مندرجات کا رخ کریں

"معاویۃ بن ابی سفیان" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 161: سطر 161:
کسی شک و شبہ کے بغیر  شیعہ معاویہ کے دشمنوں میں سے تھے . معاویہ اور اسکے عاملین اور والی  مختلف شکلوں میں شیعوں کے روبرو ہوتے ۔
کسی شک و شبہ کے بغیر  شیعہ معاویہ کے دشمنوں میں سے تھے . معاویہ اور اسکے عاملین اور والی  مختلف شکلوں میں شیعوں کے روبرو ہوتے ۔
*'''امام علی(ع) سے بیزاری پیدا کرنا''': شیعوں کا مقابلہ کرنے کیلئے معاویہ کی اہم ترین روشوں میں سے ایک روش  لوگوں کے درمیان امام علی سے بیزاری کو پیدا کرنا تھی ۔  معاویہ اور اسکے بعد کے  دیگر اموی حاکمان معاشرے  سے  علی کے چہرے کو حذف کرنے خاطر انہیں ایک جنگجو  اور خونریز شخص کے طور پر معرفی کرنے کیلئے سرگرم رہے ۔<ref>محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۲۸، از اضافات رسول جعفریان</ref> محفلوں میں ان سے نفرت کا اظہار کرتے اور ان پر لعن کرتے ۔ ابن ابی الحدید  شرح نہج البلاغہمعاویہ کی طرف علی کی مذمت میں جعلی اور من گھڑت احادیث کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۶۳ باب {{حدیث|فصل في ذكر الأحاديث الموضوعة في ذم علي}}</ref>
*'''امام علی(ع) سے بیزاری پیدا کرنا''': شیعوں کا مقابلہ کرنے کیلئے معاویہ کی اہم ترین روشوں میں سے ایک روش  لوگوں کے درمیان امام علی سے بیزاری کو پیدا کرنا تھی ۔  معاویہ اور اسکے بعد کے  دیگر اموی حاکمان معاشرے  سے  علی کے چہرے کو حذف کرنے خاطر انہیں ایک جنگجو  اور خونریز شخص کے طور پر معرفی کرنے کیلئے سرگرم رہے ۔<ref>محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۲۸، از اضافات رسول جعفریان</ref> محفلوں میں ان سے نفرت کا اظہار کرتے اور ان پر لعن کرتے ۔ ابن ابی الحدید  شرح نہج البلاغہمعاویہ کی طرف علی کی مذمت میں جعلی اور من گھڑت احادیث کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۶۳ باب {{حدیث|فصل في ذكر الأحاديث الموضوعة في ذم علي}}</ref>
::معاویہ اور اسکے بعد امیوں کے دور حکومت میں علی پر لعن اور دشنام درازی ایک متداول اور رائج رسم تھی یہانتک کہ [[عمر بن عبدالعزیز]] کے دور میں اس کا خاتمہ ہوا۔ <ref>سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص ۲۴۳</ref> چنانچہ جب [[مروان بن حکم]] سے سوال کیا گیا کہ منبروں پر علی کو ناسزا کہا جاتا ہے ؟اس نے جواب دیا :بنی امیہ کی حکومت علی کو گالیاں دئے بغیر استوار نہیں رہ سکتی ہے ۔ <ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۱۸۴ ؛ {{حدیث|عَن عمر بن عَلی قَالَ: قَالَ مروان لعلی بن الْحُسَین: ما کانَ أحد أکف عَن صاحبنا من صاحبکم. قَالَ: فلم تشتمونه عَلَی المنابر؟!! قَالَ: لا یستقیم لنا هذا إلا بهذا}}</ref> معاویہ کہتا تھا: علی پر لعن و سب اس طرح پھیل جانا چاہئے کہ بچے اسی شعار کے ساتھ بڑے ہوں اور جوان اسی کے ساتھ بوڑھے ہوں۔کوئی شخص اسکی ایک بھی  فضیلت نقل نہ کرے ۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۵۷؛ العمانی، النصایح الکافیہ، ص ۷۲</ref> معاویہ نے [[سمرة بن جندب]] کو چار لاکھ دینار دئے کہ وہ کہے :{{حدیث|و هو الد الخصام}}بقرہ 204 علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۳۶۱</ref> اس نے [[صحابہ]] اور [[تابعین]] کی ایک جماعت بنائی جو علی کی مذمت میں روایات کو جعل کرتے تھے ۔ ان میں سے [[ابوہریره]]، [[عمرو بن عاص]]، [[مغیره بن شعبہ]] اور [[عروه بن زبیر]] تھے ۔وہ خطبے کے آخر میں علی پر لعن کرتا اور اگر اسکے والی ایسا نہ کرتے تو انہیں عزل کر دیتا ۔معاشرے میں اس قدر خوف ہراس پیدا کر دیا کہ لوگ اپنے بیٹوں کے نام علی نہیں  رکھتے تھے۔
*معاویہ اور اسکے بعد امیوں کے دور حکومت میں علی پر لعن اور دشنام درازی ایک متداول اور رائج رسم تھی یہانتک کہ [[عمر بن عبدالعزیز]] کے دور میں اس کا خاتمہ ہوا۔ <ref>سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص ۲۴۳</ref> چنانچہ جب [[مروان بن حکم]] سے سوال کیا گیا کہ منبروں پر علی کو ناسزا کہا جاتا ہے ؟اس نے جواب دیا :بنی امیہ کی حکومت علی کو گالیاں دئے بغیر استوار نہیں رہ سکتی ہے ۔ <ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۱۸۴ ؛ {{حدیث|عَن عمر بن عَلی قَالَ: قَالَ مروان لعلی بن الْحُسَین: ما کانَ أحد أکف عَن صاحبنا من صاحبکم. قَالَ: فلم تشتمونه عَلَی المنابر؟!! قَالَ: لا یستقیم لنا هذا إلا بهذا}}</ref> معاویہ کہتا تھا: علی پر لعن و سب اس طرح پھیل جانا چاہئے کہ بچے اسی شعار کے ساتھ بڑے ہوں اور جوان اسی کے ساتھ بوڑھے ہوں۔کوئی شخص اسکی ایک بھی  فضیلت نقل نہ کرے ۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۵۷؛ العمانی، النصایح الکافیہ، ص ۷۲</ref> معاویہ نے [[سمرة بن جندب]] کو چار لاکھ دینار دئے کہ وہ کہے :{{حدیث|و هو الد الخصام}}بقرہ 204 علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۳۶۱</ref> اس نے [[صحابہ]] اور [[تابعین]] کی ایک جماعت بنائی جو علی کی مذمت میں روایات کو جعل کرتے تھے ۔ ان میں سے [[ابوہریره]]، [[عمرو بن عاص]]، [[مغیره بن شعبہ]] اور [[عروه بن زبیر]] تھے ۔وہ خطبے کے آخر میں علی پر لعن کرتا اور اگر اسکے والی ایسا نہ کرتے تو انہیں عزل کر دیتا ۔معاشرے میں اس قدر خوف ہراس پیدا کر دیا کہ لوگ اپنے بیٹوں کے نام علی نہیں  رکھتے تھے۔
* ''' [[حجر بن عدی]] اور اسکے اصحاب کی شہادت''': جب [[مغیره بن شعبہ|مغیره]] اور دوسرے لوگ [[کوفہ]] میں منبر پر علی کو لعن کرتے تھے  ، [[حجر بن عدی|حجر بن عدی کندی]] اور [[عمرو بن حمق خزاعی]] اور انکے ساتھی کھڑے ہو جاتے اور انکی لعن کو انکی طرف نسبت دیتے اور اس کے متعلق بات کرتے ۔مغیره کے بعد [[زیاد بن ابیہ]] حاکم کوفہ بنا۔وہ انکی گرفتاری کے در پے ہوا ۔ عمرو بن حمق خزاعی اور اسکے ساتھ چند افراد  [[موصل]] فرار کر گئے جبکہ حجر بن عدی  ۱۳ مردوں کے ساتھ اسیر ہو گیا اور انہیں معاویہ کی طرف روانہ کیا۔  زیاد نے معاویہ کو خط میں لکھا:ابو تراب علی کی کنیت ،پر لعن کرنے والے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں  اور  والیوں پر دروغ باندھتے ہیں اس وجہ سے یہ اطاعت سے خارج ہو گئے ہیں ۔جب یہ اسیر [[مرج عذراء]] پہنچیں یہاں سے دمشق چند میل دور رہ گیا تھا تو معاویہ نے حکم دیا کہ انکی گردنیں اڑا دی جائیں ۔