داڑھی منڈوانا

ویکی شیعہ سے

داڑھی منڈوانا یا حَلق لِحیہ، ان موضوعات میں سے ہے جس کے حرام ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں فقہ میں بحث کی جاتی ہے۔ یہ موضوع پہلی بار ساتویں صدی ہجری میں ایک فقہی مسئلے کی شکل میں مطرح ہوا۔ آٹھویں صدی سے تیرہویں صدی ہجری تک کے فقہاء داڑھی منڈوانے کو حرام سمجھتے تھے؛ لیکن موجودہ دور میں اکثر فقہاء احتیاط واجب کی بنا پر اسے حرام قرار دیتے ہیں۔ آیت اللہ خوئی اور ان کے بعد آنے والے بعض مراجعِ ٹھوڑی پر بال رکھ کر چہرے کے باقی حصوں سے بالوں کو صاف کرنے کو حرام نہیں سمجھتے ہیں۔

بحث کا مبداء اور فقہاء کا نظریہ

داڑھی منڈوانا پہلی بار ساتویں صدی ہجری میں ایک فقہی مسئلے کی شکل میں مطرح ہوا۔ پہلی بار جس فقیہ نے اس کے بارے میں بحث کی وہ یحیی بن سعید حلی تھے جنہوں نے داڑھی منڈوانے کو ایک غیر شائستہ عمل قرار دیا؛ البتہ ان کی یہ بات اس کام کے حرام ہونے پر دلالت نہیں کرتی بلکہ اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں یہ کام مکروہ ہے۔[1]

ایک صدی بعد شہید اول کی تحریروں میں ایسی تعابیر پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ داڑھی منڈوانا ان کے نزدیک حرام تھا؛ لیکن دسویں اور گیارہویں صدی ہجری کے بعد ابن ابی جمہور احسایی، میرد اماد اور شیخ بہایی جیسے فقہاء نے صراحت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا فتوا دیا۔ ان کے بعد حر عاملی، صاحب جواہر اور شیخ انصاری وغیرہ بھی اس کے حرام ہونے کے قائل تھے۔[2]

اکثر معاصر فقہاء صریحا داڑھی منڈوانے کے حرام ہونے کا فتوا نہیں دیتے؛ بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر اسے حرام قرار دیتے ہیں۔[3]

حرام ہونے کی دلیل

فقہی کتابوں میں داڑھی منڈوانے کی حرمت پر مختلف دلائل پیش کئے گئے ہیں لیکن ان میں سے اکثر دلائل پر اشکال اور اعتراض کیا گیا ہے؛[4] اس بنا پر بعض فقہا اس کے حرام ہونے کا فتوا نہیں دیتے؛ لیکن چونکہ داڑھی رکھنا تمام انبیاء اور ائمہ معصومینؑ کی سیرت تھی، اس کے منڈوانے کو احتیاط واجب کی بنا پر حرام قرار دیتے ہیں۔[5]

آبت اللہ خوئی داڑھی منڈوانے کی حرمت پر پیش کردہ دلائل میں سے ایک دلیل کے علاوہ باقی سب پر اشکال کرتے ہیں، ان کے مطابق اس سلسلے میں صرف ایک دلیل معتبر ہے اور وہ امام رضاؑ سے منقول ایک حدیث ہے جس میں داڑھی منڈوانے سے منع کی گئی ہے۔ آیت اللہ خوئی کہتے ہیں کہ تمام متدین افراد کی سیرت بھی اس دلیل کو تقویت دیتی ہے؛[6] ان تمام باتوں کے باوجود آیت اللہ خوئی داڑھی اس کے حرام ہونے کا فتوا نہیں دیا بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر اسے حرام قرار دیتے ہیں۔[7]

داڑھی منڈوانے کی حرمت پر موجود بعض دوسرے دلائل درج ذیل ہیں:

  • قرآن میں حضرت ابراہیم کے دین کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے[8] دوسری طرف سے احادیث میں داڑھی رکھنے کو دین ابراہیم کا حصہ قرا دیا گیا ہے۔[9] اس طرح ان آیات اور روایات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ داڑھی منڈوانا جائز نہیں ہے۔
  • جن احادیث میں "اعفاء لحیۃ" کا حکم دیا گیا ہے ان میں سے بعض میں آیا ہے کہ:‌ "إعفاء لحیۃ" سے مراد داڑھی نہ منڈوانا اور داڑھی رکھنا ہے اس سے یہ نتیجہ لے سکلتے ہیں کہ داڑھی رکھنا واجب ہے۔
  • جن احادیث میں غیر مسلموں کے ساتھ شباہت پیدا کرنے سے منع کی گئی ہے ان میں سے بعض میں آیا ہے کہ: "وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے اپنے آپ کو کفار کا شبیہ بنا دیا ہے؛ خود کو یہودیوں اور مسیحیوں کی طرح مت بناؤ"۔[10] اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ: چونکہ غیر مسلم عموما داڑھی منڈواتے ہیں، داڑھی منڈاونا ان کی شبیہ بننے کے مترادف ہے اس بنا پر یہ کام حرام ہے۔[11]

