confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,096
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (←رسول اللہ کی پریشانی: تمیز کاری) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 66: | سطر 66: | ||
==ابلاغ میں رسول اللہ کی پریشانی== | ==ابلاغ میں رسول اللہ کی پریشانی== | ||
موضوع کی حساسیت کے پیش نظر رسول خداؐ پیغام پہنچانے میں بہت سے پریشان تھے۔ لیکن اللہ تعالی نے {{قرآن کا متن|واللّهُ یعْصِمُکَ مِنَ الناس}} کے وعدے کے ذریعے اس پریشانی کو دور فرمایا۔{{حوالہ درکار}} اس بات کے پیش نظر کہ آیت کا شان نزول اہل کتاب اور مشرکان قریش کے متعلق نہیں ہے، واضح ہوتا ہے کہ آیت تبلیغ میں «الناس» سے مراد اسلامی معاشرے میں موجود منافقین ہیں۔{{ | موضوع کی حساسیت کے پیش نظر رسول خداؐ پیغام پہنچانے میں بہت سے پریشان تھے۔ لیکن اللہ تعالی نے {{قرآن کا متن|واللّهُ یعْصِمُکَ مِنَ الناس}} کے وعدے کے ذریعے اس پریشانی کو دور فرمایا۔{{حوالہ درکار}}اس بات کے پیش نظر کہ آیت کا شان نزول اہل کتاب اور مشرکان قریش کے متعلق نہیں ہے، واضح ہوتا ہے کہ آیت تبلیغ میں «الناس» سے مراد اسلامی معاشرے میں موجود منافقین ہیں۔{{حوالہ درکار}}<br /> | ||
رسول خدا حضرت علی کی جانشینی کے اعلان کے بعد انکی جانب سے مخالفت کی وجہ سے پریشان تھے کیونکہ: | رسول خدا حضرت علی کی جانشینی کے اعلان کے بعد انکی جانب سے مخالفت کی وجہ سے پریشان تھے کیونکہ: | ||
* منافقین اسلامی معاشرے کی ریاست کے لیے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے خواہاں تھے اور دنیا کی نعمتوں کے حصول کو آپ کی جانشینی کے حصول میں دیکھتے تھے۔ اور امام علیؑ کا جانشین بننا ان کی آرزو کے خلاف تھا۔<ref>عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۹۷،۹۹.</ref> | * منافقین اسلامی معاشرے کی ریاست کے لیے پیغمبر اکرمؐ کی جانشینی کے خواہاں تھے اور دنیا کی نعمتوں کے حصول کو آپ کی جانشینی کے حصول میں دیکھتے تھے۔ اور امام علیؑ کا جانشین بننا ان کی آرزو کے خلاف تھا۔<ref>عیاشی، تفسیر العیاشی، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۹۷،۹۹.</ref> | ||
*حضرت علیؑ کی قاطع اور دوسروں سے متاثر نہ ہونے والی شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے تھے ۔<ref>ابوالفتوح رازی، روض الجنان، ۱۳۸۲-۱۳۸۷ش، ج۴، ص۲۷۶</ref> | |||
* نئے مسلمانوں کے دلوں میں حضرت علیؑ کی نسبت کینہ تھا چونکہ اکثر جنگوں میں حضرت علی نے انکے عزیزوں اور اقربا کو قتل کیا تھا۔{{حوالہ درکار}} | |||
*حضرت رسول ختمی مرتبت کی وصال کے وقت حضرت علیؑ کی عمر صرف 33 سال تھی۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں منصب پر پہنچنے کے لیے عمر کا زیادہ ہونا ایک نہایت اہم عامل ہو وہاں پر آپؑ کی رہبری کو قبول کرنا اتنا آسان مسئلہ نہیں تھا۔{{حوالہ درکار}}جبکہ رسول اکرمؐ نے جنگ تبوک کے موقع پر مدینہ میں حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کرنے اور اپنی عمر کے آخری لمحات میں اسامہ بن زید کو لشکر کا سپہ سالار بنا کر اس کا اظہار کر چکے تھے ۔<ref>طبری،تاریخ طبری،3/186۔ابن ابی الحدید،شرح نہج البلاغہ،1/159۔</ref> | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == |