محمد محمدی ری شہری

ویکی شیعہ سے
(ری شہری سے رجوع مکرر)
محمد محمدی ری شہری
کوائف
لقبمحمدی ری شہری
تاریخ پیدائش29 اکتوبر 1946ء
آبائی شہررے، تہران
ملکایران
تاریخ/مقام وفاتتہران 21 مارچ 2022ء
دیناسلام
مذہبشیعہ اثنا عشری
پیشہعالم دین
سیاسی کوائف
مناصبمتولی حرم شاہ عبد العظیم حسنی • سربراہ مؤسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث • رکن مجلس خبرگان رہبری • جج و حاکم شرع • وزیر اطلاعات ایران • اٹارنی جنرل • نمایندگی ولی فقیہ در امور حج و زیارت
علمی و دینی معلومات
اساتذہعلی مشکینیمحمد فاضل لنکرانیسید محمد رضا گلپایگانی
تالیفاتدانشنامہ امام علیدانشنامہ امام حسین • کیمیاے محبت
رسمی ویب سائٹپایگاہ رسمی محمد محمدی ری‌شہری


محمد محمدى رے شہری یا محمد محمدی نیک (1946-2022ء) شیعہ عالم دین، حدیث شناس، حرم شاہ عبد العظیم حسنی کے متولی، جمہوری اسلامی ایران کے اہم عہدوں پر فائژ رہنے والی شخصیت تھے۔ آپ ایران کی مجلس خبرگان میں تہران کے نمایندہ اور قرآن و حدیث یونیورسٹی کے بانی اور سربراہ تھے۔ میزان الحکمہ آپ کے سب سے مشہور قلمی آثار میں سے ہے۔ اس کے علاوہ بھی متعدد کتابیں احادیث شیعہ کی روشنی میں لکھ چکے ہیں۔ بعض دیگر مجموعے جیسے دانشنامہ امیرالمومنین، دانشنامہ امام حسین، دانشنامہ امام مہدی اور دانشنامہ قرآن و حدیث بھی آپ کی سرپرستی میں لکھے گئے ہیں۔ آپ آیت اللہ میرزا علی مشکینی کے داماد تھے۔

سوانح حیات

محمد محمدى رے شہری سنہ 1946ء کو تہران کے شہر رے میں پیدا ہوئے۔[1] ابتدائی تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے سنہ 1960ء کو حوزہ علمیہ شہر رے کے مدرسہ برہان میں داخلہ لیا۔[2] اور سنہ 1961ء کو اعلی تعلیم کے حصول کے لئے حوزہ علمیہ قم گئے اور سید محمد بہشتی اور ربانی شیرازی کی زیر نگرانی مدرسہ گلپایگانی میں داخلہ لیا۔[3] سنہ 1968ء میں فقہ اور اصول کے درس خارج میں شرکت کی۔[4] ان کے کہنے کے مطابق حوزہ علمیہ رے، قم، نجف اور مشہد میں 18 سال حوزوی علوم حاصل کرنے میں مشغول رہے۔[5]

رے شہری کو ایران میں اسلامی انقلاب سے پہلے وہاں کی خفیہ ایجنسی ساواک نے دو مرتبہ گرفتار کیا۔[6] آپ 21 مارچ 2022 کو تہران میں وفات پاگئے۔[7]

اساتذہ

آپ نے محمد علی اراکی اور حسین وحید خراسانی کے پاس علم اصول کا درس خارج نیز میرزا علی مشکینی، جواد تبریزی، سید محمد رضا گلپایگانی اور مرتضی حائری یزدی کے پاس فقہ کا درس خارج پڑھا۔[8] آپ نے سید رضا بہاءالدینی سے نقل روایت کی اجازت حاصل کی۔[حوالہ درکار]


رے شہری اخلاق میں عبدالکریم حامد سے متاثر تھے اور خود کو رجب علی خیاط،[9] آقا حسین فاطمی،[10] محمد تقی بہجت اور سید رضا بہاءالدینی کے شاگرد سمجھتے تھے۔[11]

تألیفات

دانشنامہ امیرالمومنین قرآن و حدیث کی روشنی میں

آپ کی تالیفی اور تحقیقی کتابیں 30 عناوین میں 95 جلدوں پر مشتمل ہیں۔[12] «موسوعہ میزان الحکمہ» (15 جلدیں) « دانشنامہ امیرالمؤمنین» (13 جلدیں) اور دانشنامہ امام حسینؑ(14 جلدیں)[13] آپ کی زیر نگرانی چھپنے والی اہم آثار میں شمار ہوتی ہیں۔[14]

دانشنامہ قرآن و حدیث

آپ کے زیر نگرانی چھپنے والی بعض کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:

  • دانشنامہ قرآن و حدیث

قرآن و حدیث دائرۃ المعارف (انساکلوپیڈیا) جو دینی، اعتقادی، اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی موضوعات پر مشتمل ہے۔ مؤلف نے ان موضوعات کو قرآن اور روایات کی روشنی میں بیان کیا ہے۔[15]

دانشنامہ امام حسین
  • دانشنامہ امام مہدیؑ

اس دائرۃ المعارف (انساکلوپیڈیا) میں آپ نے امام علیؑ کی ولادت سے تشکیل حکومت تک کے دورانیے کو چودہ حصوں میں تقسیم کیا ہے جو 10 جلدوں پر مشتمل ہے۔[16]

  • کیمیائے محبت

یہ کتاب شیخ رجب علی خیاط کی سوانح حیات پر مشتمل ہے جو پانچ حصوں پر مشتمل ہے اور اس کتاب میں ان کے شاگروں کے تاثرات مرتب کئے گئے ہیں۔[17]

  • علم و حکمت در قرآن و حدیث

اس کتاب میں علم اور عقل کی اہمیت اسلامی کی نظر میں کیا ہے اسے آیات اور روایات کی روشنی میں موضوع بندی کے تحت بیان کیا ہے۔[18]

  • مناظرہ در رابطہ با مسائل ایدئولوژیک

اس کتاب میں 12 مناظرے من جملہ رسول اکرمؐ کا کفار قریش سے مناظرہ، امام علیؑ کا کسی یہودی عالم سے مناظرہ اور اس طرح کے دیگر مناظروں پر مشتمل ہے۔[19]

سیاسی اور سماجی عہدے

محمد رے شہری ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد سرگرم عہدے داروں میں سے ہیں۔ دو مرتبہ آپ مجلس خبرگان کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔[20] ایران کے مختلف شہروں میں حاکم شرع اور مختلف عدالتوں کے جج رہ چکے ہیں۔[21] رے شہری سنہ 1989ء میں ایران کے اٹارنی جنرل منتخب ہوئے۔[22] ایران کے سب سے پہلے وزیر اطلاعات بھی رہے ہیں۔[23] آپ کی دیگر سیاسی سرگرمیوں میں نمایندگی ولی فقیہ اور ایرانی حاجیوں کی سرپرستی[24] مجمع تشخیص مصلحت نظام کی رکنیت تھی[25] سنہ1996ء کو رے شہری نے «جمعیت دفاع از ارزشہای انقلاب اسلامی» کے نام سے ایک سیاسی پارٹی تشکیل دی اور خود سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔[26] آپ نے سنہ 1997ء میں ایرانی صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔[27]

رے شہری اپنی عمر کے آخری ایام تک حرم عبدالعظیم حسنی کے متولی[28] اور مؤسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث کے زعیم بھی تھے جس کے ماتحت قرآن و حدیث تحقیقاتی سنٹر اور قرآن و حدیث یونیورسٹی ہیں۔[29]

حوالہ جات

  1. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۱۳.
  2. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۰.
  3. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۲.
  4. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۳۰.
  5. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۳۰.
  6. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۳۹؛ محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۴۳.
  7. آیت‌ اللہ ری‌ شہری بہ دیار باقی شتافت، خبرگزاری شفقنا.
  8. محمدی ری شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۳۰.
  9. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۸.
  10. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۳۰.
  11. محمدی ری شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۲۹.
  12. پروین‌ زاد، «کتاب‌ شناسی حجت‌ الاسلام ری‌ شہری»، ص۲۲.
  13. ری‌ شہری، دانش‌ نامہ امام حسین(ع)، ۱۳۸۸ش، ج۱.
  14. پروین‌زاد، «کتاب‌ شناسی حجت‌ الاسلام ری‌ شہری»، ص۲۲.
  15. «معرفی دانشنامہ قرآن و حدیث»، پایگاہ رسمی محمدی ری‌شہری.
  16. «معرفی دانشنامہ امام مہدی بر پایہ قرآن و حدیث»، پایگاہ رسمی محمدی ری‌شہری.
  17. «معرفی کتاب کیمیای محبت»، پایگاہ رسمی محمدی ری‌شہری.
  18. «معرفی کتاب علم و حکمت در قرآن و حدیث»، پایگاہ رسمی محمدی ری‌شہری.
  19. پروین‌ زاد، «کتاب‌ شناسی حجت‌ الاسلام ری‌ شہری»، ص۲۲.
  20. «اعضای سومین دورہ انتخابات اعضای مجلس خبرگان»، سایت دبیرخانہ مجلس خبرگان رہبری، «اعضای پنجمین دورہ انتخابات اعضای مجلس خبرگان»، سایت دبیرخانہ مجلس خبرگان رہبری.
  21. محمدی ری‌شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۸۴و۸۹.
  22. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۱، ص۸۳.
  23. محمدی ری‌ شہری، خاطرہ‌ہا، ۱۳۸۳ش، ج۳، ص۴۹ و ۵۸.
  24. «انتصاب سرپرست حجاج ایرانی»، پایگاہ اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رہبری.
  25. «اعضای مجمع تشخیص مصلحت نظام»، سایت مجمع تشخیص مصلحت نظام.
  26. مظفری، جریان‌شناسی سیاسی معاصر ایران، زمزم ہدایت، ص ۱۳۶.
  27. «جمعیت دفاع از ارزش‌ہای انقلاب اسلامی»، سایت ہدنا.
  28. «انتصاب تولیت آستان عبدالعظیم الحسنی(ع)»، سایت دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌اللہ خامنہ‌ای.
  29. «مؤسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث»، سایت دارالحدیث.

مآخذ