فرنچ کٹ داڑھی

بعض فقہاء اس بات کے معتقد ہیں کہ لفظ "لحیہ"(داڑھی) صرف ٹھوڑی پر موجود بالوں کو کہا جاتا ہے اور دونوں رخساروں پر موجود بالوں کو داڑھی نہیں کہ جاتا۔ اس بنا پر کہتے ہیں کہ رخساروں پر موجود بالوں کے منڈوانے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے داڑھی کی یہ وہ سٹائل جسے آج کل فرنچ کٹ کہا جاتا ہے، حرام نہیں ہے۔ پہلا فقیہ جس نے ایسا فتوا دیا ہے وہ آیت اللہ خوئی تھے۔ ان کے بعد آنے والے بعض مراجع نے بھی ان کی طرح فتوا دئے ہیں۔[12]

حوالہ جات

  1. بہشتی و واحدجوان، «بررسی ادلّہ قائلين بہ حرمت ريش‌تراشی در ميان فقہای امامیہ»، ص۲۸۔
  2. بہشتی و واحدجوان، «بررسی ادلّہ قائلين بہ حرمت ريش‌تراشی در ميان فقہای امامیہ»، ص۲۸۔
  3. بہشتی و واحدجوان، «بررسی ادلّہ قائلين بہ حرمت ريش‌تراشی در ميان فقہای امامیہ»، ص۲۹؛ ر۔ک: امام ‌خمينى، توضیح المسائل(مُحَشّی)، ۱۴۲۴ق، ج۲، ص۸۳۵۔
  4. نمونہ کے لئے رجوع کریں: خوئی، مصباح الفقاہہ، ج۱، ص۲۵۷-۲۶۰۔
  5. نمونہ کے لئے رجوع کریں: خوئی، مصباح الفقاہہ، ج۱، ص۲۶۱؛ بہشتی و واحدجوان، «بررسی ادلّہ قائلين بہ حرمت ريش‌تراشی در ميان فقہای امامیہ»، ص۴۵۔
  6. خوئی، مصباح الفقاہہ، ج۱، ص۲۶۱۔
  7. خوئی، صراط النجاۃ، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۲۸۴۔
  8. قرآن، سورہ نحل، آیہ ۱۲۳۔
  9. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۰۹ق، ج۲، ص۱۱۷۔
  10. نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ۱۴۱۹ق، ج۵، ص۳۴۶۔
  11. منافی، «بررسى اجمالى ادلہ برخى از مصادیق ریش تراشى»، ص۲۸۵-۲۸۸۔
  12. منافی، «بررسى اجمالى ادلہ برخى از مصادیق ریش تراشى»، ص۲۸۹۔

مآخذ

  • قرآن کریم، ترجمہ فولادوند۔
  • بہشتی، احمد و وحید واحدجوان، «بررسی ادلّہ قائلين بہ حرمت ريش‌تراشی در ميان فقہای امامیہ»، فصلنامہ تخصصی فقہ و مبانی حقوق اسلامی، ش۲۴، ۱۳۹۰ہجری شمسی۔
  • خوئی، سیدابوالقاسم، صراط النجاۃ(المحشی)، تحقیق و تصحیح موسی مفید الدین عاصی عاملی، قم، مکتب نشر المنتخب، چاپ اول، ۱۴۱۶ھ۔
  • خوئی، سیدابوالقاسم، مصباح الفقاہہ، تقریر محمدعلی توحیدی، بی‌جا، بی‌تا۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، تفصیل وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعہ، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ اول، ۱۴۰۹ھ۔
  • منافی، سیدحسین، «بررسى اجمالى ادلہ برخى از مصادیق ریش تراشى»، فصلنامہ فقہ، ش۵۹، ۱۳۸۹ہجری شمسی۔
  • موسوى ‌خمينى، سيدروح اللہ، توضیح المسائل(مُحَشّی)، تحقیق سيدمحمدحسين بنى‌ہاشمى خمينى‌، قم، ‌دفتر انتشارات اسلامى، چاپ ہشتم، ۱۴۲۴ھ۔
  • نمازی شاہرودی، علی، مستدرک سفینۃ البحار، قم، مؤسسہ انتشارات اسلامی، ۱۴۱۹ھ۔