نظر بد
نظر بد، سے مراد وہ منفی اثرات ہیں جو کسی انسان کے دیکھنے کی وجہ سے دوسرے انسان یا دیگر موجوات پر مترتب ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں واضح الفاظ میں اس کی تصریح ہوئی ہے اور مفسرین کے بقول آیت و ان یکاد نظر بد کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ روایات میں بھی اس کی حقیقت اور اس کی روک تھام کا طریقہ کار بیان ہوا ہے۔ معوذتین، سورہ حمد، آیت الکرسی اور آیت «و إن یکاد» کا پڑھنا؛ نظر بد سے بچنے کیلئے مؤثر ہے۔
نظر بد کا تصور عوام میں مشہور ہے اور بعض مقامات پر نظر بد سے بچاؤ کیلئے انڈے توڑنا یا ہرمل کا دھواں دینا، حرز، تعویذ اور چاروں قل پر مشتمل زیورات یا دھاتی اشیا کا دیوار پر لٹکانا رسم ہے اور اسے نظر بد سے بچنے کے لیے موثر سمجھا جاتا ہے۔
نظرِ بد کا مفہوم
نظرِ بد وہ منفی اثر ہے جو بعض افراد کی نگاہوں کے ذریعے دوسرے انسان یا جانور یا کسی بھی چیز کی طرف منتقل ہوتا ہے۔[1] نظر بد ایک غیر اختیاری حالت ہے جو خوشی، کامیابی، خوبصورتی یا داد و تحسین کے موقع پر حسد کے باعث ایجاد ہوتی ہے اور بعض کے نزدیک نظر بد کی تاثیر نفسیاتی قوت کی وجہ سے ہے۔ [2] نظر بد کا حسد سے گہرا تعلق ہے۔ [3] بعض روایات میں حسد کو نظر بد کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے۔ [4] علامہ مجلسیؒ کا کہنا ہے کہ بعض مفسرین کے مطابق سورہ فلق کی پانچویں آیت کہ جس میں حاسدین کے حسد کا ذکر ہے؛ نظرِ بد کے بارے میں ہے۔ [5]
نظر بد کی حقیقت
قرآن
نظر بد کا لفظ قرآن میں نہیں آیا ہے۔ مگر بہت سارے مفسرین آیۂ شریفہ:«وَإِن یکادُ الَّذِینَ کفَرُوا لَیزْلِقُونَک بِأَبْصَارِہمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکرَ وَیقُولُونَ إِنَّہ لَمَجْنُونٌ»[6] کی تفسیر نظر بد سے کرتے ہیں[7] اور اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہتے ہیں کہ مشرکین نے نظرِ بد کے حامل کسی شخص کو ڈھونڈا تاکہ وہ پیغمبر اکرمؐ کو نظر لگا دے لیکن جب اس شخص نے نظر بد لگانے کا ارادہ کیا تو جبرئیل امین آیت و ان یکاد لے کر نازل ہوئے اور اس کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ نظر بد سے محفوظ رہے۔ البتہ بعض دوسرے مفسرین نے «اَزْلاق» کو نظر بد کے معنی میں نہیں لیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ «ازلاق» لغت میں دشمنی اور تندی سے کسی کی طرف دیکھنے کو کہا جاتا ہے اور پیغمبر اکرمؐ کے بارے میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔[8]
اسی طرح بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ سورہ یوسف کی آیت نمبر 67 نظر بد کے بارے میں ہے اور آیت «وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِن بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَة»[9] کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ حضرت یعقوبؑ کے بیٹے حسین، کثیر اور باوقار تھے اور حضرت یعقوبؑ نے نظرِ بد لگنے کے سے انہیں کہا تھا کہ مصر میں داخل ہوتے وقت مختلف دروازوں سے داخل ہوں۔[10] البتہ شیخ طوسیؒ نے ایک اور قول کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ بعض نے نظر بد کے قرآن میں مذکور ہونے کا انکار کیا ہے جبکہ حضرت یعقوبؑ کی اپنے بیٹوں کیلئے نصیحت کا بعض دیگر اسباب جیسے حکومتی اہلکاروں کا خوف وغیرہ؛ پر حمل کیا ہے۔[11] دوسری طرف آیت اللہ معرفت نے نظر بد سے بچاؤ کے لیے اس کے بعد والی آیت کہ جس میں ارشاد ہوتا ہے: ’’یعقوب کی تدبیر کارآمد نہیں ہوئی‘‘ کو مفید قرار دیا ہے۔[12]
روایات
فریقین کی روایات کے مطابق نظر بد ایک حقیقت ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اگر قضا و قدر سے کوئی چیز سبقت لے سکتی تو وہ نظر بد ہے۔ [13] شیعہ ائمہؑ سے منقول روایات میں نظر بد کی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے اور اس سے روک تھام کے طریقے بھی بیان ہوئے ہیں۔[14]
علمی نظریہ
خواجہ نصیرالدین طوسی شرح اشارات میں کہتے ہیں کہ ابن سینا نے نظر بد کو ظنی امور میں سے قرار دیا ہے؛[15] ملاصدرا کے بقول بعض نفوس وہمی طاقت میں اس قدر ترقی کر جاتے ہیں کہ وہ طبیعیات پر بھی اثرانداز ہو سکتے ہیں اور نظر بد اسی باب سے ہے۔ [16]اسی طرح بعض مفکرین کا کہنا ہے کہ آنکھوں میں ایسی مقناطیسی کشش ہوتی ہے کہ جسے ریاضت کے ذریعے پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
قضا و قدر سے رابطہ
بعض لوگ نظر بد کو قضا و قدر اور توکل کے منافی سمجھتے ہیں [17] اور اس پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں اور ان کے جوابات بھی دئیے گئے ہیں۔[18] بعض شیعہ علما کے مطابق نظر بد کا اللہ کی قدرت سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے کیونکہ نظرِ بد کی تاثیر اللہ کے اذن سے ہے؛ جیسا کہ قرآن کریم کی فرماتا ہے: « وَمَا هُم بِضَآرِّينَ بِهِۦ مِنۡ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذۡنِ ٱللَّهِ »[19] ترجمہ: ’’حالانکہ اذنِ خدا کے بغیر وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔ اسی طرح علمائے شیعہ اس حدیث کا مبالغہ پر حمل کرتے ہیں کہ جس میں نظر بد کو قضا و قدر کہا گیا ہے؛ [20] اس کی وجہ بھی بعض وہ احادیث ہیں جو نظر بد کی تائید میں وارد ہوئی ہیں اور ان میں کہا گیا ہے کہ نظر بد مرد کو قبر میں اور اونٹ کو دیگ میں پہنچاتی ہے۔ »[21] اور «اگر قبروں کو کھولا جائے تو معلوم ہوگا کہ اکثر مردے نظر بد کی وجہ سے موت کے منہ میں گئے ہیں۔»[22]
فقہی حکم
شیعہ فقہی کتابوں میں نظر بد پر کوئی بحث نہیں کی گئی کیونکہ جو روایات حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں وہ فقہی احکام کے معیارِ استنباط پر پورا نہیں اترتیں۔ البتہ ایک قول کے مطابق شمالی افریقہ میں اگر یہ ثابت ہوجائے کہ فلاں نے نظر بد سے کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو وہ اس کی تلافی کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح ایک قول یہ ہے کہ اہل سنت کے بعض فقہا ان لوگوں کے بارے میں بعض احکام صادر کرتے تھے جو نظرِ بد لگانے میں مشہور ہوتے تھے؛ مثلا اسے لوگوں کے ساتھ عام میل ملاپ سے روکا جائے، اسے گھر میں نظر بند کر دیا جائے اور اس کے گھریلو اخراجات بیت المال سے ادا کیے جائیں۔[23]
نظر بد سے بچاؤ
نظر بد سے بچنے کے لئے تعویذ اور حرز سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ [24] شیعہ ائمہ سے منقول بعض دعاؤں میں نظر بد سے امان کی دعا موجود ہے۔ صحیفہ سجادیہ کی تئیسویں دعا میں امام زین العابدینؑ نے ایک دعا نظرِ بد سے امان کیلئے بھی کی ہے۔[25]
شیعہ روایات میں نظر بد سے محفوظ رہنے کے لیے سورتین معوذتین، آیت الکرسی اور آیت و ان یکاد پڑھنے کی تلقین ملتی ہے۔ امام رضاؑ سے منقول ایک روایت کے مطابق نظر بد سے محفوظ رہنے کے لئے سورہ حمد اور معوذتین کی تلاوت کرنی چاہئے۔ [26] امام رضاؑ سے منقول ہے کہ نظر بد کو دفع کرنے کے لئے سورہ حمد، معوذتین اور آیت الکرسی کو لکھ کر کسی شیشے (کے برتن) میں ڈال دیں۔[27]
اسی طرح شیعہ ائمہؑ سے منقول ہے کہ جب کبھی کسی چیز کی وجہ سے آپ کو تعجب ہوجائے تو اللہ کا ذکر اپنی زبان پر جاری کرو۔ اور تکبیر، حوقلہ (لاحول و لاقوۃ الا باللہ العلی العظیم) اور ماشاءاللہ جیسے اذکار کا ورد کریں۔[28]
نظر بد دور کرنے کی دعا
