مندرجات کا رخ کریں

"عمرو بن عاص" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 16: سطر 16:
حضرت عثمان کے قتل کے بعد  عمرو عاص معاویہ کے پاس چلا گیا اور اسکے ہمراہ خون عثمان کی خوانخواہی میں شریک ہو گیا اور اس نے اسکی معیت میں جنگ صفین میں شرکت کی ۔معاویہ نے اسے مصر کی باگ ڈور دی ۔مصر کی حکومت کے دوران  عید فطر سال ۴۳ق. کے روز فوت ہوا اور پہاڑ کے دامن میں مقطم نام کے مصری لوگوں کے قبرستان میں دفن ہوا ۔<ref>الطبقات الکبری/ترجمہ،ج‌۷،ص:۵۰۲.</ref>
حضرت عثمان کے قتل کے بعد  عمرو عاص معاویہ کے پاس چلا گیا اور اسکے ہمراہ خون عثمان کی خوانخواہی میں شریک ہو گیا اور اس نے اسکی معیت میں جنگ صفین میں شرکت کی ۔معاویہ نے اسے مصر کی باگ ڈور دی ۔مصر کی حکومت کے دوران  عید فطر سال ۴۳ق. کے روز فوت ہوا اور پہاڑ کے دامن میں مقطم نام کے مصری لوگوں کے قبرستان میں دفن ہوا ۔<ref>الطبقات الکبری/ترجمہ،ج‌۷،ص:۵۰۲.</ref>
==حضرت امام علی(ع) کے خلاف جنگوں میں کردار==
==حضرت امام علی(ع) کے خلاف جنگوں میں کردار==
تاریخ اسلام کے منابع کے مطابق معاویہ اور حضرت علی درمیان نزاع میں عمر بن عاس معاویہ کا مشاور رہا اور بہت سے حیلہ سازیوں اور جنگی نقشے تیار کرتا ۔ان میں سے ایک یہ ہے :جب حضرت عثمان قتل ہوا اور اکثر مسلمانوں کے اصرار پر  حضرت علی نے  خلافت قبول کر لی ۔پس امام نے معاویہ کی طرف بیعت کرنے کا پیغام بھجوایا کہ جس طرح دوسروں نے انکی بیعت کی ہے وہ بھی آپ کی بیعت کرے ۔چونکہ معاویہ اپنی خلافت کے در پے تھا لہذا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور عمرو سے مشورہ کیا۔ عمرو نے اسے کہا :تو علی کی مانند اسلام میں سبقت رکھتے ہو اور نہ تو اسکے مقابلے کی توان رکھتے ہو ۔ اسلئے تمہیں چاہئے کہ پہلے علی کو شامیوں کے سامنے  حضرت عثمان کا قاتل بیان کرو اور پھر خون عثمان کے قصاص کے لئے اٹھ کھڑے ہو ۔اس طرح تمہاری خلافت کا راستہ ہموار ہوگا۔ معاویہ نے اسے قبول کیا اور عمرو کے تیار کردہ نقشے کے مطابق شام میں تبلیغ شروع کی کہ علی عثمان کا قاتل ہے  اور [[پیراہن عثمان]] کے ذرہعے علی سے جنگ کی راہیں ہموار کیں اور اپنی خلافت کیلئے راستہ ہموار کیا ۔ عمرو نے معاویہ سے اس معاونت کے بدلے میں مصر کا والی بنائے جانے  کا عہد لیا تھا ۔ <ref> نک: پیکار صفین/ترجمہ،ص:۶۰؛ دینوری، اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۱۹۴-۱۹۸.</ref>
حضرت علی(ع) نے  معاویہ اور عمرو عاص کے نقشے سے آگاہ ہونے کے بعد انہیں خط لکھا اور خط میں عمرو کو متنبہ کیا معاویہ سے اسکی معاونت اسکے صلاح میں نہیں ہے لیکن  عمرو عاص نے جواب میں لکھا کہ وہ خلافت سے علیحدگی اختیار کرے اور انتخاب خلیفہ کو شورا کے حوالے کر دے ۔ <ref>اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۰۴</ref><br />
<!--
<!--
