مندرجات کا رخ کریں

"واقعہ کربلا" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 231: سطر 231:
کہا گیا ہے کہ ان ہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے ایک خط میں میں [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کو لکھا:
کہا گیا ہے کہ ان ہی مذاکرات کے ایک دور کے آخر میں [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] نے ایک خط میں میں [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] کو لکھا:


"۔۔۔ [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں؛ یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں؛ یا پھر خود [[یزید]] کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ [(یزید)] ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے!"<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص414؛  شیخ مفید، وہی ماخذ، ص87؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص71 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔</ref>
"... [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) نے میرے ساتھ عہد کیا ہے کہ جہاں سے آئے ہیں وہیں واپس جائیں؛ یا اسلامی ممالک کے کسی سرحدی علاقے میں چلے جائیں اور حقوق و فرائض میں دوسرے مسلمانوں کی مانند ہوں اور مسلمانوں کے فائدے اور نقصان میں شریک ہوں؛ یا پھر خود [[یزید]] کے پاس چلے چلے جائیں تا کہ وہ [(یزید)] ان کے بارے میں فیصلہ دے اور اس فیصلے کو نافذ کرے اور یہی آپ کی خوشنودی کا باعث اور امت کی مصلحت ہے!"<ref>الطبری، وہی ماخذ، ص414؛  شیخ مفید، وہی ماخذ، ص87؛ مسکویه، وہی ماخذ، ص71 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔</ref>


خط [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے پڑھا اور کہا: "یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے!"۔ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ [[شمر بن ذی الجوشن]] ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ رکاوٹ بنا؛ چنانچہ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[شمر بن ذی الجوشن]] کو قریب بلایا اور کہا: "یہ خط [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو پہنچا دو تا کہ وہ [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے؛ اگر عمر سعد جنگ کرے تو اس کی اطاعت کرو اور اگر جنگ سے اجتناب کرے تو [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ [اس کے بعد] سالار قوم تم ہو؛ اس کے بعد [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دو۔"<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص182؛ الطبری، وہی ماخذ، ص414 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویه، وہی ماخذ، صص71-72 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔</ref>
خط [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے پڑھا اور کہا: "یہ اس مرد کا خط ہے جو اپنے امیر کا خیرخواہ اور اپنی قوم پر شفیق ہے!"۔ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] اس تجویز کو قبول ہی کرنے والا تھا کہ [[شمر بن ذی الجوشن]] ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ رکاوٹ بنا؛ چنانچہ [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[شمر بن ذی الجوشن]] کو قریب بلایا اور کہا: "یہ خط [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو پہنچا دو تا کہ وہ [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) اور ان کے اصحاب سے کہہ دے کہ وہ میرے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کریں، اگر وہ قبول کریں تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرے اور اگر قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرے؛ اگر عمر سعد جنگ کرے تو اس کی اطاعت کرو اور اگر جنگ سے اجتناب کرے تو [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) کے ساتھ جنگ کرو کیونکہ [اس کے بعد] سالار قوم تم ہو؛ اس کے بعد [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کا سر قلم کرکے میرے پاس بھیج دو۔"<ref>البلاذری، وہی ماخذ، ص182؛ الطبری، وہی ماخذ، ص414 و شیخ مفید، وہی ماخذ، ص89۔ مسکویه، وہی ماخذ، صص71-72 و ابن اثیر، وہی ماخذ، ص55۔</ref>
سطر 237: سطر 237:
اس کے بعد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:
اس کے بعد [[عبید اللہ بن زیاد|ابن زیاد]] نے [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا:


"۔۔۔ میں نے تمہیں ([[کربلا]]) نہیں بھیجا کہ [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) سے مصالحت کرو یا ان کے ساتھ مسامحت سے کام لو اور ان کے لئے سلامتی اور زندہ رہنے کی آرزو کرو اور میرے ہاں اس کی شفاعت کرو؛ دیکھو اگر [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) اور ان کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور [یزید کی بیعت کرتے ہیں] تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرو اور اگر قبول نہيں کرتے تو ان پر حملہ کرو اور ان کا خون بہاؤ اور ان کے جسموں کا مثلہ کرو کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں؛ جب [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] مارے جائیں تو ان کے سینے اور پشت پر گھوڑے دوڑاؤ کیونکہ وہ سرکش اور اہل ستم ہیں!! اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کام سے موت کو بعد کوئی نقصان پہنچے گا؛ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ اگر میں نے انہیں قتل کیا تو ان کے بےجان جسم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھوں؛ پس اگر تم نے اس حکم کی تعمیل کی تو ہم [یعنی میں اور یزید] تمہیں ایک فرمانبردار شخص کی پاداش دیں گے اور اگر قبول نہیں کرتے ہو تو ہمارے معاملے اور ہمارے لشکر سے دستبردار ہوجاؤ اور لشکر کو [[شمر بن ذی الجوشن]] کی تحویل میں دیدو، ہم نے اس کو اپنے امور کے لئے امیر مقرر کیا۔ والسلام۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، صص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و ابن اعثم، وہی ماخذ، ص93۔ شیخ مفید، وہی ماخذ، صص88۔</ref>
"... میں نے تمہیں ([[کربلا]]) نہیں بھیجا کہ [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) سے مصالحت کرو یا ان کے ساتھ مسامحت سے کام لو اور ان کے لئے سلامتی اور زندہ رہنے کی آرزو کرو اور میرے ہاں اس کی شفاعت کرو؛ دیکھو اگر [[امام حسین علیہ السلام|حسین بن علی]](ع) اور ان کے ساتھی میرے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں اور [یزید کی بیعت کرتے ہیں] تو انہیں صحیح سلامت میرے پاس روانہ کرو اور اگر قبول نہيں کرتے تو ان پر حملہ کرو اور ان کا خون بہاؤ اور ان کے جسموں کا مثلہ کرو کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں؛ جب [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] مارے جائیں تو ان کے سینے اور پشت پر گھوڑے دوڑاؤ کیونکہ وہ سرکش اور اہل ستم ہیں!! اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کام سے موت کو بعد کوئی نقصان پہنچے گا؛ لیکن میں نے عہد کیا ہے کہ اگر میں نے انہیں قتل کیا تو ان کے بےجان جسم کے ساتھ یہی سلوک روا رکھوں؛ پس اگر تم نے اس حکم کی تعمیل کی تو ہم [یعنی میں اور یزید] تمہیں ایک فرمانبردار شخص کی پاداش دیں گے اور اگر قبول نہیں کرتے ہو تو ہمارے معاملے اور ہمارے لشکر سے دستبردار ہوجاؤ اور لشکر کو [[شمر بن ذی الجوشن]] کی تحویل میں دیدو، ہم نے اس کو اپنے امور کے لئے امیر مقرر کیا۔ والسلام۔<ref>البلاذری، وہی ماخذ، صص183؛ الطبری، وہی ماخذ، ص415 و ابن اعثم، وہی ماخذ، ص93۔ شیخ مفید، وہی ماخذ، صص88۔</ref>


'''حقیقت کیا ہے'''
'''حقیقت کیا ہے'''
confirmed، templateeditor
8,935

ترامیم