بعض دعاؤں کی کتابوں میں نظر بد کے لیے بعض دعائیں ذکر ہوئی ہیں [29] جن میں سے ایک دعا یہ ہے: {{حدیث|«::اللَّہمَّ رَبَّ مَطَرٍ حَابِسٍ وَ حَجَرٍ يَابِسٍ وَ لَيْلٍ دَامِسٍ وَ رَطْبٍ وَ يَابِسٍ رُدَّ عَيْنَ الْعَيْنِ عَلَيْہ فِي كَيْدِہ وَ نَحْرِہ وَ مَالِہ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہلْ تَرىٰ مِنْ فُطُورٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خاسِئاً وَ هوَ حَسِيرٌ»[30]
عوامی تصورات
نظر بد سے بچنے کے لیے مختلف کلچرز میں مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ ایشیا کے بعض علاقوں میں یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ہرمل کا دھواں دینے اور مرغی کا انڈہ توڑنے سے نظر بد کا اثر ختم ہوتا ہے۔[31] ایران میں نظر بد سے بچنے کے لیے خوشی کی محفلوں میں ہرمل کا دھواں دیا جاتا ہے اور لوگوں کے راستے میں اس کا دھواں دیا جاتا ہے۔[32] لیکن دینی کتب میں اس کی تائید پر کوئی روایت نہیں ملتی ہے۔ اسی لئے بعض لوگ اسے خرافات قرار دیتے ہیں۔
ایران میں لوگ نظر بد سے بچنے کے لئے آیت و ان یکاد، آیت الکرسی اور چاروں قل کا فریم لگاتے ہیں یا کسی تختی پر کندہ کر کے گھر کے دروازے پر نصب کرتے ہیں۔ گلے میں ڈالنے کیلئے آیت و ان یکاد، آیت الکرسی، چاروں قل اور دعائے شرف الشمس کے تعویذ یا زیورات عام ملتے ہیں اور اکثر وبیشتر انہیں نظر بد سے محفوظ رہنے کے لیے بچوں کے گلے میں یا کسی جگہ پر لٹکا دیا جاتا ہے۔
بعض لوگ اپنی قیمتی اور نفیس چیزوں کو ان لوگوں کی نظروں سے دور رکھتے ہیں جن کی نظر لگنے کا گمان ہو۔ اسی طرح یہ ایک کہاوت بھی ہے: «چشم بد دور»[33]
بعض لوگ نظر بد سے بچنے کیلئے نیلے رنگ کے کڑے یا ہار بھی استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض مراجع کرام سے جب اس حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کاموں کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
نظر بد اور دیگر ادیان
نظر بد کا عقیدہ اسلام سے پہلے کے ادیان میں بھی موجود ہے۔ ایک قول کے مطابق یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ 99 فیصد اموات نظر بد کی وجہ سے واقع ہوتی ہیں۔[34] جاہلیت کے عرب نظرِ بد کو صرف انسان کی آنکھ کا اثر نہیں سمجھتے تھے اور اسے بعض حیوانات کی نظر کا نتیجہ بھی قرار دیتے تھے [35] اور نظربد سے محفوظ رہنے کے لیے وہ لوگ مختلف طریقے اپناتے تھے۔ مثلا اگر کسی کے اونٹوں کی تعداد 1000 تک پہنچ جاتی تو کسی بہترین اونٹ کی ایک آنکھ ضائع کر دیتے تھے۔[36] البتہ عربوں سے پہلے سامی اور آریایی ہندؤوں میں بھی یہ رسم موجود تھی۔ [37]
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام، مدخل چشمزخم.
- ↑ ملاصدرا، شرح اصول کافی، ج2، ص442.
- ↑ بوی، ص238.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج70، ص248.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج70، ص248
- ↑ سورہ قلم، آیہ 51
- ↑ طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج10، ص91؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج10، ص512؛ رازی، مفاتیح الغیب، 1420ق، ج30، ص619؛ نک: مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج60، ص12
- ↑ طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج10، ص91؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج10، ص512؛ رازی، مفاتیح الغیب، 1420ق، ج30، ص619؛ معرفت، شبہات و ردود، 1388ش، ص231-232.
- ↑ سورہ یوسف، آیہ67.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج5، ص380؛ رازی، مفاتیح الغیب، 1420ق، ج18، ص481
- ↑ طوسی، التبیان، داراحیاء التراث العربی، ج6، ص167
- ↑ معرفت، شبہات و ردود، 1388ش، ص230-231
- ↑ ابن حنبل، ج2، ص319: بہ نقل از دانشنامہ جہان اسلام مدخل چشمزخم، مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج60، ص9، 25-26
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج60، ص25-26.
- ↑ طوسی، شرح اشارات، 1403ق، ج3، ص417: منقول از دانشنامہ جہان اسلام مدخل چشمزخم
- ↑ ملاصدرا، شرح اصول کافی، ج2، ص442.
- ↑ سعدی، ص139؛ نراقی، جامع السعادات، 1387ق، ج3، ص227.
- ↑ مراجعہ کریں: شریف رضی، المجازات النبویہ، 1380ش، ص336-334.
- ↑ سورہ بقرہ، آیت 102.
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج69، ص34-35
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج60، ص25-26
- ↑ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج60، ص25
- ↑ شوکانی، نیل الاوطار، 1973م، ج9، ص110.
- ↑ اسپونر، ص311
- ↑ صحیفہ سجادیہ، 1376ق، ص114.
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ق، ج6، ص503
- ↑ طبرسی، مکارم الاخلاق، 1412ق، ص386؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ق، ج60، ص26.
- ↑ طبرسی، مکارم الاخلاق، 1412ق، ص386؛ کفعمی، المصباح الکبیر، 1405ق، ص220؛ مجلسی، بحارالانوار، ج60، ص26.
- ↑ طبرسی، مکارم اخلاق، 1412ق، ص414-415
- ↑ طبرسی، مکارم اخلاق، 1412ق، ص414-415؛ مجلسی، بحارالانوار، ج92، ص131.
- ↑ بلوکشایی، دایرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ذیل مدخل چشمزخم.
- ↑ مشیری تفرشی، راہہای مختلف فع چشمزخم از نظر عامہ مردم، 1392ش
- ↑ مشیری تفرشی، راہہای مختلف فع چشمزخم از نظر عامہ مردم، 1392ش.
- ↑ واژہہای فرہنگ یہود، 1977م، ص191-192
- ↑ جاحظ، کتاب الحیوان، 1385-1389ق، ج2، ص131-132
- ↑ جاحظ، کتاب الحیوان، 1385-1389ق، ج1، ص17
- ↑ وسترمارک، ص55-58.
مآخذ
- ابن حنبل، مسندالامام احمد بن حنبل، بیروت، دارصادر.
- ابن سینا، الاشارات و التنبیہات مع الشرح لنصرالدین طوسی و شرح الشرح لقطب الدین رازی، تہران، 1403ق.
- امام سجاد، الصحیفہ السجادیہ، قم، دفتر نشر الہادی، 1376ق.
- بلوکشاہی، علی، دائرۃالمعارف بزرگ اسلامی.
- جاحظ، عمرو بن بحر، کتاب الحیوان، چاپ عبدالسلام محمد ہارون، مصر، 1385-1389ق/1965-1969م.
- حییم شختر و دیگران، واژہہای فرہنگ یہود، ترجمہ: منشہ امیر و دیگران، تالآویو، انجمن جوامع یہودی، 1977م.
- سعدی، مصلح بن عبداللہ، بوستان سعدی، چاپ غلامحسین یوسفی، تہران، 1363ش.
- شریف رضی، محمد بن حسن، المجازات النبویہ،قم، درالحدیث، 1422ق-1380ش.
- شوکانی، محمد، نیل الاوطار من احادیث سیدالاخیار، شرح منتقی الاخبار، بیروت، 1973م.
- طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، قم، الشریف الرضی، 1412ق/1370ش.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، مقدمہ: محمدجواد بلاغی، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1372ش.
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق: احمد قصیر عاملی، داراحیاء التراث العربی، بیروت.
- فخر رازی، محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، داراحیاء العربی، بیروت، 1420ق.
- کفعمی، ابراہیم بن علی، المصباح الکبیر، قم، دارالرضی، 1405ق.
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاربعہ، 1407ق.
- مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1403ق.
- مشیری تفرشی، منیژہ، راہہای مختلف فع چشمزخم از نظر عامہ مردم، روزنامہ اطلاعات 31 فروردین 1392 شمارہ 25570.
- معرفت، محمد ہادی، شبہات و ردود حول القرآن الکریم، قم، مؤسسۃ التہمید، 1388ش-1430ق.
- ملاصدار، محمد بن ابراہیم، شرح اصول الکافی، تصحیح: محمد خواجوی، تہران، مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرہنگی، 13833ش.
- نراقی، محمدمہدی، جامع السعادات، نجف، چاپ: محمد کلانتر، 1967م/1387ق.(افست بیتا.)
- Bess Allen Donaldson, The wild rue: a study of Muhammadan magic and folklore in Iran, London 1938, repr. New York 1973.
- Edward Westermarck, Pagan survivals in Mohammedan civilisation, Amsterdam 1973.
بیرونی روابط
- منبع مقالہ: دانشنامہ جہان اسلام