مندرجات کا رخ کریں

"روضہ امام حسین" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
[[ملف:حرم امام حسین.jpg|تصغیر| روضۂ امام حسین (ع)]]
[[ملف:حرم امام حسین.jpg|تصغیر| روضۂ امام حسینؑ]]
'''امام حسین علیہ السلام کا روضہ'''، امام حسین (ع) اور بعض [[بنی ہاشم]] و [[کربلا]] میں امام (ع) کے اعوان و انصار کے دفن ہونے کا مقام  ہے۔ جو ۱۰ [[محرم]] سن ۶۱ ہجری قمری میں [[عبید اللہ بن زیاد]] کے لشکر سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ [[مختار ثقفی]] نے [[امام حسین (ع)]] کی قبر پر پہلی بناء رکھی اور بعد کے ادوار میں اہل بیت (ع) کے چاہنے والوں اور شیعوں نے خاص طور پر سلاطین اور بادشاہوں نے اس روضہ کی باز سازی اور تعمیر و توسیع کے سلسلہ میں خاص اہتمام کئے۔ یہ روضہ دشمنوں کی طرف سے جن میں [[خلفاء عباسی]] اور وہابی شامل ہیں، متعدد بار خراب کیا جا چکا ہے۔ جن میں سے امام حسین (ع) کے روضہ کی سب سے زیادہ تخریب [[متوکل]] کے زمانہ میں ہوئی اور اس سلسلہ کی آخری کڑی سن ۱۴۱۱ ق میں بعثی حکومت کی طرف سے عراقی عوام کے شعبانیہ انتفاضہ کے وقت پیش آئی۔
'''امام حسین علیہ السلام کا روضہ'''، امام حسینؑ اور بعض [[بنی ہاشم]] و [[کربلا]] میں امامؑ کے اعوان و انصار کے دفن ہونے کا مقام  ہے۔ جو ۱۰ [[محرم]] سن ۶۱ ہجری قمری میں [[عبید اللہ بن زیاد]] کے لشکر سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ [[مختار ثقفی]] نے [[امام حسینؑ]] کی قبر پر پہلی بناء رکھی اور بعد کے ادوار میں اہل بیتؑ کے چاہنے والوں اور شیعوں نے خاص طور پر سلاطین اور بادشاہوں نے اس روضہ کی باز سازی اور تعمیر و توسیع کے سلسلہ میں خاص اہتمام کئے۔ یہ روضہ دشمنوں کی طرف سے جن میں [[خلفاء عباسی]] اور وہابی شامل ہیں، متعدد بار خراب کیا جا چکا ہے۔ جن میں سے امام حسینؑ کے روضہ کی سب سے زیادہ تخریب [[متوکل]] کے زمانہ میں ہوئی اور اس سلسلہ کی آخری کڑی سن ۱۴۱۱ ق میں بعثی حکومت کی طرف سے عراقی عوام کے شعبانیہ انتفاضہ کے وقت پیش آئی۔


امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی زیارت کرنا ایسا عمل ہے جو ہمیشہ شیعوں کی توجہ کا باعث رہا ہے اور جس پر [[شیعہ ائمہ]] کی احادیت میں تاکید کی گئی  ہے۔ زیارت کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد [[عاشورا]] و [[اربعین]] اور [[نیمہ شعبان]] کے مواقع پر [[امام حسین علیہ السلام]] کے روضہ میں جمع ہوتی ہے۔ [[شیعہ]] [[فقہ]] میں امام حسین (ع) کے حرم اور ان کی [[تربت]] کے سلسلہ میں مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے روضہ کی زیارت کرنا ایسا عمل ہے جو ہمیشہ شیعوں کی توجہ کا باعث رہا ہے اور جس پر [[شیعہ ائمہ]] کی احادیت میں تاکید کی گئی  ہے۔ زیارت کرنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد [[عاشورا]] و [[اربعین]] اور [[نیمہ شعبان]] کے مواقع پر [[امام حسین علیہ السلام]] کے روضہ میں جمع ہوتی ہے۔ [[شیعہ]] [[فقہ]] میں امام حسینؑ کے حرم اور ان کی [[تربت]] کے سلسلہ میں مخصوص احکام بیان ہوئے ہیں۔




== امام حسین علیہ السلام ==
== امام حسین علیہ السلام ==
{{اصلی|امام حسین علیہ السلام}}
{{اصلی|امام حسین علیہ السلام}}
حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام، شیعوں کے تیسرے امام، [[امام علی (ع)]] و [[حضرت فاطمہ زہرا (س)]] کے دوسرے فرزند اور نواسہ رسول (ص) ہیں، جن کی کنیت ابا عبد اللہ ہے۔ آپ ۱۰ [[محرم]] سب ۶۱ ھجری قمری میں اپنے اصحاب کے ساتھ یزید بن معاویہ کے ذریعہ سے شہادت پر فائز ہوئے۔<ref>راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، صفحہ ۲۴۴۔۲۴۶</ref>
حسین بن علی بن ابی طالب علیہ السلام، شیعوں کے تیسرے امام، [[امام علیؑ]] و [[حضرت فاطمہ زہرا (س)]] کے دوسرے فرزند اور نواسہ رسول (ص) ہیں، جن کی کنیت ابا عبد اللہ ہے۔ آپ ۱۰ [[محرم]] سب ۶۱ ھجری قمری میں اپنے اصحاب کے ساتھ یزید بن معاویہ کے ذریعہ سے شہادت پر فائز ہوئے۔<ref>راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، صفحہ ۲۴۴۔۲۴۶</ref>


== تاریخچہ ==
== تاریخچہ ==
امام حسین (ع) اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد، [[بنی اسد]] کے ایک گروہ نے آپ کے اور آپ کے اصحاب کے جنازوں کو ان کی شہادت کے مقام پر دفن کیا۔ اور اس وقت آپ کی قبر کو عوام کی زیارت کے لئے محض لحد کی شکل میں بنا دی گئی تھی۔<ref>قریشی، مرقدھا و مکان ھای زیارتی کربلا، صفحہ ۲۲۔</ref>
امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے بعد، [[بنی اسد]] کے ایک گروہ نے آپ کے اور آپ کے اصحاب کے جنازوں کو ان کی شہادت کے مقام پر دفن کیا۔ اور اس وقت آپ کی قبر کو عوام کی زیارت کے لئے محض لحد کی شکل میں بنا دی گئی تھی۔<ref>قریشی، مرقدھا و مکان ھای زیارتی کربلا، صفحہ ۲۲۔</ref>


=== اولین تعمیر ===
=== اولین تعمیر ===
سطر 28: سطر 28:
=== چوتھی بناء ===
=== چوتھی بناء ===
۹ [[ذی الحجہ]] ۲۷۳ ھ ق میں اس وقت جب زائرین [[روز عرفہ]] امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں جمع تھے، اس عمارت کو جو منتصر نے بنوائی تھی، ان کے سروں پر خراب کر دی گئی، جس کے نتیجہ میں بعض افراد جاں بحق ہو گئے۔
۹ [[ذی الحجہ]] ۲۷۳ ھ ق میں اس وقت جب زائرین [[روز عرفہ]] امام حسین علیہ السلام کے روضہ میں جمع تھے، اس عمارت کو جو منتصر نے بنوائی تھی، ان کے سروں پر خراب کر دی گئی، جس کے نتیجہ میں بعض افراد جاں بحق ہو گئے۔
اس کے بعد ۱۰ سال تک امام (ع) کا روضہ اسی طرح سے بغیر تعمیر کے رہا، یہاں تک کہ داعی صغیر نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ اس نے امام علی (ع) اور امام حسین (ع) کی قبروں پر مناسب عمارت تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس بناء کی تاریخ سن ۲۷۹ سے ۲۸۹ ق تک بنتی ہے۔ داعی صغیر نے جو روضہ کربلا میں تعمیر کرایا تھا اس میں ایک بلند گنبد اور دو دروازے شامل تھے اور ان دونوں دروازوں کے درمیان ایک چھت قرار دی گئی تھی۔ اس نے اسی طرح سے امام حسین علیہ السلام کے روضہ اور اس کے اطراف میں شامل گھروں کے درمیان موجود احاطہ کی باز سازی کرائی۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۹۹۔۱۰۰</ref>
اس کے بعد ۱۰ سال تک امامؑ کا روضہ اسی طرح سے بغیر تعمیر کے رہا، یہاں تک کہ داعی صغیر نے حکومت اپنے ہاتھ میں لی۔ اس نے امام علیؑ اور امام حسینؑ کی قبروں پر مناسب عمارت تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ اس بناء کی تاریخ سن ۲۷۹ سے ۲۸۹ ق تک بنتی ہے۔ داعی صغیر نے جو روضہ کربلا میں تعمیر کرایا تھا اس میں ایک بلند گنبد اور دو دروازے شامل تھے اور ان دونوں دروازوں کے درمیان ایک چھت قرار دی گئی تھی۔ اس نے اسی طرح سے امام حسین علیہ السلام کے روضہ اور اس کے اطراف میں شامل گھروں کے درمیان موجود احاطہ کی باز سازی کرائی۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۹۹۔۱۰۰</ref>


