مندرجات کا رخ کریں

"ابا صلت ہروی" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 34: سطر 34:
آپ کا مشہور لقب "ہرَوی" ہے جسے شیعہ اور اہل سنت دونوں منابع میں ذکر کیا گیا ہے اور ان کے آبائی شہر ہرات سے لیا گیا ہے۔<ref>خطیب‌ بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت،‌دار الکتب العلمیہ، ج ۱۱، ص۴۶،ش ۵۷۲۸؛ الأنساب، ج ۵، ص۶۳۷؛ مزّی‌ شافعی‌، تہذیب‌ الکمال فی أسماء الرجال، ج ۱۱، ص۴۶۰،ش ۴۰۰۳؛ نجاشی، احمدبن علی، رجال النجاشی‌، ص۲۴۵‌،ش ۶۴۳‌.</ref> "قُرشی"، "عَبْشمی"، "نیشابوری"، "بصری" اور "خراسانی" نیز ان کے القابات میں سے ہیں۔
آپ کا مشہور لقب "ہرَوی" ہے جسے شیعہ اور اہل سنت دونوں منابع میں ذکر کیا گیا ہے اور ان کے آبائی شہر ہرات سے لیا گیا ہے۔<ref>خطیب‌ بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت،‌دار الکتب العلمیہ، ج ۱۱، ص۴۶،ش ۵۷۲۸؛ الأنساب، ج ۵، ص۶۳۷؛ مزّی‌ شافعی‌، تہذیب‌ الکمال فی أسماء الرجال، ج ۱۱، ص۴۶۰،ش ۴۰۰۳؛ نجاشی، احمدبن علی، رجال النجاشی‌، ص۲۴۵‌،ش ۶۴۳‌.</ref> "قُرشی"، "عَبْشمی"، "نیشابوری"، "بصری" اور "خراسانی" نیز ان کے القابات میں سے ہیں۔


آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں لیکن ان کے اپنے بقول انہوں نے بچپن سے 30 سال کی عمر تک "سفیان بن عیینہ" (متوفی ۱۹۶ ق) کے پاس رہے ہیں،<ref>نک: سیر اعلام النبلاء، ج۱۱، ص۴۴۸.</ref> اس بناء پر ان کی پیدائش  تقریبا سنہ 160 ہ.ق میں ہوئی ہے۔ ایک روایت کی مطابق ابا صلت [[مدینہ]] پیدا ہوئے۔<ref>اختیار معرفۃ الرجال، ص۶۱۵ ۶۱۶.</ref> اور [[نیشابور]] میں زندگی گزاری ہے۔<ref>تذہیب التہذیب، ج۲، ص۴۵۷.</ref>
آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں لیکن ان کے اپنے بقول انہوں نے بچپن سے 30 سال کی عمر تک "سفیان بن عیینہ" (متوفی ۱۹۶ ق) کے پاس رہے ہیں،<ref>نک: سیر اعلام النبلاء، ج۱۱، ص۴۴۸.</ref> اس بناء پر ان کی پیدائش  تقریبا سنہ 160 ہ.ق میں ہوئی ہے۔ ایک روایت کی مطابق ابا صلت [[مدینہ]] میں پیدا ہوئے۔<ref>اختیار معرفۃ الرجال، ص۶۱۵ ۶۱۶.</ref> اور [[نیشابور]] میں زندگی گزاری ہے۔<ref>تذہیب التہذیب، ج۲، ص۴۵۷.</ref>
آپ [[14 شوال]] سن 136 ہجری قمری‌ کو اس دنیا سے رحلت کر گئے۔<ref>تاریخ بغداد، ج ۱۱‌، ص۵۱‌،ش ۵۷۲۸ و سیر‌ أعلام‌ النبلاء‌، ج ۱۱، ص۴۴۸.</ref>
آپ [[14 شوال]] سن 136 ہجری قمری‌ کو اس دنیا سے رحلت کر گئے۔<ref>تاریخ بغداد، ج ۱۱‌، ص۵۱‌،ش ۵۷۲۸ و سیر‌ أعلام‌ النبلاء‌، ج ۱۱، ص۴۴۸.</ref>


گمنام صارف