"واقعہ کربلا" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←عمر بن سعد کے ساتھ امام حسین(ع) کی آخری مذاکرات
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 223: | سطر 223: | ||
=== عمر بن سعد کے ساتھ امام حسین(ع) کی آخری مذاکرات === | === عمر بن سعد کے ساتھ امام حسین(ع) کی آخری مذاکرات === | ||
[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کی لشکرگاہ میں پےدرپے لشکروں کی آمد کے بعد [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] | [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کی لشکرگاہ میں پےدرپے لشکروں کی آمد کے بعد [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] عمرو بن قرظہ انصارى کو [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کے پاس روانہ کیا اور اس کو کہلا بھیجا کہ "میں آج دو لشکرگاہوں کے درمیانی نقطے پر تم سے ملنے، آؤں گا"، [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] دونوں بیس بیس سواروں کے ہمراہ مقررہ مقام پر حاضر ہوئے۔ [[امام حسین علیہ السلام|امام حسین(ع)]] نے بھائی [[حضرت عباس علیہ السلام|ابوالفضل العباس]] اور بیٹے [[حضرت علی اکبر علیہ السلام|علی اکبر(ع)]] کے سوا باقی اصحاب کو حکم دیا کہ کچھ فاصلے پر جاکر کھڑے ہوجائیں۔ [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] نے بھی بیٹے [[حفص بن عمر سعد|حفص]] اور اپنے غلام کو قریب رکھا اور باقی افراد کو پیچھے ہٹا دیا۔ اس ملاقات میں [[امام حسین علیہ السلام|امام(ع)]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] سے فرمایا: "۔۔۔ اس غلط خیال اور غیر صواب خیالات اور منصوبوں کو نظر انداز کرو اور ایسی راہ اختیار کرو جس میں تمہاری دنیا اور اخرت کی خیر و صلاح ہو۔۔۔"۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص413؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ج5، صص92-93؛ ابوعلی مسکویه، تجارب الامم، ج2، صص70-71 و الخوارزمی، وہی ماخذ، ص245۔</ref> [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر]] نہ مانا۔ [[امام حسین علیہ السلام|امام]](ع) جب یہ حالت دیکھی تو اپنے خیام کی طرف واپسی اختیار کی جبکہ فرما رہے تھے: "خدا تمہیں ہلاک کردے اور قیامت کے دن تمہیں نہ بخشے؛ مجھے امید ہے کہ اللہ کے فضل سے، تم [[عراق]] کی گندم نہ کھا سکوگے"۔<ref>الخوارزمی، وہی ماخذ، ص245 و با اختلاف در مسکویه، وہی ماخذ، صص71-72۔</ref> | ||
[[امام حسین علیہ السلام|امام]](ع) اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ تین یا چار مرتبہ دہرایا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص414 و مسکویه، وہی ماخذ، ص71۔</ref> | [[امام حسین علیہ السلام|امام]](ع) اور [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|ابن سعد]] کے درمیان مذاکرات کا یہ سلسلہ تین یا چار مرتبہ دہرایا گیا۔<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص414 و مسکویه، وہی ماخذ، ص71۔</ref> | ||
سطر 256: | سطر 256: | ||