=== پانچویں بناء ===
=== پانچویں بناء ===
مطیع عباسی کے بیٹے طائع کی خلافت کے دوران، عضد الدولہ بویہی نے بغداد کی حکمرانی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نے اپنے پنج سالہ دور حکومت میں ایک بار جمادی الاول ۳۷۱ ھ ق میں [[کربلا]] کی زیارت کی اور اس نے [[امام حسین علیہ السلام]] کے روضہ کے لئے اوقاف معین کئے اور حرم کی تجدید نو کا حکم دیا۔ اسی طرح سے اس نے اپنی زیارت کے دوران عوام اور زائرین کو تحفے عطا کئے اور حرم کے صندوق میں کچھ رقم عطا کی۔ عضد الدولہ نے عمارت کی تجدید نو علاوہ اس کی تزئین میں بھی حصہ لیا، اور اس نے ضریح کے اطراف میں رواق بھی تعمیر کرائے۔ ضریح ساج و دیبا کے ذریعہ ضریح کی آرائش کی اور اس پر لکڑی کی جالی بنوائی اور حرم میں روشنی و نور کی غرض سے چراغ دانوں اور شمع دانوں کو ہدیہ کیا۔ عضد الدولہ کی یہ توجہ کربلا کی دینی، سماجی اور تجارتی ترقی اور پیشرفت کا سبب بنی۔ [[نجف اشرف]] میں [[امام علی علیہ السلام]] کے روضہ میں موجود عمران بن شاہین کے نام سے مشہور رواق اور اسی طرح سے وہ [[مسجد]] جو [[امام حسین علیہ السلام]] کے حرم میں مغرب کی سمت بنی ہوئی ہے وہ اسی زمانہ میں تعمیر کی گئی ہے۔
مطیع عباسی کے بیٹے طائع کی خلافت کے دوران، عضد الدولہ بویہی نے بغداد کی حکمرانی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اس نے اپنے پنج سالہ دور حکومت میں ایک بار جمادی الاول ۳۷۱ ھ ق میں [[کربلا]] کی زیارت کی اور اس نے [[امام حسین علیہ السلام]] کے روضہ کے لئے اوقاف معین کئے اور حرم کی تجدید نو کا حکم دیا۔ اسی طرح سے اس نے اپنی زیارت کے دوران عوام اور زائرین کو تحفے عطا کئے اور حرم کے صندوق میں کچھ رقم عطا کی۔ عضد الدولہ نے عمارت کی تجدید نو علاوہ اس کی تزئین میں بھی حصہ لیا، اور اس نے ضریح کے اطراف میں رواق بھی تعمیر کرائے۔ ضریح ساج و دیبا کے ذریعہ ضریح کی آرائش کی اور اس پر لکڑی کی جالی بنوائی اور حرم میں روشنی و نور کی غرض سے چراغ دانوں اور شمع دانوں کو ہدیہ کیا۔ عضد الدولہ کی یہ توجہ کربلا کی دینی، سماجی اور تجارتی ترقی اور پیشرفت کا سبب بنی۔ [[نجف اشرف]] میں [[امام علی علیہ السلام]] کے روضہ میں موجود عمران بن شاہین کے نام سے مشہور رواق اور اسی طرح سے وہ [[مسجد]] جو [[امام حسین علیہ السلام]] کے حرم میں مغرب کی سمت بنی ہوئی ہے وہ اسی زمانہ میں تعمیر کی گئی ہے۔


معز الدولہ بویھی نے سن ۳۶۹ ھ ق میں واسط کے قریب بطیح نامی جگہ کی گورنری عمران بن شاہین کے سپرد کی اور عمران بن شاہین نے نجف میں مسجد اور رواق کی تعمیر کا کام شروع کر دیا اور اسی طرح سے اس نے کربلا و [[کاظمین]] میں بھی مسجد اور رواق کی تعمیر کا کام شروع کرا دیا۔ جس رواق کو عمران بن شاہین نے تعمیر کرایا تھا وہ سید [[ابراہیم بن مجاب]] کے نام سے مشہور ہوا اور مسجد جو اس رواق کے بغل میں بنائی گئی تھی وہ سلاطین صفوی کی حکومت کے دور تک باقی تھی اور اس زمانہ میں ایک فتوی کے مطابق اس مسجد کو امام حسین علیہ السلام کے حرم کے صحن سے ملحق کرنے کا جواز پیدا کیا گیا، اور حرم کی توسیع و باز سازی میں اسے صحن کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ البتہ اس مسجد کا ایک حصہ آج بھی امام حسین (ع) کے حرم کے جزء کے عنوان سے باقی ہے اور آج وہ حرم کے قالینوں کے اسٹور کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو ایوان ناصری کے نام سے معروف ایوان کی پشت پر واقع ہے۔
معز الدولہ بویھی نے سن ۳۶۹ ھ ق میں واسط کے قریب بطیح نامی جگہ کی گورنری عمران بن شاہین کے سپرد کی اور عمران بن شاہین نے نجف میں مسجد اور رواق کی تعمیر کا کام شروع کر دیا اور اسی طرح سے اس نے کربلا و [[کاظمین]] میں بھی مسجد اور رواق کی تعمیر کا کام شروع کرا دیا۔ جس رواق کو عمران بن شاہین نے تعمیر کرایا تھا وہ سید [[ابراہیم بن مجاب]] کے نام سے مشہور ہوا اور مسجد جو اس رواق کے بغل میں بنائی گئی تھی وہ سلاطین صفوی کی حکومت کے دور تک باقی تھی اور اس زمانہ میں ایک فتوی کے مطابق اس مسجد کو امام حسین علیہ السلام کے حرم کے صحن سے ملحق کرنے کا جواز پیدا کیا گیا، اور حرم کی توسیع و باز سازی میں اسے صحن کا حصہ قرار دے دیا گیا۔ البتہ اس مسجد کا ایک حصہ آج بھی امام حسینؑ کے حرم کے جزء کے عنوان سے باقی ہے اور آج وہ حرم کے قالینوں کے اسٹور کے طور پر استعمال ہوتا ہے جو ایوان ناصری کے نام سے معروف ایوان کی پشت پر واقع ہے۔




سطر 47: سطر 47:


=== آٹھویں بناء ===
=== آٹھویں بناء ===
اویس بن حسن جلائری نے سن ۷۶۷ ق میں [[مسجد]] اور حرم کی بنائ کی باز سازی کرائی اور ضریح کے اوپر ایک نیم دائرہ گنبد تعمیر کرایا۔ یہ گنبد امام (ع) کی قبر کے چارو اطراف میں چار طاقوں پر استوار تھا اور ان طاقوں میں سے ہر ایک کا باہری حصہ حرم کے ایک رواق پر مشتمل تھا۔ ایک بلند گنبد ان چار طاقوں کے اوپر بنایا گیا تھا اور اس نے جدید معماری نمونہ تشکیل دیا تھا۔ یہ تعمیر جو اویس کے بیٹوں میں سے ایک احمد نے سن ۷۸۶ ق میں مکمل کرائی؛ اس طرح سے تھی کہ اگر کوئی باہر باب القبلہ کی طرف کھڑا ہو جائے تو وہ سارا حرم، گنبد اور ضریح کو مکمل طور پر دیکھ سکتا تھا اور اس کے علاوہ  زائرین کے لئے قبر کی [[طواف]] کا موقع بھی میسر تھا۔
اویس بن حسن جلائری نے سن ۷۶۷ ق میں [[مسجد]] اور حرم کی بنائ کی باز سازی کرائی اور ضریح کے اوپر ایک نیم دائرہ گنبد تعمیر کرایا۔ یہ گنبد امامؑ کی قبر کے چارو اطراف میں چار طاقوں پر استوار تھا اور ان طاقوں میں سے ہر ایک کا باہری حصہ حرم کے ایک رواق پر مشتمل تھا۔ ایک بلند گنبد ان چار طاقوں کے اوپر بنایا گیا تھا اور اس نے جدید معماری نمونہ تشکیل دیا تھا۔ یہ تعمیر جو اویس کے بیٹوں میں سے ایک احمد نے سن ۷۸۶ ق میں مکمل کرائی؛ اس طرح سے تھی کہ اگر کوئی باہر باب القبلہ کی طرف کھڑا ہو جائے تو وہ سارا حرم، گنبد اور ضریح کو مکمل طور پر دیکھ سکتا تھا اور اس کے علاوہ  زائرین کے لئے قبر کی [[طواف]] کا موقع بھی میسر تھا۔


احمد بن جلائری نے صحن کے سامنے کے ایوان کو جو ایوان طلا کے نام سے مشہور ہے، اور اسی طرح سے صحن کی مسجد کو جسے مربع شکل میں حرم کے اطراف میں قرار دیا گیا ہے، تعمیرا کرایا۔ اور رواقوں اور حرم کے اندرونی حصوں کی تزئین، آئینہ کاری،  نقش و نگار اور کاشانی  کاشی کاری کے ذریعہ کرا کر طبیعی مناظر تخلیق کرنے کا اہتمام کیا۔ احمد جلائری کے حکم کے مطابق حرم کے دونوں گل دستوں کو بھی کاشان کے زرد پتھروں سے آراستہ کیا گیا۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۰۴۔۱۰۶</ref>
احمد بن جلائری نے صحن کے سامنے کے ایوان کو جو ایوان طلا کے نام سے مشہور ہے، اور اسی طرح سے صحن کی مسجد کو جسے مربع شکل میں حرم کے اطراف میں قرار دیا گیا ہے، تعمیرا کرایا۔ اور رواقوں اور حرم کے اندرونی حصوں کی تزئین، آئینہ کاری،  نقش و نگار اور کاشانی  کاشی کاری کے ذریعہ کرا کر طبیعی مناظر تخلیق کرنے کا اہتمام کیا۔ احمد جلائری کے حکم کے مطابق حرم کے دونوں گل دستوں کو بھی کاشان کے زرد پتھروں سے آراستہ کیا گیا۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۰۴۔۱۰۶</ref>
سطر 61: سطر 61:
سن ۱۲۱۱ ق میں آقا محمد خان قاجار نے گنبد کو سونے سے آراستہ کرنے کا حکم دیا۔ سن ۱۲۱۶ ق میں [[وہابیوں]] نے [[کربلا]] پر حملہ کر دیا اور ضریح اور رواق کو ویران کر ڈالا اور حرم کے خزانے میں موجود تمام نفیس اشیاء اٹھا لے گئے۔ سن ۱۲۲۷ ق میں حرم کی عمارت فرسودگی کا شکار ہو چکی تھی لہذا [[کربلا]] کے عوام نے فتح علی شاہ قاجار کو خط لکھا اور گنبد کی فرسودگی کی اطلاع دی۔ اس نے ایک نمائندہ کو بھیجنے کے ساتھ تا کہ وہ اخراجات اور تعمیرات کی نگرانی کر سکے، عمارت کی تعمیر نو کا حکم دیا اور گنبد کے طلاق اوراق کو تبدیل کروایا۔
سن ۱۲۱۱ ق میں آقا محمد خان قاجار نے گنبد کو سونے سے آراستہ کرنے کا حکم دیا۔ سن ۱۲۱۶ ق میں [[وہابیوں]] نے [[کربلا]] پر حملہ کر دیا اور ضریح اور رواق کو ویران کر ڈالا اور حرم کے خزانے میں موجود تمام نفیس اشیاء اٹھا لے گئے۔ سن ۱۲۲۷ ق میں حرم کی عمارت فرسودگی کا شکار ہو چکی تھی لہذا [[کربلا]] کے عوام نے فتح علی شاہ قاجار کو خط لکھا اور گنبد کی فرسودگی کی اطلاع دی۔ اس نے ایک نمائندہ کو بھیجنے کے ساتھ تا کہ وہ اخراجات اور تعمیرات کی نگرانی کر سکے، عمارت کی تعمیر نو کا حکم دیا اور گنبد کے طلاق اوراق کو تبدیل کروایا۔


سن ۱۲۳۲ ق میں فتح شاہ علی قاجار نے چاندی کی ایک نئی ضریح تعمیر کرائی اور ایوان گنبد کو سونے سے آراستہ کرایا اور ان تمام مقامات کی باز سازی کرائی جو وھابیوں کے حملے میں نابود ہو گئے تھے۔ سن ۱۲۵۰ ق میں فتح شاہ علی قاجار نے حکم دیا کہ [[امام حسین علیہ السلام]] اور [[حضرت عباس علیہ السلام]] کے روضوں کے گنبدوں کی نو سازی کی جائے اور حضرت عباس (ع) کے گنبد پر طلائی ملمع کیا جائے۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۱۱۔</ref>
سن ۱۲۳۲ ق میں فتح شاہ علی قاجار نے چاندی کی ایک نئی ضریح تعمیر کرائی اور ایوان گنبد کو سونے سے آراستہ کرایا اور ان تمام مقامات کی باز سازی کرائی جو وھابیوں کے حملے میں نابود ہو گئے تھے۔ سن ۱۲۵۰ ق میں فتح شاہ علی قاجار نے حکم دیا کہ [[امام حسین علیہ السلام]] اور [[حضرت عباس علیہ السلام]] کے روضوں کے گنبدوں کی نو سازی کی جائے اور حضرت عباسؑ کے گنبد پر طلائی ملمع کیا جائے۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۱۱۔</ref>


=== بعد کے ادوار میں ===
=== بعد کے ادوار میں ===
سطر 85: سطر 85:
امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے صحن نے اپنی حدود کے دائرے میں تمام رواق اور گنبد کا احاطہ کر لیا ہے۔ بعض نے صحن کو جامع کا نام بھی دیا ہے، اس سبب سے کہ لوگ نماز کے اوقات میں اور اسی طرح سے زیارت یا دعا پڑھتے وقت اور دینی مراسم کے انعقاد کے وقت وہاں پر جمع ہوتے ہیں۔ صحن کو [[مشہد]] کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے کہ لوگ اس میں زیارت و دعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے روضہ کے صحن نے اپنی حدود کے دائرے میں تمام رواق اور گنبد کا احاطہ کر لیا ہے۔ بعض نے صحن کو جامع کا نام بھی دیا ہے، اس سبب سے کہ لوگ نماز کے اوقات میں اور اسی طرح سے زیارت یا دعا پڑھتے وقت اور دینی مراسم کے انعقاد کے وقت وہاں پر جمع ہوتے ہیں۔ صحن کو [[مشہد]] کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے کہ لوگ اس میں زیارت و دعا کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔


[[امام حسین علیہ السلام]] کا روضہ شہر کربلا کے قدیمی علاقہ میں ہے اور سن 1948 عیسوی سے پہلے تک تمام رہائشی مکانات، بازار اور عمارتیں اس سے متصل تھیں اور ان کے اور روضہ کے درمیان کسی سڑک کا وجود نہیں تھا۔ اسی سال امام (ع) کے حرم کے ساتھ سڑک بنائی گئی اور اجازت نہیں دی گئی کہ شہر کی عمارتیں حرم کی عمارت سے متصل رہے۔ حرم کی باہری دیوار شہر کی دوسری عمارتوں سے جدا اور اسے ٹائل اور زرد اینٹوں سے سجایا گیا ہے اور دروازوں اور دیواروں کے اوپری حصوں کو آیات قرآن کے کتیبہ نصب کئے گئے ہیں، جنہیں کاشی پر خط کوفی سے منقوش کیا گیا ہے۔
[[امام حسین علیہ السلام]] کا روضہ شہر کربلا کے قدیمی علاقہ میں ہے اور سن 1948 عیسوی سے پہلے تک تمام رہائشی مکانات، بازار اور عمارتیں اس سے متصل تھیں اور ان کے اور روضہ کے درمیان کسی سڑک کا وجود نہیں تھا۔ اسی سال امامؑ کے حرم کے ساتھ سڑک بنائی گئی اور اجازت نہیں دی گئی کہ شہر کی عمارتیں حرم کی عمارت سے متصل رہے۔ حرم کی باہری دیوار شہر کی دوسری عمارتوں سے جدا اور اسے ٹائل اور زرد اینٹوں سے سجایا گیا ہے اور دروازوں اور دیواروں کے اوپری حصوں کو آیات قرآن کے کتیبہ نصب کئے گئے ہیں، جنہیں کاشی پر خط کوفی سے منقوش کیا گیا ہے۔


روضہ امام اندر سے مستطیل شکل میں ہے البتہ وہ بھی ضریح کی طرح دو اصافی ضلع کے ساتھ چھ گوشوں پر مشتمل تھا۔ لیکن حرم کی توسیع میں سن 1947 ع میں ان دو اضافی گوشوں کو یعنی جنوب شرقی اور شمال شرقی گوشوں کو ہٹا دیا گیا، جس کے نتیجہ میں صحن اندر سے مستطیل شکل میں ہو گیا، اگر چہ وہ باہر سے بیضوی شکل میں نطر آتا ہے۔
روضہ امام اندر سے مستطیل شکل میں ہے البتہ وہ بھی ضریح کی طرح دو اصافی ضلع کے ساتھ چھ گوشوں پر مشتمل تھا۔ لیکن حرم کی توسیع میں سن 1947 ع میں ان دو اضافی گوشوں کو یعنی جنوب شرقی اور شمال شرقی گوشوں کو ہٹا دیا گیا، جس کے نتیجہ میں صحن اندر سے مستطیل شکل میں ہو گیا، اگر چہ وہ باہر سے بیضوی شکل میں نطر آتا ہے۔
سطر 106: سطر 106:
# '''باب الشہداء:''' یہ دروازہ ضلع شرقی اور [[حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام]] کے حرم کی طرف جانے والی گذرگاہ کے درمیان واقع  ہے اور شہداء [[کربلا]] کے کی یاد میں اس کا نام باب الشہدائ رکھا گیا ہے۔
# '''باب الشہداء:''' یہ دروازہ ضلع شرقی اور [[حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام]] کے حرم کی طرف جانے والی گذرگاہ کے درمیان واقع  ہے اور شہداء [[کربلا]] کے کی یاد میں اس کا نام باب الشہدائ رکھا گیا ہے۔
# '''باب الکرامہ:''' یہ دروازہ صحن کے شمال شرقی ضلع کے دور ترین حصہ کی طرف واقع ہے اور باب الشہداء کے برابر میں ہے۔ اس کا نام [[امام حسین علیہ السلام]] کی کرامت اور بزرگواری کی یاد میں باب الکرامہ رکھا گیا ہے۔
# '''باب الکرامہ:''' یہ دروازہ صحن کے شمال شرقی ضلع کے دور ترین حصہ کی طرف واقع ہے اور باب الشہداء کے برابر میں ہے۔ اس کا نام [[امام حسین علیہ السلام]] کی کرامت اور بزرگواری کی یاد میں باب الکرامہ رکھا گیا ہے۔
# '''باب السلام:''' یہ دروازہ ضلع شمالی کے درمیان میں واقع ہے۔ اس کا یہ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جب لوگ اس دروازے کے سامنے پہچتے تھے تو امام (ع) پر درود و سلام  بھیجتے تھے۔
# '''باب السلام:''' یہ دروازہ ضلع شمالی کے درمیان میں واقع ہے۔ اس کا یہ نام رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ جب لوگ اس دروازے کے سامنے پہچتے تھے تو امامؑ پر درود و سلام  بھیجتے تھے۔
# '''باب السدرہ:''' یہ دروازہ صحن کے ضلع شمال مغرب کے دور ترین حصہ میں واقع ہے اور اس کا نام  سدر کے اس درخت کی یاد میں رکھا گیا ہے جو سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کی قبر کے کنارے لگایا گیا تھا اور زائرین اس کے سبب سے قبر تک رسائی حاصل کرتے تھے۔
# '''باب السدرہ:''' یہ دروازہ صحن کے ضلع شمال مغرب کے دور ترین حصہ میں واقع ہے اور اس کا نام  سدر کے اس درخت کی یاد میں رکھا گیا ہے جو سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کی قبر کے کنارے لگایا گیا تھا اور زائرین اس کے سبب سے قبر تک رسائی حاصل کرتے تھے۔
# '''باب السلطانیہ:''' یہ دروازہ صحن کے مغربی سمت میں واقع ہے اور اس کا نام سلاطین عثمانی میں سے ایک سلطان جس نے اس باب کو تعمیر کرایا تھا، کے نام پر رکھا گیا ہے۔
# '''باب السلطانیہ:''' یہ دروازہ صحن کے مغربی سمت میں واقع ہے اور اس کا نام سلاطین عثمانی میں سے ایک سلطان جس نے اس باب کو تعمیر کرایا تھا، کے نام پر رکھا گیا ہے۔
# '''باب راس الحسین:''' یہ دروازہ صحن کے مغربی ضلع کے درمیانی حصہ میں واقع ہے اور چونکہ یہ امام (ع) سرہانے (بالای سر) کی جانب ہے اس لئے اس نام سے معروف ہے۔
# '''باب راس الحسین:''' یہ دروازہ صحن کے مغربی ضلع کے درمیانی حصہ میں واقع ہے اور چونکہ یہ امامؑ سرہانے (بالای سر) کی جانب ہے اس لئے اس نام سے معروف ہے۔
# '''باب الزینبیہ:''' یہ دروازہ صحن کے جنوب مغربی حصہ میں واقع ہے اور چونکہ یہ تلہ زینبیہ یا مقام [[زینب (س)]] سے بھی نزدیک ہے اس لئے باب الزینبیہ کے نام سے مسہور ہو گیا ہے۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۹۳۔۲۰۳</ref>
# '''باب الزینبیہ:''' یہ دروازہ صحن کے جنوب مغربی حصہ میں واقع ہے اور چونکہ یہ تلہ زینبیہ یا مقام [[زینب (س)]] سے بھی نزدیک ہے اس لئے باب الزینبیہ کے نام سے مسہور ہو گیا ہے۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۹۳۔۲۰۳</ref>


سطر 116: سطر 116:


