مندرجات کا رخ کریں

"عمرو بن عاص" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 4: سطر 4:


==دورۂ پیامبر(ص)==
==دورۂ پیامبر(ص)==
عمرو سال ۸ قمری سال ۸ق میں فتح مکہ اور اسلام کی مکمل کامیابی  سے کچھ ہی مدت پہلے مسلمان ہوا۔ <ref>نک: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج‌۳، ص۱۱۸۵.</ref>بعض محققین نے اسکے اسلام قبول کرنے کے سبب میں تصریح کی ہے :
عمرو سال ۸ قمری میں فتح مکہ اور اسلام کی مکمل کامیابی  سے کچھ ہی مدت پہلے مسلمان ہوا۔ <ref>نک: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج‌۳، ص۱۱۸۵.</ref>بعض محققین نے اسکے اسلام قبول کرنے کے سبب میں تصریح کی ہے :
فتح مکہ اور سعودی عرب پر اسلام کی مکمل کامیابی کے نزدیکی سالوں میں رسول اکرم ؐ کی تبلیغ کے کامیاب ہونے کے پیش نظر خالد بن ولید، عثمان بن طلحہ اور عمرو عاص جیسے اشخاص کا اسلام قبول کرنا کوئی سخت تھا۔<ref>دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.</ref>منابع میں نقل ہونے والی خود اسکی زبانی داستان کے بقول  اس نے جب سمجھ لیا کہ اسلام مکہ اور سعود عرب پر غلبہ حاصل کر لے گا اس نے حبشہ میں پناہ حاصل کی حبشہ کے حاکم نجاشی نے اسکے پاس  صادقت نبی اکرمؐ کے اپنی تبلیغ کے سچے ہونے کی بات کی اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے اسے قبول کیا پس وہ وہاں سے مدینے میں رسول اللہ کے پاس  پہنچا اور اس نے اسلام قبول کیا ۔ <ref> واقدی، الطبقات الکبری/ترجمه،ج‌۷،ص:۵۰۱.</ref>
<!--
<!--
در سالهای نزدیک پیروزی کامل اسلام بر عربستان و فتح مکه این پیش‌بینی که پیامبر اسلام(ص) در دعوت خویش موفق خواهد شد برای کسانی مثل خالد بن ولید، عثمان بن طلحه و کسی مانند عمرو عاص چندان سخت نبود.<ref>دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.</ref>داستانی در منابع از خود او نقل شده که بنابر آن، او وقتی فهمید اسلام بر مکه و عربستان غالب خواهد شد، به حبشه پناه برد و نجاشی شاه حبشه نزد او از صدق پیامبر اکرم(ص) در دعوت خویش سخن گفت و عمرو را تشویق کرد که اسلام بیاورد و او همانجا اسلام آورد و به مدینه نزد پیامبر(ص)رفت.<ref> واقدی، الطبقات الکبری/ترجمه،ج‌۷،ص:۵۰۱.</ref>
پس از اسلام آوردن عمرو، پیامبر(ص) او را به سوی قوم پدرش عاص فرستاد تا آنها را به اسلام دعوت کند. عمرو در چند ماموریت نظامی از جمله [[ذات السلاسل]] شرکت جست و سپس برای ماموریتی تبلیغی به عمان رفت و بعد از مدتی والی آنجا شد و تا وفات پیامبر(ص)در همین مقام ماند.<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۱۸۶.</ref>
پس از اسلام آوردن عمرو، پیامبر(ص) او را به سوی قوم پدرش عاص فرستاد تا آنها را به اسلام دعوت کند. عمرو در چند ماموریت نظامی از جمله [[ذات السلاسل]] شرکت جست و سپس برای ماموریتی تبلیغی به عمان رفت و بعد از مدتی والی آنجا شد و تا وفات پیامبر(ص)در همین مقام ماند.<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۳، ص۱۱۸۶.</ref>



نسخہ بمطابق 18:11، 30 مارچ 2017ء

عمرو بن عاص (۴۳ق./۶۶۴م.) رسول خدا کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا جس نے فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے اسلام قبول کیا ۔سیرت نگاروں نے اسے صحابہ کی فہرست میں شمار کیا ہے ۔ امام علی(ع) سے دشمنی اور جنگوں میں حضرت علی سے فریب کاریوں کی وجہ سے شیعوں کے نزدیک منفور شخص ہے ۔کہتے ہیں کہ معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے حضرت علی کے خلاف پیراہن عثمان سمیت بہت سے حیلوں کی نقشہ سازی میں شامل رہا ۔ جنگ صفین میں معاویہ کے لشکر کے سرداروں میں سے تھا نیز اس جنگ میں نیزوں پر قرآن بلند کرنے کی سازش کی نسبت اسی کی طرف دی جاتی ہے ۔جنگ نہروان کے حکمیت کے معاملے میں معاویہ کا نمائندہ تھا ۔

نَسَب

مؤلفین نے اس کا نسب یوں ذکر کیا ہے: عمرو بن العاص بن وائل بن ہاشم بن سعید بن سہم بن عمرو بن ہصیص بن کعب بن لؤی قرشی سہمی اور کنیت ابوعبدالله تھی۔[1] عرب کی سیرت نگاری کے منابع میں عرب کا چالاک ترین شخص کہا گیا ہے ۔ فارسی کے بہت سے مآخذ اسے «عمرو عاص» کہتے ہیں ۔

دورۂ پیامبر(ص)

عمرو سال ۸ قمری میں فتح مکہ اور اسلام کی مکمل کامیابی سے کچھ ہی مدت پہلے مسلمان ہوا۔ [2]بعض محققین نے اسکے اسلام قبول کرنے کے سبب میں تصریح کی ہے : فتح مکہ اور سعودی عرب پر اسلام کی مکمل کامیابی کے نزدیکی سالوں میں رسول اکرم ؐ کی تبلیغ کے کامیاب ہونے کے پیش نظر خالد بن ولید، عثمان بن طلحہ اور عمرو عاص جیسے اشخاص کا اسلام قبول کرنا کوئی سخت تھا۔[3]منابع میں نقل ہونے والی خود اسکی زبانی داستان کے بقول اس نے جب سمجھ لیا کہ اسلام مکہ اور سعود عرب پر غلبہ حاصل کر لے گا اس نے حبشہ میں پناہ حاصل کی حبشہ کے حاکم نجاشی نے اسکے پاس صادقت نبی اکرمؐ کے اپنی تبلیغ کے سچے ہونے کی بات کی اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تو اس نے اسے قبول کیا پس وہ وہاں سے مدینے میں رسول اللہ کے پاس پہنچا اور اس نے اسلام قبول کیا ۔ [4]

  1. ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج‌۳، ص۱۱۸۵.
  2. نک: ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج‌۳، ص۱۱۸۵.
  3. دائرة المعارف اسلام، A. J. WENSINCK، ذیل مدخل «AMR B. AS»، ج۱، ص۴۷۳.
  4. واقدی، الطبقات الکبری/ترجمه،ج‌۷،ص:۵۰۱.