6 افراد کسی وساطت سے بچ گئے اور باقی 7افراد : [[حجر بن عدی|حجر بن عدی کندی]]، [[شریک بن شداد حضرمی]]، [[صیفی بن فسیل شیبانی]]، [[قبیصہ ابن ضبیعہ عبسی]]، [[محرز بن شہاب تمیمی]]، [[کدام بن حیان عنزی]] کی گردنیں اڑا دی گئیں۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، صص۱۶۲-۱۶۳؛ اگرچہ یعقوبی نے افراد کی تعداد سات بیان کی ہے اور نام چھ افراد کے ذکر کئے ہے۔</ref> [[عبدالرحمان بن حسان عنزی]].<ref> الطبری، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۰۷؛ طبری نے  ۷ افراد کے نام ذکر کیے ہیں  محرز بن شہاب کو تمیمی کی بجائے  «سعدی منقری» کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔.</ref>
* ''' [[حجر بن عدی]] اور اسکے اصحاب کی شہادت''': جب [[مغیره بن شعبہ|مغیره]] اور دوسرے لوگ [[کوفہ]] میں منبر پر علی کو لعن کرتے تھے  ، [[حجر بن عدی|حجر بن عدی کندی]] اور [[عمرو بن حمق خزاعی]] اور انکے ساتھی کھڑے ہو جاتے اور انکی لعن کو انکی طرف نسبت دیتے اور اس کے متعلق بات کرتے ۔مغیره کے بعد [[زیاد بن ابیہ]] حاکم کوفہ بنا۔وہ انکی گرفتاری کے در پے ہوا ۔ عمرو بن حمق خزاعی اور اسکے ساتھ چند افراد  [[موصل]] فرار کر گئے جبکہ حجر بن عدی  ۱۳ مردوں کے ساتھ اسیر ہو گیا اور انہیں معاویہ کی طرف روانہ کیا۔  زیاد نے معاویہ کو خط میں لکھا:ابو تراب علی کی کنیت ،پر لعن کرنے والے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں  اور  والیوں پر دروغ باندھتے ہیں اس وجہ سے یہ اطاعت سے خارج ہو گئے ہیں ۔جب یہ اسیر [[مرج عذراء]] پہنچیں یہاں سے دمشق چند میل دور رہ گیا تھا تو معاویہ نے حکم دیا کہ انکی گردنیں اڑا دی جائیں ۔6 افراد کسی وساطت سے بچ گئے اور باقی 7افراد : [[حجر بن عدی|حجر بن عدی کندی]]، [[شریک بن شداد حضرمی]]، [[صیفی بن فسیل شیبانی]]، [[قبیصہ ابن ضبیعہ عبسی]]، [[محرز بن شہاب تمیمی]]، [[کدام بن حیان عنزی]] کی گردنیں اڑا دی گئیں۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، صص۱۶۲-۱۶۳؛ اگرچہ یعقوبی نے افراد کی تعداد سات بیان کی ہے اور نام چھ افراد کے ذکر کئے ہے۔</ref> [[عبدالرحمان بن حسان عنزی]].<ref> الطبری، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۰۷؛ طبری نے  ۷ افراد کے نام ذکر کیے ہیں  محرز بن شہاب کو تمیمی کی بجائے  «سعدی منقری» کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔.</ref>
::حجر بن عدی اور اسکے ساتھیوں کی شہادت کی خبر [[امام حسین]](ع) کیلئے نہایت گراں گزری لہذا آپ نے معاویہ کو ایک خط میں اس خشن آمیز رفتار اور اسکے قتل پر بہت سخت رد عمل کا اظہار کیا ۔<ref> دینوری، ص۲۲۳ـ۲۲۴؛ نیز رجوع کنید به طبری، ج۵، ص۲۷۹؛ کشی، ص۹۹</ref>
*حجر بن عدی اور اسکے ساتھیوں کی شہادت کی خبر [[امام حسین]](ع) کیلئے نہایت گراں گزری لہذا آپ نے معاویہ کو ایک خط میں اس خشن آمیز رفتار اور اسکے قتل پر بہت سخت رد عمل کا اظہار کیا ۔<ref> دینوری، ص۲۲۳ـ۲۲۴؛ نیز رجوع کنید به طبری، ج۵، ص۲۷۹؛ کشی، ص۹۹</ref>
::[[عائشہ بنت  ابوبکر|عائشہ]] نے بھی اس کام پر سخت نکتہ چینی کی تو معاویہ نے اس کی توجیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں امت کی اصلاح تھی۔عائشہ نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا:
*[[عائشہ بنت  ابوبکر|عائشہ]] نے بھی اس کام پر سخت نکتہ چینی کی تو معاویہ نے اس کی توجیہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں امت کی اصلاح تھی۔عائشہ نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا:
:::<font color=blue>{{حدیث|سمعت [[رسول اکرم|رسول الله]] (صلی الله علیه و آله) یقول سیقتل [[مرج عذراء|بعذراء]] اناس یغضب الله لهم و اهل السماء}}</font><ref>سیوطی، الجامع الصغیر، ج۲، ص۶۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، دارالفکر، ج۱۲، ص۲۲۶؛ الصفدی، الوافی بالوفیات، ج۱۱، ص۲۴۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۸، ص۱۲۴.</ref> میں نے رسول اللہ سے سنا تھا کہ عنقریب لوگ عذراء میں قتل ہونگے  اور اہل آسمان اور خدا انکے قتل کی وجہ سے خشم آور ہونگے ۔
<font color=blue>{{حدیث|سمعت [[رسول اکرم|رسول الله]] (صلی الله علیه و آله) یقول سیقتل [[مرج عذراء|بعذراء]] اناس یغضب الله لهم و اهل السماء}}</font><ref>سیوطی، الجامع الصغیر، ج۲، ص۶۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، دارالفکر، ج۱۲، ص۲۲۶؛ الصفدی، الوافی بالوفیات، ج۱۱، ص۲۴۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۸، ص۱۲۴.</ref> میں نے رسول اللہ سے سنا تھا کہ عنقریب لوگ عذراء میں قتل ہونگے  اور اہل آسمان اور خدا انکے قتل کی وجہ سے خشم آور ہونگے ۔
   
   
::[[حسن بصری]] می گوید: معاویہ میں ایسی چار خصلتیں ہیں کہ ان میں ہر ایک معاویہ کی ہلاکت کیلئے کافی ہے :
*[[حسن بصری]] می گوید: معاویہ میں ایسی چار خصلتیں ہیں کہ ان میں ہر ایک معاویہ کی ہلاکت کیلئے کافی ہے :
# پہلی: کسی سے مشورے کے بغیر تلوار کے زور پر مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہو جانا جبکہ اس سے با فضیلت صحابہ موجود تھے ۔
# پہلی: کسی سے مشورے کے بغیر تلوار کے زور پر مسلمانوں کی گردنوں پر سوار ہو جانا جبکہ اس سے با فضیلت صحابہ موجود تھے ۔
# دوسری:اپنے دائم الخمر بیٹے کو جانشین بنانا کہ جو ہمیشہ ریشم پہنتا اور تنبور میں مشغول رہتا۔
# دوسری:اپنے دائم الخمر بیٹے کو جانشین بنانا کہ جو ہمیشہ ریشم پہنتا اور تنبور میں مشغول رہتا۔
سطر 173: سطر 173:
# چوتھی: حجر کا قتل .<ref>ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، ج۳، بیروت: دار صادر، ۱۳۸۶ق/۱۹۶۶م.، ص۴۸۷.</ref> [اس وقت دو مرتبہ کہا :] ہائے افسوس  حجر اور اس کے ساتھیوں پر۔ <ref>الطبری، تاریخ الطبری، ج۴، بیروت: مؤسسہ الاعلمی، ص۲۰۸.</ref>
# چوتھی: حجر کا قتل .<ref>ابن الاثیر، الکامل فی التاریخ، ج۳، بیروت: دار صادر، ۱۳۸۶ق/۱۹۶۶م.، ص۴۸۷.</ref> [اس وقت دو مرتبہ کہا :] ہائے افسوس  حجر اور اس کے ساتھیوں پر۔ <ref>الطبری، تاریخ الطبری، ج۴، بیروت: مؤسسہ الاعلمی، ص۲۰۸.</ref>
* '''شیعوں پر سختی اور دباؤ ''':شام کے مقابلے میں معاویہ کی سیاست عراق کے شیعوں کی نسبت کارساز نہیں ہو سکی تھی۔ اس لئے اس نے قتل اور شکنجے دینے کے راستے کو اپنایا۔ امویوں نے اپنے  دور میں شیعوں کیلئے ترابیہ کی اصطلاح رائج کی تھی۔  