=== گلدستے ===
=== گلدستے ===
روضہ امام (ع) کے گنبد کے جنوب میں دس میٹر کے فاصلہ پر دو بڑے گلدستے ہیں جن پر سونے سے ملمع کیا گیا ہے، صحن کی زمین سے جن کی بلندی تقریبا 25 میٹر اور ان کا قطر چار میٹر تک ہے۔ ان دونوں گلدستوں کی نوک پر ایک راڈ نصب کیا گیا ہے جس کے فراز پر روشنی کے لئے چراغ لگائے گئے ہیں۔ یہ دونوں گلدستے سن 786 ق میں اویس جلایری اور اس کے بیٹے احمد جلایری کے دور میں تعمیر کئے گئے تھے۔ اس دونوں گلدستوں میں استعمال ہونے والی سونے کی اینٹوں کی مجموعی تعداد 8024  ہے۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۹۰۔۱۹۱</ref>
روضہ امامؑ کے گنبد کے جنوب میں دس میٹر کے فاصلہ پر دو بڑے گلدستے ہیں جن پر سونے سے ملمع کیا گیا ہے، صحن کی زمین سے جن کی بلندی تقریبا 25 میٹر اور ان کا قطر چار میٹر تک ہے۔ ان دونوں گلدستوں کی نوک پر ایک راڈ نصب کیا گیا ہے جس کے فراز پر روشنی کے لئے چراغ لگائے گئے ہیں۔ یہ دونوں گلدستے سن 786 ق میں اویس جلایری اور اس کے بیٹے احمد جلایری کے دور میں تعمیر کئے گئے تھے۔ اس دونوں گلدستوں میں استعمال ہونے والی سونے کی اینٹوں کی مجموعی تعداد 8024  ہے۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۹۰۔۱۹۱</ref>


=== ایوان طلا ===
=== ایوان طلا ===
سطر 124: سطر 124:


===رواق===
===رواق===
امام (ع) کے روضہ کا گنبد کا حصہ چاروں سمت سے چار رواق پر مشتمل ہے۔ ان میں ہر رواق کی چوڑائی 5 میٹر اور شمال سے جنوب تک اس کی لمبائی تقریبا 40 میٹر ہے اور رواق کی شرقی و غربی سمت کی لمبائی تقریبا 45 میٹر ہے اور ہر رواق کی اونچائی 12 میٹر تک ہے۔ ان رواقوں کے فرش پر سفید شفاف پتھر لگائے گئے ہیں اور ان کی دیواروں کے وسط میں مختلف سایز کے چھوٹے اور بڑے آئینے لگائے گئے ہیں۔
امامؑ کے روضہ کا گنبد کا حصہ چاروں سمت سے چار رواق پر مشتمل ہے۔ ان میں ہر رواق کی چوڑائی 5 میٹر اور شمال سے جنوب تک اس کی لمبائی تقریبا 40 میٹر ہے اور رواق کی شرقی و غربی سمت کی لمبائی تقریبا 45 میٹر ہے اور ہر رواق کی اونچائی 12 میٹر تک ہے۔ ان رواقوں کے فرش پر سفید شفاف پتھر لگائے گئے ہیں اور ان کی دیواروں کے وسط میں مختلف سایز کے چھوٹے اور بڑے آئینے لگائے گئے ہیں۔


مغربی رواق جسے عام طور پر رواق عمران بن شاہین کہا جاتا ہے، اور جو اس وقت رواق [[ابراہیم بن مجاب]] کے نام سے معروف ہے۔ یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں [[امام موسی کاظم علیہ السلام]] کے پوتے سید ابراہیم مجاب دفن ہیں۔ اس مغربی رواق میں بعض دینی و علمی شخصیتیں بھی مدفون ہیں۔
مغربی رواق جسے عام طور پر رواق عمران بن شاہین کہا جاتا ہے، اور جو اس وقت رواق [[ابراہیم بن مجاب]] کے نام سے معروف ہے۔ یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس میں [[امام موسی کاظم علیہ السلام]] کے پوتے سید ابراہیم مجاب دفن ہیں۔ اس مغربی رواق میں بعض دینی و علمی شخصیتیں بھی مدفون ہیں۔
سطر 137: سطر 137:
[[ملف:ضریح امام حسین(ع).jpg|تصغیر]]
[[ملف:ضریح امام حسین(ع).jpg|تصغیر]]
{{اصلی|امام حسین علیہ السلام کی ضریح}}
{{اصلی|امام حسین علیہ السلام کی ضریح}}
اس گنبد کے نیچے ایک بڑی چاندی کی چند گوشہ والی ضریح موجود ہے۔ جس کے اندر [[امام حسین علیہ السلام]] اور ان کے دو فرزند [[علی اصغر]] اور [[علی اکبر]] علیہما السلام مدفون ہیں۔<ref>قمی، اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، صفحہ ۴۶۔</ref> مختلف ادوار میں متعدد ضریحیں بنائی گئی ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی قبر پر نصب کی گئی ہیں۔ آخری بار [[امام حسین علیہ السلام]] کے حرم کی نئی ضریح چار سال چار مہینوں کے عرصے میں (جون 2008ع‍ سے اکتوبر 2012ع‍ تک) شہر [[قم]] کے مدرسہ معصومیہ میں تیار کی گئی<ref>[http://www.farsnews.com/newstext.php?nn=13910907001011 ناگفته‌هایی از ساخت ضریح جدید امام حسین(ع)]۔</ref> جس کی تنصیب کا کام [[ربیع الاول]] سنہ 1434ھ کو شروع ہوا اور 22 [[ربیع الثانی]] سنہ 1334ھ بمطابق 5 مارچ سنہ 2013ع‍ کو نئی ضریح کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ضریح ہندسی شکل کے لحاظ سے پرانی ضریح کی مانند ہے لیکن بلندی کے لحاظ سے پرانی ضریح کی نسبت زیادہ اونچی ہے، اور اس کا رقبہ 34 میٹر مربع ہے۔<ref>[http://hamshahrionline.ir/details/204182 تصاویر رونمایی ضریح جدید حرم امام حسین (ع)] همشهری آنلاین۔</ref>
اس گنبد کے نیچے ایک بڑی چاندی کی چند گوشہ والی ضریح موجود ہے۔ جس کے اندر [[امام حسین علیہ السلام]] اور ان کے دو فرزند [[علی اصغر]] اور [[علی اکبر]] علیہما السلام مدفون ہیں۔<ref>قمی، اماکن زیارتی و سیاحتی عراق، صفحہ ۴۶۔</ref> مختلف ادوار میں متعدد ضریحیں بنائی گئی ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی قبر پر نصب کی گئی ہیں۔ آخری بار [[امام حسین علیہ السلام]] کے حرم کی نئی ضریح چار سال چار مہینوں کے عرصے میں (جون 2008ع‍ سے اکتوبر 2012ع‍ تک) شہر [[قم]] کے مدرسہ معصومیہ میں تیار کی گئی<ref>[http://www.farsnews.com/newstext.php?nn=13910907001011 ناگفته‌هایی از ساخت ضریح جدید امام حسین(ع)]۔</ref> جس کی تنصیب کا کام [[ربیع الاول]] سنہ 1434ھ کو شروع ہوا اور 22 [[ربیع الثانی]] سنہ 1334ھ بمطابق 5 مارچ سنہ 2013ع‍ کو نئی ضریح کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیا۔ یہ ضریح ہندسی شکل کے لحاظ سے پرانی ضریح کی مانند ہے لیکن بلندی کے لحاظ سے پرانی ضریح کی نسبت زیادہ اونچی ہے، اور اس کا رقبہ 34 میٹر مربع ہے۔<ref>[http://hamshahrionline.ir/details/204182 تصاویر رونمایی ضریح جدید حرم امام حسینؑ] همشهری آنلاین۔</ref>


