مندرجات کا رخ کریں

"آیت تبلیغ" کے نسخوں کے درمیان فرق

(←‏اہم نکات: تمیز کاری)
سطر 65: سطر 65:
آیت متعلقہ پیغام کی اہمیت اور اسکی حساسیت کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ پیغام نہ پہنچانے کی صورت میں کہا جارہا ہے کہ کوئی رسالت کا کام ہی انجام نہیں دیا ہے ۔گویا یہ پیغام قدر و قیمت کے لحاظ سے [[نبوت]] اور [[رسالت]] کے برابر ہے۔ اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا وہ پیغام [[توحید]] ،نبوت، [[قیامت]] کی طرح اعتقادی یا [[نماز]] [[روزہ]] اور [[حج]] جیسے [[فقہ|فقہی]] احکام سے متعلق ہو کیونکہ سورہ مائدہ آخری سورتوں میں سے ہے جو نازل ہوئی ہیں۔ اور ان تمام چیزوں کے احکام اس سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہو چکے تھے اور لوگوں تک پہنچا بھی دیا تھا۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ رسالت کے آخری ایام میں ایک ایسی چیز کا مرحلہ آ چکا تھا کہ جو بہت اہم اور لوگوں کے لئے جدید ہونے کے ساتھ ساتھ خود رسالت کے لیے تکمیل کنندہ کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ چیز  رسول اللہ کے وصال کے بعد امت اسلامی کی رہبری کے مسئلے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔{{حوالہ درکار}}
آیت متعلقہ پیغام کی اہمیت اور اسکی حساسیت کی طرف اشارہ کرتی ہے کیونکہ پیغام نہ پہنچانے کی صورت میں کہا جارہا ہے کہ کوئی رسالت کا کام ہی انجام نہیں دیا ہے ۔گویا یہ پیغام قدر و قیمت کے لحاظ سے [[نبوت]] اور [[رسالت]] کے برابر ہے۔ اور یہ تصور نہیں کیا جا سکتا وہ پیغام [[توحید]] ،نبوت، [[قیامت]] کی طرح اعتقادی یا [[نماز]] [[روزہ]] اور [[حج]] جیسے [[فقہ|فقہی]] احکام سے متعلق ہو کیونکہ سورہ مائدہ آخری سورتوں میں سے ہے جو نازل ہوئی ہیں۔ اور ان تمام چیزوں کے احکام اس سے پہلے پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہو چکے تھے اور لوگوں تک پہنچا بھی دیا تھا۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ رسالت کے آخری ایام میں ایک ایسی چیز کا مرحلہ آ چکا تھا کہ جو بہت اہم اور لوگوں کے لئے جدید ہونے کے ساتھ ساتھ خود رسالت کے لیے تکمیل کنندہ کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ چیز  رسول اللہ کے وصال کے بعد امت اسلامی کی رہبری کے مسئلے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔{{حوالہ درکار}}


==رسول اللہ کی پریشانی==  
==ابلاغ میں رسول اللہ کی پریشانی==  
موضوع کی اہمیت کے پیش نظر رسولخدا ابلاغ ِپیغام سے پریشان تھے۔لیکن خدا نے <font color=green>{{حدیث|'''واللّهُ یعْصِمُکَ مِنَ الناس‌'''}}</font> کے ذریعے اس پریشانی کو دور فرمایا ۔اس بات کے پیش نظر کہ آیت کا شان نزول اہل کتاب اور مشرکان قریش کے متعلق نہیں ہے ،واضح ہوتا ہے کہ آیت تبلیغ میں الناس سے مراد اسلامی معاشرے میں موجود منافقین ہیں اور رسول خدا حضرت علی کی جانشینی کے اعلان کے بعد انکی جانب سے مخالفت کی وجہ سے پریشان تھے کیونکہ :
موضوع کی حساسیت کے پیش نظر رسول خداؐ پیغام پہنچانے میں بہت سے پریشان تھے۔ لیکن اللہ تعالی نے {{قرآن کا متن|واللّهُ یعْصِمُکَ مِنَ الناس‌}} کے وعدے کے  ذریعے اس پریشانی کو دور فرمایا۔{{حوالہ درکار}} اس بات کے پیش نظر کہ آیت کا شان نزول اہل کتاب اور مشرکان قریش کے متعلق نہیں ہے، واضح ہوتا ہے کہ آیت تبلیغ میں «الناس» سے مراد اسلامی معاشرے میں موجود منافقین ہیں۔{{مدرک}}<br />
:*حضرت علی عاطفانہ رویے سے زیر نہ ہونے والے اور ایک قاطع شخص کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ۔<ref>ابوالفتوح رازی، ج۴، ص۲۷۶</ref>
رسول خدا حضرت علی کی جانشینی کے اعلان کے بعد انکی جانب سے مخالفت کی وجہ سے پریشان تھے کیونکہ:
:* نئے  مسلمانوں کے دلوں میں حضرت علی کی نسبت کینہ موجود تھا چونکہ کثر جنگوں میں حضرت علی نے انکے عزیزوں اور اقربا کو قتل کیا تھا ۔
* منافقین اسلامی معاشرے کی ریاست کے لیے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے خواہاں تھے اور دنیا کی نعمتوں کے حصول کو آپ کی جانشینی کے حصول میں دیکھتے تھے۔ اور امام علیؑ کا جانشین بننا ان کی آرزو کے خلاف تھا۔<ref>عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۹۷،۹۹.</ref>
:*حضرت رسول ختمی مرتبت کی وصال کے وقت حضرت کا سن صرف 33 سال تھا ۔ایک ایسا معاشرہ جس میں سن رسیدگی ایک نہایت اہم عامل ہو۔ اس کی موجودگی میں ایک نوجوان کی رہبری کو قبول کرنا اتنا آسان مسئلہ نہیں تھا ۔جبکہ رسول اکرم ؐ نے جنگ تبوک کے موقع پر مدینہ میں حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کرنے اور اپنی عمر کے آخری لمحات میں اسامہ بن زید کو لشکر کا سپہ سالار بنا کر اس کا اظہار کر چکے تھے ۔<ref>طبری،تاریخ طبری،3/186۔ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،1/159۔</ref>
 
:*حضرت علیؑ کی قاطع اور دوسروں سے متاثر نہ ہونے والی شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۸۲-۱۳۸۷ش، ج۴، ص۲۷۶</ref>
* نومسلمانانی که علی (ع) پیش‌تر در جنگ‌ها بستگانشان را به قتل رسانده بود، کینه او را در دل داشتند.{{مدرک}}
:* نئے  مسلمانوں کے دلوں میں حضرت علیؑ کی نسبت کینہ تھا چونکہ اکثر جنگوں میں حضرت علی نے انکے عزیزوں اور اقربا کو قتل کیا تھا۔{{حوالہ درکار}}
 
:*حضرت رسول ختمی مرتبت کی وصال کے وقت حضرت علیؑ کی عمر صرف 33 سال تھی۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں منصب پر پہنچنے کے لیے عمر کا زیادہ ہونا ایک نہایت اہم عامل ہو وہاں پر آپؑ کی رہبری کو قبول کرنا اتنا آسان مسئلہ نہیں تھا۔{{حوالہ درکار}} ۔جبکہ رسول اکرم ؐ نے جنگ تبوک کے موقع پر مدینہ میں حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کرنے اور اپنی عمر کے آخری لمحات میں اسامہ بن زید کو لشکر کا سپہ سالار بنا کر اس کا اظہار کر چکے تھے ۔<ref>طبری،تاریخ طبری،3/186۔ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،1/159۔</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096

ترامیم