مندرجات کا رخ کریں

"شیطان" کے نسخوں کے درمیان فرق

613 بائٹ کا اضافہ ،  22 جنوری 2019ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 8: سطر 8:
اسلامی تعلیمات کے مطابق شیطان صرف انسان کے دل میں وسوسہ ایجاد کر کے اسے [[گناہ]] کی طرف ترغیب دلاتا ہے اس سے زیادہ اسے انسان پر کوئی قدرت اور تسلط حاصل نہیں ہے بنا براین وہ کسی انسان کو گناہ پر مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ شیطان اور اس کی اطاعت کرنے والے سب کے سب [[جہنم|دوزخ]] میں جائیں گے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق شیطان صرف انسان کے دل میں وسوسہ ایجاد کر کے اسے [[گناہ]] کی طرف ترغیب دلاتا ہے اس سے زیادہ اسے انسان پر کوئی قدرت اور تسلط حاصل نہیں ہے بنا براین وہ کسی انسان کو گناہ پر مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ شیطان اور اس کی اطاعت کرنے والے سب کے سب [[جہنم|دوزخ]] میں جائیں گے۔


==مفہوم‌شناسی==<!--
==لغوی اور اصطلاحی معنی==
شیطان در فرہنگ اسلامی، اسم عام برای ہر موجود منحرف‌کنندہ و سرکش در برابر خداوند است کہ ممکن است انسان باشد یا جن، اما ابلیس، اسم خاص شیطانی است کہ در بہشت بر [[آدم]] [[سجدہ]] نکرد و با شیاطین دیگر، در پی منحرف کردن انسان‌ہاست۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵ش، ج۲۹، ص۱۹۲۔</ref> شیطان در قرآن کریم، دشمن دائمی انسان‌ہا معرفی شدہ کہ برای گمراہی آنہا تلاش می‌کند۔<ref>سورہ زخرف، آیہ ۶۲؛ سورہ یوسف، آیہ ۵؛ سورہ کہف، آیہ ۵۰؛ سورہ اسراء، آیہ ۵۳؛ سورہ بقرہ، آیہ ۱۶۸۔</ref> قلمرو شیطان، ساحت تشریعی دانستہ شدہ، نہ تکوین؛ چرا کہ بنابر آموزہ‌ہای اسلامی، شیطان تنہا می‌تواند انسان را وسوسہ کردہ و بہ [[گناہ]] تشویق کند، بر این اساس، بیش از دعوت کردن بہ گناہ، سلطہ و قدرتی بر انسان ندارد۔<ref>و ما کان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی (سورہ ابراہیم، آیہ ۲۲)۔</ref>
اسلامی تعلیمات میں خدا کے حکم کی نافرمانی اور لوگوں کو منحرف کرنے والے موجود کو شیطان کہا جاتا ہے جو انسان بھی ہو سکتا ہے اور جن بھی۔ لیکن ابلیس اسم خاص ہے اس شیطان کا جس نے بہشت میں [[آدم]] کو [[سجدہ]] کرنے سے انکار کیا تھا اور دوسرے شیاطین کے ساتھ مل کر انسان کو منحرف کرنے کے در پے ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۵ش، ج۲۹، ص۱۹۲۔</ref> قرآن کریم میں شیطان کو انسان کے دائمی دشمن کے طور پر معرفی کیا گیا ہے جو ہمیشہ انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔<ref>سورہ زخرف، آیہ ۶۲؛ سورہ یوسف، آیہ ۵؛ سورہ کہف، آیہ ۵۰؛ سورہ اسراء، آیہ ۵۳؛ سورہ بقرہ، آیہ ۱۶۸۔</ref> شیطان عالم تشریع میں انسان کو گمراہ کر سکتا ہے لیکن عالم تکوین میں اسے انسان پر کوئی تسلط حاصل نہیں ہے؛ کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق شیطان فقط انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکتا ہے اور اسے [[گناہ]] کی ترغیب دے سکتا ہے اور اس سے زیادہ اسے انسان پر کوئی تسلط حاصل نہیں ہے یعنی وہ انسان کو مجبور کر کے ہاتھ پکڑ کر گناہ کی طرف نہیں لے جا سکتا ہے۔<ref>و ما کان لی علیکم من سلطان الا ان دعوتکم فاستجبتم لی (سورہ ابراہیم، آیہ ۲۲)۔</ref>


واژہ شیطان ۸۸ بار در [[قرآن]] آمدہ است؛ ۷۰ بار بہ صورت مفرد، و ۱۸ بار بہ صورت جمع، یعنی شیاطین۔<ref>عسگری، «معناشناسی نوین از واژہ شیطان»، ص۲۱۴۔</ref> لفظ شیطان بہ تعداد لفظ [[ملائکہ]] در قرآن آمدہ است۔<ref>مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۶۱-۶۳؛ واعظ‌زادہ خراسانی، المعجم فی فقہ لغۃ القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۵۸۔</ref> این واژہ در مواردی از جملہ در [[سورہ بقرہ]]، آیہ ۳۶، بہ عنوان نام خاص ابلیس، و در موارد دیگری از جملہ در [[سورہ انعام]]، آیہ ۱۲۱، بہ عنوان لشکریان و پیروان ابلیس بہ کار رفتہ است۔<ref>عسگری، «معناشناسی نوین از واژہ شیطان»، ص۲۱۴۔</ref>
شیطان کا لفظ [[قرآن]] میں 88 بار آیا ہے؛ 70 بار مفرد اور 18 بار جمع یعنی شیاطین کی صورت میں آیا ہے۔<ref>عسگری، «معناشناسی نوین از واژہ شیطان»، ص۲۱۴۔</ref> قرآن میں لفظ شیطان اور لفظ [[ملائکہ]] کی تعداد برابر ذکر ہوا ہے۔<ref>مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۴۱۷ق، ج۶، ص۶۱-۶۳؛ واعظ‌زادہ خراسانی، المعجم فی فقہ لغۃ القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۱، ص۱۵۸۔</ref> یہ لفظ بعض موارد من جملہ [[سورہ بقرہ]] آیت نمبر 36 میں ابلیس کے لئے اسم خاص کے عنوان سے جبکہ بعض دوسرے موارد من جملہ [[سورہ انعام]] کی آیت نمبر 121 میں ابلیس کے لشکروں اور پیروکاروں کے عنوان سے استعمال ہوا ہے۔<ref>عسگری، «معناشناسی نوین از واژہ شیطان»، ص۲۱۴۔</ref>


[[علامہ طباطبایی]] در [[تفسیر المیزان]]، وجود شیطان کہ انسان را بہ سوی شر و معصیت دعوت می‌کند، یکی از ارکان ہستی دانستہ است کہ حاکی از اختیار انسان و سیر او در مسیر کمال است۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۸، ص۳۸۔</ref>
[[علامہ طباطبایی]] [[تفسیر المیزان]] میں شیطان جو انسان کو بدی اور معصیت کی طرف دعوت دیتا ہے، کو کائنات اور ہستی کا ایک رکن قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ شیطان کا وجود ہے جو کمال کے راستے پر گامزن ہونے میں انسان کے مختار ہونے پر دلالت کرتا ہے۔<ref>علامہ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۸، ص۳۸۔</ref>


دربارہ این کہ ماہیت و حقیقت شیطان از [[جن|جنّ]] است یا [[ملائکہ]]، دو دیدگاہ مہم وجود دارد و بیشتر مفسران او را از جنس جن می‌دانند، اما [[ابن عباس|ابن عبّاس]]، [[ابن مسعود]]، قتادہ، [[سعید بن مسیب]]، ابن جریح، ابن انباری، ابن جریر طبری، [[شیخ طوسی]]، بیضاوی و گروہی دیگر، آن را از ملائک دانستہ‌اند۔<ref> شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۱۵۰؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، دار الفکر، ج۱، ص۲۹۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج ۱، ج۱، ص۳۲۱۔</ref>
شیطان کی اصل حقیقت آیا یہ [[جن|جنّات]] میں سے ہے یا [[ملائکہ]] میں سے، قدیم زمانے سے مورد بحث واقع رہی ہے۔ اکثر مفسرین اسے جنّات میں سے قرار دیتے ہیں لیکن [[ابن عباس|ابن عبّاس]]، [[ابن مسعود]]، قتادہ، [[سعید بن مسیب]]، ابن جریح، ابن انباری، ابن جریر طبری، [[شیخ طوسی]] اور بیضاوی وغیرہ اسے ملائک میں سے قرار دتیے ہیں۔<ref> شیخ طوسی، التبیان، بیروت، ج۱، ص۱۵۰؛ بیضاوی، أنوار التنزیل، دار الفکر، ج۱، ص۲۹۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۵ق، مج ۱، ج۱، ص۳۲۱۔</ref>


==ویژگی‌ہا==
==خصوصیات==<!--
در قرآن کریم برخی از اوصاف شیطان بیان شدہ است؛ از جملہ:
در قرآن کریم برخی از اوصاف شیطان بیان شدہ است؛ از جملہ:
{{جعبہ رنگ|عرض=95|رنگ پایین=FBFBFF|رنگ بالا=E8E8FF}}{{ستون-شروع|۳}}
{{جعبہ رنگ|عرض=95|رنگ پایین=FBFBFF|رنگ بالا=E8E8FF}}{{ستون-شروع|۳}}
confirmed، templateeditor
9,292

ترامیم