===شہدائے کربلا کا مدفن===
===شہدائے کربلا کا مدفن===
سطر 143: سطر 143:
بائیں سمت میں ایک چاندی کی جالی میں غیر [[بنی ہاشم]] [[شہدائے کربلا]] مدفون ہیں۔
بائیں سمت میں ایک چاندی کی جالی میں غیر [[بنی ہاشم]] [[شہدائے کربلا]] مدفون ہیں۔
[[حضرت علی اکبر (ع)]] کے دفن ہونے کی جگہ امام حسین علیہ السلام کے پائینتی واقع ہے اور امام حسین (ع) کی ضریح کے نچلے دو حصوں میں جناب علی اکبر اور [[بنی ہاشم]] کے شہداء دفن ہیں ۔ یہ حصہ امام حسین (ع) کی ضریح کے بیرونی حصہ سے متصل ہے جس کی لبمائی 2 میٹر 60 سینٹی میٹر اور چوڑائی ایل میٹر 40 سینٹی میٹر ہے۔
[[حضرت علی اکبرؑ]] کے دفن ہونے کی جگہ امام حسین علیہ السلام کے پائینتی واقع ہے اور امام حسینؑ کی ضریح کے نچلے دو حصوں میں جناب علی اکبر اور [[بنی ہاشم]] کے شہداء دفن ہیں ۔ یہ حصہ امام حسینؑ کی ضریح کے بیرونی حصہ سے متصل ہے جس کی لبمائی 2 میٹر 60 سینٹی میٹر اور چوڑائی ایل میٹر 40 سینٹی میٹر ہے۔


بنی ہاشم شہداء کا مزار جناب علی اکبر کی قبر کی طرف [[امام حسین علیہ السلام]] کے پیر کی جانب واقع ہے۔ روایات کے مطابق، [[بنی اسد]] نے جس وقت شہداء کے جنازوں کو دفن کیا اس وقت بنی ہاشم کے جنازوں کو جسے امام حسین (ع) نے ایک خیمہ میں جمع کر دیا تھا، حضرت کے پیر کی سمت میں دفن کیا اور اس کے بعد وہاں سے کچھ میٹر کے فاصلہ پر دوسرے تمام غیر بنی ہاشم شہداء کو دفن کیا ۔
بنی ہاشم شہداء کا مزار جناب علی اکبر کی قبر کی طرف [[امام حسین علیہ السلام]] کے پیر کی جانب واقع ہے۔ روایات کے مطابق، [[بنی اسد]] نے جس وقت شہداء کے جنازوں کو دفن کیا اس وقت بنی ہاشم کے جنازوں کو جسے امام حسینؑ نے ایک خیمہ میں جمع کر دیا تھا، حضرت کے پیر کی سمت میں دفن کیا اور اس کے بعد وہاں سے کچھ میٹر کے فاصلہ پر دوسرے تمام غیر بنی ہاشم شہداء کو دفن کیا ۔
[[حضرت ابو الفضل العباس]]، [[حر بن یزید ریاحی]] اور [[حبیب بن مظاہر]] کے علاوہ تمام شہدائے کربلا امام حسین علیہ السلام کی قبر کے قریب دفن کئے گئے ہیں اور ان کا مقبرہ امام حسین (ع) کی ضریح کے جنوب مشرقی سمت میں کچھ میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ یہ قبریں جو ایک 12 میٹر کے چھوٹے سے حجرہ میں ایک منقش صندوق کے اندر واقع ہیں، اس کے اوپر چاندی کی ایک جالی لگی ہوئی ہے جس کی لمبائی 5 میٹر ہے اور جس سے قبریں کا نشان پتہ چلتا ہے۔ اس جالی کے اوپر [[شہدائے کربلا]] میں سے تقریبا ایک سو بیس حضرات کے نام، ان کی مخصوص زیارت کے ساتھ  کاشی کے کتبہ کی صورت میں نقش اور ثبت ہیں۔<ref>قائدان، عتبات عالیات عراق، صفحہ ۱۱۸۔۱۱۹</ref>
[[حضرت ابو الفضل العباس]]، [[حر بن یزید ریاحی]] اور [[حبیب بن مظاہر]] کے علاوہ تمام شہدائے کربلا امام حسین علیہ السلام کی قبر کے قریب دفن کئے گئے ہیں اور ان کا مقبرہ امام حسینؑ کی ضریح کے جنوب مشرقی سمت میں کچھ میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ یہ قبریں جو ایک 12 میٹر کے چھوٹے سے حجرہ میں ایک منقش صندوق کے اندر واقع ہیں، اس کے اوپر چاندی کی ایک جالی لگی ہوئی ہے جس کی لمبائی 5 میٹر ہے اور جس سے قبریں کا نشان پتہ چلتا ہے۔ اس جالی کے اوپر [[شہدائے کربلا]] میں سے تقریبا ایک سو بیس حضرات کے نام، ان کی مخصوص زیارت کے ساتھ  کاشی کے کتبہ کی صورت میں نقش اور ثبت ہیں۔<ref>قائدان، عتبات عالیات عراق، صفحہ ۱۱۸۔۱۱۹</ref>


===قتل گاہ یا مقتل===
===قتل گاہ یا مقتل===
سطر 161: سطر 161:
حرم کا گنجینہ اس کی شمالی سمت میں واقع ہے اور اس میں جواہرات، نفیس اشیاء اور بے شمار قیمتی  آثار شامل ہیں جو مختلف صدیوں میں [[اسلامی]] ممالک کے مختلف بادشاہوں، اور سلاطین  کے ذریعہ ہدیہ کئے گئے ہیں۔ حرم کا کتب خانہ اس کے مشرقی سمت میں واقع ہے اور اس میں [[قرآن کریم]] کے متعدد نفیس خطی نسخے موجود ہیں۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۲۴۔</ref>
حرم کا گنجینہ اس کی شمالی سمت میں واقع ہے اور اس میں جواہرات، نفیس اشیاء اور بے شمار قیمتی  آثار شامل ہیں جو مختلف صدیوں میں [[اسلامی]] ممالک کے مختلف بادشاہوں، اور سلاطین  کے ذریعہ ہدیہ کئے گئے ہیں۔ حرم کا کتب خانہ اس کے مشرقی سمت میں واقع ہے اور اس میں [[قرآن کریم]] کے متعدد نفیس خطی نسخے موجود ہیں۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۱۲۴۔</ref>


==امام حسین (ع) کے روضہ میں مدفون شخصیات==
==امام حسینؑ کے روضہ میں مدفون شخصیات==
عرصہ دراز سے بہت سی بزرگ شخصیتیں، شاہ زادے، امراء، شعراء اور علماء [[امام حسین علیہ السلام]] کے حرم میں سپرد خاک کئے گئے ہیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جا رہا ہے:
عرصہ دراز سے بہت سی بزرگ شخصیتیں، شاہ زادے، امراء، شعراء اور علماء [[امام حسین علیہ السلام]] کے حرم میں سپرد خاک کئے گئے ہیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر مندرجہ ذیل سطور میں کیا جا رہا ہے:


سطر 203: سطر 203:


==کربلا کے نقباء اور حرم کے متولی==
==کربلا کے نقباء اور حرم کے متولی==
نقیب یا علوی [[سادات]] کے سرپرست افراد ایک خاص سماجی و سیاسی حیثیت کے حامل تھے اور ان کے ذمہ خاص فرایض تھے اور اس منصب اور مقام کے لئے مخصوص شرائط لازم و ضروری تھیں۔ نقابت علوی خاندان سے مخصوص تھی اور ایک علوی خاندان سے دوسرے علوی خاندان تک، خاص شرائط اور لیاقت کے ساتھ منتقل ہوتی تھی اور عام طور پر کسی نہایت برجستہ اور با اثر و رسوخ فرد کے اختیار میں قرار دی جاتی تھی۔ نقیب کے سب سے اہم کاموں میں سے ایک علویوں کے امور کی سرپرستی کرنا اور اسی طرح سے [[ائمہ]] (ع) کے روضوں اور زیارتی شہروں سے مربوط امور کی نگرانی کرنا تھا۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۲۰۴۔</ref>
نقیب یا علوی [[سادات]] کے سرپرست افراد ایک خاص سماجی و سیاسی حیثیت کے حامل تھے اور ان کے ذمہ خاص فرایض تھے اور اس منصب اور مقام کے لئے مخصوص شرائط لازم و ضروری تھیں۔ نقابت علوی خاندان سے مخصوص تھی اور ایک علوی خاندان سے دوسرے علوی خاندان تک، خاص شرائط اور لیاقت کے ساتھ منتقل ہوتی تھی اور عام طور پر کسی نہایت برجستہ اور با اثر و رسوخ فرد کے اختیار میں قرار دی جاتی تھی۔ نقیب کے سب سے اہم کاموں میں سے ایک علویوں کے امور کی سرپرستی کرنا اور اسی طرح سے [[ائمہ]]ؑ کے روضوں اور زیارتی شہروں سے مربوط امور کی نگرانی کرنا تھا۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۲۰۴۔</ref>