"یزید کی سیرت وہی فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون اپنی رعیت میں یزید سے زیادہ عادل اور اپنے خاص و عام کے درمیان زيادہ منصف تھا"۔<ref>علی بن الحسین مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ص68۔</ref> "اس نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں امام حسین(ع) اور اہل بیت رسول(ص) کو قتل کیا؛ اور دوسرے سال اس نے حرم رسول خدا(ص) (مدینہ) کی حرمت شکنی کی اور اس کو تین دن تک اپنے لشکریوں کے لئے حلال قرار دیا۔ اور تیسرے برس اس نے کعبہ کو جارحیت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا اور اس کو نذر آتش کیا"۔<ref>تاریخ الیعقوبی، سابقہ ماخذ، ص253 و ابن الطقطقی؛ الفخری فی الآداب السلطانیه و الدول الاسلامیہ، ص116۔سبط بن جوزی کا لکھتا ہے: ایسے شخص کی حکومت کے بارے میں کیا کہوگے جس نے اپنی حکومت کے پہلے سال امام حسین(ع) کو قتل کیا، دوسرے سال مدینہ کو دہشت کا نشانہ بنایا اور اسے اپنے سپاہیوں کے لئے حلال کیا اور تیسرے سال کعبہ کو منجنیقوں کے ذریعے سنگ باری کا نشانہ بنا کر ویراں کیا۔ حوالہ از عبدالحسین امینی، الغدير، ج 1، ص 248۔</ref> یزیدی حکومت کے ان رویوں سے بھی واضح ہے کہ امام حسین(ع) کی طرف سے یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی حکایت ایک افسانہ ہے۔ | "یزید کی سیرت وہی فرعون کی سیرت تھی بلکہ فرعون اپنی رعیت میں یزید سے زیادہ عادل اور اپنے خاص و عام کے درمیان زيادہ منصف تھا"۔<ref>علی بن الحسین مسعودی، مروج الذہب و معادن الجوہر، ص68۔</ref> "اس نے اپنی حکومت کے پہلے سال میں امام حسین(ع) اور اہل بیت رسول(ص) کو قتل کیا؛ اور دوسرے سال اس نے حرم رسول خدا(ص) (مدینہ) کی حرمت شکنی کی اور اس کو تین دن تک اپنے لشکریوں کے لئے حلال قرار دیا۔ اور تیسرے برس اس نے کعبہ کو جارحیت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا اور اس کو نذر آتش کیا"۔<ref>تاریخ الیعقوبی، سابقہ ماخذ، ص253 و ابن الطقطقی؛ الفخری فی الآداب السلطانیه و الدول الاسلامیہ، ص116۔سبط بن جوزی کا لکھتا ہے: ایسے شخص کی حکومت کے بارے میں کیا کہوگے جس نے اپنی حکومت کے پہلے سال امام حسین(ع) کو قتل کیا، دوسرے سال مدینہ کو دہشت کا نشانہ بنایا اور اسے اپنے سپاہیوں کے لئے حلال کیا اور تیسرے سال کعبہ کو منجنیقوں کے ذریعے سنگ باری کا نشانہ بنا کر ویراں کیا۔ حوالہ از عبدالحسین امینی، الغدير، ج 1، ص 248۔</ref> یزیدی حکومت کے ان رویوں سے بھی واضح ہے کہ امام حسین(ع) کی طرف سے یزید کے پاس جانے اور اس کے ہاتھ کے ہاتھ میں ہاتھ رکھنے کی حکایت ایک افسانہ ہے۔ | ||
=== روز تاسوعا === | === روز تاسوعا === | ||
[[9 محرم ]] سنہ 61 ہجری کی شام کو [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کا حکم لے کر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کے پاس [[کربلا]] پہنچا اور حکم نامہ عمر سعد کے حوالے کیا۔<ref>ابن سعد؛ الطبقات الکبری، خامسه1، ص466؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص94 و ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔</ref>[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے کہا: میں خود اپنی ذمہ داری نبھا لوں گا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویہ، وہی ماخذ، ص73 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref> | [[9 محرم ]] سنہ 61 ہجری کی شام کو [[شمر بن ذی الجوشن|شمر]] [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کا حکم لے کر [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر سعد]] کے پاس [[کربلا]] پہنچا اور حکم نامہ عمر سعد کے حوالے کیا۔<ref>ابن سعد؛ الطبقات الکبری، خامسه1، ص466؛ ابن اعثم، وہی ماخذ، ص94 و ابن شهرآشوب؛ مناقب آل ابیطالب، ج4، ص98۔</ref>[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے کہا: میں خود اپنی ذمہ داری نبھا لوں گا۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویہ، وہی ماخذ، ص73 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص56۔</ref> |