بنابر منابع تاریخ اسلام، عمرو عاص در ماجرای نزاع معاویه با امام علی(ع)، مشاور معاویه بود و بسیاری از نقشه‌ها و حیله‌های سپاه شام را خود طراحی می‌کرد. از جمله گفته‌اند هنگامی که عثمان کشته شد و علی(ع) به اصرار غالب مسلمانان خلافت را پذیرفت، علی(ع) پیکی سوی معاویه فرستاد و از او خواست تا مانند دیگر مسلمانان بیعت کند. معاویه در پی اعلام خلافت خود بود و بدین رو پاسخی نداد و با عمرو عاص مشورت کرد. عمرو بدو گفت که تو نه سابقه علی در اسلام و نه توانایی رقابت با او را داری. بدین رو ابتدا باید علی را در میان شامیان به عنوان قاتل عثمان معرفی کنی و به خونخواهی عثمان برخیزی و بدین طریق راه را برای ادعای خلافت برای خود باز کنی. معاویه پذیرفت و با نقشه‌ای که با عمرو عاص کشید، در شام تبلیغ کرد که علی(ع) قاتل عثمان است و با [[پیراهن عثمان|بهانه کردن خون]] عثمان زمینه را برای جنگ با علی(ع) و اعلام ادعای خلافت خود باز کرد. عمرو در مقابل همکاری با معاویه از او قول گرفته بود که والی مصر شود.<ref> نک: پیکار صفین/ترجمه،ص:۶۰؛ دینوری، اخبارالطوال/ترجمه،ص:۱۹۴-۱۹۸.</ref>
علی(ع) پس از اطلاع از نقشه معاویه و عمرو عاص، به آنان نامه نوشت و در نامه به عمرو به او هشدار داد که همکاری با معاویه به صلاح او نیست ولی عمرو عاص در پاسخ از علی(ع) خواست تا از خلافت کناره گیرد و کار را به شورا بسپارد.<ref>اخبارالطوال/ترجمه،ص:۲۰۴</ref><br />
عمرو در جنگ صفین، مشاور و از فرماندهان ارشد سپاه معاویه و گویا فرمانده سواره نظام بود.<ref>اخبارالطوال/ترجمه،ص:۲۱۳.</ref>به نقل برخی منابع، عمرو در جنگ صفین با علی(ع) رو به رو شد و هنگامی که علی(ع) قصد حمله به او را داشت، عورت خود را آشکار کرد و علی(ع) از او رو برگرداند و بدین ترتیب، عمرو از مرگ حتمی نجات یافت.<ref>آفرینش و تاریخ/ترجمه،ج‌۲،ص:۸۸۱؛ اخبارالطوال/ترجمه،ص:۲۱۹.</ref><br />
عمرو در جنگ صفین، مشاور و از فرماندهان ارشد سپاه معاویه و گویا فرمانده سواره نظام بود.<ref>اخبارالطوال/ترجمه،ص:۲۱۳.</ref>به نقل برخی منابع، عمرو در جنگ صفین با علی(ع) رو به رو شد و هنگامی که علی(ع) قصد حمله به او را داشت، عورت خود را آشکار کرد و علی(ع) از او رو برگرداند و بدین ترتیب، عمرو از مرگ حتمی نجات یافت.<ref>آفرینش و تاریخ/ترجمه،ج‌۲،ص:۸۸۱؛ اخبارالطوال/ترجمه،ص:۲۱۹.</ref><br />
در جنگ صفین وقتی گروهی به فرماندهی مالک اشتر نخعی مقاومت سپاه شام را شکست و چیزی به پیروزی کامل سپاه علی(ع) نمانده بود، عمرو به معاویه پیشنهاد کرد که میان لشکر او قرآن پخش کنند و لشکریان قرآن را بر نیزه و تقاضا کنند که جنگ متوقف شود و قرآن میان آنها داوری کند. این حیله عمرو عاص باعث شد تا سپاه شام از شکست رهایی یابد و [[حکمیت|ماجرای حکمیت]] پیش آید.<ref> آفرینش و تاریخ/ترجمه،ج‌۲،ص:۸۸۱.</ref><br />
در جنگ صفین وقتی گروهی به فرماندهی مالک اشتر نخعی مقاومت سپاه شام را شکست و چیزی به پیروزی کامل سپاه علی(ع) نمانده بود، عمرو به معاویه پیشنهاد کرد که میان لشکر او قرآن پخش کنند و لشکریان قرآن را بر نیزه و تقاضا کنند که جنگ متوقف شود و قرآن میان آنها داوری کند. این حیله عمرو عاص باعث شد تا سپاه شام از شکست رهایی یابد و [[حکمیت|ماجرای حکمیت]] پیش آید.<ref> آفرینش و تاریخ/ترجمه،ج‌۲،ص:۸۸۱.</ref><br />

نسخہ بمطابق 20:57، 30 مارچ 2017ء

عمرو بن عاص (۴۳ق./۶۶۴م.) رسول خدا کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا جس نے فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے اسلام قبول کیا ۔سیرت نگاروں نے اسے صحابہ کی فہرست میں شمار کیا ہے ۔ امام علی(ع) سے دشمنی اور جنگوں میں حضرت علی سے فریب کاریوں کی وجہ سے شیعوں کے نزدیک منفور شخص ہے ۔کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے حضرت علی کے خلاف پیراہن عثمان سمیت بہت سے حیلوں کی نقشہ سازی میں شامل رہا ۔ جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کے سرداروں میں سے تھا نیز اس جنگ میں نیزوں پر قرآن بلند کرنے کی سازش کی نسبت اسی کی طرف دی جاتی ہے ۔جنگ نہروان کے حکمیت کے معاملے میں معاویہ کا نمائندہ تھا ۔

نَسَب

مؤلفین نے اس کا نسب یوں ذکر کیا ہے: عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لؤی قرشی سہمی اور کنیت ابوعبدالله تھی۔[1] عرب کی سیرت نگاری کے منابع میں عرب کا چالاک ترین شخص کہا گیا ہے ۔ فارسی کے بہت سے مآخذ اسے «عمرو عاص» کہتے ہیں ۔

دورۂ پیامبر(ص)

فتح مکہ اور اسلام کی مکمل کامیابی سے کچھ مدت ہی پہلے عمرو سال ۸ قمری میں مسلمان ہوا۔ [2]بعض محققین نے اسکے اسلام قبول کرنے کے سبب میں تصریح کی ہے : فتح مکہ اور سعودی عرب پر اسلام کی مکمل کامیابی کے نزدیکی سالوں میں رسول اکرم ؐ کی تبلیغ کے کامیاب ہونے کے پیش نظر خالد بن ولید، عثمان بن طلحہ اور عمرو عاص جیسے اشخاص کا اسلام قبول کرنا کوئی سخت تھا۔[3]منابع میں نقل ہونے والی خود اسکی زبانی داستان کے بقول اس نے جب سمجھ لیا کہ اسلام مکہ اور سعود عرب پر غلبہ حاصل کر لے گا اس نے حبشہ میں پناہ حاصل کی حبشہ کے حاکم نجاشی نے اسکے پاس صادقت نبی اکرمؐ کے اپنی تبلیغ کے سچے ہونے کی بات کی اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے اسے قبول کیا پس وہ وہاں سے مدینے میں رسول اللہ کے پاس پہنچا اور اس نے اسلام قبول کیا ۔ [4]

پیامبر(ص) نے اسکے اسلام قبول کرنے کی کچھ مدت بعد ہی اسے اسکے باپ کی قوم کے پاس اسلام کی تبلیغ کیلئے بھیجا ۔ عمرو نے ذات السلاسل سمیت چند فوجی وقائع میں شرکت کی ۔پھر کچھ مدت کیلئے تبلیغ دین کے فرائض کی خاطر عمان چلا گیا۔ کچھ مدت بعد وہاں کا والی بنا اور رسول خدا کے شہادت تک وہیں رہا ۔ [5]

پیمبر(ص)کے بعد

خلافت ابوبکر کے زمانے میں فلسطین کے کچھ علاقوں کی فتح میں عمرو کا بنیادی کردار رہا ۔ [6] لینکن مغربی تاریخ کے منابع میں دور عمر بن خطاب میں فتح مصر کی بنا پر شہرت ہے ۔[7]عمر بن خطاب نے فلسطین اور نواحی علاقوں کی حکومت کیلئے مقرر کیا ۔پھر اسے لکھا کہ مصر چلا جائے ۔عمرو بن عاص نے 3500 مسلمان سپاہیوں کی معیت میں میں مصر فتح کر لیا ۔پس عمر نے اسے وہاں کا حاکم مقرر کیا اور وہ عمر کی موت تک وہاں کا حاکم رہا ۔[8]

حضرت عمر وفات کے چند سال بعد حضرت عثمان نے اسے حکومت سے معزول کر دیا اور اسکی جگہ عبد الله بن سعد بن ابی سرح کو مقرر کیا ۔عمرو عاص مدینہ واپس لوٹ آیا اور حضرت عثمان پر لوگوں کی شورش کے موقع پر شام چلا گیا اور فلسطین میں اپنی زمین بنام سبع میں اقامت اختیار کر کی ۔[9] اسکے بقول اس فتنے اور شورش سے بچنے کی خاطر اس مزرعہ میں سکونت اختیار کی ۔[10]

حضرت عثمان کے قتل کے بعد عمرو عاص معاویہ کے پاس چلا گیا اور اسکے ہمراہ خون عثمان کی خوانخواہی میں شریک ہو گیا اور اس نے اسکی معیت میں جنگ صفین میں شرکت کی ۔معاویہ نے اسے مصر کی باگ ڈور دی ۔مصر کی حکومت کے دوران عید فطر سال ۴۳ق. کے روز فوت ہوا اور پہاڑ کے دامن میں مقطم نام کے مصری لوگوں کے قبرستان میں دفن ہوا ۔[11]

حضرت امام علی(ع) کے خلاف جنگوں میں کردار

تاریخ اسلام کے منابع کے مطابق معاویہ اور حضرت علی درمیان نزاع میں عمر بن عاس معاویہ کا مشاور رہا اور بہت سے حیلہ سازیوں اور جنگی نقشے تیار کرتا ۔ان میں سے ایک یہ ہے :جب حضرت عثمان قتل ہوا اور اکثر مسلمانوں کے اصرار پر حضرت علی نے خلافت قبول کر لی ۔پس امام نے معاویہ کی طرف بیعت کرنے کا پیغام بھجوایا کہ جس طرح دوسروں نے انکی بیعت کی ہے وہ بھی آپ کی بیعت کرے ۔چونکہ معاویہ اپنی خلافت کے در پے تھا لہذا اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور عمرو سے مشورہ کیا۔ عمرو نے اسے کہا :تو علی کی مانند اسلام میں سبقت رکھتے ہو اور نہ تو اسکے مقابلے کی توان رکھتے ہو ۔ اسلئے تمہیں چاہئے کہ پہلے علی کو شامیوں کے سامنے حضرت عثمان کا قاتل بیان کرو اور پھر خون عثمان کے قصاص کے لئے اٹھ کھڑے ہو ۔اس طرح تمہاری خلافت کا راستہ ہموار ہوگا۔ معاویہ نے اسے قبول کیا اور عمرو کے تیار کردہ نقشے کے مطابق شام میں تبلیغ شروع کی کہ علی عثمان کا قاتل ہے اور پیراہن عثمان کے ذرہعے علی سے جنگ کی راہیں ہموار کیں اور اپنی خلافت کیلئے راستہ ہموار کیا ۔ عمرو نے معاویہ سے اس معاونت کے بدلے میں مصر کا والی بنائے جانے کا عہد لیا تھا ۔ [12]

حضرت علی(ع) نے معاویہ اور عمرو عاص کے نقشے سے آگاہ ہونے کے بعد انہیں خط لکھا اور خط میں عمرو کو متنبہ کیا معاویہ سے اسکی معاونت اسکے صلاح میں نہیں ہے لیکن عمرو عاص نے جواب میں لکھا کہ وہ خلافت سے علیحدگی اختیار کرے اور انتخاب خلیفہ کو شورا کے حوالے کر دے ۔ [13]

  1. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج‌۳، ص۱۱۸۵.
  2. نک: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج‌۳، ص۱۱۸۵.
  3. دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
  4. واقدی، الطبقات الکبری/ترجمه،ج‌۷،ص:۵۰۱.
  5. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۱۸۶.
  6. دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
  7. دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
  8. الطبقات الکبری/ترجمه،ج‌۷،ص:۵۰۱.
  9. الطبقات الکبری/ترجمہ،ج‌۷،ص:۵۰۱.
  10. اخبارالطوال/ترجمه،ص:۱۹۵.
  11. الطبقات الکبری/ترجمہ،ج‌۷،ص:۵۰۲.
  12. نک: پیکار صفین/ترجمہ،ص:۶۰؛ دینوری، اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۱۹۴-۱۹۸.
  13. اخبارالطوال/ترجمہ،ص:۲۰۴