==امام حسین (ع) کے حرم کے متولی==
==امام حسینؑ کے حرم کے متولی==
ام موسی، مہدی عباسی کی ماں نے چند افراد کو امام کے روضہ کی خدمت پر مامور کیا، تا کہ وہ وہاں کے کاموں کو انجام دیں۔ اس نے اس گروہ کے لئے تنخواہ مقرر کی۔ ہارون نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور در واقع اسی ہہلے گروہ نے [[امام حسین علیہ السلام]] کے روضے کے خادمین اور متولیوں کو تشکیل دیا۔ اس وجہ سے کہ شہر کی اکثریت علویوں پر مشتمل تھی، شہر کی حاکمیت علوی نقیب کے اختیار میں دی جاتی تھی۔ مغولوں کے ذریعہ سن 656 ق میں بغداد کے سقوط کے بعد تاریخ عراق کے بہت ہی کم منابع میں امام حسین علیہ السلام اور [[حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام]] کے روضوں کے متولیوں اور اس بارے میں کہ کس طرح سے روضے کے امور کی رسیدگی کی جاتی تھی، تذکرہ کیا گیا ہے۔ اۤٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں قبیلہ بنی اسد کے بعض افراد نے اطراف کی سر زمینوں پر قبضہ کے ساتھ حرم کے امور کی ذمہ داری کو اپنے ہاتھوں میں لینے میں کامیابی حاصل کر لی تھا۔  
ام موسی، مہدی عباسی کی ماں نے چند افراد کو امام کے روضہ کی خدمت پر مامور کیا، تا کہ وہ وہاں کے کاموں کو انجام دیں۔ اس نے اس گروہ کے لئے تنخواہ مقرر کی۔ ہارون نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اور در واقع اسی ہہلے گروہ نے [[امام حسین علیہ السلام]] کے روضے کے خادمین اور متولیوں کو تشکیل دیا۔ اس وجہ سے کہ شہر کی اکثریت علویوں پر مشتمل تھی، شہر کی حاکمیت علوی نقیب کے اختیار میں دی جاتی تھی۔ مغولوں کے ذریعہ سن 656 ق میں بغداد کے سقوط کے بعد تاریخ عراق کے بہت ہی کم منابع میں امام حسین علیہ السلام اور [[حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام]] کے روضوں کے متولیوں اور اس بارے میں کہ کس طرح سے روضے کے امور کی رسیدگی کی جاتی تھی، تذکرہ کیا گیا ہے۔ اۤٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں قبیلہ بنی اسد کے بعض افراد نے اطراف کی سر زمینوں پر قبضہ کے ساتھ حرم کے امور کی ذمہ داری کو اپنے ہاتھوں میں لینے میں کامیابی حاصل کر لی تھا۔  


سطر 212: سطر 212:
منصب تولیت کی طاقت کے جلوہ کے طور پر جس کے نتیجہ میں بطور طبیعی پورے شہر کے انتظامی امور کی قدرت حاصل ہو جاتی ہے، یہ چیز سامنے آئی کہ اس نے [[کربلا]] پر وہابیوں کے حملے کے واقعہ میں جو سن ۱۲۱۶۔۱۲۲۰ ھ ق میں پیش آیا اور اسی طرح سے دوسرا حملہ جو سن ۱۲۵۸ ھ ق میں نجیب پاشا کی طرف سے کیا گیا جس کی شہرت غدیر خون کے حادثہ کے طور پر ہے، اس نے عوامی مقاومت و مزاحمت کی رہنمائی کی۔غدیر خون کے حادثہ میں اور کربلا پر ایک بعد ایک حملوں کے بعد حرم کی تولیت کی قدرت نہایت تیزی سے زوال کا شکار ہو گئی، اس طرح سے کہ دو صدیوں سے زیادہ ایسے لوگوں کے پاتھ میں حرم کی تولیت رہی جو غیر علوی خاندانوں سے تھے۔ تیرہویں صدی ہجری کے اواخر تک تولیت غیر علویوں کے ہاتھوں میں تھی اور اس کے بعد آل طعمہ خاندان کے اختیار میں آ گئی اور عثمانی حکومت کے آخر تک اور اسی طرح سے بعد کے ادوار میں ان ہی ہاتھوں میں رہی۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۲۱۷۔۲۲۰</ref>
منصب تولیت کی طاقت کے جلوہ کے طور پر جس کے نتیجہ میں بطور طبیعی پورے شہر کے انتظامی امور کی قدرت حاصل ہو جاتی ہے، یہ چیز سامنے آئی کہ اس نے [[کربلا]] پر وہابیوں کے حملے کے واقعہ میں جو سن ۱۲۱۶۔۱۲۲۰ ھ ق میں پیش آیا اور اسی طرح سے دوسرا حملہ جو سن ۱۲۵۸ ھ ق میں نجیب پاشا کی طرف سے کیا گیا جس کی شہرت غدیر خون کے حادثہ کے طور پر ہے، اس نے عوامی مقاومت و مزاحمت کی رہنمائی کی۔غدیر خون کے حادثہ میں اور کربلا پر ایک بعد ایک حملوں کے بعد حرم کی تولیت کی قدرت نہایت تیزی سے زوال کا شکار ہو گئی، اس طرح سے کہ دو صدیوں سے زیادہ ایسے لوگوں کے پاتھ میں حرم کی تولیت رہی جو غیر علوی خاندانوں سے تھے۔ تیرہویں صدی ہجری کے اواخر تک تولیت غیر علویوں کے ہاتھوں میں تھی اور اس کے بعد آل طعمہ خاندان کے اختیار میں آ گئی اور عثمانی حکومت کے آخر تک اور اسی طرح سے بعد کے ادوار میں ان ہی ہاتھوں میں رہی۔<ref>آل طعمہ، کربلا و حرم ھای مطھر، صفحہ ۲۱۷۔۲۲۰</ref>


==امام حسین (ع) کی زیارت کا ثواب==
==امام حسینؑ کی زیارت کا ثواب==
{{اصلی| زیارت امام حسین (ع)}}
{{اصلی| زیارت امام حسینؑ}}
بہت سی روایات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور زیارت پر اس قدر تاکید دوسرے امام کے بارے میں نہیں ملتی ہے۔ اس طرح سے کہ بعض روایات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔
بہت سی روایات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے سلسلہ میں تاکید کی گئی ہے اور زیارت پر اس قدر تاکید دوسرے امام کے بارے میں نہیں ملتی ہے۔ اس طرح سے کہ بعض روایات میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو واجب قرار دیا گیا ہے۔


ایک روایت میں [[امام محمد باقر علیہ السلام]] فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ [[امام حسین علیہ السلام]] کی زیارت کی کس قدر فضیلت ہے تو وہ شوق کے مارے اپنی جان دے دیتے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: جس نے حسین (ع) کی زیارت شوق کے ساتھ کی، اس کے نامہ اعمال میں ہزار مقبول [[حج]] اور ہزار مقبول عمرے، شہدائے بدر میں سے ہزار شہداء اور ہزار روزے دار، ہزار مقبولہ [[صدقہ]] اور راہ خدا میں ہزار غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔<ref>قریشی، مرقدھا و مکان زیارتی کربلا، صفحہ ۳۰۔</ref>
ایک روایت میں [[امام محمد باقر علیہ السلام]] فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو علم ہوتا کہ [[امام حسین علیہ السلام]] کی زیارت کی کس قدر فضیلت ہے تو وہ شوق کے مارے اپنی جان دے دیتے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: جس نے حسینؑ کی زیارت شوق کے ساتھ کی، اس کے نامہ اعمال میں ہزار مقبول [[حج]] اور ہزار مقبول عمرے، شہدائے بدر میں سے ہزار شہداء اور ہزار روزے دار، ہزار مقبولہ [[صدقہ]] اور راہ خدا میں ہزار غلام آزاد کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔<ref>قریشی، مرقدھا و مکان زیارتی کربلا، صفحہ ۳۰۔</ref>


امام حسین علیہ السلام کے روضے کی زیارت، تمام شیعوں کے قابل توجہ اعمال میں سے ایک ہے۔ [[کربلا]] اور امام حسین علیہ السلام کے حرم میں سب سے زیادہ زائرین [[عاشورا]]، [[اربعین]] اور [[نیمہ شعبان]] کے ایام میں جمع ہوتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کے روضے کی زیارت، تمام شیعوں کے قابل توجہ اعمال میں سے ایک ہے۔ [[کربلا]] اور امام حسین علیہ السلام کے حرم میں سب سے زیادہ زائرین [[عاشورا]]، [[اربعین]] اور [[نیمہ شعبان]] کے ایام میں جمع ہوتے ہیں۔


==امام حسین (ع) کے حرم کے احکام==
==امام حسینؑ کے حرم کے احکام==
امام حسین علیہ السلام کی زیارت شیعوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔
امام حسین علیہ السلام کی زیارت شیعوں کے نزدیک ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔


{{اصلی|حائر حسینی}}
{{اصلی|حائر حسینی}}
* [[مسافر]] [[امام حسین علیہ السلام]] کے حرم میں اپنی [[نماز]] بطور کامل یا قصر پڑھ سکتا ہے لیکن اس کے لئے پوری [[نماز]] پڑھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ امام حسین (ع)کے پورے روضہ میں زیر گنبد، اس سے متصل تمام رواقوں اور [[مساجد]] میں بھی یہی حکم ہے اور مسافر وہاں پر اپنی نماز بطور کامل پڑھ سکتا ہے۔<ref>فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۱۴۔</ref>
* [[مسافر]] [[امام حسین علیہ السلام]] کے حرم میں اپنی [[نماز]] بطور کامل یا قصر پڑھ سکتا ہے لیکن اس کے لئے پوری [[نماز]] پڑھنا زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ امام حسینؑکے پورے روضہ میں زیر گنبد، اس سے متصل تمام رواقوں اور [[مساجد]] میں بھی یہی حکم ہے اور مسافر وہاں پر اپنی نماز بطور کامل پڑھ سکتا ہے۔<ref>فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۱۴۔</ref>
* [[ائمہ]] علیہم السلام کے روضوں میں اور خاص طور پر [[امام علی (ع)]] اور امام حسین (ع) کے روضوں میں [[نماز]] پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ <ref>فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۱۷۔</ref>
* [[ائمہ]] علیہم السلام کے روضوں میں اور خاص طور پر [[امام علیؑ]] اور امام حسینؑ کے روضوں میں [[نماز]] پڑھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ <ref>فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۱۷۔</ref>
* انسان کو چاہئے کہ وہ ادب کی رعایت کرے اور [[رسول اکرم (ص)]] اور [[ائمہ معصومین (ع)]] کی قبور کے آگے [[نماز]] نہ پڑھے اور چنانچہ نماز پڑھنا بے احترامی شمار ہو تو [[حرام]] ہے البتہ نماز باطل نہیں ہے۔ اگر نماز میں کوئی چیز جیسے اس کے اور قبر کے درمیان دیوار حائل ہو جس سے بے احترامی نہ ہوتی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن ضریح اور اس کے پاس ڈالے گئے پردہ کا فاصلہ ہونا آگے نماز پڑھنے کے لئے کافی نہیں ہے۔<ref>فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۱۷۔۱۸</ref>
* انسان کو چاہئے کہ وہ ادب کی رعایت کرے اور [[رسول اکرم (ص)]] اور [[ائمہ معصومینؑ]] کی قبور کے آگے [[نماز]] نہ پڑھے اور چنانچہ نماز پڑھنا بے احترامی شمار ہو تو [[حرام]] ہے البتہ نماز باطل نہیں ہے۔ اگر نماز میں کوئی چیز جیسے اس کے اور قبر کے درمیان دیوار حائل ہو جس سے بے احترامی نہ ہوتی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن ضریح اور اس کے پاس ڈالے گئے پردہ کا فاصلہ ہونا آگے نماز پڑھنے کے لئے کافی نہیں ہے۔<ref>فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۱۷۔۱۸</ref>
* تمام ائمہ (ع) کی زیارت کے وقت عطر لگانا اور خوشبو کرنا [[مستحب]] ہے لیکن امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں ایسا کرنا مستحب نہیں ہے۔<ref>فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۳۶۔</ref>
* تمام ائمہؑ کی زیارت کے وقت عطر لگانا اور خوشبو کرنا [[مستحب]] ہے لیکن امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں ایسا کرنا مستحب نہیں ہے۔<ref>فلاح زادہ، احکام فقہی سفر زیارتی کربلا، صفحہ ۳۶۔</ref>


{{اصلی| تربت}}
{{اصلی| تربت}}
* تربت امام حسین علیہ السلام کے لئے مخصوص آثار اور احکام بیان کئے گئے ہیں:
* تربت امام حسین علیہ السلام کے لئے مخصوص آثار اور احکام بیان کئے گئے ہیں:
# [[نماز]] کی حالت میں تربت امام حسین (ع) پر [[سجدہ]] کرنا [[مستحب]] ہے اور نماز کے ثواب میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
# [[نماز]] کی حالت میں تربت امام حسینؑ پر [[سجدہ]] کرنا [[مستحب]] ہے اور نماز کے ثواب میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
# کسی بھی قسم کی خاک کا کھانا [[حرام]] ہے سوائے تربت امام حسین (ع) کے، جس کا شفا حاصل کرنے کی [[نیت]] سے کم مقدار میں کھانا [[جائز]] ہے۔
# کسی بھی قسم کی خاک کا کھانا [[حرام]] ہے سوائے تربت امام حسینؑ کے، جس کا شفا حاصل کرنے کی [[نیت]] سے کم مقدار میں کھانا [[جائز]] ہے۔
# نوزائیدہ بچہ کو تربت امام حسین علیہ السلام چٹانا مستحب ہے۔
# نوزائیدہ بچہ کو تربت امام حسین علیہ السلام چٹانا مستحب ہے۔
# اس تربت کے احترام کا خیال رکھنا لازم ہے اور کسی بھی طرح سے اس کی بے احترامی کرنا حرام ہے۔ جیسے:
# اس تربت کے احترام کا خیال رکھنا لازم ہے اور کسی بھی طرح سے اس کی بے احترامی کرنا حرام ہے۔ جیسے:
سطر 249: سطر 249:
<center>
<center>
<gallery widths="120" heights="120px" perrow="6" style="border: 5px solid #004225; box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); -moz-box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); -webkit-box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); border-radius: 0.5em; -moz-border-radius: 0.5em; -webkit-border-radius: 0.5em;">
<gallery widths="120" heights="120px" perrow="6" style="border: 5px solid #004225; box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); -moz-box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); -webkit-box-shadow: 0.1em 0.1em 0.5em rgba(0،0،0،0.75); border-radius: 0.5em; -moz-border-radius: 0.5em; -webkit-border-radius: 0.5em;">
ملف:روضۂ امام حسین.jpg| روضۂ امام حسین (ع)
ملف:روضۂ امام حسین.jpg| روضۂ امام حسینؑ
ملف:نمایی از بین الحرمین.jpg| [[بین الحرمین]]
ملف:نمایی از بین الحرمین.jpg| [[بین الحرمین]]
ملف:قتلگاه امام حسین(ع).jpg|[[قتلگاہ]] امام حسین(ع)
ملف:قتلگاه امام حسین(ع).jpg|[[قتلگاہ]] امام حسین(ع)
confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم