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183۔الدینوری، وہی ماخذ، ص227؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص183 و ابن شهرآشوب؛ وہی ماخذ، ص88</ref> ولید نے ابتداء میں [[معاویہ]] کی موت کی خبر سنائی اور پھر یزید کا خط پڑھ کر سنایا جس میں اس نے  "[[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] سے اپنے لئے [[بیعت]] لینے کی تاکید کی تھی"۔ اس موقع پر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے ولید سے کہا: "کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میں رات کی تاریکی میں یزید کی بیعت کروں؟ میرا خیال ہے کہ تمہارا مقصد یہ ہے کہ میں لوگوں کے سامنے یزید کی بیعت کروں"۔ ولید نے کہا: "میری رائے بھی یہی ہے"۔ <ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص228؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص32 و عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، ج5، ص323۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]]، نے فرمایا: "پس، کل تک مجھے مہلت دو تا کہ میں اپنی رائے کا اعلان کروں"۔<ref>ابومخنف، وہی ماخذ، ص5؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص33 و ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص19۔</ref>


حاکم [[مدینہ]] نے دوسرے روز عصر کے وقت اپنے افراد کو [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے یہاں بھجوایا تاکہ [[امام حسین علیہ السلام|آپ(ع)]] سے جواب وصول کرے؛۔<ref>شیخ مفید، وہی ماخذ، ص34۔</ref> تاہم [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] ایک اور رات کی مہلت ماگی گئی جسے ولید نے قبول کیا اور امام(ع) کو مہلت دے دی۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص341 و شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ص34۔</ref> امام عالی مقام نے دیکھا کہ [[مدینہ]] مزید پر امن نہ رہا، چنانچہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ص) نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔<ref>ابن اعثم؛ الفتوح، وہی ماخذ، ص19 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص187۔</ref>
حاکم [[مدینہ]] نے دوسرے روز عصر کے وقت اپنے افراد کو [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کے یہاں بھجوایا تاکہ [[امام حسین علیہ السلام|آپؑ]] سے جواب وصول کرے؛۔<ref>شیخ مفید، وہی ماخذ، ص34۔</ref> تاہم [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] ایک اور رات کی مہلت ماگی گئی جسے ولید نے قبول کیا اور امامؑ کو مہلت دے دی۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص341 و شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ص34۔</ref> امام عالی مقام نے دیکھا کہ [[مدینہ]] مزید پر امن نہ رہا، چنانچہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؐ نے مدینہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔<ref>ابن اعثم؛ الفتوح، وہی ماخذ، ص19 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص187۔</ref>


== مدینہ سے مکہ کی طرف حرکت ==
== مدینے سے مکہ کی طرف حرکت ==
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے [[امام حسین(ع)]] اتوار کی رات [[28 رجب]] اور بعض دوسرے اقوال کی بنا پر [[3 شعبان]] سنہ ۶۰ ہجری قمری <ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۲۱-۲۲؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۹.</ref> کو اپنے [[اہل بیت]] اور اصحاب کے 84 افراد کے ساتھ [[مدینہ]] سے  [[مکہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔<ref>بَلاذُری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۴۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۴.</ref> بعض منابع کے مطابق آپ(ع) نے رات بھر اپنی مادر گرامی [[حضرت فاطمہ(س)]] اور اپنے بھائی [[امام حسن(ع)]] کی قبر مبارک پر حاضری دی وہاں [[نماز]] پڑھی اور وداع کیا اور صبح سویرے گھر لوٹ آئے۔ <ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۱۹-۲۰؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۷.</ref> بعض دیگر منابع میں آیا ہے کہ آپ(ع) نے دو رات پے در پے اپنے نانا [[رسول خدا(ص)]] کے قبر مبارک پر رات گزاریں۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۱۸-۱۹.</ref>
حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے [[امام حسینؑ]] اتوار کی رات [[28 رجب]] اور بعض دوسرے اقوال کی بنا پر [[3 شعبان]] سنہ60ہجری قمری <ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۲۱-۲۲؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۹.</ref> کو اپنے [[اہل بیت]] اور اصحاب کے 84 افراد کے ساتھ [[مدینہ]] سے  [[مکہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔<ref>بَلاذُری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۴۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۴.</ref> بعض مصادر کے مطابق آپؑ نے رات بھر اپنی مادر گرامی [[حضرت فاطمہ(س)]] اور اپنے بھائی [[امام حسنؑ]] کی قبر مبارک پر حاضری دی وہاں [[نماز]] پڑھی اور وداع کیا اور صبح سویرے گھر لوٹ آئے۔ <ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۱۹-۲۰؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۷.</ref> بعض دیگر مصادر میں آیا ہے کہ آپؑ نے دو رات پے در پے اپنے نانا [[رسول خداؐ]] کے قبر مبارک پر رات گزاریں۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۱۸-۱۹.</ref>


اس سفر میں سوائے [[محمد بن حنفیہ]]<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۲۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۴۱؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۶.</ref> کے اکثر عزیز و اقارب منجملہ آپ(ع) کے فرزندان، بھائی بہنیں، بھتیجے اور بھانجے آپ(ع) کے ساتھ تھے۔<ref> ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲۸؛ صدوق، امالی، صص۱۵۲-۱۵۳.</ref> [[بنی ہاشم]] کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے 21 افراد بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔<ref> صدوق، امالی، ص۱۵۲.</ref>
اس سفر میں سوائے [[محمد بن حنفیہ]]<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۲۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۴۱؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۱۶.</ref> کے اکثر عزیز و اقارب منجملہ آپؑ کے فرزندان، بھائی بہنیں، بھتیجے اور بھانجے آپؑ کے ساتھ تھے۔<ref> ابن اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲۸؛ صدوق، امالی، صص۱۵۲-۱۵۳.</ref> [[بنی ہاشم]] کے علاوہ آپ کے اصحاب میں سے 21 افراد بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔<ref> صدوق، امالی، ص۱۵۲.</ref>


[[محمد بن حنفیہ]] جو آپ(ع) کے بھائی تھے، کو جب امام حسین(ع) کی قریب الوقوع سفر کی اطلاع ملی تو آپ سے خداحافظی کیلئے آئے۔ اس موقع پر امام(ع) نے ایک وصیتنامہ اپنے بھائی کے حوالے کیا جس میں آیا ہے کہ:
[[محمد بن حنفیہ]] جو آپؑ کے بھائی تھے، کو جب امام حسینؑ کی قریب الوقوع سفر کی اطلاع ملی تو آپ سے خداحافظی کیلئے آئے۔ اس موقع پر امامؑ نے ایک وصیتنامہ اپنے بھائی کے حوالے کیا جس میں آیا ہے کہ:


:::'''{{حدیث|إنّی لَم اَخْرج أشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسداً و لا ظالماً وَ إنّما خرجْتُ لِطلب الإصلاح فی اُمّة جدّی اُریدُ أنْ آمُرَ بالمعروف و أنْهی عن المنکر و اسیرَ بِسیرة جدّی و سیرة أبی علی بن أبی طالب|ترجمہ= میں ناشکری اور جاہ طلبی یا کسی فساد اور ظلم و زیادتی کیلئے نہیں نکل رہا ہوں بلکہ میں اپنے نانا رسول خدا(ص) کی [[امّت]] کی اصلاح کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں [[امر بالمعروف اور نہی عن المنکر]] کرنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرے نانا رسول خدا(ص) اور بابا علی مرتضی(ع) کی [[سیرت]] کو زندہ کروں اور ان کی رفتار پر عمل پیرا ہوں....}}<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۱؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، صص۱۸۸-۱۸۹.</ref>'''
:::'''{{حدیث|إنّی لَم اَخْرج أشِراً و لا بَطِراً و لا مُفْسداً و لا ظالماً وَ إنّما خرجْتُ لِطلب الإصلاح فی اُمّة جدّی اُریدُ أنْ آمُرَ بالمعروف و أنْهی عن المنکر و اسیرَ بِسیرة جدّی و سیرة أبی علی بن أبی طالب|ترجمہ= میں ناشکری اور جاہ طلبی یا کسی فساد اور ظلم و زیادتی کیلئے نہیں نکل رہا ہوں بلکہ میں اپنے نانا رسول خداؐ کی [[امّت]] کی اصلاح کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں [[امر بالمعروف اور نہی عن المنکر]] کرنا چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میرے نانا رسول خداؐ اور بابا علی مرتضیؑ کی [[سیرت]] کو زندہ کروں اور ان کی رفتار پر عمل پیرا ہوں....}}<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۱؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، صص۱۸۸-۱۸۹.</ref>'''


امام حسین(ع) اپنے ساتھیوں کے ساتھ [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور اپنے عزیز و اقارب کے مرضی کے برخلاف [[مکہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۹.</ref> مکہ کے راستے میں [[عبداللہ بن مطیع]] سے ملاقات ہوئی، اس نے امام(ع) کے ارادے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:"فی الحال مکہ جانے کا ارادہ کر چکا ہوں وہاں پہنچنے کے بعد خدا سے آئندہ کی خیر و صلاح کی درخواست کروں گا"۔ عبداللہ نے امام(ع) سے [[کوفہ]] والوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے آپ سے مکہ ہی میں رہنے کی درخواست کی۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۳.</ref>
امام حسینؑ اپنے ساتھیوں کے ساتھ [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور اپنے عزیز و اقارب کے مرضی کے برخلاف [[مکہ]] کی طرف روانہ ہوئے۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۲؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۱۸۹.</ref> مکہ کے راستے میں [[عبداللہ بن مطیع]] سے ملاقات ہوئی، اس نے امامؑ کے ارادے کے بارے میں سوال کیا تو امام نے فرمایا:"فی الحال مکہ جانے کا ارادہ کر چکا ہوں وہاں پہنچنے کے بعد خدا سے آئندہ کی خیر و صلاح کی درخواست کروں گا"۔ عبداللہ نے امامؑ سے [[کوفہ]] والوں کے بارے میں انتباہ کرتے ہوئے آپ سے مکہ ہی میں رہنے کی درخواست کی۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۳.</ref>


امام حسین(ع) 5 دن بعد یعنی [[3 شعبان]] سنہ 60 ہجری قمری کو مکہ پہنچ گئے۔<ref>بلاذری؛ انساب‌الاشراف، ص۱۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۸۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۵.</ref> جہاں اھل مکہ اور [[بیت اللہ الحرام]] کی زیارت پر آئے ہوئے حاجیوں نے آپ کا گرم جوشی سے استقبال کئے۔<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۶؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۳؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۶.</ref> مدینہ سے مکہ کے اس سفر کے دوران آپ نے درج ذیل منازل سے عبور فرمایا: [[ذوالحلیفہ]]، ملل، سیالہ، عرق ظبیہ، زوحاء، انایہ، عرج، لحر جمل، سقیا، [[ابواء]]، رابغ، [[جحفہ]]، قدید، خلیص، عسفان اور مرالظہران۔
امام حسینؑ 5 دن بعد یعنی [[3 شعبان]] سنہ 60 ہجری قمری کو مکہ پہنچ گئے۔<ref>بلاذری؛ انساب‌الاشراف، ص۱۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۸۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۵.</ref> جہاں اھل مکہ اور [[بیت اللہ الحرام]] کی زیارت پر آئے ہوئے حاجیوں نے آپ کا گرم جوشی سے استقبال کئے۔<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۶؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۳؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۶.</ref> مدینہ سے مکہ کے اس سفر کے دوران آپ نے درج ذیل منازل سے عبور فرمایا: [[ذوالحلیفہ]]، ملل، سیالہ، عرق ظبیہ، زوحاء، انایہ، عرج، لحر جمل، سقیا، [[ابواء]]، رابغ، [[جحفہ]]، قدید، خلیص، عسفان اور مرالظہران۔


==امام(ع) مکہ میں==
==امامؑ مکہ میں==
امام حسین(ع) [[3 شعبان]] سے [[8 ذوالحجہ]] تک یعنی چار مہینے سے زیادہ [[مکہ]] میں قیام پذیر رہے۔ مکہ میں آپ(ع) کی تشریف آوری کی خبر سن کر مکہ کے باسی نہایت خوشحال ہوئے اور صبح و شام آپ(ع) کے وجود مبارک سے فیضاب ہوتے تھے جو [[عبداللہ بن زبیر]] پر نہایت سخت گذرا کیونکہ وہ اس امید میں تھے کہ مکہ والے اس کی بیعت کریں گے اور اسے یہ معلوم تھا کہ جب تک امام حسین(ع) مکہ میں ہیں کوئی اس کی بیعت نہیں کریں گے۔<ref> بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۶؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۶؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۲۰؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، ج۱، ص۱۹۰.</ref>
امام حسینؑ [[3 شعبان]] سے [[8 ذوالحجہ]] تک یعنی چار مہینے سے زیادہ [[مکہ]] میں قیام پذیر رہے۔ مکہ میں آپؑ کی تشریف آوری کی خبر سن کر مکہ کے باسی نہایت خوشحال ہوئے اور صبح و شام آپؑ کے وجود مبارک سے فیضاب ہوتے تھے جو [[عبداللہ بن زبیر]] پر نہایت سخت گذرا کیونکہ وہ اس امید میں تھے کہ مکہ والے اس کی بیعت کریں گے اور اسے یہ معلوم تھا کہ جب تک امام حسینؑ مکہ میں ہیں کوئی اس کی بیعت نہیں کریں گے۔<ref> بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۶؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۶؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۲۰؛ خوارزمی، مقتل‌الحسینؑ، ج۱، ص۱۹۰.</ref>


=== کوفیوں کے خطوط اور امام(ع) کو قیام کی دعوت ===
=== کوفیوں کے خطوط اور امامؑ کو دعوت قیام ===
{{Quote box
{{Quote box
  |class = <!-- Advanced users only.  See the "Custom classes" section below. -->
  |class = <!-- Advanced users only.  See the "Custom classes" section below. -->
  |title = سلیمان بن صُرَد خزاعی کا امام حسین(ع) کے نام خط:
  |title = سلیمان بن صُرَد خزاعی کا امام حسینؑ کے نام خط:
  |quote =..اس خدا کا شکر بجا لاتا ہوں جس نے آپ(ع) کے دشمن کا خاتمہ کیا(معاویہ کی موت کی طرف اشارہ ہے)؛ وہ شخص جس نے اس امت کے خلاف بغاوت کی؛ ان کے اموال کو غصب کیا اور ان کی رضایت کے بغیر ان پر حاکم ہو گئے؛ اس کے بعد نیک لوگوں کو قتل کیا اور بدکاروں کو باقی رکھا اور بیت المال کو ثروتمندوں میں بانٹ دیا؛ خدا اسے قوم ثمود کے ساتھ محشور کرے؛ '''اس وقت ہماری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے، تشریف لائیں، شاید خداوند متعال ہم سب کو آپ کی قیادت میں راہ حق پر متحد ہونے کی توفیق دے'''...
  |quote =..اس خدا کا شکر بجا لاتا ہوں جس نے آپؑ کے دشمن کا خاتمہ کیا(معاویہ کی موت کی طرف اشارہ ہے)؛ وہ شخص جس نے اس امت کے خلاف بغاوت کی؛ ان کے اموال کو غصب کیا اور ان کی رضایت کے بغیر ان پر حاکم ہو گئے؛ اس کے بعد نیک لوگوں کو قتل کیا اور بدکاروں کو باقی رکھا اور بیت المال کو ثروتمندوں میں بانٹ دیا؛ خدا اسے قوم ثمود کے ساتھ محشور کرے؛ '''اس وقت ہماری رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہے، تشریف لائیں، شاید خداوند متعال ہم سب کو آپ کی قیادت میں راہ حق پر متحد ہونے کی توفیق دے'''...
  |source =طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۳۵۱.
  |source =طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۵، ص۳۵۱.
  |align = left
  |align = left
سطر 55: سطر 55:
  |sstyle =
  |sstyle =
}}
}}
{{اصلی|امام حسین(ع) کے نام کوفہ والوں کے خطوط}}
{{اصلی|امام حسینؑ کے نام کوفہ والوں کے خطوط}}
امام حسین(ع) کے مکہ میں پہنچ کر کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ [[عراق]] کے [[شیعہ]] معاویہ کی موت اور امام حسین(ع) اور ابن زبیر کا یزید کی بیعت نہ کرنے سے با خبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر وہ [[سلیمان بن صرد|سلیمان بن صُرَد خُزاعی]] کے گھر میں جمع ہو گئے اور امام حسین(ع) کو ایک خط لکھا جس میں آپ کو [[کوفہ]] آنے کی دعوت دی گئی۔<ref>بلاذری؛ انساب‌الاشراف، ج۳، صص۱۵۷-۱۵۸؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۲۷-۲۸؛ مفید، الارشاد، ج۲، صص۳۶-۳۷؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۳۰.</ref> اس خط کے بھیجے ہوئے ابھی دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ کوفہ والوں نے 150 خط آپ کے نام لکھے جس میں سے ہر ایک پر کم از کم ایک سے چار افراد کے دستخط ہوا کرتا تھے۔<ref>بلاذری؛ انساب الاشراف، ص۱۵۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۲؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۹؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸.</ref> اس کے دو دن بعد اور خط امام حسین(ع) کے نام بھیجے گئے۔<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۳؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۹؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸.</ref> ان تمام خطوط میں امام حسین(ع) کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔
امام حسینؑ کے مکہ میں پہنچ کر کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ [[عراق]] کے [[شیعہ]] معاویہ کی موت اور امام حسینؑ اور ابن زبیر کا یزید کی بیعت نہ کرنے سے با خبر ہوتے ہیں۔ اس بنا پر وہ [[سلیمان بن صرد|سلیمان بن صُرَد خُزاعی]] کے گھر میں جمع ہو گئے اور امام حسینؑ کو ایک خط لکھا جس میں آپ کو [[کوفہ]] آنے کی دعوت دی گئی۔<ref>بلاذری؛ انساب‌الاشراف، ج۳، صص۱۵۷-۱۵۸؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، صص۲۷-۲۸؛ مفید، الارشاد، ج۲، صص۳۶-۳۷؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۳۰.</ref> اس خط کے بھیجے ہوئے ابھی دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ کوفہ والوں نے 150 خط آپ کے نام لکھے جس میں سے ہر ایک پر کم از کم ایک سے چار افراد کے دستخط ہوا کرتا تھے۔<ref>بلاذری؛ انساب الاشراف، ص۱۵۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۲؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۹؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸.</ref> اس کے دو دن بعد اور خط امام حسینؑ کے نام بھیجے گئے۔<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۱۵۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۳؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۲۹؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸.</ref> ان تمام خطوط میں امام حسینؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔


امام حسین(ع) نے ان خطوں کے جواب دینے میں تاخیر کی یہاں تک کہ ان خطوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اس موقع پر آپ نے ایک خط تحریر فرمایا۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۳۷؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۳؛ یعقوبی، تاریخ‌الیعقوبی، ج۲، ص۲۴۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸.</ref> جس کا مضمون یہ تھا:
امام حسینؑ نے ان خطوں کے جواب دینے میں تاخیر کی یہاں تک کہ ان خطوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اس موقع پر آپ نے ایک خط تحریر فرمایا۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۳۷؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۳؛ یعقوبی، تاریخ‌الیعقوبی، ج۲، ص۲۴۱؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۳۸.</ref> جس کا مضمون یہ تھا:


:::::...میں اپنے چچازاد بھائی جو میرے خاندان میں میرا سب سے با اعتماد شخص ہے، کو آپ کی طرف بھیجتا ہوں تاکہ وہ مجھے آپ لوگوں کی حالات سے آگاہ کرے۔ اگر اس نے مجھے یہ خبر دی کہ ہاں آپ لوگ وہی ہو جو ان خطوط میں لکھے گئے ہیں تو میں آپ کے یہاں آؤنگا ... امام صرف وہ ہے جو کتاب خدا پر عمل پیرا ہو، عدالت قائم کرے، دین حق پر یقین رکھتا ہو اور اپنے آپ کو خدا کیلئے وقف کرے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۳؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۲۱.</ref>
:::::...میں اپنے چچازاد بھائی جو میرے خاندان میں میرا سب سے با اعتماد شخص ہے، کو آپ کی طرف بھیجتا ہوں تاکہ وہ مجھے آپ لوگوں کی حالات سے آگاہ کرے۔ اگر اس نے مجھے یہ خبر دی کہ ہاں آپ لوگ وہی ہو جو ان خطوط میں لکھے گئے ہیں تو میں آپ کے یہاں آؤنگا ... امام صرف وہ ہے جو کتاب خدا پر عمل پیرا ہو، عدالت قائم کرے، دین حق پر یقین رکھتا ہو اور اپنے آپ کو خدا کیلئے وقف کرے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۳؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۲۱.</ref>


=== سفیر حسین(ع) کوفہ میں ===
=== سفیر حسینؑ کوفہ میں ===
{{اصلی|مسلم بن عقیل}}
{{اصلی|مسلم بن عقیل}}
[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے [[کوفہ|کوفیوں]] کے نام ایک خط دے کر <ref>محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج 5، ص 353 و ابن اثیر، علی بن ابی الکرم؛ الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 21۔</ref> اپنے چچا زاد بھائی [[مسلم بن عقیل]] کو [[عراق]] روانہ کیا؛ تا کہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے اور آپ کو حالات سے آگاہ کرے۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص230؛ الطبری، وہی ماخذ، ص347؛ ابن اعثم؛ مقتل الحسین(ع)، وہی ماخذ، ص39و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص21۔</ref> [[مسلم بن عقیل|مسلم]] [[15 رمضان المبارک|15 رمضان]] کو خفیہ طور پر [[مکہ]] سے نکلے اور [[5 شوال المکرم]] کو کوفہ پہنچ کر<ref>علی بن الحسین المسعودی، مروج الذهب و معادن الجوهر، ج3، ص54۔</ref> [[مختار بن ابی عبیدہ ثقفی]] کے گھر قیام پذیر ہوئے۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص 231 و احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج 2، ص 77 و الطبری، وہی ماخذ، ج 5، ص 355۔</ref> [[مسلم بن عقیل]] کی کوفہ پہنچنے کی اطلاع ملتے ہی [[شیعہ|شیعیان]] کوفہ ان کے پاس آنے لگے۔ مسلم انہیں امام(ع) کی تحریر سے آگاہ کرتے<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۱.</ref> اور ان سے امام حسین(ع) کیلئے [[بیعت]] لینا شروع کیا۔<ref> مقرم، الشهید مسلم بن عقیل، ص۱۰۴.</ref> یوں 12000<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵،ص۳۴۸.</ref> یا 18000 <ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۵.</ref> یا 30000 سے زیادہ <ref> ابن قتیبه دینوری، الامامة و السیاسة، ج۲، ص۸.</ref> 18000 لوگوں نے مسلم کے ہاتھ پر امام حسین(ع) کی [[بیعت]] کی اور آپ(ع) کا ساتھ دینے کا وعدہ دیا۔ اس موقع پر مسلم نے [[امام حسین(ع)]] کو ایک خط لکھا جس میں بیعت کرنے والوں کی کثرت کا ذکر کرتے ہوئے امام(ع) کو کوفہ آنے کا مشورہ دیا۔<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۴۳؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۹۵.</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے [[کوفہ|کوفیوں]] کے نام ایک خط دے کر <ref>محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج 5، ص 353 و ابن اثیر، علی بن ابی الکرم؛ الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 21۔</ref> اپنے چچا زاد بھائی [[مسلم بن عقیل]] کو [[عراق]] روانہ کیا؛ تا کہ وہاں کے حالات کا جائزہ لے اور آپ کو حالات سے آگاہ کرے۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص230؛ الطبری، وہی ماخذ، ص347؛ ابن اعثم؛ مقتل الحسینؑ، وہی ماخذ، ص39و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص21۔</ref> [[مسلم بن عقیل|مسلم]] [[15 رمضان المبارک|15 رمضان]] کو خفیہ طور پر [[مکہ]] سے نکلے اور [[5 شوال المکرم]] کو کوفہ پہنچ کر<ref>علی بن الحسین المسعودی، مروج الذهب و معادن الجوهر، ج3، ص54۔</ref> [[مختار بن ابی عبیدہ ثقفی]] کے گھر قیام پذیر ہوئے۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص 231 و احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج 2، ص 77 و الطبری، وہی ماخذ، ج 5، ص 355۔</ref> [[مسلم بن عقیل]] کی کوفہ پہنچنے کی اطلاع ملتے ہی [[شیعہ|شیعیان]] کوفہ ان کے پاس آنے لگے۔ مسلم انہیں امامؑ کی تحریر سے آگاہ کرتے<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۱.</ref> اور ان سے امام حسینؑ کیلئے [[بیعت]] لینا شروع کیا۔<ref> مقرم، الشهید مسلم بن عقیل، ص۱۰۴.</ref> یوں 12000<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵،ص۳۴۸.</ref> یا 18000 <ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۵.</ref> یا 30000 سے زیادہ <ref> ابن قتیبه دینوری، الامامة و السیاسة، ج۲، ص۸.</ref> 18000 لوگوں نے مسلم کے ہاتھ پر امام حسینؑ کی [[بیعت]] کی اور آپؑ کا ساتھ دینے کا وعدہ دیا۔ اس موقع پر مسلم نے [[امام حسینؑ]] کو ایک خط لکھا جس میں بیعت کرنے والوں کی کثرت کا ذکر کرتے ہوئے امامؑ کو کوفہ آنے کا مشورہ دیا۔<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۴۳؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۹۵.</ref>


جب یزید کو کوفہ والوں کی امام حسین(ع) کی بیعت اور [[نعمان بن بشیر]] (جو اس وقت کوفہ کا گورنر تھا) کی ان کے ساتھ نرمی کا پتہ چلا تو اس نے [[عبیدالله بن زیاد]] کو (جو اس وقت [[بصره]] کا گورنر تھا) کوفہ کی گورنری پر منصوب کیا۔<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۱.</ref> ابن زیاد کوفہ آنے کے بعد امام حسین(ع) کی بیعت کرنے والوں کی تلاش اور قبائلی سرداروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۹.</ref>
جب [[یزید بن معاویہ|یزید]] کو [[کوفہ]] والوں کی امام حسینؑ کی بیعت اور [[نعمان بن بشیر]] (جو اس وقت کوفہ کا گورنر تھا) کے ان کے ساتھ نرم برتاؤ کا پتہ چلا تو اس نے [[عبیدالله بن زیاد]] کو (جو اس وقت [[بصره]] کا گورنر تھا) کوفہ کی گورنری پر منصوب کیا۔<ref> دینوری، اخبارالطوال، ص۲۳۱.</ref> ابن زیاد کوفہ آنے کے بعد امام حسینؑ کی بیعت کرنے والوں کی تلاش اور قبائلی سرداروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کیا۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۹.</ref>


تاریخی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عبید الله ابن زیاد کے کارندوں کے پروپیگنڈوں سے ڈر کر مسلم بن عقیل سے دور ہونے لگے یہاں تک کہ رات کے وقت تک مسلم بن عقبل تنہا رہ گئے اور چھپنے کیلئے کوئی جگہ بھی میسر نہ تھی۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۶۹-۳۷۱.</ref> اور آخر کار ابن زیاد کی فوج سے لڑنے کی بعد [[محمد بن اشعث بن قیس|محمد بن اشعث]] کی طرف سے امان دینے کے وعدہ سے ہتھیار ڈال دئے<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۰-۳۷۴.</ref> اور انہیں پکڑ کر مہل لایا گیا؛ لیکن ابن زیاد نے محمد بن اشعث کے امان نامے کی پرواہ کئے بغیر مسلم کو شہید کرنے کا حکم دیا۔<ref> مفید، الارشاد، ج۲، ص۵۳-۶۳.</ref>
تاریخی اسناد سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عبید الله ابن زیاد کے کارندوں کے پروپیگنڈوں سے ڈر کر مسلم بن عقیل سے دور ہونے لگے یہاں تک کہ رات کے وقت تک مسلم بن عقبل تنہا رہ گئے اور چھپنے کیلئے کوئی جگہ بھی میسر نہ تھی۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۶۹-۳۷۱.</ref> اور آخر کار ابن زیاد کی فوج سے لڑنے کی بعد [[محمد بن اشعث بن قیس|محمد بن اشعث]] کی طرف سے امان دینے کے وعدہ سے ہتھیار ڈال دئے<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۵۰-۳۷۴.</ref> اور انہیں پکڑ کر مہل لایا گیا؛ لیکن ابن زیاد نے محمد بن اشعث کے امان نامے کی پرواہ کئے بغیر مسلم کو شہید کرنے کا حکم دیا۔<ref> مفید، الارشاد، ج۲، ص۵۳-۶۳.</ref>


مسلم بن عقیل امام حسین(ع) کیلئے فکرمند تھے اس وجہ سے آپ نے عمر بن سعد  کو اس سلسلے میں وصیت کی، اس کا تعلق  [[قریش]] سے تھا۔ مسلم کی پہلی وصیت یہ تھی کہ کسی کو امام حسین(ع) کے پاس بھیج دیا جائے اور آنحضرت کو کوفہ آنے سے روکا جائے۔<ref>جعفریان، تأملی در نہضت عاشورا، ص۱۶۸.</ref> "زبالہ" نامی جگہ پر عمر بن سعد کے ذریعے بھیجا گیا پیغام امام(ع) کی خدمت میں پہنچا۔
مسلم بن عقیل امام حسینؑ کیلئے فکرمند تھے اس وجہ سے آپ نے عمر بن سعد  کو اس سلسلے میں وصیت کی، اس کا تعلق  [[قریش]] سے تھا۔ مسلم کی پہلی وصیت یہ تھی کہ کسی کو امام حسینؑ کے پاس بھیج دیا جائے اور آنحضرت کو کوفہ آنے سے روکا جائے۔<ref>جعفریان، تأملی در نہضت عاشورا، ص۱۶۸.</ref> "زبالہ" نامی جگہ پر عمر بن سعد کے ذریعے بھیجا گیا پیغام امامؑ کی خدمت میں پہنچا۔


==مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی==
==مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی==
امام حسین(ع) مکہ میں چار مہینے پانچ دن اقامت کے بعد بروز پیر [[8 ذوالحجہ]]<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۸۱؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۸۱.</ref> (جس دن [[مسلم بن عقیل]] نے کوفہ میں قیام کیا) 82 افراد کے ساتھ<ref> ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۶۹؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۲۲۰؛ إربلی، کشف‌الغمہ، ج۲، ص۴۳.</ref> (جن میں سے 60 افراد [[کوفہ]] کے [[شیعیان]] میں سے تھے )<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۵۱؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۶۹</ref>، مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔
امام حسینؑ مکہ میں چار مہینے پانچ دن اقامت کے بعد بروز پیر [[8 ذوالحجہ]]<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج۳، ص۱۶۰؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۸۱؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۸۱.</ref> (جس دن [[مسلم بن عقیل]] نے کوفہ میں قیام کیا) 82 افراد کے ساتھ<ref> ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۶۹؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین، ص۲۲۰؛ إربلی، کشف‌الغمہ، ج۲، ص۴۳.</ref> (جن میں سے 60 افراد [[کوفہ]] کے [[شیعیان]] میں سے تھے )<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، خامسہ۱، ص۴۵۱؛ ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۶۹</ref>، مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔


بعض نے تاریخی اور حدیثی شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے کها ہے کہ امام حسین(ع) نے شروع سے ہی [[عمرہ مفردہ]] کی نیت کر رکھی تھی اسی لئے حج کے موسم میں مکہ سے باہر تشریف لے گئے۔<ref>کلینی، الکافی، ج۴، ص۵۳۵، طوسی، الاستبصار، ج۲، ص۳۲۸</ref>(مزید تفصیلات کیلئے مراجعہ کریں: [[حج ناتمام]])
بعض نے تاریخی اور حدیثی شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے کها ہے کہ امام حسینؑ نے شروع سے ہی [[عمرہ مفردہ]] کی نیت کر رکھی تھی اسی لئے حج کے موسم میں مکہ سے باہر تشریف لے گئے۔<ref>کلینی، الکافی، ج۴، ص۵۳۵، طوسی، الاستبصار، ج۲، ص۳۲۸</ref>(مزید تفصیلات کیلئے مراجعہ کریں: [[حج ناتمام]])


مکہ میں قیام کے آخری مہینے میں جب امام حسین(ع) کا کوفہ کی طرف جانے کا احتمال شدت اختیار کرنے لگا تو بہت سارے افراد نے اس سفر کی مخالفت کی منجملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب|عبداللّہ بن عبّاس]] اور [[محمد حنفیہ|محمّد بن حنفیہ]] امام کی خدمت  میں آئے تاکہ آپ(ع) کو کوفہ کی طرف سفر کرنے سے منع کریں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔
مکہ میں قیام کے آخری مہینے میں جب امام حسینؑ کا کوفہ کی طرف جانے کا احتمال شدت اختیار کرنے لگا تو بہت سارے افراد نے اس سفر کی مخالفت کی منجملہ ان افراد میں [[عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب|عبداللّہ بن عبّاس]] اور [[محمد حنفیہ|محمّد بن حنفیہ]] امام کی خدمت  میں آئے تاکہ آپؑ کو کوفہ کی طرف سفر کرنے سے منع کریں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔


جب امام حسین(ع) اور آپ کے ساتھی مکہ سے باہر نکلے تو مکہ کے گورنر [[عمرو بن سعید بن عاص]] کی فوج نے [[یحیی بن سعید]] کی سرکردگی میں امام حسین(ع) کا راستہ روکا لیکن آپ نے کوئی اہمیت نہیں دی اور اپنا سفر جاری رکھا۔<ref>دینوری، اخبارالطوال، ص۲۴۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ص۱۶۴؛ طبری،تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۸۵.</ref>
جب امام حسینؑ اور آپ کے ساتھی مکہ سے باہر نکلے تو مکہ کے گورنر [[عمرو بن سعید بن عاص]] کی فوج نے [[یحیی بن سعید]] کی سرکردگی میں امام حسینؑ کا راستہ روکا لیکن آپ نے کوئی اہمیت نہیں دی اور اپنا سفر جاری رکھا۔<ref>دینوری، اخبارالطوال، ص۲۴۴؛ بلاذری، انساب الاشراف، ص۱۶۴؛ طبری،تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۳۸۵.</ref>


=== مکہ سے کوفہ کا راستہ ===
=== مکہ سے کوفہ کا راستہ ===
امام حسین(ع) کا یہ کاروان مکہ سے کوفہ جاتے ہوئے جن منزلوں سے گزرا ان کی ترتیب یہ ہے:
امام حسینؑ کا یہ کاروان مکہ سے کوفہ جاتے ہوئے جن منزلوں سے گزرا ان کی ترتیب یہ ہے:
{{ستون آ|3}}  
{{ستون آ|3}}  
#[[بستان بنی عامر]]،
#[[بستان بنی عامر]]،
سطر 103: سطر 103:
# [[اجفر]] ([[عبداللہ بن مطیع عدوی]] سے ملاقات اور ان کی طرف سے امام کو واپس لوٹنے کی نصیحت)،
# [[اجفر]] ([[عبداللہ بن مطیع عدوی]] سے ملاقات اور ان کی طرف سے امام کو واپس لوٹنے کی نصیحت)،
# [[خزیمیہ]]،
# [[خزیمیہ]]،
#[[زرود]] ([[زہیر بن قین]] کا امام حسین(ع) کے کاروان میں شامل ہونا، [[فرزندان مسلم]] سے ملاقات اور مسلم و ہانی وغیرہ کی شہادت کی خبر)،
#[[زرود]] ([[زہیر بن قین]] کا امام حسینؑ کے کاروان میں شامل ہونا، [[فرزندان مسلم]] سے ملاقات اور مسلم و ہانی وغیرہ کی شہادت کی خبر)،
# [[ثعلبیہ]]،
# [[ثعلبیہ]]،
# [[بطان]]،
# [[بطان]]،
سطر 114: سطر 114:
#[[برکہ ابومسک]]،
#[[برکہ ابومسک]]،
#[[ذی حسم|جبل ذی حسم]] ([[حر بن یزید ریاحی]] کی فوج سے ملاقات)،
#[[ذی حسم|جبل ذی حسم]] ([[حر بن یزید ریاحی]] کی فوج سے ملاقات)،
# [[بیضہ]] (امام حسین(ع) کا حر کی سپاہ سے خطاب)،
# [[بیضہ]] (امام حسینؑ کا حر کی سپاہ سے خطاب)،
#[[مسیجد]]،
#[[مسیجد]]،
#[[حمام]]،
#[[حمام]]،
# [[مغیثہ]]،
# [[مغیثہ]]،
# [[ام قرون]]،  
# [[ام قرون]]،  
#[[عذیب الہجانات|عذیب]] (کوفہ کا راستے عذیب سے [[قادسیہ]] اور [[حیرہ]] کی طرف تھا لیکن امام حسین(ع) نے راستہ تبدیل کر کے [[کربلا]] میں اتر آئے)،
#[[عذیب الہجانات|عذیب]] (کوفہ کا راستے عذیب سے [[قادسیہ]] اور [[حیرہ]] کی طرف تھا لیکن امام حسینؑ نے راستہ تبدیل کر کے [[کربلا]] میں اتر آئے)،
# [[قصر بنی مقاتل]] ([[عبیداللہ بن حر جعفی]] سے ملاقات اور امامم کی دعوت کو قبول نہ کرنا)،
# [[قصر بنی مقاتل]] ([[عبیداللہ بن حر جعفی]] سے ملاقات اور امامم کی دعوت کو قبول نہ کرنا)،
#[[قطقطانہ]]،  
#[[قطقطانہ]]،  
# کربلا -[[طف|وادی طف]]- ([[2 محرم]] 61 ہجری قمری امام(ع) کا کربلا میں داخل ہونا)۔<ref> جعفریان، اطلس شیعہ، ص۶۶.</ref>
# کربلا -[[طف|وادی طف]]- ([[2 محرم]] 61 ہجری قمری امامؑ کا کربلا میں داخل ہونا)۔<ref> جعفریان، اطلس شیعہ، ص۶۶.</ref>
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
امام(ع) ہر منزل پر لوگوں کو جذب کرنے اور ان کے ذہنوں میں اس معاملے کو واضح اور روشن کرنے کیلئے ہر ممکن تلاش کرتے رہے۔ نمونے کے طور پر یہ کہ [[ذات عرق]] نامی جگہ پر [[بشر بن غالب اسدی]] نامی ایک شخص امام کی خدمت میں پہنچ کر کوفہ کے حالات کی نزاکت کی اطلاع دی۔ اس موقع پر امام نے اس کی بات کی تصدیق کی۔ اس شخص نے امام(ع) سے آیت: {{حدیث|یوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاس بِإِمَامِهم}}<ref>اسرا، ۷۱</ref>  کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
امامؑ ہر منزل پر لوگوں کو جذب کرنے اور ان کے ذہنوں میں اس معاملے کو واضح اور روشن کرنے کیلئے ہر ممکن تلاش کرتے رہے۔ نمونے کے طور پر یہ کہ [[ذات عرق]] نامی جگہ پر [[بشر بن غالب اسدی]] نامی ایک شخص امام کی خدمت میں پہنچ کر کوفہ کے حالات کی نزاکت کی اطلاع دی۔ اس موقع پر امام نے اس کی بات کی تصدیق کی۔ اس شخص نے امامؑ سے آیت: {{حدیث|یوْمَ نَدْعُو کُلَّ أُنَاس بِإِمَامِهم}}<ref>اسرا، ۷۱</ref>  کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
:::امام دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو لوگوں کی ہدایت کرتا ہے جبکہ دوسرا وہ جو لوگوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ جو ہدایت کے امام کی پیروی کرتا ہے وہ [[بہشت]] میں جائیں گے جبکہ جو شخص ضلالت کے امام کی پیروی کرے گا وہ [[جہنم]] داخل ہو گا۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۲۰.</ref>
:::امام دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جو لوگوں کی ہدایت کرتا ہے جبکہ دوسرا وہ جو لوگوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ جو ہدایت کے امام کی پیروی کرتا ہے وہ [[بہشت]] میں جائیں گے جبکہ جو شخص ضلالت کے امام کی پیروی کرے گا وہ [[جہنم]] داخل ہو گا۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۲۰.</ref>
[[بشر بن غالب]] اس وقت تو امام کا ساتھ نہیں دیا لیکن بعد میں امام حسین(ع) کی قبر مبارک پر گریہ کرتے دیکھا جاتا تھا اور امام کی نصرت اور مدد نہ کرنے پر پشیمانی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔<ref>ابن عدیم، ترجمۃ الامام الحسین، ص۸۸.</ref>
[[بشر بن غالب]] اس وقت تو امام کا ساتھ نہیں دیا لیکن بعد میں امام حسینؑ کی قبر مبارک پر گریہ کرتے دیکھا جاتا تھا اور امام کی نصرت اور مدد نہ کرنے پر پشیمانی کا اظہار کرتا رہتا تھا۔<ref>ابن عدیم، ترجمۃ الامام الحسین، ص۸۸.</ref>


اسی طرح [[ثعلبیہ]] نامی جگہے پر ابوہرّہ ازدی نامی شخص نے امام کی خدمت میں آکر اس سفر کی وجہ دریافت کی تو امام نے فرمایا:
اسی طرح [[ثعلبیہ]] نامی جگہے پر ابوہرّہ ازدی نامی شخص نے امام کی خدمت میں آکر اس سفر کی وجہ دریافت کی تو امام نے فرمایا:
:::[[بنی امیہ]] نے میری جائیداد لے لی اس پر میں نے صبر کیا۔ مجھے گالی دی گئی میں نے صبر کیا۔ میرے خون کے درپے ہوا تو میں نے فرار اختیار کی۔ اے ابوہرہ! جان لو کہ میں ایک باغی اور سرکش گروہ کے ہاتھوں مارا جاوں گا اور خدا ذلت و رسوائی کا لباس انہیں پہنائے گا اور ایک تیز دھار تلوار ان پر مسلط ہوگی جو ان کو ذلیل و رسوا کرے گی۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۲۳</ref>
:::[[بنی امیہ]] نے میری جائیداد لے لی اس پر میں نے صبر کیا۔ مجھے گالی دی گئی میں نے صبر کیا۔ میرے خون کے درپے ہوا تو میں نے فرار اختیار کی۔ اے ابوہرہ! جان لو کہ میں ایک باغی اور سرکش گروہ کے ہاتھوں مارا جاوں گا اور خدا ذلت و رسوائی کا لباس انہیں پہنائے گا اور ایک تیز دھار تلوار ان پر مسلط ہوگی جو ان کو ذلیل و رسوا کرے گی۔<ref>ابن‌اعثم، الفتوح، ج۵، ص۱۲۳</ref>


=== قیس بن مُسہر کو کوفہ روانہ کرنا ===
=== قیس بن مُسہر کی  کوفہ روانگی ===
مروی ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] جب [[بطن الرمہ]] نامی جگہ پر پہنچے تو [[کوفہ|کوفیوں]] کو خط لکھا اور انہیں [[کوفہ]] کی طرف اپنی روانگی کی اطلاع دی۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص 245 و البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 167۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے خط [[قیس بن مسہر صیداوی|قیس بن مسهر صیداوی]] کو دیا۔ [[قیس بن مسہر صیداوی|قیس]] جب [[قادسیہ]] پہنچے تو [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے سپاہیوں نے ان کا راستہ روک کر ان کی جامہ تلاشی لینا چاہا۔ اس موقع پر [[قیس بن مسہر صیداوی|قیس]] نے مجبور ہوکر امام(ع) کا خط پھاڑ دیا تا کہ دشمن اس کے مضمون سے باخبر نہ ہوسکے۔ جب قیس کو گرفتار کر کے [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے پاس لے جایا گیا تو اس نے غضبناک ہوکر چلاتے ہوئے کہا: "خدا کی قسم! تمہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا مگر یہ کہ ان افراد کا نام بتا دو جنہیں [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]] نے خط لکھا تھا؛ یا یہ کہ [[منبر]] پر جا کر [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] اور ان کے باپ کو برا بھلا کہو!؛ اسی صورت میں میں تمہیں رہا کروں گا ورنہ تمہیں مار دوں گا"۔
مروی ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] جب [[بطن الرمہ]] نامی جگہ پر پہنچے تو [[کوفہ|کوفیوں]] کو خط لکھا اور انہیں [[کوفہ]] کی طرف اپنی روانگی کی اطلاع دی۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص 245 و البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 167۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے خط [[قیس بن مسہر صیداوی|قیس بن مسهر صیداوی]] کو دیا۔ [[قیس بن مسہر صیداوی|قیس]] جب [[قادسیہ]] پہنچے تو [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے سپاہیوں نے ان کا راستہ روک کر ان کی جامہ تلاشی لینا چاہا۔ اس موقع پر [[قیس بن مسہر صیداوی|قیس]] نے مجبور ہوکر امامؑ کا خط پھاڑ دیا تا کہ دشمن اس کے مضمون سے باخبر نہ ہوسکے۔ جب قیس کو گرفتار کر کے [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے پاس لے جایا گیا تو اس نے غضبناک ہوکر چلاتے ہوئے کہا: "خدا کی قسم! تمہیں ہرگز نہیں چھوڑوں گا مگر یہ کہ ان افراد کا نام بتا دو جنہیں [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]] نے خط لکھا تھا؛ یا یہ کہ [[منبر]] پر جا کر [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] اور ان کے باپ کو برا بھلا کہو!؛ اسی صورت میں میں تمہیں رہا کروں گا ورنہ تمہیں مار دوں گا"۔


[[قیس بن مسہر|قیس]] نے قبول کیا اور [[منبر]] پر جاکر [[امام حسین علیہ السلام|امام]] کو برا بھلا کہنے کے بجائے کہا: اے لوگو! میں [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) کا ایلچی ہوں اور تمہاری طرف آیا ہوں تا کہ [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] کا پیغام تم کو پہنچا دوں؛ اپنے امام کی ندا کو لبیک کہو"۔
[[قیس بن مسہر|قیس]] نے قبول کیا اور [[منبر]] پر جاکر [[امام حسین علیہ السلام|امام]] کو برا بھلا کہنے کے بجائے کہا: اے لوگو! میں [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]ؑ کا ایلچی ہوں اور تمہاری طرف آیا ہوں تا کہ [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] کا پیغام تم کو پہنچا دوں؛ اپنے امام کی ندا کو لبیک کہو"۔


[[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] آگ بگولہ ہوگیا اور حکم دیا کہ [[قیس بن مسہر صیداوی|قیس بن مسہر]] کو دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھینکا جائے۔ اس کے سپایوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اس جسم بےجان کی تمام ہڈیاں توڑ دیں۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 167 و الطبری، وہی ماخذ، ص 405 و مسکویه، وہی ماخذ، ج 2، ص 60۔</ref>
[[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] آگ بگولہ ہوگیا اور حکم دیا کہ [[قیس بن مسہر صیداوی|قیس بن مسہر]] کو دارالامارہ کی چھت سے نیچے پھینکا جائے۔ اس کے سپایوں نے ایسا ہی کیا اور پھر اس جسم بےجان کی تمام ہڈیاں توڑ دیں۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 167 و الطبری، وہی ماخذ، ص 405 و مسکویه، وہی ماخذ، ج 2، ص 60۔</ref>


=== عبداللہ بن یقطر کو کوفہ روانہ کرنا===
=== عبداللہ بن یقطر کو کوفہ روانہ کرنا===
مروی ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) نے [[مسلم بن عقیل|مسلم]] کی شہادت کی خبر پانے سے قبل اپنے رضاعی بھائی [[عبداللہ بن یقطر]] <ref>محمد السماوی؛ ابصار العین فی انصار الحسین(ع)، ص 93۔</ref> کو [[مسلم بن عقیل|مسلم]] کی طرف بھجوایا تھا لیکن وہ [[حصین بن نمیر]] کے ہاتھوں گرفتار ہوکر [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے پاس لے جائے گئے۔ [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے حکم دیا کہ انہیں دارالعمارہ کی چھت پر لے جایا جائے تاکہ [[کوفہ|کوفیوں]] کے سامنے [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] اور آپ کے [[امام علی علیہ السلام|والد بزرگوار]] پر سبّ و لعن کریں۔ عبداللہ بن یقطر نے دارالامارہ کی چھت سے کوفہ والوں سے مخاطب ہوکر کہا: "اے لوگو! میں تہمارے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]] کی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|بیٹی]] کے فرزند [[امام حسین علیہ السلام|حسین]](ع) کا ایلچی ہوں؛ اپنے [[امام حسین علیہ السلام|امام]] کی مدد کو دوڑو اور [[ابن مرجانہ]] کے خلاف بغاوت کرو"۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 168 - 169 و الطبری، وہی ماخذ، ص 398 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ج 4، ص 42۔</ref>
مروی ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ نے [[مسلم بن عقیل|مسلم]] کی شہادت کی خبر پانے سے قبل اپنے رضاعی بھائی [[عبداللہ بن یقطر]] <ref>محمد السماوی؛ ابصار العین فی انصار الحسینؑ، ص 93۔</ref> کو [[مسلم بن عقیل|مسلم]] کی طرف بھجوایا تھا لیکن وہ [[حصین بن نمیر]] کے ہاتھوں گرفتار ہوکر [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے پاس لے جائے گئے۔ [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے حکم دیا کہ انہیں دارالعمارہ کی چھت پر لے جایا جائے تاکہ [[کوفہ|کوفیوں]] کے سامنے [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور آپ کے [[امام علی علیہ السلام|والد بزرگوار]] پر سبّ و لعن کریں۔ عبداللہ بن یقطر نے دارالامارہ کی چھت سے کوفہ والوں سے مخاطب ہوکر کہا: "اے لوگو! میں تہمارے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر]] کی [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|بیٹی]] کے فرزند [[امام حسین علیہ السلام|حسین]]ؑ کا ایلچی ہوں؛ اپنے [[امام حسین علیہ السلام|امام]] کی مدد کو دوڑو اور [[ابن مرجانہ]] کے خلاف بغاوت کرو"۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 168 - 169 و الطبری، وہی ماخذ، ص 398 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ج 4، ص 42۔</ref>


[[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے جب یہ دیکھا تو حکم دیا کہ انہيں چھت سے نیچے گرا دیا جائے، اور اس کے گماشتوں نے ایسا ہی کیا۔ [[عبداللہ بن یقطر]] جانکنی کی حالت میں تھی کہ ایک شخص نے آکر انہیں قتل کردیا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 169 و الطبری، وہی ماخذ، ص 398 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 43۔</ref>
[[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے جب یہ دیکھا تو حکم دیا کہ انہيں چھت سے نیچے گرا دیا جائے، اور اس کے گماشتوں نے ایسا ہی کیا۔ [[عبداللہ بن یقطر]] جانکنی کی حالت میں تھی کہ ایک شخص نے آکر انہیں قتل کردیا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 169 و الطبری، وہی ماخذ، ص 398 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 43۔</ref>


عبداللہ بن یقطر کی شہادت کی خبر [[مسلم بن عقیل|مسلم]] اور [[ہانی بن عروہ|ہانی]] کی شہادت کی خبر کے ہمراہ [[زبالہ]] کے مقام پر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) کو ملی۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 398 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 42۔</ref>
عبداللہ بن یقطر کی شہادت کی خبر [[مسلم بن عقیل|مسلم]] اور [[ہانی بن عروہ|ہانی]] کی شہادت کی خبر کے ہمراہ [[زبالہ]] کے مقام پر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ کو ملی۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 398 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 42۔</ref>


=== سفیر حسین(ع) بصرہ میں ===
=== سفیر حسینؑ بصرہ میں ===
[[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے [[بصرہ]] کے پانچ قبائل (عاليہ، بكر بن وائل، بنو تمیم، عبد القيس اور اَزْد) کے سرداروں کے نام ایک خط لکھا جسے [[سلیمان بن زرین]] نامی اپنے ایک موالی(آزاد کردہ)  کے توسط سے روانہ کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37۔</ref> سلیمان نے پانچوں قبائل کے سرداروس "مالك بن مِسمَع بَكرى، أَحنَف بنِ قیس، مُنذِر بن جارود العبدی، مسعود بن عمرو، قيس بن ہيثَم اور عمرو بن عبيدالله بن مَعمَر" میں سے ہر ایک کو خط کا نسخہ دیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و ابن اعثم الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج 1، ص 199۔</ref> اس خط کا مضمون اور متن ایک ہی تھا جو کچھ یوں تھا: <font color=green>{{حدیث|'''"۔۔۔ اَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلی کِتاب اللّه ِ وَ سُنَّةِ نَبِیِّهِ صلی الله علیه و آله ، فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْ اُمیْتَتْ وَ اِنَّ البِدْعَةَ قَدْ اُحْیِیَتْ وَ اِنْ تَسْمَعُوا قَوْلی وَ تُطیعُوا اَمْری اَهْدِکُمْ سَبیلَ الرَّشادِ"۔'''}}</font> (ترجمہ:۔۔۔میں تمہیں [[قرآن مجید|كتاب خدا]] اور [[سنت]] [[رسول(ص)]] کی طرف بلاتا ہوں۔ بےشک سنت نیست و نابود ہوگئی ہے اور [[بدعت|بدعتیں]] زندہ ہوگئی ہیں؛ تم میری بات سنوگے اور میرے فرمان کی پیروی کروگے تو میں راہ راست کی طرف تمہاری راہنمائی کروں گا)۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و ابن کثیر، وہی ماخذ، ج 8، ص 157 - 158۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے [[بصرہ]] کے پانچ قبائل (عاليہ، بكر بن وائل، بنو تمیم، عبد القيس اور اَزْد) کے سرداروں کے نام ایک خط لکھا جسے [[سلیمان بن زرین]] نامی اپنے ایک موالی(آزاد کردہ)  کے توسط سے روانہ کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37۔</ref> سلیمان نے پانچوں قبائل کے سرداروس "مالك بن مِسمَع بَكرى، أَحنَف بنِ قیس، مُنذِر بن جارود العبدی، مسعود بن عمرو، قيس بن ہيثَم اور عمرو بن عبيدالله بن مَعمَر" میں سے ہر ایک کو خط کا نسخہ دیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و ابن اعثم الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج 1، ص 199۔</ref> اس خط کا مضمون اور متن ایک ہی تھا جو کچھ یوں تھا: <font color=green>{{حدیث|'''"۔۔۔ اَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلی کِتاب اللّه ِ وَ سُنَّةِ نَبِیِّهِ صلی الله علیه و آله ، فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْ اُمیْتَتْ وَ اِنَّ البِدْعَةَ قَدْ اُحْیِیَتْ وَ اِنْ تَسْمَعُوا قَوْلی وَ تُطیعُوا اَمْری اَهْدِکُمْ سَبیلَ الرَّشادِ"۔'''}}</font> (ترجمہ:۔۔۔میں تمہیں [[قرآن مجید|كتاب خدا]] اور [[سنت]] [[رسولؐ]] کی طرف بلاتا ہوں۔ بےشک سنت نیست و نابود ہوگئی ہے اور [[بدعت|بدعتیں]] زندہ ہوگئی ہیں؛ تم میری بات سنوگے اور میرے فرمان کی پیروی کروگے تو میں راہ راست کی طرف تمہاری راہنمائی کروں گا)۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و ابن کثیر، وہی ماخذ، ج 8، ص 157 - 158۔</ref>
[[بصرہ]] میں مذکورہ افراد میں سے ہر ایک نے [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے موصولہ خط کا ایک ایک نسخہ چھپا کر رکھا سوائے [[منذر بن جارود عبدی]] کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کی ایک چال ہے۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص 231 و الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص 199۔</ref> چنانچہ اس نے اگلے روز [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کو ـ جو [[کوفہ]] جانا چاہتا تھا ـ حقیقت حال بتا دی<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 358۔</ref> [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے قاصد کو اپنے پاس بلوایا اور ان کا سر قلم کروایا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 358 و الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37۔</ref>
[[بصرہ]] میں مذکورہ افراد میں سے ہر ایک نے [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کے موصولہ خط کا ایک ایک نسخہ چھپا کر رکھا سوائے [[منذر بن جارود عبدی]] کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کی ایک چال ہے۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص 231 و الطبری، وہی ماخذ، ص 357 و الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص 199۔</ref> چنانچہ اس نے اگلے روز [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کو ـ جو [[کوفہ]] جانا چاہتا تھا ـ حقیقت حال بتا دی<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 358۔</ref> [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کے قاصد کو اپنے پاس بلوایا اور ان کا سر قلم کروایا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 358 و الکوفی، الفتوح، وہی ماخذ، ج 5، ص 37۔</ref>


=== حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے ملاقات===
=== حر بن یزید ریاحی کے لشکر سے ملاقات===
{{اصلی|حر بن یزید ریاحی}}
{{اصلی|حر بن یزید ریاحی}}
[[عبیداللہ بن زیاد]] کو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) کی [[کوفہ]] عزیمت کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی فوج کے سربراہ [[حصین بن نمیر]] کو چار ہزار کا لشکر دے کر "قادسیہ" روانہ کیا تا کہ "قادسیہ" سے "خفان" اور "قُطقُطانیّہ" سے لعلع تک کے علاقوں کی کڑی نگرانی کے ذریعے ان علاقوں سے گزرنے والے افراد کی نقل و حرکت سے مطلع رہ سکیں۔<ref>احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج 3، ص 166 و محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج 5، ص 401 و ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج 2، ص 62 و علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 41۔</ref> [[حر بن یزید ریاحی]] کا ایک ہزار کا لشکر بھی حصین بن نمیر کے لشکر کا حصہ تھا جو [[قافلۂ حسینی]] کا راستہ روکنے کے لئے بھجوایا گیا تھا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ج 5، ص 401 و مسکویه، وہی ماخذ، ج 2، ص 62۔</ref>
[[عبیداللہ بن زیاد]] کو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ کی [[کوفہ]] عزیمت کی خبر ہوئی تو اس نے اپنی فوج کے سربراہ [[حصین بن نمیر]] کو چار ہزار کا لشکر دے کر "قادسیہ" روانہ کیا تا کہ "قادسیہ" سے "خفان" اور "قُطقُطانیّہ" سے لعلع تک کے علاقوں کی کڑی نگرانی کے ذریعے ان علاقوں سے گزرنے والے افراد کی نقل و حرکت سے مطلع رہ سکیں۔<ref>احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج 3، ص 166 و محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ الطبری)، ج 5، ص 401 و ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج 2، ص 62 و علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج 4، ص 41۔</ref> [[حر بن یزید ریاحی]] کا ایک ہزار کا لشکر بھی حصین بن نمیر کے لشکر کا حصہ تھا جو [[قافلۂ حسینی]] کا راستہ روکنے کے لئے بھجوایا گیا تھا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ج 5، ص 401 و مسکویه، وہی ماخذ، ج 2، ص 62۔</ref>


[[ابو مخنف|ابو مِخنَف]] نے اس سفر میں [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) کے قافلے میں شامل دو [[بنو اسد|اسدی]] افراد سے نقل کیا ہے کہ "جب [[قافلۂ حسینی]] "[[شراف]]" کی منزل سے روانہ ہوا تو دن کے وسط میں دشمن کے لشکر کے ہراول دستے اور ان کے گھوڑوں کی گردنیں آن پہنچیں"۔ "پس [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے "[[ذو حُسَم]]" کا رخ کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ج 5، ص 400 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 63 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج 2، ص 77 - 78 و علی بن ابی الکرم ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 46۔</ref>
[[ابو مخنف|ابو مِخنَف]] نے اس سفر میں [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ کے قافلے میں شامل دو [[بنو اسد|اسدی]] افراد سے نقل کیا ہے کہ "جب [[قافلۂ حسینی]] "[[شراف]]" کی منزل سے روانہ ہوا تو دن کے وسط میں دشمن کے لشکر کے ہراول دستے اور ان کے گھوڑوں کی گردنیں آن پہنچیں"۔ "پس [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے "[[ذو حُسَم]]" کا رخ کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ج 5، ص 400 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 63 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج 2، ص 77 - 78 و علی بن ابی الکرم ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 46۔</ref>


[[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے سپاہی ظہر کے وقت [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] اور آپ کے اصحاب  کے آمنے سامنے آگئے؛ [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ [[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے سپاہیوں حتی ان کے گھوڑوں کو پانی پلائیں۔ چنانچہ انھوں نے نہ صرف دشمن کے لشکر کو سیراب کیا بلکہ ان کے گھوڑوں کی پیاس بھی بجھا دی!
[[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے سپاہی ظہر کے وقت [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور آپ کے اصحاب  کے آمنے سامنے آگئے؛ [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ [[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے سپاہیوں حتی ان کے گھوڑوں کو پانی پلائیں۔ چنانچہ انھوں نے نہ صرف دشمن کے لشکر کو سیراب کیا بلکہ ان کے گھوڑوں کی پیاس بھی بجھا دی!


[[نماز ظہر]] کا وقت ہوا تو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے اپنے مؤذن [[حجاج بن مسروق جعفی|حَجّاج بن مسروق جعفی]]- کو [[اذان]] دینے کی ہدایت کی اور چنانچہ انھوں نے اذان دی اور [[نماز]] کا وقت ہوا تو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے اللہ کی [[حمد و ثناء]] کے بعد فرمایا:
[[نماز ظہر]] کا وقت ہوا تو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے اپنے مؤذن [[حجاج بن مسروق جعفی|حَجّاج بن مسروق جعفی]]- کو [[اذان]] دینے کی ہدایت کی اور چنانچہ انھوں نے اذان دی اور [[نماز]] کا وقت ہوا تو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے اللہ کی [[حمد و ثناء]] کے بعد فرمایا:
<font color=blue>{{حدیث|'''"أَیُّهَا النّاسُ! إنَّها مَعْذِرَةٌ إِلَى اللّهِ وَإِلى مَنْ حَضَرَ مِنَ الْمُسْلِمینَ، إِنِّی لَمْ أَقْدِمْ عَلى هذَا الْبَلَدِ حَتّى أَتَتْنِی کُتُبُکُمْ وَقَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ أَنْ اَقْدِمَ إِلَیْنا إِنَّهُ لَیْسَ عَلَیْنا إِمامٌ، فَلَعَلَّ اللّهُ أَنْ یَجْمَعَنا بِکَ عَلَى الْهُدى، فَإِنْ کُنْتُمْ عَلى ذلِکَ فَقَدْ جِئْتُکُمْ، فَإِنْ تُعْطُونِی ما یَثِقُ بِهِ قَلْبِی مِنْ عُهُودِکُمْ وَ مِنْ مَواثیقِکُمْ دَخَلْتُ مَعَکُمْ إِلى مِصْرِکُمْ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَکُنْتُمْ کارِهینَ لِقُدوُمی عَلَیْکُمْ اِنْصَرَفْتُ إِلَى الْمَکانِ الَّذِی أَقْبَلْتُ مِنْهُ إِلَیْکُمْ"۔'''}} </font>
<font color=blue>{{حدیث|'''"أَیُّهَا النّاسُ! إنَّها مَعْذِرَةٌ إِلَى اللّهِ وَإِلى مَنْ حَضَرَ مِنَ الْمُسْلِمینَ، إِنِّی لَمْ أَقْدِمْ عَلى هذَا الْبَلَدِ حَتّى أَتَتْنِی کُتُبُکُمْ وَقَدِمَتْ عَلَىَّ رُسُلُکُمْ أَنْ اَقْدِمَ إِلَیْنا إِنَّهُ لَیْسَ عَلَیْنا إِمامٌ، فَلَعَلَّ اللّهُ أَنْ یَجْمَعَنا بِکَ عَلَى الْهُدى، فَإِنْ کُنْتُمْ عَلى ذلِکَ فَقَدْ جِئْتُکُمْ، فَإِنْ تُعْطُونِی ما یَثِقُ بِهِ قَلْبِی مِنْ عُهُودِکُمْ وَ مِنْ مَواثیقِکُمْ دَخَلْتُ مَعَکُمْ إِلى مِصْرِکُمْ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَکُنْتُمْ کارِهینَ لِقُدوُمی عَلَیْکُمْ اِنْصَرَفْتُ إِلَى الْمَکانِ الَّذِی أَقْبَلْتُ مِنْهُ إِلَیْکُمْ"۔'''}} </font>


ترجمہ: یہ ایک عذر ہے اللہ کی بارگاہ میں اور تمہارے ہاں؛ "لوگو! میں تمہارے پاس نہیں آیا حتی کہ تمہارے خط ملے اور تمہارے قاصد اور ایلچی میرے پاس آئے اور مجھ سے درخواست کی کہ میں تمہاری طرف آجاؤں اور تم نے کہا کہ "ہمارا امام نہیں ہے؛ شاید اللہ تمہیں میرے وسیلے سے راہ راست پر گامزن کردے، پس اگر تم اپنے عہد و پیمان پر استوار ہو تو میں تمہارے شہر میں آتا ہوں اور اگر نہیں ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔
ترجمہ: یہ ایک عذر ہے اللہ کی بارگاہ میں اور تمہارے ہاں؛ "لوگو! میں تمہارے پاس نہیں آیا حتی کہ تمہارے خط ملے اور تمہارے قاصد اور ایلچی میرے پاس آئے اور مجھ سے درخواست کی کہ میں تمہاری طرف آجاؤں اور تم نے کہا کہ "ہمارا امام نہیں ہے؛ شاید اللہ تمہیں میرے وسیلے سے راہ راست پر گامزن کردے، پس اگر تم اپنے عہد و پیمان پر استوار ہو تو میں تمہارے شہر میں آتا ہوں اور اگر نہیں ہو تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔


[[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے سپاہیوں نے خاموشی اختیار کی اور کسی نے کچھ نہ کہا۔ پس [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے [[نماز ظہر]] کے لئے اقامہ پڑھنے کا حکم دیا [اور نماز ادا کی] اور [[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے سپاہیوں نے بھی [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کی امامت میں نماز پڑھی۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 401 - 402 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص 78 - 79 و ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج 5، ص 76 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 62 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 47۔</ref>
[[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے سپاہیوں نے خاموشی اختیار کی اور کسی نے کچھ نہ کہا۔ پس [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے [[نماز ظہر]] کے لئے اقامہ پڑھنے کا حکم دیا [اور نماز ادا کی] اور [[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے سپاہیوں نے بھی [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کی امامت میں نماز پڑھی۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 401 - 402 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص 78 - 79 و ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج 5، ص 76 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 62 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 47۔</ref>
اسی دن عصر کے وقت [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ روانگی کی تیاری کریں۔ اور پھر نماز عصر کے وقت امام علیہ السلام پھر بھی اپنے خیمے سے باہر آئے اور مؤذن کو [[اذان]] عصر دینے کو کہا اور نماز [[عصر]] ادا کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:<font color=blue>{{حدیث|'''"ايها الناس، فانكم ان تتقوا الله وتعرفوا الحق لاهله يكن ارضى لله عنكم، ونحن اهل بيت محمد اولى بولاية هذا الامر عليكم من هؤلاء المدعين ما ليس لهم، والسائرين فيكم بالجور والعدوان۔ فان ابيتم الا الكراهة لنا، والجهل بحقنا، وكان رأيكم الان غير ما اتتني به كتبكم، وقدمت على به رسلكم، انصرفت عنكم۔}}</font>
اسی دن عصر کے وقت [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ روانگی کی تیاری کریں۔ اور پھر نماز عصر کے وقت امام علیہ السلام پھر بھی اپنے خیمے سے باہر آئے اور مؤذن کو [[اذان]] عصر دینے کو کہا اور نماز [[عصر]] ادا کرنے کے بعد لوگوں سے مخاطب ہوئے اور حمد و ثنائے پروردگار کے بعد فرمایا:<font color=blue>{{حدیث|'''"ايها الناس، فانكم ان تتقوا الله وتعرفوا الحق لاهله يكن ارضى لله عنكم، ونحن اهل بيت محمد اولى بولاية هذا الامر عليكم من هؤلاء المدعين ما ليس لهم، والسائرين فيكم بالجور والعدوان۔ فان ابيتم الا الكراهة لنا، والجهل بحقنا، وكان رأيكم الان غير ما اتتني به كتبكم، وقدمت على به رسلكم، انصرفت عنكم۔}}</font>


ترجمہ: "اے لوگو! خدا سے ڈرو اور حق کو اہل حق کے لئے قرار دوگے تو خداوند متعال کی خوشنودی کا سبب فراہم کرو گے؛ ہم [[اہل بیتِ]] [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد(ص)]] منصب [[خلافت]] اور تمہاری [[ولایت]] و [[امامت]] [[امامت]] کے کہیں زیادہ حقدار ہیں ان غیر حقی دعویداروں کی نسبت، جن سے اس منصب کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور تمہارے ساتھ ان کا رویہ غیر منصفانہ ہے اور وہ تمہاری نسبت ظلم و جفا روا رکھتے ہیں۔ [اس کے باوجود] اگر تم ہمارا حق تسلیم نہیں کرتے ہو اور ہماری اطاعت کی طرف مائل نہیں ہو اور تمہاری رائے تمہارے خطوں میں لکھے ہوئے مضمون سے ہمآہنگ نہیں ہے تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں"۔
ترجمہ: "اے لوگو! خدا سے ڈرو اور حق کو اہل حق کے لئے قرار دوگے تو خداوند متعال کی خوشنودی کا سبب فراہم کرو گے؛ ہم [[اہل بیتِ]] [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمدؐ]] منصب [[خلافت]] اور تمہاری [[ولایت]] و [[امامت]] [[امامت]] کے کہیں زیادہ حقدار ہیں ان غیر حقی دعویداروں کی نسبت، جن سے اس منصب کا کوئی تعلق ہی نہیں ہے اور تمہارے ساتھ ان کا رویہ غیر منصفانہ ہے اور وہ تمہاری نسبت ظلم و جفا روا رکھتے ہیں۔ [اس کے باوجود] اگر تم ہمارا حق تسلیم نہیں کرتے ہو اور ہماری اطاعت کی طرف مائل نہیں ہو اور تمہاری رائے تمہارے خطوں میں لکھے ہوئے مضمون سے ہمآہنگ نہیں ہے تو میں یہیں سے واپس چلا جاتا ہوں"۔


[[حر بن یزید ریاحی|حر]] نے کہا: "مجھے ان خطوط و مراسلات کا کوئی علم نہيں ہے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا؛ اور مزید کہا: ہم ان خطوط کے لکھنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہمیں حکم ہے کہ آپ کا سامنا کرتے ہی آپ کو [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زياد]] کے پاس لے جائیں"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 402 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج 1، ص 232 و الکوفی، وہی ماخذ، ص 78 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص79 - 80 و مسکویه، وہی ماخذ، ص62 - 63 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 47۔</ref>
[[حر بن یزید ریاحی|حر]] نے کہا: "مجھے ان خطوط و مراسلات کا کوئی علم نہيں ہے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا؛ اور مزید کہا: ہم ان خطوط کے لکھنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہمیں حکم ہے کہ آپ کا سامنا کرتے ہی آپ کو [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زياد]] کے پاس لے جائیں"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 402 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج 1، ص 232 و الکوفی، وہی ماخذ، ص 78 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص79 - 80 و مسکویه، وہی ماخذ، ص62 - 63 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 47۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے اپنے قافلے سے مخاطب ہوکر فرمایا: "واپس لوٹو!"، جب وہ واپس جانے لگے تو حر اور اس کے ساتھ سدّ راہ بن گئے اور حر نے کہا: "مجھے آپ کو [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کے پاس لے جانا ہے!"۔
[[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے اپنے قافلے سے مخاطب ہوکر فرمایا: "واپس لوٹو!"، جب وہ واپس جانے لگے تو حر اور اس کے ساتھ سدّ راہ بن گئے اور حر نے کہا: "مجھے آپ کو [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کے پاس لے جانا ہے!"۔


[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے فرمایا: "امام(ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! تمہارے پیچھے نہیں آؤں گا"۔
[[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے فرمایا: "امامؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! تمہارے پیچھے نہیں آؤں گا"۔


حر نے کہا: "میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل پر مامور نہیں ہوں؛ لیکن مجھے حکم ہے کہ آپ سے جدا نہ ہوں حتی کہ آپ کو [[کوفہ]] لے جاؤں؛ پس اگر آپ میرے ساتھ آنے سے اجتناب کرتے ہيں تو ایسے رستے پر چلیں جو [[کوفہ]] کی طرف جارہا ہو نہ ہی [[مدینہ]] کی طرف؛ تا کہ میں ایک خط [[عبید اللہ بن زیاد]] کے لئے روانہ کروں؛ آپ بھی اگر چاہيں تو ایک خط [[یزید بن معاویہ|یزید]] کے لئے لکھیں! تا کہ شاید یہ امر عافیت اور امن و آشتی پر ختم ہوجائے؛ میرے نزدیک یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل میں آلودہ ہوجاؤں"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 402 - 403 و شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ج 2، ص 81 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 64 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 48۔</ref>
حر نے کہا: "میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل پر مامور نہیں ہوں؛ لیکن مجھے حکم ہے کہ آپ سے جدا نہ ہوں حتی کہ آپ کو [[کوفہ]] لے جاؤں؛ پس اگر آپ میرے ساتھ آنے سے اجتناب کرتے ہيں تو ایسے رستے پر چلیں جو [[کوفہ]] کی طرف جارہا ہو نہ ہی [[مدینہ]] کی طرف؛ تا کہ میں ایک خط [[عبید اللہ بن زیاد]] کے لئے روانہ کروں؛ آپ بھی اگر چاہيں تو ایک خط [[یزید بن معاویہ|یزید]] کے لئے لکھیں! تا کہ شاید یہ امر عافیت اور امن و آشتی پر ختم ہوجائے؛ میرے نزدیک یہ عمل اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ میں آپ کے ساتھ جنگ و جدل میں آلودہ ہوجاؤں"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 402 - 403 و شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ج 2، ص 81 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 64 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 48۔</ref>


[[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] "[[عذیب]]" اور "[[قادسیہ]]" کے بائیں جانب سے روانہ ہوئے جبکہ [[امام حسین علیہ السلام|آپ(ع)]] [[عذیب]] سے 38 میل کے فاصلے پر تھے اور [[حر بن یزید ریاحی|حر]] [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔<ref>الدینوری، ابوحنیفه احمد بن داوود؛ الاخبار الطوال،ص 251 و البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 171 و الطبری، وہی ماخذ، ص 404۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] "[[عذیب]]" اور "[[قادسیہ]]" کے بائیں جانب سے روانہ ہوئے جبکہ [[امام حسین علیہ السلام|آپؑ]] [[عذیب]] سے 38 میل کے فاصلے پر تھے اور [[حر بن یزید ریاحی|حر]] [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔<ref>الدینوری، ابوحنیفه احمد بن داوود؛ الاخبار الطوال،ص 251 و البلاذری، وہی ماخذ، ج 3، ص 171 و الطبری، وہی ماخذ، ص 404۔</ref>


=== ابن زیاد کے قاصد کی آمد ===
=== ابن زیاد کے قاصد کی آمد ===
صبح ہوتے ہی [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے [[البیضہ]] نامی منزل<ref>یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج 1، ص 532 و صفی الدین عبدالمؤمن البغدادی، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنة و البقاع، ج 1، ص 243۔</ref> پر توقف فرمایا اور [[نماز صبح]] ادا کی اور پھر اپنے اصحاب اور اہل خاندان کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ [[ظہر]] کے وقت سرزمین [[نینوا]] میں پہنچے۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 403۔</ref> [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زياد]] کے قاصد نے ایک خط [[حر بن یزید ریاحی|حر]] کے حوالے کیا جس میں ابن زیاد نے لکھا تھا: "میرا خط موصول ہوتے ہی [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] کے ساتھ سختی سے پیش آو اور انہیں کسی بےآب و گیاہ زمین پر رکنے پر مجبور کرو! میں نے اپنے ایلچی کو حکم دیا ہے کہ وہ تم سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ وہ تمہاری طرف سے میرے فرمان پر عملدرآمد کی خبر مجھے پہنچا دے۔ والسلام"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 408 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 67 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 51۔</ref>
صبح ہوتے ہی [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے [[البیضہ]] نامی منزل<ref>یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج 1، ص 532 و صفی الدین عبدالمؤمن البغدادی، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنة و البقاع، ج 1، ص 243۔</ref> پر توقف فرمایا اور [[نماز صبح]] ادا کی اور پھر اپنے اصحاب اور اہل خاندان کے ساتھ روانہ ہوئے حتی کہ [[ظہر]] کے وقت سرزمین [[نینوا]] میں پہنچے۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 403۔</ref> [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زياد]] کے قاصد نے ایک خط [[حر بن یزید ریاحی|حر]] کے حوالے کیا جس میں ابن زیاد نے لکھا تھا: "میرا خط موصول ہوتے ہی [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] کے ساتھ سختی سے پیش آو اور انہیں کسی بےآب و گیاہ زمین پر رکنے پر مجبور کرو! میں نے اپنے ایلچی کو حکم دیا ہے کہ وہ تم سے جدا نہ ہو یہاں تک کہ وہ تمہاری طرف سے میرے فرمان پر عملدرآمد کی خبر مجھے پہنچا دے۔ والسلام"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص 408 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 67 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 51۔</ref>


[[حر بن یزید ریاحی|حر]] نے [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زياد]] کا خط [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کو پڑھ کر سنایا، [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے فرمایا: "ہمیں "[[نینوا|نینویٰ]]" یا "[[غاضریہ]]"<ref>الحموی، یاقوت؛ وہی ماخذ، ج 4، ص 183۔</ref> جانے دو"۔<ref>شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ص 84 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 68 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 52۔</ref> [[حر بن یزید ریاحی|حر]] نے کہا: "یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ [[عبید اللہ بن زیاد|عبید اللہ]] نے اپنا قاصد مجھ پر [[جاسوس]] قرار دیا ہے!"
[[حر بن یزید ریاحی|حر]] نے [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زياد]] کا خط [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کو پڑھ کر سنایا، [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے فرمایا: "ہمیں "[[نینوا|نینویٰ]]" یا "[[غاضریہ]]"<ref>الحموی، یاقوت؛ وہی ماخذ، ج 4، ص 183۔</ref> جانے دو"۔<ref>شیخ مفید؛ وہی ماخذ، ص 84 و مسکویه، وہی ماخذ، ص 68 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص 52۔</ref> [[حر بن یزید ریاحی|حر]] نے کہا: "یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ [[عبید اللہ بن زیاد|عبید اللہ]] نے اپنا قاصد مجھ پر [[جاسوس]] قرار دیا ہے!"


[[زہیر بن قین|زہیر]] نے کہا:"خدا کی قسم! مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس کے بعد ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ یابن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسولِ اللہ]]! اس وقت اس گروہ ([[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے ساتھیوں) کے ساتھ لڑنا زیادہ آسان ہے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی نسبت، جو ان کے پیچھے آرہے ہیں؛ میری جان کی قسم! ان کے پیچھے ایسے افراد آرہے ہیں جن کے ساتھ لڑنے کی طاقت ہمارے پاس نہيں ہے"۔
[[زہیر بن قین|زہیر]] نے کہا:"خدا کی قسم! مجھے محسوس ہورہا ہے کہ اس کے بعد ہمیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا؛ یابن [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسولِ اللہ]]! اس وقت اس گروہ ([[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے ساتھیوں) کے ساتھ لڑنا زیادہ آسان ہے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کی نسبت، جو ان کے پیچھے آرہے ہیں؛ میری جان کی قسم! ان کے پیچھے ایسے افراد آرہے ہیں جن کے ساتھ لڑنے کی طاقت ہمارے پاس نہيں ہے"۔


[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے فرمایا: "درست کہہ رہے ہو اے زہیر؛ لیکن میں کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کروں گا"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص409؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص68 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص52۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے فرمایا: "درست کہہ رہے ہو اے زہیر؛ لیکن میں کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کروں گا"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص409؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص68 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص52۔</ref>
یہ کہہ کر امام(ع) نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ "[[کربلا]]" پہنچ گئے۔ [[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے ساتھی [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور انہیں سفر جاری رکھنے سے باز رکھا۔<ref>عبدالرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص 192۔</ref>
یہ کہہ کر امامؑ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ "[[کربلا]]" پہنچ گئے۔ [[حر بن یزید ریاحی|حر]] اور اس کے ساتھی [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور انہیں سفر جاری رکھنے سے باز رکھا۔<ref>عبدالرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسینؑ، ص 192۔</ref>


==امام حسین(ع) کربلا میں ==
==امام حسینؑ کربلا میں ==
اکثر تاریخی منابع میں آیا ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] اور [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] کے اصحاب [[2 محرم]] سنہ 61 ہجری کو کربلا کی سر زمین پر پہنچے ہیں۔<ref> ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص83؛ شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص84؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص409؛ ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج2، ص68؛ علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص52؛ و ابن شهر آشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص96۔</ref> تاہم [[دینوری]] نے کربلا میں [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کی آمد کی تاریخ کو یکم [[محرم الحرام]]، قرار دی ہے۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری،الاخبار الطوال، ص53۔</ref>  اور اس قول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اکثر تاریخی مصادر میں آیا ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] کے اصحاب [[2 محرم]] سنہ 61 ہجری کو کربلا کی سر زمین پر پہنچے ہیں۔<ref> ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص83؛ شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص84؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص409؛ ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج2، ص68؛ علی بن ابی الکرم ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج4، ص52؛ و ابن شهر آشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص96۔</ref> تاہم [[دینوری]] نے کربلا میں [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کی آمد کی تاریخ کو یکم [[محرم الحرام]]، قرار دی ہے۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری،الاخبار الطوال، ص53۔</ref>  اور اس قول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔


جب [[حر بن یزید ریاحی|حر]] نے [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ [[فرات]] قریب ہے"۔
جب [[حر بن یزید ریاحی|حر]] نے [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] سے کہا: "یہیں اتریں کیونکہ [[فرات]] قریب ہے"۔


[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟"۔
[[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے فرمایا: "اس جگہ کا نام کیا ہے؟"۔


سب نے کہا: [[كربلا]]۔
سب نے کہا: [[كربلا]]۔


فرمایا: یہ كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ [[امام علی علیہ السلام|میرے والد]] [[جنگ صفین|صفین]] کی طرف جاتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اس وقت [[امام علی علیہ السلام|آپ]] نے فرمایا: "یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے"، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو [[امام علی علیہ السلام|آپ]] نے فرمایا: "خاندان [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمد(ص)]] کا ایک قافلہ یہاں اترے گا"۔<ref>عبد الرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص192۔</ref>
فرمایا: یہ كَرْب (رنج) اور بَلا کا مقام ہے۔ [[امام علی علیہ السلام|میرے والد]] [[جنگ صفین|صفین]] کی طرف جاتے ہوئے یہیں اترے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ رک گئے اور اس کا نام پوچھا۔ تو لوگوں نے اس کا نام بتا دیا اس وقت [[امام علی علیہ السلام|آپ]] نے فرمایا: "یہاں ان کی سواریاں اترنے کا مقام ہے، اور یہاں ان کا خون بہنے کا مقام ہے"، لوگوں نے حقیقت حال کے بارے میں پوچھا تو [[امام علی علیہ السلام|آپ]] نے فرمایا: "خاندان [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|محمدؐ]] کا ایک قافلہ یہاں اترے گا"۔<ref>عبد الرزاق الموسوی المقرم، مقتل الحسینؑ، ص192۔</ref>


[[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔<ref>سید بن طاوس؛ الملهوف علی قتلی الطفوف، ص68؛ إربلی، وہی ماخذ، ج2، ص47 و ابن شهر آشوب؛ وہی ماخذ، ج4، ص97۔</ref> اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان یہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو [[محرم الحرام|محرم]] کا دن تھا۔<ref>الکوفی، وہی ماخذ، ص83؛ ابن اثیر، وہی ماخذ، ص52؛ فتال نیشابوری، وہی ماخذ، ص181؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص84؛ الطبری، وہی ماخذ، ص409؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص68 و ابن شهر آشوب، وہی ماخذ، ص96۔</ref> و اور ایک روایت کے مطابق یہ چہارشنبہ (بدھ) یکم [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 کا دن تھا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص53۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے فرمایا: یہ ہماری سواریاں اور ساز و سامان اتارنے کی جگہ ہے اور [یہاں] ہمارا خون بہنے کا مقام ہے۔<ref>سید بن طاوس؛ الملهوف علی قتلی الطفوف، ص68؛ إربلی، وہی ماخذ، ج2، ص47 و ابن شهر آشوب؛ وہی ماخذ، ج4، ص97۔</ref> اور اس کے بعد حکم دیا کہ سازوسامان یہیں اتار دیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا اور وہ پنج شنبہ (جمعرات) دو [[محرم الحرام|محرم]] کا دن تھا۔<ref>الکوفی، وہی ماخذ، ص83؛ ابن اثیر، وہی ماخذ، ص52؛ فتال نیشابوری، وہی ماخذ، ص181؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص84؛ الطبری، وہی ماخذ، ص409؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص68 و ابن شهر آشوب، وہی ماخذ، ص96۔</ref> و اور ایک روایت کے مطابق یہ چہارشنبہ (بدھ) یکم [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 کا دن تھا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص53۔</ref>


منقول ہے کہ [[کربلا]] میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا:
منقول ہے کہ [[کربلا]] میں پڑاؤ ڈالنے کے بعد، [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ نے اپنے فرزندوں، بھائیوں اور اہل خاندان کو اکٹھا کیا اور ان سب پر ایک نگاہ ڈالی اور روئے؛ اور فرمایا:


<font color=green>{{حدیث|'''"اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين"۔'''}} </font>
<font color=green>{{حدیث|'''"اللهم انا عترة نبيك محمد، وقد اخرجنا وطردنا، وازعجنا عن حرم جدنا، وتعدت بنو امية علينا، اللهم فخذ لنا بحقنا، وانصرنا على القوم الظالمين"۔'''}} </font>


ترجمہ: خداوندا! ہم تیرے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی]](ص) کی [[عترت]] اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نانا]] [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]](ص) کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!]  [[بنو امیہ]] نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما"۔
ترجمہ: خداوندا! ہم تیرے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نبی]]ؐ کی [[عترت]] اور خاندان ہیں جنہیں اپنے [شہر و دیار سے] نکال باہر کیا گیا ہے اور حیران و پریشان اپنے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|نانا]] [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ کے حرم سے نکالا گیا ہے؛ اور [بار خدایا!]  [[بنو امیہ]] نے ہمارے خلاف جارحیت کی؛ خداوندا! پس ان سے ہمارا حق لے لے اور ظالموں کے خلاف ہماری نصرت فرما"۔


اس کے بعد [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
اس کے بعد [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] نے اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا:
سطر 210: سطر 210:
ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں۔<ref>بحار الانوار ج44 ح383 ج75 ص116، بحوالہ تحف العقول۔ الموسوی المقرم، وہی ماخذ، ص193۔</ref>
ترجمہ: لوگ دنیا کے غلام ہیں اور دین صرف ان کی زبانوں تک محدود ہے اس وقت تک دین کی حمایت و پشت پناہی کرتے ہیں جب تک ان کی زندگی فلاح و رفاہ میں ہو اور جب بھی بلاء اور آزمائش کی گھڑی ہو تو دیندار بہت قلیل ہیں۔<ref>بحار الانوار ج44 ح383 ج75 ص116، بحوالہ تحف العقول۔ الموسوی المقرم، وہی ماخذ، ص193۔</ref>


اس کے بعد [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے سرزمین [[کربلا]] کو ـ جس کا رقبہ 4x4 میل تھا ـ [[نینوا|نینوی']] اور  [[غاضریہ]] کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔<ref>همان، ص196۔</ref>
اس کے بعد [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے سرزمین [[کربلا]] کو ـ جس کا رقبہ 4x4 میل تھا ـ [[نینوا|نینوی']] اور  [[غاضریہ]] کے باشندوں سے 60000 درہم کے عوض خرید لیا۔ اور ان پر شرط رکھی کہ [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] کی قبر کی طرف لوگوں کی راہنمائی کریں گے اور تین تک ان کی پذیرائی اور ضیافت کا اہتمام کریں گے۔<ref>همان، ص196۔</ref>


دو [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] اور اصحاب [[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|حسین(ع)]] کے سرزمین [[کربلا]] پر اترنے کے بعد،<ref>محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص409؛ الکوفی، ابن اعثم؛ الفتوح، ج5، ص83 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص84۔</ref> [[حر بن يزيد ریاحی]] نے ایک خط [[عبید اللہ بن زیاد]] کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص84 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص239۔</ref> [[حر بن یزید ریاحی|حر]] کا خط ملتے ہی [[عبید اللہ بن زياد|عبید اللہ]] نے ایک خط [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا:
دو [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور اصحاب [[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کے سرزمین [[کربلا]] پر اترنے کے بعد،<ref>محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص409؛ الکوفی، ابن اعثم؛ الفتوح، ج5، ص83 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص84۔</ref> [[حر بن يزيد ریاحی]] نے ایک خط [[عبید اللہ بن زیاد]] کے لئے لکھا اور اس کو اس امر کی اطلاع دی۔<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص84 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص239۔</ref> [[حر بن یزید ریاحی|حر]] کا خط ملتے ہی [[عبید اللہ بن زياد|عبید اللہ]] نے ایک خط [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کے نام بھیجا جس میں اس نے لکھا تھا:


"امّا بعد، اے [[امام حسین علیہ السلام|حسین(ع)]]! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! [[یزید|یزید بن معاویہ]] نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور [[یزید]] کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام"۔
"امّا بعد، اے [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]]! کربلا میں تمہارے پڑاؤ ڈالنے کی خبر ملی؛ امیر المؤمنین!! [[یزید|یزید بن معاویہ]] نے مجھے حکم دیا ہے کہ چین سے نہ سؤوں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں حتی کہ تمہیں خدائے دانائے لطیف سے ملحق [قتل] کروں یا پھر تمہیں اپنے حکم اور [[یزید]] کے حکم کی تعمیل پر آمادہ کروں!۔ والسلام"۔


مروی ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا:
مروی ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے پڑھنے کے بعد خط کو ایک طرف پھینک دیا اور فرمایا:


"جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے"۔ [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے قاصد نے کہا: "یا [[امام حسین علیہ السلام|ابا عبداللہ]]! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا"۔
"جن لوگوں نے اپنی رضا اور خوشنودی کو خدا کی رضا اور خوشنودی پر مقدم رکھا وہ ہرگز فلاح نہ پاسکیں گے"۔ [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے قاصد نے کہا: "یا [[امام حسین علیہ السلام|ابا عبداللہ]]! آپ خط کا جواب نہیں دیں گے؟ فرمایا: "اس خط کا جواب اللہ کا دردناک عذاب ہے جو بہت جلد اس کو اپنی لپیٹ میں لے گا"۔


قاصد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] واپس چلا گیا اور [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور [[عبید اللہ بن زیاد|عبید اللہ]] نے [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔ <ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص85؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص239 و ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب،ج4، ص98۔</ref>
قاصد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] واپس چلا گیا اور [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کا کلام اس کے سامنے دہرایا اور [[عبید اللہ بن زیاد|عبید اللہ]] نے [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کا حکم دیا۔ <ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص85؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ج1، ص239 و ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب،ج4، ص98۔</ref>


=== [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کی کربلا آمد ===
=== [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کی کربلا آمد ===
[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے دوسرے روز ـ یعنی تین [[محرم الحرام]] کو 4000 افراد کے لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص253؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص176؛ الطبری، وہی ماخذ، ص409 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص52۔</ref> [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کی کربلا آنے کی کیفیت کے بارے میں منقول ہے:
[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کے کربلا میں پڑاؤ ڈالنے کے دوسرے روز ـ یعنی تین [[محرم الحرام]] کو 4000 افراد کے لشکر کے ساتھ کربلا پہنچا۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص253؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص176؛ الطبری، وہی ماخذ، ص409 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص52۔</ref> [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کی کربلا آنے کی کیفیت کے بارے میں منقول ہے:


"[[عبید اللہ بن زياد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو چار ہزار کوفیوں کے لشکر کا امیر قرار دیا اور حکم دیا کہ وہ ان [[کوفہ|کوفیوں]] کو [[رے]] اور [[دستبی|دَستَبی]]"<ref>یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج2، ص454۔</ref> لے کر جائے اور ان علاقوں پر قابض دیلمیوں کے خلاف جنگ کرے۔ [[عبید اللہ بن زیاد|عبید اللہ]] نے [قبل ازیں] [[رے]] کی حکومت کا حکم [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کے نام پر لکھ دیا تھا اور اس کو [[رے]] کا والی مقرر کیا تھا۔ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] اپنے لشکر کے ساتھ [[کوفہ]] سے باہر نکلا اور "[[حمام اعین]]" کے مقام پر لشکرگاہ قائم کی۔ وہ [[رے]] جانے کے لئے تیاری کررہا تھا کہ اسی اثناء میں [[امام حسین علیہ السلام]] کے قیام کا مسئلہ پیش آیا؛ اور جب [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے [[کوفہ]] کی طرف عزیمت کی تو [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو بلوایا اور حکم دیا: "پہلے [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] سے جنگ کرنے جاؤ اور اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد '''اپنی حکومت''' کے مقام کی طرف کوچ کرو"۔ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے ساتھ جنگ کو پسندید نہیں کرتا تھا  چنانچہ اس نے [[عبید اللہ بن زیاد]] سے کہا: "مجھے اس کام سے معاف کرو"؛ لیکن [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے اس جنگ سے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کی معافی کو [[رے کی حکومت کا حکم واپس کرنے سے مشروط کیا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص253؛ البلاذری، وہی ماخذ، ص176 و الطبری، وہی ماخذ، ص409۔</ref>
"[[عبید اللہ بن زياد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو چار ہزار کوفیوں کے لشکر کا امیر قرار دیا اور حکم دیا کہ وہ ان [[کوفہ|کوفیوں]] کو [[رے]] اور [[دستبی|دَستَبی]]"<ref>یاقوت الحموی، معجم البلدان، ج2، ص454۔</ref> لے کر جائے اور ان علاقوں پر قابض دیلمیوں کے خلاف جنگ کرے۔ [[عبید اللہ بن زیاد|عبید اللہ]] نے [قبل ازیں] [[رے]] کی حکومت کا حکم [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کے نام پر لکھ دیا تھا اور اس کو [[رے]] کا والی مقرر کیا تھا۔ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] اپنے لشکر کے ساتھ [[کوفہ]] سے باہر نکلا اور "[[حمام اعین]]" کے مقام پر لشکرگاہ قائم کی۔ وہ [[رے]] جانے کے لئے تیاری کررہا تھا کہ اسی اثناء میں [[امام حسین علیہ السلام]] کے قیام کا مسئلہ پیش آیا؛ اور جب [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے [[کوفہ]] کی طرف عزیمت کی تو [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کو بلوایا اور حکم دیا: "پہلے [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] سے جنگ کرنے جاؤ اور اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد '''اپنی حکومت''' کے مقام کی طرف کوچ کرو"۔ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کے ساتھ جنگ کو پسندید نہیں کرتا تھا  چنانچہ اس نے [[عبید اللہ بن زیاد]] سے کہا: "مجھے اس کام سے معاف کرو"؛ لیکن [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے اس جنگ سے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کی معافی کو [[رے کی حکومت کا حکم واپس کرنے سے مشروط کیا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص253؛ البلاذری، وہی ماخذ، ص176 و الطبری، وہی ماخذ، ص409۔</ref>


[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] نے جب چون اصرار [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کا اصرار دیکھا تو کہا: (میں [[کربلا]]) جاتا ہوں"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص410؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص86 و الخوارزمی، وہی ماخذ، صص239-240۔</ref> چنانچہ اپنا چار ہزار افراد کا لشکر لے کر [[کربلا]] پہنچا اور [[نینوی']] کے مقام پر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے اترنے کے دوسرے روز وہ بھی وہاں پہنچا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص253؛ البلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص176و الطبری، وہی ماخذ، ص409۔</ref>
[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] نے جب چون اصرار [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کا اصرار دیکھا تو کہا: (میں [[کربلا]]) جاتا ہوں"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص410؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص86 و الخوارزمی، وہی ماخذ، صص239-240۔</ref> چنانچہ اپنا چار ہزار افراد کا لشکر لے کر [[کربلا]] پہنچا اور [[نینوی']] کے مقام پر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کے اترنے کے دوسرے روز وہ بھی وہاں پہنچا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص253؛ البلاذری، وہی ماخذ، ج3، ص176و الطبری، وہی ماخذ، ص409۔</ref>


=== امام حسین (ع) اور عمر ابن سعد کے درمیان مذاکرات کا آغاز ===
=== امام حسین ؑ اور عمر ابن سعد کے درمیان مذاکرات کا آغاز ===


[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] نے کربلا پہنچتے ہی [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے ہاں ایک قاصد روانہ کرنا چاہا تا کہ [[امام حسین علیہ السلام|آپ(ع)]] سے پوچھ لے کہ "۔۔۔اس سرزمین میں کس لئے آئے ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟"۔ اس نے یہ کام [[عزرہ (عروہ) بن قیس احمسی]] اور [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کو دعوت نامے بھجوانے والے عمائدین کو انجام دینے کی تجویز دی؛ مگر ان سب نے یہ کام انجام دینے سے اجتناب کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص410؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص86 و شیخ مفید، صص84-85۔</ref> تاہم [[كثير بن عبداللہ شعیبہ]] نے تجویز مان لی اور خیام [[امام حسین علیہ السلام|حسینی]] کی جانب روانہ ہوا، لیکن [[او ثمامہ صا‏ئدی]] نے اس کو ہتھیار لے کر [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے حضور پنچنے سے روک لیا، [[كثير بن عبداللہ شعیبہ|کثیر]] نامراد ہوکر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] کے پاس لوٹ کر چلا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص410؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، صص86-87؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص 85 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص240۔</ref>
[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] نے کربلا پہنچتے ہی [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کے ہاں ایک قاصد روانہ کرنا چاہا تا کہ [[امام حسین علیہ السلام|آپؑ]] سے پوچھ لے کہ "۔۔۔اس سرزمین میں کس لئے آئے ہیں اور چاہتے کیا ہیں؟"۔ اس نے یہ کام [[عزرہ (عروہ) بن قیس احمسی]] اور [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کو دعوت نامے بھجوانے والے عمائدین کو انجام دینے کی تجویز دی؛ مگر ان سب نے یہ کام انجام دینے سے اجتناب کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص410؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص86 و شیخ مفید، صص84-85۔</ref> تاہم [[كثير بن عبداللہ شعیبہ]] نے تجویز مان لی اور خیام [[امام حسین علیہ السلام|حسینی]] کی جانب روانہ ہوا، لیکن [[او ثمامہ صا‏ئدی]] نے اس کو ہتھیار لے کر [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کے حضور پنچنے سے روک لیا، [[كثير بن عبداللہ شعیبہ|کثیر]] نامراد ہوکر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] کے پاس لوٹ کر چلا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص410؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، صص86-87؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص 85 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص240۔</ref>


[[کثیر بن عبداللہ شعبیہ|کثیر]] کی واپسی پر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] نے [[قرہ بن قیس حنظلی|قرة بن قيس حنظلى]] سے<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص253۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے پاس جانے کی درخواست کی۔
[[کثیر بن عبداللہ شعبیہ|کثیر]] کی واپسی پر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] نے [[قرہ بن قیس حنظلی|قرة بن قيس حنظلى]] سے<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص253۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کے پاس جانے کی درخواست کی۔


[[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر]] کے پیغام کے جواب میں [[قرہ بن قیس حنظلی|قرہ بن قیس]] سے فرمایا: "تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے خطوط لکھے کہ یہاں آجاؤں، اب اگر وہ مجھے نہيں چاہتے تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] اس جواب سے خوش ہوا<ref>الدینوری، وہی ماخذ، صص253-254؛ الطبری، وہی ماخذ، ص411 و شیخ مفید، وہی ماخذ، صص85-86۔</ref> پس ایک خط [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کو لکھا اور اس کو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے اس کلام سے آگاہ کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص411؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص86 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص241۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر]] کے پیغام کے جواب میں [[قرہ بن قیس حنظلی|قرہ بن قیس]] سے فرمایا: "تمہارے شہر کے لوگوں نے مجھے خطوط لکھے کہ یہاں آجاؤں، اب اگر وہ مجھے نہيں چاہتے تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] اس جواب سے خوش ہوا<ref>الدینوری، وہی ماخذ، صص253-254؛ الطبری، وہی ماخذ، ص411 و شیخ مفید، وہی ماخذ، صص85-86۔</ref> پس ایک خط [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کو لکھا اور اس کو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کے اس کلام سے آگاہ کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص411؛ شیخ مفید، وہی ماخذ، ص86 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص241۔</ref>


[[عبید اللہ بن زياد|ابن زياد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] کے خط کے جواب میں اس سے تقاضا کیا کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]] اور آپ کے اصحاب سے [[یزید|یزید بن معاویہ]] کے لئے بیعت لے۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص411 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص86۔</ref>
[[عبید اللہ بن زياد|ابن زياد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر ابن سعد]] کے خط کے جواب میں اس سے تقاضا کیا کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]] اور آپ کے اصحاب سے [[یزید|یزید بن معاویہ]] کے لئے بیعت لے۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص411 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص86۔</ref>


=== ابن زياد کی مزید لشکر بھجوانے کی کوشش ===
=== ابن زياد کی مزید لشکر بھجوانے کی کوشش ===
[[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے آنے کے بعد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[کوفہ|کوفیوں]] کو [[مسجد]] میں جمع کیا اور ان کے بزرگوں کے درمیان [[یزید]] کے بھیجے گئے تحفے تقسیم کئے جو 4000 دینار اور دو لاکھ درہم تک تھے؛ اور انہیں دعوت دی کہ [[کربلا]] جاکر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] کے خلاف جنگ میں [[عمر بن سعد|عمر سعد]] کی مدد کریں۔<ref>احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص178؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص89 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص242۔</ref>
[[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کے آنے کے بعد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[کوفہ|کوفیوں]] کو [[مسجد]] میں جمع کیا اور ان کے بزرگوں کے درمیان [[یزید]] کے بھیجے گئے تحفے تقسیم کئے جو 4000 دینار اور دو لاکھ درہم تک تھے؛ اور انہیں دعوت دی کہ [[کربلا]] جاکر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] کے خلاف جنگ میں [[عمر بن سعد|عمر سعد]] کی مدد کریں۔<ref>احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص178؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، ص89 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص242۔</ref>


[[عبید اللہ بن زیاد|ابن زياد]] نے [[کوفہ]] کی کارگزاری عمرو بن حریث کے سپرد کردی اور خود نخیلہ میں خیمے لگا کر بیٹھ گیا اور لوگوں کو بھی نخیلہ پہنچنے پر مجبور کیا۔<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص466 و البلاذری، وہی ماخذ، ص178۔</ref> اور [[کوفہ|کوفیوں]] کو [[کربلا]] جاکر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] سے جاملنے سے باز رکھنے کی غرض سے پل [[کوفہ]] پر قبضہ کیا اور کسی کو بھی اس پل سے نہیں گذرنے دیا۔<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص466۔</ref>
[[عبید اللہ بن زیاد|ابن زياد]] نے [[کوفہ]] کی کارگزاری عمرو بن حریث کے سپرد کردی اور خود نخیلہ میں خیمے لگا کر بیٹھ گیا اور لوگوں کو بھی نخیلہ پہنچنے پر مجبور کیا۔<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص466 و البلاذری، وہی ماخذ، ص178۔</ref> اور [[کوفہ|کوفیوں]] کو [[کربلا]] جاکر [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] سے جاملنے سے باز رکھنے کی غرض سے پل [[کوفہ]] پر قبضہ کیا اور کسی کو بھی اس پل سے نہیں گذرنے دیا۔<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص466۔</ref>
[[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے [[حصین بن نمیر]] کو 4000 کے لشکر کے ساتھ [[قادسیہ]] سے نخیلہ بلوایا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص178۔</ref> ابن زیاد نے محمد بن اشعث بن قیس کندی، کثیر بن شہاب اور قعقاع بن سوید کو بھی حکم دیا کہ لوگوں کو [[امام حسین علیہ السلام||ابو عبداللہ الحسین(ع)]] کے ساتھ جنگ کے لئے تیار کریں۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔</ref> [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے سويد بن عبدالرحمن منقرى کو چند سوار دے کر [[کوفہ]] میں تحقیق کرکے ان لوگوں کا سراغ لگانے اور اپنے پاس لانے کا ہدف دیا جو [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین]](ع) کے ساتھ جنگ پر جانے سے اجتناب کررہے تھے۔ سوید نے [[کوفہ]] میں تلاش و تحقیق کے بعد ایک شامی مرد کو پکڑ کر [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے پاس بھجوایا جو اپنی [[میراث]] طلب کرنے [[کوفہ]] آیا تھا۔ [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے [[کوفہ|کوفیوں]] کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس شخص کے قتل کا حکم دیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو سب نخیلہ کی طرف روانہ ہوئے۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، صص254-255 و البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔</ref>
[[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے [[حصین بن نمیر]] کو 4000 کے لشکر کے ساتھ [[قادسیہ]] سے نخیلہ بلوایا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص178۔</ref> ابن زیاد نے محمد بن اشعث بن قیس کندی، کثیر بن شہاب اور قعقاع بن سوید کو بھی حکم دیا کہ لوگوں کو [[امام حسین علیہ السلام||ابو عبداللہ الحسینؑ]] کے ساتھ جنگ کے لئے تیار کریں۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔</ref> [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے سويد بن عبدالرحمن منقرى کو چند سوار دے کر [[کوفہ]] میں تحقیق کرکے ان لوگوں کا سراغ لگانے اور اپنے پاس لانے کا ہدف دیا جو [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین]]ؑ کے ساتھ جنگ پر جانے سے اجتناب کررہے تھے۔ سوید نے [[کوفہ]] میں تلاش و تحقیق کے بعد ایک شامی مرد کو پکڑ کر [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] کے پاس بھجوایا جو اپنی [[میراث]] طلب کرنے [[کوفہ]] آیا تھا۔ [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے [[کوفہ|کوفیوں]] کو خوفزدہ کرنے کے لئے اس شخص کے قتل کا حکم دیا۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو سب نخیلہ کی طرف روانہ ہوئے۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، صص254-255 و البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔</ref>


نخیلہ میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے تو [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے حصين بن نمير، حجار بن ابجر، شبث بن ربعى اور [[شمر بن ذی الجوشن]] کو [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کی مدد کے لئے اس کی لشکر گاہ جا پہنچنے کا حکم دیا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص254و البلاذری، وہی ماخذ، ص178۔</ref> [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] نے سب سے پہلے حکم کی تعمیل کی اور روانگی کے لئے تیار ہوا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص254 و ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔</ref> [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] کے بعد حصین بن نمیر 4000 کے لشکر کے ساتھ، مُصاب مارى (مُضاير بن رہینہ مازِنى) 3000 کے لشکر کے ساتھ<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242 و ابن شهر آشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔</ref> اور حصين بن نمیر <ref>مقاتل، تراجم اور تواریخ کی کتب میں حُصَیْنُ بْنُ نُمَیْرٍ (بحارالأنوار ج : 45 ص : 335) وہی ہے جس کو بعض کتب میں "حصین بن نمیر" کہا گیا ہے [الدینورى ابو حنیفه احمد بن داود (م 282) الأخبارالطوال،ص:246) اور بعض کتب میں "حصین بن تمیم " کہلایا ہے(الطبری أبو جعفر محمد بن جریر (م 310) تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ‏الطبری)،ج‏5،ص:439، تحقیق محمد أبو الفضل ابراهیم ، بیروت، دار التراث ، ط الثانیۃ، 1387/1967)۔</ref> دو ہزار کے لشکر کے ساتھ<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص466۔</ref> اور نصر بن حَربہ 2000 کے لشکر کے ساتھ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] سے جا ملے۔<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔</ref> اس کے بعد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] ایک آدمی شبث بن ربعی کی طرف روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] سے جاملے۔ وہ بھی ایک ہزار سوار لے کر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کی لشکر گاہ میں پہنچا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص254؛ البلاذری، وہی ماخذ، ص178؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔</ref> شبث کےبعد حجار بن ابجر ایک ہزار سوار<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص 178؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔</ref> اور اس کے بعد محمد بن اشعث ایک ہزار سوار<ref>شیخ صدوق؛ الامالی، ص155۔</ref> لے کر [[کربلا]] پہنچا اور ان کے بعد حارث بن يزيد بھی حجاربن ابجر کے پیچھے پیچھے [[کربلا]] روانہ ہوا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص254 و البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔</ref>
نخیلہ میں بڑی تعداد میں لوگ اکٹھے ہوئے تو [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے حصين بن نمير، حجار بن ابجر، شبث بن ربعى اور [[شمر بن ذی الجوشن]] کو [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کی مدد کے لئے اس کی لشکر گاہ جا پہنچنے کا حکم دیا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص254و البلاذری، وہی ماخذ، ص178۔</ref> [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] نے سب سے پہلے حکم کی تعمیل کی اور روانگی کے لئے تیار ہوا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص254 و ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔</ref> [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] کے بعد حصین بن نمیر 4000 کے لشکر کے ساتھ، مُصاب مارى (مُضاير بن رہینہ مازِنى) 3000 کے لشکر کے ساتھ<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242 و ابن شهر آشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔</ref> اور حصين بن نمیر <ref>مقاتل، تراجم اور تواریخ کی کتب میں حُصَیْنُ بْنُ نُمَیْرٍ (بحارالأنوار ج : 45 ص : 335) وہی ہے جس کو بعض کتب میں "حصین بن نمیر" کہا گیا ہے [الدینورى ابو حنیفه احمد بن داود (م 282) الأخبارالطوال،ص:246) اور بعض کتب میں "حصین بن تمیم " کہلایا ہے(الطبری أبو جعفر محمد بن جریر (م 310) تاریخ الأمم و الملوک (تاریخ‏الطبری)،ج‏5،ص:439، تحقیق محمد أبو الفضل ابراهیم ، بیروت، دار التراث ، ط الثانیۃ، 1387/1967)۔</ref> دو ہزار کے لشکر کے ساتھ<ref>ابن سعد، وہی ماخذ، ص466۔</ref> اور نصر بن حَربہ 2000 کے لشکر کے ساتھ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] سے جا ملے۔<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔</ref> اس کے بعد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] ایک آدمی شبث بن ربعی کی طرف روانہ کیا اور اس کو حکم دیا کہ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] سے جاملے۔ وہ بھی ایک ہزار سوار لے کر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کی لشکر گاہ میں پہنچا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص254؛ البلاذری، وہی ماخذ، ص178؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔</ref> شبث کےبعد حجار بن ابجر ایک ہزار سوار<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص 178؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص89 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص242۔</ref> اور اس کے بعد محمد بن اشعث ایک ہزار سوار<ref>شیخ صدوق؛ الامالی، ص155۔</ref> لے کر [[کربلا]] پہنچا اور ان کے بعد حارث بن يزيد بھی حجاربن ابجر کے پیچھے پیچھے [[کربلا]] روانہ ہوا۔<ref>الدینوری، وہی ماخذ، ص254 و البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔</ref>
سطر 249: سطر 249:
[[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] ہر روز صبح اور شام [[کوفہ|کوفیوں]] فوجیوں کے 25، 30 اور 50 افراد پر مشتمل دستے [[کربلا]] روانہ کرتا تھا<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔</ref> حتی کہ چھ [[محرم الحرام]] کو [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کی سپاہ کی تعداد 20ہزار افراد سے تجاوز کرگئی۔<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص90؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، صص242-243؛ سید بن طاوس؛ اللهوف، ص85 و حلی، ابن نما؛ مثیر الاحزان، ص50۔</ref> [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو اس لشکر کا سپہ سالار قرار دیا۔
[[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] ہر روز صبح اور شام [[کوفہ|کوفیوں]] فوجیوں کے 25، 30 اور 50 افراد پر مشتمل دستے [[کربلا]] روانہ کرتا تھا<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص179۔</ref> حتی کہ چھ [[محرم الحرام]] کو [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کی سپاہ کی تعداد 20ہزار افراد سے تجاوز کرگئی۔<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص90؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، صص242-243؛ سید بن طاوس؛ اللهوف، ص85 و حلی، ابن نما؛ مثیر الاحزان، ص50۔</ref> [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو اس لشکر کا سپہ سالار قرار دیا۔


===حبیب بن مظاہر اور امام حسین(ع) کے لئے لشکر جمع کرنے کی کوشش===
===حبیب بن مظاہر اور امام حسینؑ کے لئے لشکر جمع کرنے کی کوشش===
[[کربلا]] میں دشمن کا لشکر اکٹھا ہونے کے بعد [[حبیب بن مظاہر اسدی]] [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع(]] کے مختصر سے لشکر کے پیش نظر، [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کی اجازت سے، بھیس بدل کر قبیلہ [[بنو اسد|بنی اسد]] پہنچے اور ان سے [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|بنت]] [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول(ص)]] کے لئے مدد کی دوخواست کی۔
[[کربلا]] میں دشمن کا لشکر اکٹھا ہونے کے بعد [[حبیب بن مظاہر اسدی]] [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع(]] کے مختصر سے لشکر کے پیش نظر، [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کی اجازت سے، بھیس بدل کر قبیلہ [[بنو اسد|بنی اسد]] پہنچے اور ان سے [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|بنت]] [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسولؐ]] کے لئے مدد کی دوخواست کی۔


[[بنو اسد|بنی اسد]] رات کے وقت خیام [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کی جانب رواں دواں تھے کہ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے ازرق بن حرب صیداوی کی سرکردگی میں 400 یا 500 سواروں کا ایک دستہ بھیج کر فرات کے کنارے، ان کا راستہ روکا؛ بات جھڑپ شروع ہونے تک پہنچی اور [[بنو اسد|بنی اسد]] جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ کر چلے گئے؛ چنانچہ [[حبیب بن مظاہر اسدی|حبیب بن مظاہر]] اکیلے واپس آگئے۔<ref>ابصار العين ص85-78؛ اسدالغابه؛ الاصابه؛ تاريخ طبري؛ رجال کشي ص191۔</ref>
[[بنو اسد|بنی اسد]] رات کے وقت خیام [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کی جانب رواں دواں تھے کہ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے ازرق بن حرب صیداوی کی سرکردگی میں 400 یا 500 سواروں کا ایک دستہ بھیج کر فرات کے کنارے، ان کا راستہ روکا؛ بات جھڑپ شروع ہونے تک پہنچی اور [[بنو اسد|بنی اسد]] جہاں سے آئے تھے وہیں لوٹ کر چلے گئے؛ چنانچہ [[حبیب بن مظاہر اسدی|حبیب بن مظاہر]] اکیلے واپس آگئے۔<ref>ابصار العين ص85-78؛ اسدالغابه؛ الاصابه؛ تاريخ طبري؛ رجال کشي ص191۔</ref>


=== سات محرم اور پانی کی بندش ===
=== سات محرم اور پانی کی بندش ===


سات [[محرم الحرام|محرم]] کو [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو حکم دیا کہ "[[امام حسین علیہ السلام|حسین]](ع) اور آپ کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہوجائے اور اور انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پینے دے۔
سات [[محرم الحرام|محرم]] کو [[عبید اللہ بن زياد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو حکم دیا کہ "[[امام حسین علیہ السلام|حسین]]ؑ اور آپ کے اصحاب اور پانی کے درمیان حائل ہوجائے اور اور انہیں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پینے دے۔


خط ملتے ہی [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] نے عمرو بن حجاج زبیدی کو 500 سوار دے کر فرات کے کنارے پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]](ع) اور اصحاب حسین کو پانی تک نہ پہنچنے دے۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص255؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص180؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص412 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص86۔</ref>
خط ملتے ہی [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] نے عمرو بن حجاج زبیدی کو 500 سوار دے کر فرات کے کنارے پر تعینات کیا اور حکم دیا کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین]]ؑ اور اصحاب حسین کو پانی تک نہ پہنچنے دے۔<ref>ابوحنیفه احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص255؛ احمد بن یحیی البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص180؛ محمد بن جریر الطبری، تاریخ الأمم و الملوک(تاریخ الطبری)، ج5، ص412 و شیخ مفید؛ الارشاد، ج2، ص86۔</ref>


بعض منابع میں مروی ہے کہ "پانی کے بندش اور پیاس کے شدت اختیار کرنے کے بعد، [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس]] کو بلوایا اور انہیں 30 سواروں اور 20 پیادوں کی سرکردگی میں پانی لانے کے لئے فرات کی طرف روانہ کیا۔ وہ رات کے وقت فرات کی طرف روانہ ہوئے جبکہ [[نافع بن ہلال جملی]] پرچم لے کر اس دستے کے آگے آگے جارہے تھے؛ یہ افراد [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس]](ع) کی قیادت میں شریعۂ فرات تک پہنچ گئے۔ عمرو بن حجاج زبیدی، ـ جو [[فرات]] کی حفاظت پر مامور تھا ـ اصحاب [[امام حسین علیہ السلام|حسین(ع)]] کے ساتھ لڑ پڑا۔ اصحاب [[امام حسین علیہ السلام|حسین(ع)]] کے ایک گروہ نے مشکوں میں پانی بھر دیا اور [[حضرت عباس علیہ السلام|علمدار حسین(ع)]] اور [[نافع بن ہلال]] سمیت باقی افراد نے دشمن سے لڑ کر ان کی حفاظت کی تا کہ وہ سلامتی کے ساتھ پانی کو خیام تک پہنچا دیں۔ اور یوں [[امام حسین علیہ السلام|حسین(ع)]] کے اصحاب پانی خیام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص181؛ الطبری، وہی ماخذ، صص412-413؛ ابوالفرج الاصفهانی، مقاتل الطالبیین، صص117-118 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسین(ع)، ج1، ص244۔</ref>
بعض مصادر میں مروی ہے کہ "پانی کے بندش اور پیاس کے شدت اختیار کرنے کے بعد، [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس]] کو بلوایا اور انہیں 30 سواروں اور 20 پیادوں کی سرکردگی میں پانی لانے کے لئے فرات کی طرف روانہ کیا۔ وہ رات کے وقت فرات کی طرف روانہ ہوئے جبکہ [[نافع بن ہلال جملی]] پرچم لے کر اس دستے کے آگے آگے جارہے تھے؛ یہ افراد [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس]]ؑ کی قیادت میں شریعۂ فرات تک پہنچ گئے۔ عمرو بن حجاج زبیدی، ـ جو [[فرات]] کی حفاظت پر مامور تھا ـ اصحاب [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کے ساتھ لڑ پڑا۔ اصحاب [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کے ایک گروہ نے مشکوں میں پانی بھر دیا اور [[حضرت عباس علیہ السلام|علمدار حسینؑ]] اور [[نافع بن ہلال]] سمیت باقی افراد نے دشمن سے لڑ کر ان کی حفاظت کی تا کہ وہ سلامتی کے ساتھ پانی کو خیام تک پہنچا دیں۔ اور یوں [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کے اصحاب پانی خیام تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص181؛ الطبری، وہی ماخذ، صص412-413؛ ابوالفرج الاصفهانی، مقاتل الطالبیین، صص117-118 و الموفق بن احمد الخوارزمی، مقتل الحسینؑ، ج1، ص244۔</ref>


=== عمر بن سعد کے ساتھ امام حسین(ع) کی آخری مذاکرات ===
=== عمر بن سعد کے ساتھ امام حسینؑ کی آخری مذاکرات ===
[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کی لشکرگاہ میں پےدرپے لشکروں کی آمد کے بعد [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] عمرو بن قرظہ انصارى کو [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کے پاس روانہ کیا اور اس کو کہلا بھیجا کہ "میں آج دو لشکرگاہوں کے درمیانی نقطے پر تم سے ملنے، آؤں گا"، [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] دونوں بیس بیس سواروں کے ہمراہ مقررہ مقام پر حاضر ہوئے۔ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|ابوالفضل العباس]] اور بیٹے [[حضرت علی اکبر علیہ السلام|علی اکبر(ع)]] کے سوا باقی اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ فاصلے پر جاکر کھڑے ہوجائیں۔ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] نے بھی بیٹے [[حفص بن عمر سعد|حفص]] اور اپنے غلام کو قریب رکھا اور باقی افراد کو پیچھے ہٹا دیا۔ اس ملاقات میں [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] سے فرمایا: "۔۔۔ اس غلط خیال اور غیر صواب خیالات اور منصوبوں کو نظر انداز کرو اور ایسی راہ اختیار کرو جس میں تمہاری دنیا اور آخرت کی خیر و صلاح ہو۔۔۔"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص413؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص92-93؛ ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج2، صص70-71 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص245۔</ref> [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر]] نہ مانا۔ [[امام حسین علیہ السلام|امام]](ع) جب یہ حالت دیکھی تو اپنے خیام کی طرف واپسی اختیار کی جبکہ فرما رہے تھے: "خدا تمہیں ہلاک کردے اور قیامت کے دن تمہیں نہ بخشے؛ مجھے امید ہے کہ اللہ کے فضل سے، تم [[عراق]] کی گندم نہ کھا سکوگے"۔<ref>الخوارزمی، وہی ماخذ، ص245 و با اختلاف در مسکویه، وہی ماخذ، صص71-72۔</ref>
[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کی لشکرگاہ میں پےدرپے لشکروں کی آمد کے بعد [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] عمرو بن قرظہ انصارى کو [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کے پاس روانہ کیا اور اس کو کہلا بھیجا کہ "میں آج دو لشکرگاہوں کے درمیانی نقطے پر تم سے ملنے، آؤں گا"، [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] دونوں بیس بیس سواروں کے ہمراہ مقررہ مقام پر حاضر ہوئے۔ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|ابوالفضل العباس]] اور بیٹے [[حضرت علی اکبر علیہ السلام|علی اکبرؑ]] کے سوا باقی اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ فاصلے پر جاکر کھڑے ہوجائیں۔ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] نے بھی بیٹے [[حفص بن عمر سعد|حفص]] اور اپنے غلام کو قریب رکھا اور باقی افراد کو پیچھے ہٹا دیا۔ اس ملاقات میں [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] سے فرمایا: "۔۔۔ اس غلط خیال اور غیر صواب خیالات اور منصوبوں کو نظر انداز کرو اور ایسی راہ اختیار کرو جس میں تمہاری دنیا اور آخرت کی خیر و صلاح ہو۔۔۔"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص413؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص92-93؛ ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج2، صص70-71 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص245۔</ref> [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر]] نہ مانا۔ [[امام حسین علیہ السلام|امام]]ؑ جب یہ حالت دیکھی تو اپنے خیام کی طرف واپسی اختیار کی جبکہ فرما رہے تھے: "خدا تمہیں ہلاک کردے اور قیامت کے دن تمہیں نہ بخشے؛ مجھے امید ہے کہ اللہ کے فضل سے، تم [[عراق]] کی گندم نہ کھا سکوگے"۔<ref>الخوارزمی، وہی ماخذ، ص245 و با اختلاف در مسکویه، وہی ماخذ، صص71-72۔</ref>


[[امام حسین علیہ السلام|امام]](ع) اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ تین یا چار مرتبہ دہرایا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص414 و مسکویه، وہی ماخذ، ص71۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امام]]ؑ اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ تین یا چار مرتبہ دہرایا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص414 و مسکویه، وہی ماخذ، ص71۔</ref>


'''ایک عجیب روایت'''
'''ایک عجیب روایت'''
سطر 271: سطر 271:
کہا گیا ہے کہ ان ہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے ایک خط میں میں [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کو لکھا:
کہا گیا ہے کہ ان ہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے ایک خط میں میں [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کو لکھا:


"... [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں؛ یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں؛ یا پھر خود [[یزید]] کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ [(یزید)] ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے!"<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص414؛  شیخ مفید، وہی ماخذ، ص87؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص71 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔</ref>
"... [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]ؑ نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں؛ یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں؛ یا پھر خود [[یزید]] کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ [(یزید)] ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے!"<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص414؛  شیخ مفید، وہی ماخذ، ص87؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص71 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔</ref>


خط [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے پڑھا اور کہا: "یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے!"۔ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ [[شمر بن ذی الجوشن]] ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ رکاوٹ بنا؛ چنانچہ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[شمر بن ذی الجوشن]] کو قریب بلایا اور کہا: "یہ خط [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو پہنچا دو تا کہ وہ [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے؛ اگر عمر سعد جنگ کرے تو اس کی اطاعت کرو اور اگر جنگ سے اجتناب کرے تو [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ [اس کے بعد] سالار قوم تم ہو؛ اس کے بعد [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دو۔"<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص182؛ الطبری، وہی ماخذ، ص414 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویه، وہی ماخذ، صص71-72 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔</ref>
خط [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے پڑھا اور کہا: "یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے!"۔ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ [[شمر بن ذی الجوشن]] ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ رکاوٹ بنا؛ چنانچہ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[شمر بن ذی الجوشن]] کو قریب بلایا اور کہا: "یہ خط [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو پہنچا دو تا کہ وہ [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]ؑ اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے؛ اگر عمر سعد جنگ کرے تو اس کی اطاعت کرو اور اگر جنگ سے اجتناب کرے تو [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]ؑ کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ [اس کے بعد] سالار قوم تم ہو؛ اس کے بعد [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دو۔"<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص182؛ الطبری، وہی ماخذ، ص414 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویه، وہی ماخذ، صص71-72 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔</ref>


اس کے بعد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:
اس کے بعد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:


"... میں نے تمہیں ([[کربلا]]) نہیں بھیجا کہ [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) سے مصالحت کرو یا ان کے ساتھ مسامحت سے کام لو اور ان کے لئے سلامتی اور زندہ رہنے کی آرزو کرو اور میرے ہاں اس کی شفاعت کرو؛ دیکھو اگر [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) اور ان کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور [یزید کی بیعت کرتے ہیں] تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرو اور اگر قبول نہيں کرتے تو ان پر حملہ کرو اور ان کا خون بہاؤ اور ان کے جسموں کا مثلہ کرو کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں؛ جب [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] مارے جائیں تو ان کے سینے اور پشت پر گھوڑے دوڑاؤ کیونکہ وہ سرکش اور اہل ستم ہیں!! اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کام سے موت کے بعد کوئی نقصان پہنچے گا؛ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ اگر میں نے انہیں قتل کیا تو ان کے بےجان جسم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھوں؛ پس اگر تم نے اس حکم کی تعمیل کی تو ہم [یعنی میں اور یزید] تمہیں ایک فرمانبردار شخص کی پاداش دیں گے اور اگر قبول نہیں کرتے ہو تو ہمارے معاملے اور ہمارے لشکر سے دستبردار ہوجاؤ اور لشکر کو [[شمر بن ذی الجوشن]] کی تحویل میں دیدو، ہم نے اس کو اپنے امور کے لئے امیر مقرر کیا۔ والسلام۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، صص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و ابن اعثم، وہی ماخذ، ص93۔ شیخ مفید، وہی ماخذ، صص88۔</ref>
"... میں نے تمہیں ([[کربلا]]) نہیں بھیجا کہ [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]ؑ سے مصالحت کرو یا ان کے ساتھ مسامحت سے کام لو اور ان کے لئے سلامتی اور زندہ رہنے کی آرزو کرو اور میرے ہاں اس کی شفاعت کرو؛ دیکھو اگر [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]]ؑ اور ان کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور [یزید کی بیعت کرتے ہیں] تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرو اور اگر قبول نہيں کرتے تو ان پر حملہ کرو اور ان کا خون بہاؤ اور ان کے جسموں کا مثلہ کرو کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں؛ جب [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] مارے جائیں تو ان کے سینے اور پشت پر گھوڑے دوڑاؤ کیونکہ وہ سرکش اور اہل ستم ہیں!! اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کام سے موت کے بعد کوئی نقصان پہنچے گا؛ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ اگر میں نے انہیں قتل کیا تو ان کے بےجان جسم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھوں؛ پس اگر تم نے اس حکم کی تعمیل کی تو ہم [یعنی میں اور یزید] تمہیں ایک فرمانبردار شخص کی پاداش دیں گے اور اگر قبول نہیں کرتے ہو تو ہمارے معاملے اور ہمارے لشکر سے دستبردار ہوجاؤ اور لشکر کو [[شمر بن ذی الجوشن]] کی تحویل میں دیدو، ہم نے اس کو اپنے امور کے لئے امیر مقرر کیا۔ والسلام۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، صص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و ابن اعثم، وہی ماخذ، ص93۔ شیخ مفید، وہی ماخذ، صص88۔</ref>


'''حقیقت کیا ہے'''
'''حقیقت کیا ہے'''


اس روایت میں کچھ حقائق بھی ہیں؛ یہ بات روایات میں منقول ہے کہ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمرسعد]] نے مسئلے کو بغیر جنگ کے حل کرنے اور اپنے، [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] اور [[یزید]] کے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی درست ہے کہ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کے لئے غیر انسانی احکامات بھجوائے (اور البتہ یہ بھی درست ہے کہ ([[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے ان احکامات پر من و عن عملدرآمد کیا) لیکن یہ دعوی درست نہیں ہوسکتا کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] [[یزید]] کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی خواہش کی تھی اور اس کے ثبوت ایک سے زیادہ ہیں:
اس روایت میں کچھ حقائق بھی ہیں؛ یہ بات روایات میں منقول ہے کہ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمرسعد]] نے مسئلے کو بغیر جنگ کے حل کرنے اور اپنے، [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] اور [[یزید]] کے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی درست ہے کہ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کے لئے غیر انسانی احکامات بھجوائے (اور البتہ یہ بھی درست ہے کہ ([[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے ان احکامات پر من و عن عملدرآمد کیا) لیکن یہ دعوی درست نہیں ہوسکتا کہ [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] [[یزید]] کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی خواہش کی تھی اور اس کے ثبوت ایک سے زیادہ ہیں:


[[معاویہ]] کی موت اور مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے [[یزید]] کے ہاتھ میں چلے جانے کے بعد [[ولید بن عتبہ]] اور [[مروان بن حکم]] نے [[امام حسین علیہ السلام|حضرت سید الشہداء]] سے کہا کہ [[یزید]] کی بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:<font color=green>{{حدیث|'''"يزيد رجل فاسق شارب الخمر قاتل النفس المحترمة معلن بالفسق ومثلى لايبايع مثله"'''}}</font>۔
[[معاویہ]] کی موت اور مسلمانوں کی قسمت کے فیصلے [[یزید]] کے ہاتھ میں چلے جانے کے بعد [[ولید بن عتبہ]] اور [[مروان بن حکم]] نے [[امام حسین علیہ السلام|حضرت سید الشہداء]] سے کہا کہ [[یزید]] کی بیعت کریں تو آپ نے فرمایا:<font color=green>{{حدیث|'''"يزيد رجل فاسق شارب الخمر قاتل النفس المحترمة معلن بالفسق ومثلى لايبايع مثله"'''}}</font>۔
سطر 287: سطر 287:
ترجمہ: "یزید ایک فاسق، شرابی، قاتل شخص ہے جو اعلانیہ فسق و گناہ کرتا ہے اور مجھ جیسا کوئی اس جیسے کسی کی بیعت نہیں کرتا"۔<ref>مروج الذهب، ج 3، ص 67۔[[امام حسین علیہ السلام|حضرت سید الشہداء]] نے اس مختصر جملے میں ایک قانون اور قاعدہ متعارف کرایا ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] ہی نہیں بلکہ [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] جیسے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ نہ صرف [[یزید]] بلکہ [[یزید جیسے کسی بھی شخص کی بیعت کرے۔</ref> بے شک اگر تحریک [[عاشورا]] کا ایک ہدف و مقصد یہی تھا تو یہ ابھی اپنی جگہ قائم تھا اور کسی نے بھی کہیں یہ نہیں لکھا کہ [[یزید]] اس عرصے میں [[توبہ]] کرکے اسلامی [[شریعت]] کا تابع مطلق بن چکا تھا۔ چنانچہ [[امام حسین علیہ السلام]] کے یزید کے پاس جانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
ترجمہ: "یزید ایک فاسق، شرابی، قاتل شخص ہے جو اعلانیہ فسق و گناہ کرتا ہے اور مجھ جیسا کوئی اس جیسے کسی کی بیعت نہیں کرتا"۔<ref>مروج الذهب، ج 3، ص 67۔[[امام حسین علیہ السلام|حضرت سید الشہداء]] نے اس مختصر جملے میں ایک قانون اور قاعدہ متعارف کرایا ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] ہی نہیں بلکہ [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] جیسے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ نہ صرف [[یزید]] بلکہ [[یزید جیسے کسی بھی شخص کی بیعت کرے۔</ref> بے شک اگر تحریک [[عاشورا]] کا ایک ہدف و مقصد یہی تھا تو یہ ابھی اپنی جگہ قائم تھا اور کسی نے بھی کہیں یہ نہیں لکھا کہ [[یزید]] اس عرصے میں [[توبہ]] کرکے اسلامی [[شریعت]] کا تابع مطلق بن چکا تھا۔ چنانچہ [[امام حسین علیہ السلام]] کے یزید کے پاس جانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔


اور پھر [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] [[یزید]] کو پہلے سے جانتے تھے۔ حتی ایک مرتبہ جب [[معاویہ]] نے ایک مجلس میں [[یزید]] کی تعریف کی تو [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] نے شدید احتجاج کیا، اس کی برائیاں بیان کردیں اور [[یزید]] کے لئے بیعت لینے کے سلسلے میں [[معاویہ]] کی کوششوں کی مذمت کی۔<ref>بحارالانوار، ج 44، ص 325۔</ref>
اور پھر [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] [[یزید]] کو پہلے سے جانتے تھے۔ حتی ایک مرتبہ جب [[معاویہ]] نے ایک مجلس میں [[یزید]] کی تعریف کی تو [[امام حسین علیہ السلام|آپ]] نے شدید احتجاج کیا، اس کی برائیاں بیان کردیں اور [[یزید]] کے لئے بیعت لینے کے سلسلے میں [[معاویہ]] کی کوششوں کی مذمت کی۔<ref>بحارالانوار، ج 44، ص 325۔</ref>


[[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کی حالت میں اپنے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: <font color=green>{{حدیث|'''"اللهم إنك تعلم إنه لم يكن ما كان منا تنافسا في سلطان، ولا التماسا من فضول الحطام، ولكن لنري المعالم من دينك، ونظهر الاصلاح في بلادك، ويأمن المظلومون من عبادك، ويعمل بفرائضك وسنتك وأحكامك"۔'''}}</font>
[[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کی حالت میں اپنے قیام کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: <font color=green>{{حدیث|'''"اللهم إنك تعلم إنه لم يكن ما كان منا تنافسا في سلطان، ولا التماسا من فضول الحطام، ولكن لنري المعالم من دينك، ونظهر الاصلاح في بلادك، ويأمن المظلومون من عبادك، ويعمل بفرائضك وسنتك وأحكامك"۔'''}}</font>


ترجمہ: '''"خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری طرف سے انجام پایا ہے (منجملہ اموی حکمرانوں کے خلاف خطبات اور اقدامات)؛ فرمانروائی کے لئے مسابقت اور دنیا کی ناچیز متاع کے حصول میں سبقت لینے کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ تیرے دین کی نشانیاں لوگوں کو دکھا دیں اور بپا کریں اور تیری سرزمینوں میں اصلاح کے آشکار کردیں۔ ہم چاہتے ہيں کہ تیرے مظلوم بندے امان میں ہوں اور تیرے واجبات اور سنتوں پر عمل کیا جاتا رہے"۔<ref>ابن‌شعبه حراني، تحف العقول، ص239‎؛ مجلسي، بحارالانوار، ج97، ص81 ـ 80‎۔</ref>'''
ترجمہ: '''"خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری طرف سے انجام پایا ہے (منجملہ اموی حکمرانوں کے خلاف خطبات اور اقدامات)؛ فرمانروائی کے لئے مسابقت اور دنیا کی ناچیز متاع کے حصول میں سبقت لینے کی خاطر نہیں ہے بلکہ اس لئے ہے کہ تیرے دین کی نشانیاں لوگوں کو دکھا دیں اور بپا کریں اور تیری سرزمینوں میں اصلاح کے آشکار کردیں۔ ہم چاہتے ہيں کہ تیرے مظلوم بندے امان میں ہوں اور تیرے واجبات اور سنتوں پر عمل کیا جاتا رہے"۔<ref>ابن‌شعبه حراني، تحف العقول، ص239‎؛ مجلسي، بحارالانوار، ج97، ص81 ـ 80‎۔</ref>'''


[[امام حسین علیہ السلام|امام(ص)]] نے اپنی تحریک کے آغاز میں فرمایا: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ]] کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]](ص) اور بابا [[امام علی علیہ السلام|علی بن ابی طالب]](ع) کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص21و الخوارزمی، وہی ماخذ، صص188-189۔</ref>
[[امام حسین علیہ السلام|امامؐ]] نے اپنی تحریک کے آغاز میں فرمایا: میں اپنا وطن کسی شر و فساد پھیلانے اور ظلم و ستم کرنے کی خاطر نہیں چھوڑ رہا ہوں بلکہ مدینہ سے میری روانگی کا مقصد یہ ہے کہ اپنے نانا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ]] کی امت کی اصلاح کروں؛ اور امر بالمعروف کروں اور نہیں عن المنکر کروں (نیکی کا حکم دوں اور برائیوں سے روکوں) اور اپنے نانا [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول اللہ]]ؐ اور بابا [[امام علی علیہ السلام|علی بن ابی طالب]]ؑ کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہتا ہوں۔<ref>ابن اعثم، وہی ماخذ، ص21و الخوارزمی، وہی ماخذ، صص188-189۔</ref>


"یزید کی سیرت وہی فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون اپنی رعیت میں یزید سے زیادہ عادل اور اپنے خاص و عام کے درمیان زيادہ منصف تھا"۔<ref>علی بن الحسین مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ص68۔</ref> "اس نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں امام حسین(ع) اور اہل بیت رسول(ص) کو قتل کیا؛ اور دوسرے سال اس نے حرم رسول خدا(ص) (مدینہ) کی حرمت شکنی کی اور اس کو تین دن تک اپنے لشکریوں کے لئے حلال قرار دیا۔ اور تیسرے برس اس نے کعبہ کو جارحیت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا اور اس کو نذر آتش کیا"۔<ref>تاریخ الیعقوبی، سابقہ ماخذ، ص253 و ابن الطقطقی؛ الفخری فی الآداب السلطانیه و الدول الاسلامیہ، ص116۔سبط بن جوزی کا لکھتا ہے: ایسے شخص کی حکومت کے بارے میں کیا کہوگے جس نے اپنی حکومت کے پہلے سال امام حسین(ع) کو قتل کیا، دوسرے سال مدینہ کو دہشت کا نشانہ بنایا اور اسے اپنے سپاہیوں کے لئے حلال کیا اور تیسرے سال کعبہ کو منجنیقوں کے ذریعے سنگ باری کا نشانہ بنا کر ویراں کیا۔ حوالہ از عبدالحسین امینی، الغدير، ج 1، ص 248۔</ref> یزیدی حکومت کے ان رویوں سے بھی واضح ہے کہ امام حسین(ع) کی طرف سے یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی حکایت ایک افسانہ ہے۔
"یزید کی سیرت وہی فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون اپنی رعیت میں یزید سے زیادہ عادل اور اپنے خاص و عام کے درمیان زيادہ منصف تھا"۔<ref>علی بن الحسین مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ص68۔</ref> "اس نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں امام حسینؑ اور اہل بیت رسولؐ کو قتل کیا؛ اور دوسرے سال اس نے حرم رسول خداؐ (مدینہ) کی حرمت شکنی کی اور اس کو تین دن تک اپنے لشکریوں کے لئے حلال قرار دیا۔ اور تیسرے برس اس نے کعبہ کو جارحیت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا اور اس کو نذر آتش کیا"۔<ref>تاریخ الیعقوبی، سابقہ ماخذ، ص253 و ابن الطقطقی؛ الفخری فی الآداب السلطانیه و الدول الاسلامیہ، ص116۔سبط بن جوزی کا لکھتا ہے: ایسے شخص کی حکومت کے بارے میں کیا کہوگے جس نے اپنی حکومت کے پہلے سال امام حسینؑ کو قتل کیا، دوسرے سال مدینہ کو دہشت کا نشانہ بنایا اور اسے اپنے سپاہیوں کے لئے حلال کیا اور تیسرے سال کعبہ کو منجنیقوں کے ذریعے سنگ باری کا نشانہ بنا کر ویراں کیا۔ حوالہ از عبدالحسین امینی، الغدير، ج 1، ص 248۔</ref> یزیدی حکومت کے ان رویوں سے بھی واضح ہے کہ امام حسینؑ کی طرف سے یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی حکایت ایک افسانہ ہے۔


=== روز تاسوعا ===
=== روز تاسوعا ===
[[9 محرم ]] سنہ 61 ہجری کی شام کو [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کا حکم لے کر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کے پاس [[کربلا]] پہنچا اور حکم نامہ عمر سعد کے حوالے کیا۔<ref>ابن سعد؛ الطبقات الکبری، خامسه1، ص466؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص94 و ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔</ref>[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے کہا: میں خود اپنی ذمہ داری نبھا لوں گا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویہ، وہی ماخذ، ص73 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref>
[[9 محرم ]] سنہ 61 ہجری کی شام کو [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کا حکم لے کر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کے پاس [[کربلا]] پہنچا اور حکم نامہ عمر سعد کے حوالے کیا۔<ref>ابن سعد؛ الطبقات الکبری، خامسه1، ص466؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص94 و ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔</ref>[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے کہا: میں خود اپنی ذمہ داری نبھا لوں گا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویہ، وہی ماخذ، ص73 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref>


[[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] یا ایک اور قول کی بنا پر [[حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا|ام البنین(س)]] کے بھتیجے عبداللہ بن ابی المحل نے ام البنین کے بیٹوں کے لئے [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] سے امان نامہ لیا تھا <ref>الطبری، وہی ماخذ، ص415؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص246 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref> عبداللہ بن ابی المحل نے امان نامہ اپنے غلام کزمان یا عرفان (یا کرمان) کے توسط سے [[کربلا]] بھجوایا اور اس نے [[کربلا]] پہنچتے ہی امان نامے کا متن [[حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا|ام البنین(س)]] کے بیٹوں ([[حضرت عباس علیہ السلام|عباس بن علی]] [[عبداللہ بن علی]]، [[جعفر بن علی]] اور [[عثمان بن علی]]) کو پڑھ کر سنایا؛ تاہم انھوں نے امان نامہ مسترد کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص415؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، صص93-94؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص246 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref> ایک روایت یہ بھی ہے کہ [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] نے [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کا امان نامہ خود کربلا لے کر آیا اور [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس بن علی]] اور ان کے بھائی [[عبداللہ بن علی]]، [[جعفر بن علی]] اور [[عثمان بن علی]] کو پڑھ کر سنایا،<ref>حسنی، ابن عنبه؛ عمدة الطالب فی انساب آل ابیطالب، ص327 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص246۔</ref> تاہم [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس(ع)]] اور ان کے  بھائیوں نے اتفاق رائے سے امان نامہ مسترد کیا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص184؛ الطبری، وہی ماخذ، ص416 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ الخوارزمی، وہی ماخذ، صص249-250 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref>
[[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] یا ایک اور قول کی بنا پر [[حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا|ام البنین(س)]] کے بھتیجے عبداللہ بن ابی المحل نے ام البنین کے بیٹوں کے لئے [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] سے امان نامہ لیا تھا <ref>الطبری، وہی ماخذ، ص415؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص246 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref> عبداللہ بن ابی المحل نے امان نامہ اپنے غلام کزمان یا عرفان (یا کرمان) کے توسط سے [[کربلا]] بھجوایا اور اس نے [[کربلا]] پہنچتے ہی امان نامے کا متن [[حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا|ام البنین(س)]] کے بیٹوں ([[حضرت عباس علیہ السلام|عباس بن علی]] [[عبداللہ بن علی]]، [[جعفر بن علی]] اور [[عثمان بن علی]]) کو پڑھ کر سنایا؛ تاہم انھوں نے امان نامہ مسترد کیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص415؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، صص93-94؛ الخوارزمی، وہی ماخذ، ص246 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref> ایک روایت یہ بھی ہے کہ [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] نے [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کا امان نامہ خود کربلا لے کر آیا اور [[حضرت عباس علیہ السلام|عباس بن علی]] اور ان کے بھائی [[عبداللہ بن علی]]، [[جعفر بن علی]] اور [[عثمان بن علی]] کو پڑھ کر سنایا،<ref>حسنی، ابن عنبه؛ عمدة الطالب فی انساب آل ابیطالب، ص327 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص246۔</ref> تاہم [[حضرت عباس علیہ السلام|عباسؑ]] اور ان کے  بھائیوں نے اتفاق رائے سے امان نامہ مسترد کیا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص184؛ الطبری، وہی ماخذ، ص416 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ الخوارزمی، وہی ماخذ، صص249-250 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref>


[[شیخ مفید]] نے شمر اور ام البنین کے بیٹوں کی گفتگو کو یوں نقل کیا ہے، شمر نے کہا: اے میرے بہانجو آپ لوگوں کی جان محفوظ ہے۔ اس پر حضرت عباس اور ان کے بھائیوں نے کہا: خدا تم اور تمارے امان پر لعنت کرے، ہمیں امان دیتے ہو درحالیکہ فرزند رسول خدا کے لئے امان نہیں ہے؟!<ref> مفید، الارشاد، ج۲، ص۸۹.</ref>
[[شیخ مفید]] نے شمر اور ام البنین کے بیٹوں کی گفتگو کو یوں نقل کیا ہے، شمر نے کہا: اے میرے بہانجو آپ لوگوں کی جان محفوظ ہے۔ اس پر حضرت عباس اور ان کے بھائیوں نے کہا: خدا تم اور تمارے امان پر لعنت کرے، ہمیں امان دیتے ہو درحالیکہ فرزند رسول خدا کے لئے امان نہیں ہے؟!<ref> مفید، الارشاد، ج۲، ص۸۹.</ref>
سطر 307: سطر 307:
{{اصلی|شب عاشور کے واقعات}}
{{اصلی|شب عاشور کے واقعات}}
====اصحاب کا تجدید عہد====
====اصحاب کا تجدید عہد====
امام حسین(ع) نے رات کے ابتدائی حصے میں اپنے اصحاب کو جمع کیا اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
امام حسینؑ نے رات کے ابتدائی حصے میں اپنے اصحاب کو جمع کیا اور خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
::::میرے خیال میں یہ آخری رات ہے جو دشمن کی طرف سے ہمیں مہلت دی گئی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ پس سب کے سب مطمئن ہو کر یہاں سے چلے جائیں کیونکہ میں نے تمہاری گردن سے میری بیعت اٹھا لی ہے۔ اب جبکہ رات کی تاریکی چھا گئی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر سب چلے جائیں۔
::::میرے خیال میں یہ آخری رات ہے جو دشمن کی طرف سے ہمیں مہلت دی گئی ہے۔ آگاہ ہو جاؤ کہ میں نے تمہیں جانے کی اجازت دے دی ہے۔ پس سب کے سب مطمئن ہو کر یہاں سے چلے جائیں کیونکہ میں نے تمہاری گردن سے میری بیعت اٹھا لی ہے۔ اب جبکہ رات کی تاریکی چھا گئی ہے اس سے فائدہ اٹھا کر سب چلے جائیں۔


اس موقع پر سب سے پہلے آپ کے اہل بیت پھر آپ کے اصحاب نے پرجوش انداز میں امام کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اپنی جانوں کو آپ پر قربان کرنے اور آپ سے دفاع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تاریخی منابع میں اس گفتگو کے بعض حصوں کو ذکر کیا گیا ہے۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۹۱-۹۴؛ طبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۲۳۹</ref>
اس موقع پر سب سے پہلے آپ کے اہل بیت پھر آپ کے اصحاب نے پرجوش انداز میں امام کے ساتھ وفاداری کا اعلان کیا اور اپنی جانوں کو آپ پر قربان کرنے اور آپ سے دفاع کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ تاریخی مصادر میں اس گفتگو کے بعض حصوں کو ذکر کیا گیا ہے۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۹۱-۹۴؛ طبرسی، إعلام الوری بأعلام الہدی، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۲۳۹</ref>


====اصحاب کی وفاداری کے حوالے سے حضرت زینب(س) کی نگرانی ====
====اصحاب کی وفاداری کے حوالے سے حضرت زینب(س) کی نگرانی ====
آدھی رات کو [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین]](ع) اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لئے باہر نکلے تو [[نافع بن ہلال بجلی|نافع بن ہلال جملی]] کو معلوم ہوا اور [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔
آدھی رات کو [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین]]ؑ اطراف میں واقع پہاڑیوں اور دروں کا معائنہ کرنے کے لئے باہر نکلے تو [[نافع بن ہلال بجلی|نافع بن ہلال جملی]] کو معلوم ہوا اور [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] کے پیچھے پیچھے روانہ ہوئے۔


خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسین(ع) بہن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|زینب کبری(س)]] کے خیمے میں داخل ہوئے۔ [[نافع بن ہلال بجلی|نافع بن ہلال]] خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|زینب(س)]] نے [[امام حسین علیہ السلام|بھائی]] سے عرض کیا:
خیام کے اطراف کا معائنہ کرنے کے بعد امام حسینؑ بہن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|زینب کبری(س)]] کے خیمے میں داخل ہوئے۔ [[نافع بن ہلال بجلی|نافع بن ہلال]] خیمے کے باہر منتظر بیٹھے تھے اور سن رہے تھے کہ [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|زینب(س)]] نے [[امام حسین علیہ السلام|بھائی]] سے عرض کیا:


کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کے حوالے کر دیں"۔
کیا آپ نے اپنے اصحاب کو آزمایا ہے؟ مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ لوگ بھی ہم سے منہ پھیر لیں اور جنگ کے دوران آپ کو دشمن کے حوالے کر دیں"۔


امام حسین (ع) نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں سینہ سپر ہو کر جنگ کیلئے اس طرح آمادہ پایا ہے کہ گویا یہ لوگ میری رکاب میں جنگ کرنے کو شیرخوار بچے کی اپنی ماں کے ساتھ رکھنے والی انسیت کی طرح انس رکھتے ہیں۔
امام حسین ؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نے انہیں آزما لیا ہے اور انہیں سینہ سپر ہو کر جنگ کیلئے اس طرح آمادہ پایا ہے کہ گویا یہ لوگ میری رکاب میں جنگ کرنے کو شیرخوار بچے کی اپنی ماں کے ساتھ رکھنے والی انسیت کی طرح انس رکھتے ہیں۔


نافع نے جب محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسین(ع) آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ [[حبیب بن مظاہر|حبیب بن مظاہر اسدی]] سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر امام(ع) کے اہل بیتِ  کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسین(ع) کا دفاع کریں گے۔
نافع نے جب محسوس کیا کہ اہل بیتِ امام حسینؑ آپ کے اصحاب کی وفاداری کے سلسلے میں فکرمند ہیں چنانچہ وہ [[حبیب بن مظاہر|حبیب بن مظاہر اسدی]] سے مشورہ کرنے گئے اور دونوں نے آپس کے مشورے سے فیصلہ کیا کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ مل کر امامؑ کے اہل بیتِ  کو یقین دلائیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک امام حسینؑ کا دفاع کریں گے۔


حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام حسین (ع) کو بلایا، [[بنی ہاشم]] کو خیموں میں واپس بھیج دیا پھر اصحاب سے مخاطب ہو کر جو کچھ نافع نے امام حسین(ع) اور حضرت زینب سے سنا تھا، کو دھرایا۔
حبیب بن مظاہر نے اصحاب امام حسین ؑ کو بلایا، [[بنی ہاشم]] کو خیموں میں واپس بھیج دیا پھر اصحاب سے مخاطب ہو کر جو کچھ نافع نے امام حسینؑ اور حضرت زینب سے سنا تھا، کو دھرایا۔


تمام اصحاب نے کہا: "اس خدا کی قسم جس نے ہمارے اوپر احسان کرکے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، اگر امام حسین(ع) کے حکم کی انتظار میں نہ ہوتا تو ابھی ان (دشمنوں) پر حملہ کرتے اور اپنے جانوں کو امام پر قربان کرنے کے ذریعے پاک اور اپنی آنکھوں کو بہشت کی دیدار سے منور کرتے۔"
تمام اصحاب نے کہا: "اس خدا کی قسم جس نے ہمارے اوپر احسان کرکے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے، اگر امام حسینؑ کے حکم کی انتظار میں نہ ہوتا تو ابھی ان (دشمنوں) پر حملہ کرتے اور اپنے جانوں کو امام پر قربان کرنے کے ذریعے پاک اور اپنی آنکھوں کو بہشت کی دیدار سے منور کرتے۔"


حبیب ابن مظاہر دوسرے اصحاب کے ہمراہ ننگی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بلند آواز سے کہا: "اے حریم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ| رسول خدا(ص)]] یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں یہاں تک کہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں میں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہیں۔<ref>المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص 219۔</ref>
حبیب ابن مظاہر دوسرے اصحاب کے ہمراہ ننگی تلواروں کے ساتھ حرم اہل بیت کے قریب گئے اور بلند آواز سے کہا: "اے حریم [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ| رسول خداؐ]] یہ آپ کے جوانوں اور جوانمردوں کی شمشیریں ہیں جو کبھی بھی نیام میں واپس نہ جائيں یہاں تک کہ آپ کے بدخواہوں کی گردنوں پر اتر آئیں؛ یہ آپ کے فرزندوں کے نیزے ہیں اور انھوں نے قسم اٹھا رکھی ہیں انہیں صرف اور صرف ان لوگوں کے سینوں میں گھونپ دیں جنہوں نے آپ کی دعوت سے روگردانی کی ہیں۔<ref>المقرم، مقتل الحسینؑ، ص 219۔</ref>


=== روز عاشورا کے واقعات===
=== روز عاشورا کے واقعات===
{{اصلی|روز عاشورا کے واقعات}}
{{اصلی|روز عاشورا کے واقعات}}
عاشورا کی صبح کو امام حسین (ع) نے اپنے اصحاب کے ساتھ [[نماز]] ادا کی۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423۔</ref> نماز کے بعد آپ نے اپنی مختصر فوج(32 سوار اور 40 پیادہ) <ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ احمد دینوری، الاخبار الطوال، ص 256، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص101، ابن اثیر، الکامل، ج5، ص59۔</ref> کے صفوں کو منظم فرمایا۔ آپ نے لشکر کے دائیں بازو کو [[زہیر بن قین]] اور بائیں بازو کو [[حبیب بن مظاہر]] کے سپرد کیا اور پرچم بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|ابوالفضل العباس(ع)]] کے حوالے کیا۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص256؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید؛ الارشاد، ج2، ص95، ابن اثیر، الکامل، ج4، ص59۔</ref>
عاشورا کی صبح کو امام حسین ؑ نے اپنے اصحاب کے ساتھ [[نماز]] ادا کی۔<ref>الطبری، التاریخ، ج5، ص423۔</ref> نماز کے بعد آپ نے اپنی مختصر فوج(32 سوار اور 40 پیادہ) <ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ احمد دینوری، الاخبار الطوال، ص 256، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص101، ابن اثیر، الکامل، ج5، ص59۔</ref> کے صفوں کو منظم فرمایا۔ آپ نے لشکر کے دائیں بازو کو [[زہیر بن قین]] اور بائیں بازو کو [[حبیب بن مظاہر]] کے سپرد کیا اور پرچم بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|ابوالفضل العباسؑ]] کے حوالے کیا۔<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395؛ احمد بن داوود الدینوری، الاخبار الطوال، ص256؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید؛ الارشاد، ج2، ص95، ابن اثیر، الکامل، ج4، ص59۔</ref>


میدان کے دوسری جانب [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] نے اپنے لشکر کے ـ جو ایک قول کے مطابق 4000 افراد پر مشتمل تھاـ<ref>سید بن طاوس نے اللہوف، ص119 اور عبد الرزاق الموسوی المقرم نے مقتل الحسین(ع)، ص276 پر لکھا ہے کہ آخر وقت امام(ع) 30000 ہزار کے لشکر کو بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر ادھر مار بھگاتے تھے۔ جس سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ لشکر کی تعداد 30000 تھی۔</ref> صفوں کو منظم کیا، عمرو بن حجاج زبیدی کو میمنہ، [[شمر بن ذی الجوشن]] کو میسرہ، [[عزرة بن قیس احمسی]] کو سوار دستے اور [[شبث بن ربعی]] کو پیادہ دستے کی کمانڈ دے دی۔ <ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422-426۔</ref>
میدان کے دوسری جانب [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] نے اپنے لشکر کے ـ جو ایک قول کے مطابق 4000 افراد پر مشتمل تھاـ<ref>سید بن طاوس نے اللہوف، ص119 اور عبد الرزاق الموسوی المقرم نے مقتل الحسینؑ، ص276 پر لکھا ہے کہ آخر وقت امامؑ 30000 ہزار کے لشکر کو بھیڑ بکریوں کی طرح ادھر ادھر مار بھگاتے تھے۔ جس سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ لشکر کی تعداد 30000 تھی۔</ref> صفوں کو منظم کیا، عمرو بن حجاج زبیدی کو میمنہ، [[شمر بن ذی الجوشن]] کو میسرہ، [[عزرة بن قیس احمسی]] کو سوار دستے اور [[شبث بن ربعی]] کو پیادہ دستے کی کمانڈ دے دی۔ <ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422-426۔</ref>


اسی [[عبداللہ بن زہیر اسدی]] کو کوفیوں، [[عبدالرحمن بن ابی اسیرہ]] کو [[مذحج]] اور [[بنو اسد]]، [[قیس بن اشعث]] بن قیس کو بنی ربیعہ اور کندہ اور [[حر بن یزید ریاحی]] کو بنی [[بنو تمیم|تمیم]] اور [[بنی ہمدان|ہمدان]] کی امارت دی اور پرچم کو اپنے غلام زوید (یا درید) کے سپرد کر کے<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید، الارشاد، ج2، صص95-96 و ابن اثیر، الکامل، ج4، ص60۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسین(ع)]] کے خلاف صف آرا ہوا۔
اسی [[عبداللہ بن زہیر اسدی]] کو کوفیوں، [[عبدالرحمن بن ابی اسیرہ]] کو [[مذحج]] اور [[بنو اسد]]، [[قیس بن اشعث]] بن قیس کو بنی ربیعہ اور کندہ اور [[حر بن یزید ریاحی]] کو بنی [[بنو تمیم|تمیم]] اور [[بنی ہمدان|ہمدان]] کی امارت دی اور پرچم کو اپنے غلام زوید (یا درید) کے سپرد کر کے<ref>البلاذری، انساب الاشراف، ج3، ص395-396؛ الطبری، التاریخ، ج5، ص422؛ المفید، الارشاد، ج2، صص95-96 و ابن اثیر، الکامل، ج4، ص60۔</ref> [[امام حسین علیہ السلام|ابو عبداللہ الحسینؑ]] کے خلاف صف آرا ہوا۔


امام حسین(ع) نے اتمام حجت کی خاطر اپنے کچھ ساتھیوں سمیت دشمن کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائی۔<ref>خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، ج۱، ص۲۵۲؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۹۶-۳۹۸.</ref> امام(ع) کی گفتگو کے بعد [[زہیر بن قین]] نے آپ(ع) کی فضیلت بیان کرتے ہوئے دشمن کو وعظ و نصیحت کی۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، صص۴۲۴-۴۲۷</ref>
امام حسینؑ نے اتمام حجت کی خاطر اپنے کچھ ساتھیوں سمیت دشمن کی طرف تشریف لے گئے اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائی۔<ref>خوارزمی، مقتل‌الحسینؑ، ج۱، ص۲۵۲؛ بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۹۶-۳۹۸.</ref> امامؑ کی گفتگو کے بعد [[زہیر بن قین]] نے آپؑ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے دشمن کو وعظ و نصیحت کی۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، صص۴۲۴-۴۲۷</ref>


روز عاشورا کے اہم واقعات میں سے ایک [[حر بن یزید ریاحی]] کا [[لشکر عمر بن سعد]] سے نکل کر امام حسین(ع) کے لشکر میں شامل ہونا ہے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۷؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۹؛ خوارزمی، مقتل‌الحسین(ع)، ج۲، ص۹.</ref>
روز عاشورا کے اہم واقعات میں سے ایک [[حر بن یزید ریاحی]] کا [[لشکر عمر بن سعد]] سے نکل کر امام حسینؑ کے لشکر میں شامل ہونا ہے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۷؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۹۹؛ خوارزمی، مقتل‌الحسینؑ، ج۲، ص۹.</ref>


شروع میں دونوں لشکر گروہی شکل میں ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے۔ بعض تاریخی منابع کے مطابق پہلے ہی حملے میں امام حسین(ع) کے 50 اصحاب شہید ہو گئے۔ اس کے بعد انفرادی طور پر تن بہ تن لڑائی شروع ہوئی۔ امام(ع) کے با وفا اصحاب دشمن کو امام حسین(ع) کے نزدیک ہونے نہیں دیتے تھے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰</ref> غیر ہاشمی اصحاب اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کے جوان یکے بعد دیگرے میدان میں جانے لگے اور بنی ہاشم میں سے سب سے پہلے میدان میں جانے والا جوان [[حضرت علی اکبر]] تھا۔<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۶۱-۳۶۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‌الطالبیین، ص۸۰؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶؛ جعفر ابن نما، مثیرالاحزان، ص۶۸.</ref> ان کے بعد ایک ایک کر کے امام بنی ہاشم کے جوانوں نے اپنی اپنی قربانی پیش کیں۔ [[عباس بن علی|ابوالفضل العباس(ع)]] جو لشکر کے علمدار اور خیموں کے محافظ تھے، نہر فرات سے خیمہ گاہ حسینی میں پانی لاتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب، ج۴، ص۱۰۸.</ref>
شروع میں دونوں لشکر گروہی شکل میں ایک دوسرے پر حملے کرتے رہے۔ بعض تاریخی مصادر کے مطابق پہلے ہی حملے میں امام حسینؑ کے 50 اصحاب شہید ہو گئے۔ اس کے بعد انفرادی طور پر تن بہ تن لڑائی شروع ہوئی۔ امامؑ کے با وفا اصحاب دشمن کو امام حسینؑ کے نزدیک ہونے نہیں دیتے تھے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۲۹-۴۳۰</ref> غیر ہاشمی اصحاب اور ساتھیوں کی شہادت کے بعد بنی ہاشم کے جوان یکے بعد دیگرے میدان میں جانے لگے اور بنی ہاشم میں سے سب سے پہلے میدان میں جانے والا جوان [[حضرت علی اکبر]] تھا۔<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۳۶۱-۳۶۲؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل‌الطالبیین، ص۸۰؛ دینوری، اخبارالطوال، ص۲۵۶؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶؛ جعفر ابن نما، مثیرالاحزان، ص۶۸.</ref> ان کے بعد ایک ایک کر کے امام بنی ہاشم کے جوانوں نے اپنی اپنی قربانی پیش کیں۔ [[عباس بن علی|ابوالفضل العباسؑ]] جو لشکر کے علمدار اور خیموں کے محافظ تھے، نہر فرات سے خیمہ گاہ حسینی میں پانی لاتے ہوئے دشمن کے ہاتھوں شہید ہوئے۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۴۶-۴۴۹؛ ابن‌شہرآشوب، مناقب، ج۴، ص۱۰۸.</ref>


بنی‌ہاشم کے جوانوں کی شہادت کے بعد امام حسین(ع) خود جنگ کیلئے تیار ہوئے لیکن دشمن کے لشکر سے آپ کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کوئی میدان میں آنے کیلئے تیار نہ تھے۔ جنگ کے دوران باوجود اینکہ آپ(ع) تنہا تھے اور آپ کا بدن زخموں سے چور چور تھا، آپ نہایت بہادری کے ساتھ تلوار چلاتے تھے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۲؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن‌مسکویہ، تجارب‌الامم، ج۲، ص۸۰؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۷.</ref>
بنی‌ہاشم کے جوانوں کی شہادت کے بعد امام حسینؑ خود جنگ کیلئے تیار ہوئے لیکن دشمن کے لشکر سے آپ کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کوئی میدان میں آنے کیلئے تیار نہ تھے۔ جنگ کے دوران باوجود اینکہ آپؑ تنہا تھے اور آپ کا بدن زخموں سے چور چور تھا، آپ نہایت بہادری کے ساتھ تلوار چلاتے تھے۔<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۲؛ مفید، الارشاد، ج۲، ص۱۱۱؛ ابن‌مسکویہ، تجارب‌الامم، ج۲، ص۸۰؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۴، ص۷۷.</ref>


==امام حسین(ع) کی شہادت کے بعد کے واقعات==
==امام حسینؑ کی شہادت کے بعد کے واقعات==
آپ کی شہادت کے بعد دشمن کی فوج نے آپ کے جسم مبارک پر موجود ہر چیز لوٹ کر لے گئے؛ [[قیس بن اشعث]] اور [[بحر بن کعب]] نے آپ کی قمیص <ref>ابن‌اثیر، الکامل، ج۴، ص۷۸؛ طبری، ج۵، ص۵۴۳.</ref>، [[اسود بن خالد اودی]] نے آپ کے نعلین‌، [[جمیع بن خلق اودی]] نے آپ کی تلوار شمشیر، [[اخنس بن مرثد]] نے آپ کا [[عمامہ]]، [[بجدل بن سلیم]] نے آپ کی انگوٹھی اور [[عمر بن سعد]] نے آپ کا زرہ۔<ref>سید بن طاوس، اللہوف، ص۱۳۰.</ref>
آپ کی شہادت کے بعد دشمن کی فوج نے آپ کے جسم مبارک پر موجود ہر چیز لوٹ کر لے گئے؛ [[قیس بن اشعث]] اور [[بحر بن کعب]] نے آپ کی قمیص <ref>ابن‌اثیر، الکامل، ج۴، ص۷۸؛ طبری، ج۵، ص۵۴۳.</ref>، [[اسود بن خالد اودی]] نے آپ کے نعلین‌، [[جمیع بن خلق اودی]] نے آپ کی تلوار شمشیر، [[اخنس بن مرثد]] نے آپ کا [[عمامہ]]، [[بجدل بن سلیم]] نے آپ کی انگوٹھی اور [[عمر بن سعد]] نے آپ کا زرہ۔<ref>سید بن طاوس، اللہوف، ص۱۳۰.</ref>


=== خیموں کی غارت گری===
=== خیموں کی غارت گری===
اس کے بعد دشمن نے خیموں پر حملہ کیا اور ان میں موجود تمام سامان لوٹ لیا اور اس کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔<ref>قمی، نفس المهموم، ص۴۷۹</ref> [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] [[امام زین العابدین علیہ السلام|امام سجاد(ع)]] کو قتل کرنے کی خاطر دشمن کے ایک گروہ کے ساتھ خیموں میں داخل ہوئے لیکن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب(س)]] اس کام میں رکاوٹ بنیں۔ بعض مورخین کے مطابق دشمن کے بعض سپاہیوں نے شمر کے اس کام پر اعتراض کیا اور اسے اس کام سے باز رکھا۔<ref>قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹-۴۸۰.</ref>  
اس کے بعد دشمن نے خیموں پر حملہ کیا اور ان میں موجود تمام سامان لوٹ لیا اور اس کام میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تھے۔<ref>قمی، نفس المهموم، ص۴۷۹</ref> [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] [[امام زین العابدین علیہ السلام|امام سجادؑ]] کو قتل کرنے کی خاطر دشمن کے ایک گروہ کے ساتھ خیموں میں داخل ہوئے لیکن [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب(س)]] اس کام میں رکاوٹ بنیں۔ بعض مورخین کے مطابق دشمن کے بعض سپاہیوں نے شمر کے اس کام پر اعتراض کیا اور اسے اس کام سے باز رکھا۔<ref>قمی، نفس المہموم، ص۴۷۹-۴۸۰.</ref>  
[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] نے اہل حرم کو ایک خیمے میں جمع کرنے کا حکم دیا پھر ان پر بعض سپاہیوں کی پہرے لگا دیا  گیا۔<ref>قمی، نفس المهموم، ص۴۸۲؛ نک: طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۴-۴۵۳</ref>
[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] نے اہل حرم کو ایک خیمے میں جمع کرنے کا حکم دیا پھر ان پر بعض سپاہیوں کی پہرے لگا دیا  گیا۔<ref>قمی، نفس المهموم، ص۴۸۲؛ نک: طبری، تاریخ، ج۵، ص۴۵۴-۴۵۳</ref>


=== لاشوں پر گھوڑے دوڑایا جانا===
=== لاشوں پر گھوڑے دوڑایا جانا===
ابن زیاد کے حکم پر عمر سعد نے اپنی فوج کے دس سپاہیوں کے ذریعے امام حسین(ع) اور ان کے با وفا اصحاب کے جنازوں پر گھوڑے دوڑائے گئے جس سے شہداء کے جنازے پایمال ہو گئے۔<ref> الإرشاد، المفید ،ج‏۲،ص۱۱۳، بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۲۰۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵؛ مسعودی، مروج‌الذهب، ج۳، ص۲۵۹</ref>
ابن زیاد کے حکم پر عمر سعد نے اپنی فوج کے دس سپاہیوں کے ذریعے امام حسینؑ اور ان کے با وفا اصحاب کے جنازوں پر گھوڑے دوڑائے گئے جس سے شہداء کے جنازے پایمال ہو گئے۔<ref> الإرشاد، المفید ،ج‏۲،ص۱۱۳، بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۲۰۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵؛ مسعودی، مروج‌الذهب، ج۳، ص۲۵۹</ref>


[[اسحاق بن حویہ]]<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۲۰۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵.</ref>، اخنس بن مرثد<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵؛ ابن طاوس، لہوف، ص۱۳۵.</ref> حکیم بن طفیل، عمرو بن صبیح، رجاء بن منقذ عبدی، سالم بن خیثمہ جعفی، واحظ بن ناعم، صالح بن وہب جعفی، ہانی بن ثبیت حضرمی اور اسید بن مالک <ref> ابن طاوس، لهوف، ص۱۳۵.</ref> ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے شہداء کے بدن پر گھوڑے دوڑائے۔
[[اسحاق بن حویہ]]<ref>بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۲۰۴؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵.</ref>، اخنس بن مرثد<ref> طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۵؛ ابن طاوس، لہوف، ص۱۳۵.</ref> حکیم بن طفیل، عمرو بن صبیح، رجاء بن منقذ عبدی، سالم بن خیثمہ جعفی، واحظ بن ناعم، صالح بن وہب جعفی، ہانی بن ثبیت حضرمی اور اسید بن مالک <ref> ابن طاوس، لهوف، ص۱۳۵.</ref> ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے شہداء کے بدن پر گھوڑے دوڑائے۔


=== شہداء کے سروں کی کوفہ اور شام بھیجوانا ===
=== شہداء کے سروں کی کوفہ اور شام بھیجوانا ===
عمر بن سعد نے اسی دن امام حسین(ع) کے سر مبارک کو [[خولی بن یزید اصبحی|خولی]] اور [[حمید بن مسلم ازدی|حمید ابن مسلم]] کے ساتھ کوفہ [[عبیداللہ بن زیاد]] کے پاس بھیج دیا۔ اسی طرح اس نے اپنی سپاہیوں کو دیگر شہداء کے سروں کو بھی ان کے جسم سے جدا کرنے کا حکم دیا اور اس سب کو جن کی تعداد 72 تھیں، [[شمر بن ذی الجوشن]]، [[قیس بن اشعث]]، [[عمرو بن حجاج]] اور [[عزره بن قیس]] کے ساتھ کوفہ روانہ کیا۔<ref> بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۴۱۱؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۶؛ مسعودی، مروج‌الذہب، ج۳، ص۲۵۹.</ref>
عمر بن سعد نے اسی دن امام حسینؑ کے سر مبارک کو [[خولی بن یزید اصبحی|خولی]] اور [[حمید بن مسلم ازدی|حمید ابن مسلم]] کے ساتھ کوفہ [[عبیداللہ بن زیاد]] کے پاس بھیج دیا۔ اسی طرح اس نے اپنی سپاہیوں کو دیگر شہداء کے سروں کو بھی ان کے جسم سے جدا کرنے کا حکم دیا اور اس سب کو جن کی تعداد 72 تھیں، [[شمر بن ذی الجوشن]]، [[قیس بن اشعث]]، [[عمرو بن حجاج]] اور [[عزره بن قیس]] کے ساتھ کوفہ روانہ کیا۔<ref> بلاذری، انساب‌الاشراف، ج۳، ص۴۱۱؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ج۵، ص۴۵۶؛ مسعودی، مروج‌الذہب، ج۳، ص۲۵۹.</ref>


===اہل حرم کی اسیری ===
===اہل حرم کی اسیری ===
واقعہ عاشورا کے دن [[علی بن حسین|امام زین العابدین(ع)]] سخت بیمار تھے۔ اسی وجہ سے آپ جنگ میں شرکت نہ کر سکے یوں مردوں میں سے صرف آپ زندہ بچ گئے اور [[زینب کبری|حضرت زینب(س)]] سمیت اہل حرم کے دوسرے افراد کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔  عمر بن سعد اور اسکے سپاہی  اسرا کو کوفہ میں [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کے پاس لے گئے پھر وہاں سے انہیں [[یزید بن معاویہ]] کے پاس شام میں لے جایا گیا۔
واقعہ عاشورا کے دن [[علی بن حسین|امام زین العابدینؑ]] سخت بیمار تھے۔ اسی وجہ سے آپ جنگ میں شرکت نہ کر سکے یوں مردوں میں سے صرف آپ زندہ بچ گئے اور [[زینب کبری|حضرت زینب(س)]] سمیت اہل حرم کے دوسرے افراد کے ساتھ دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوئے۔  عمر بن سعد اور اسکے سپاہی  اسرا کو کوفہ میں [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کے پاس لے گئے پھر وہاں سے انہیں [[یزید بن معاویہ]] کے پاس شام میں لے جایا گیا۔


=== شہدائے عاشورا کی تدفین ===
=== شہدائے عاشورا کی تدفین ===
مؤرخین کے مطابق  [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کے [[کربلائے معلی|کربلا]] سے چلے جانے کے بعد شہداء کو 11 [[محرم الحرام]] کے دن  دفن کیا گیا؛<ref>محمد بن جریرالطبری، التاریخ، ج5، ص455؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص63 ۔</ref> جبکہ بعض مورخین کے مطابق 13 [[محرم الحرام|محرم]]<ref>المقرم، مقتل الحسین(ع)، ص319۔</ref> شہداء کی تدفین کا دن ہے۔ [[اہل سنت|سنی]] مؤرخین کا اتفاق ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] اور آپ کے اصحاب کو 11 [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کے دن سپرد خاک کیا گیا ہے۔<ref>سید بن طاوس؛ اللہوف علی قتلی الطفوف، ص107۔</ref>
مؤرخین کے مطابق  [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کے [[کربلائے معلی|کربلا]] سے چلے جانے کے بعد شہداء کو 11 [[محرم الحرام]] کے دن  دفن کیا گیا؛<ref>محمد بن جریرالطبری، التاریخ، ج5، ص455؛ المسعودی، مروج الذہب، ج3، ص63 ۔</ref> جبکہ بعض مورخین کے مطابق 13 [[محرم الحرام|محرم]]<ref>المقرم، مقتل الحسینؑ، ص319۔</ref> شہداء کی تدفین کا دن ہے۔ [[اہل سنت|سنی]] مؤرخین کا اتفاق ہے کہ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور آپ کے اصحاب کو 11 [[محرم الحرام|محرم]] سنہ 61 ہجری کے دن سپرد خاک کیا گیا ہے۔<ref>سید بن طاوس؛ اللہوف علی قتلی الطفوف، ص107۔</ref>
== متعلقہ صفحات ==
== متعلقہ صفحات ==
{{ستون آ|3}}
{{ستون آ|3}}
سطر 391: سطر 391:
* ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، ج۸، بیروت: دارالفکر، ۱۹۸۶.
* ابن کثیر، ابوالفداء اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، ج۸، بیروت: دارالفکر، ۱۹۸۶.
* اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، ج۱، تبریز: مکتبۃ بنی ہاشمی، ۱۳۸۱ق.
* اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمہ، ج۱، تبریز: مکتبۃ بنی ہاشمی، ۱۳۸۱ق.
* ازدی، ابومخنف، مقتل الحسین(ع)، تحقیق و تعلیق حسین الغفاری، قم: مطبعۃ العلمیہ، بی‌تا.
* ازدی، ابومخنف، مقتل الحسینؑ، تحقیق و تعلیق حسین الغفاری، قم: مطبعۃ العلمیہ، بی‌تا.
* اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت: دارالمعرفہ، بی‌تا.
* اصفہانی، ابوالفرج، مقاتل الطالبیین، تحقیق احمد صقر، بیروت: دارالمعرفہ، بی‌تا.
* بغدادی، صفی الدین عبدالمؤمن، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنۃ و البقاع، ج۱، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت: دارالمعرفہ، ۱۹۵۴.
* بغدادی، صفی الدین عبدالمؤمن، مراصد الاطلاع علی اسماء الامکنۃ و البقاع، ج۱، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت: دارالمعرفہ، ۱۹۵۴.
سطر 397: سطر 397:
* جعفریان، رسول، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، ۱۳۹۱.
* جعفریان، رسول، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، ۱۳۹۱.
* حلی، ابن نما، مثیرالاحزان، قم: مدرسہ امام مہدی (عج)، ۱۴۰۶.
* حلی، ابن نما، مثیرالاحزان، قم: مدرسہ امام مہدی (عج)، ۱۴۰۶.
* خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین(ع)، ج۱، تحقیق و تعلیق محمد السماوی، قم: مکتبۃ المفید، بی‌تا.
* خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسینؑ، ج۱، تحقیق و تعلیق محمد السماوی، قم: مکتبۃ المفید، بی‌تا.
* دینوری، ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، تحقیق علی شیری، بیروت: دارالأضواء، ۱۹۹۰.
* دینوری، ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، تحقیق علی شیری، بیروت: دارالأضواء، ۱۹۹۰.
* دینوری، احمد بن داوود، الاخبارالطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم: منشورات رضی، ۱۳۶۸ش.
* دینوری، احمد بن داوود، الاخبارالطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر مراجعہ جمال الدین شیال، قم: منشورات رضی، ۱۳۶۸ش.
* سماوی، محمد، ابصارالعین فی انصار الحسین(ع)، تحقیق: محمد جعفرالطبسی، مرکز الدراسات الاسلامیہ لممثلی الولی الفقیہ فی حرس الثورۃ الاسلامیہ.
* سماوی، محمد، ابصارالعین فی انصار الحسینؑ، تحقیق: محمد جعفرالطبسی، مرکز الدراسات الاسلامیہ لممثلی الولی الفقیہ فی حرس الثورۃ الاسلامیہ.
* سید بن طاووس، علی بن موسی، اللہوف، جہان، تہران، ۱۳۴۸ش.
* سید بن طاووس، علی بن موسی، اللہوف، جہان، تہران، ۱۳۴۸ش.
* شیخ طوسی، شیخ محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختلف من الاخبار، بیروت، دارالصعب ـ دارالتعارف، ۱۴۰۱ق.
* شیخ طوسی، شیخ محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختلف من الاخبار، بیروت، دارالصعب ـ دارالتعارف، ۱۴۰۱ق.
سطر 412: سطر 412:
* مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم: دارالہجرہ، ۱۴۰۹.
* مسعودی، علی بن الحسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم: دارالہجرہ، ۱۴۰۹.
* ابن مسکویہ، ابوعلی، تجارب الامم، ج۲، تحقیق ابوالقاسم امامی، تہران: سروش، ۱۳۷۹ش.
* ابن مسکویہ، ابوعلی، تجارب الامم، ج۲، تحقیق ابوالقاسم امامی، تہران: سروش، ۱۳۷۹ش.
* موسوی مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسین(ع)، بیروت: دارالکتاب الاسلامیہ.
* موسوی مقرم، عبدالرزاق، مقتل الحسینؑ، بیروت: دارالکتاب الاسلامیہ.
* نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، تحقیق و تصحیح: گروہ پژوہش مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، بیروت، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، ۱۴۰۸ق.
* نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، تحقیق و تصحیح: گروہ پژوہش مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، بیروت، مؤسسہ آل البیت علیہم السلام‌، ۱۴۰۸ق.
* یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج۲، بیروت:‌دار صادر، بی‌تا.
* یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج۲، بیروت:‌دار صادر، بی‌تا.
گمنام صارف