* '''شیعوں پر سختی اور دباؤ ''':شام کے مقابلے میں معاویہ کی سیاست عراق کے شیعوں کی نسبت کارساز نہیں ہو سکی تھی۔ اس لئے اس نے قتل اور شکنجے دینے کے راستے کو اپنایا۔ امویوں نے اپنے  دور میں شیعوں کیلئے ترابیہ کی اصطلاح رائج کی تھی۔  
::امام علی کی حکومت کے دور حکومت سے ہی شیعیان علی کا کشتار شروع  ہو گیا تھا ۔  
*امام علی کی حکومت کے دور حکومت سے ہی شیعیان علی کا کشتار شروع  ہو گیا تھا ۔
*معاویہ  [[بسر بن ارطاة]]، [[سفیان بن عوف غامدی]] و [[ضحاک بن قیس]] کو عراق اور [[حجاز]] بھیجا اور ان سے تقاضا کیا کہ جہاں شیعہ  پاؤ انہیں  قتل کر دو۔
*مغیره  سال ۴۱ سے  ۴۹ یا ۵۰ تک والیئ  کوفہ رہا اور اس نے شیعوں کی نسبت تسامح سے کام لیتا تھا ۔اس طرح کوفہ کے سیاسی فضا میں آرام اور سکون تھا ۔ مغیره کی وفات کے بعد معاویہ نے  بصرے کے والی زیاد بن ابیہ کو کوفہ کی امارت بھی دے دی ۔اس نے آتے ہی ان اسی (80) افراد کے ہاتھ کاٹ دئے  جنہوں نے اسکی بیعت نہیں کی تھی ۔ [[مسلم بن زیمر]] و [[عبدالله بن نجی]] از شیعیانی بودند که به دست او [[شهید]] شدند. امام حسین در نامه‌ای که در پی شهادت حُجر برای معاویہ فرستاد، از شهادت آنان نیز یاد کرد.<ref>محمد بن حبيب أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ)، المحبر،اسماء المصلبین الاشراف 479،طبع دار الآفاق الجديدة، بيروت</ref>
*کوفہ سمیت پورے عراق کے شیعوں کی سرکوبی کا حکم زیاد کو دیا گیا تھا ۔  ابن اعثم کہتا ہے : وہ مسلسل شیعوں کے تعقب میں رہتا جہاں انہیں انہیں قتل کرتا اس طرح بہت سے شیعہ اس کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔لوگوں کے ہاتھ و پاؤں  کاٹ دیتا اور آنکھیں نکال دیتا ۔البتہ معاویہ نے بھی شیعوں کی ایک تعداد کو قتل کیا ۔ منقول ہوا ہے معاویہ نے خود دیا کہ شیعوں کی ایک جماعت کو صولی دیا جائے ۔  زیاد شیعیوں کو مسجد میں جمع کرتا اور انہیں کہا جاتا کہ علی سے بیزاری کا اعلان کریں ۔ امام حسن نے شیعوں کے ساتھ زیاد کے اس رویے کی شکایت کی لیکن  معاویہ نے اسی طرح اپنے عمال کو  لکھا:
::تمہارے درمیان جو بھی علی سے دوستی کا متہم ہے اسے اپنے درمیان سے ہٹا دو حتاکہ اگر اس کام کیلیے پتھروں کے نیچے سے حدس اور بینہ ہی حاصل کر پڑے ۔


معاویہ  [[بسر بن ارطاة]]، [[سفیان بن عوف غامدی]] و [[ضحاک بن قیس]] کو عراق اور [[حجاز]] بھیجا اور ان سے تقاضا کیا کہ جہاں شیعہ  پاؤ انہیں  قتل کر دو۔
::مغیره  سال ۴۱ سے  ۴۹ یا ۵۰ تک والیئ  کوفہ رہا اور اس نے شیعوں کی نسبت تسامح سے کام لیتا تھا ۔اس طرح کوفہ کے سیاسی فضا میں آرام اور سکون تھا ۔ مغیره کی وفات کے بعد معاویہ نے  بصرے کے والی زیاد بن ابیہ کو کوفہ کی امارت بھی دے دی ۔اس نے آتے ہی ان اسی (80) افراد کے ہاتھ کاٹ دئے  جنہوں نے اسکی بیعت نہیں کی تھی ۔ [[مسلم بن زیمر]] و [[عبدالله بن نجی]] از شیعیانی بودند که به دست او [[شهید]] شدند. امام حسین در نامه‌ای که در پی شهادت حُجر برای معاویہ فرستاد، از شهادت آنان نیز یاد کرد.<ref>محمد بن حبيب أبو جعفر البغدادي (المتوفى: 245هـ)، المحبر،اسماء المصلبین الاشراف 479،طبع دار الآفاق الجديدة، بيروت</ref>
:: کوفہ سمیت پورے عراق کے شیعوں کی سرکوبی کا حکم زیاد کو دیا گیا تھا ۔  ابن اعثم کہتا ہے : وہ مسلسل شیعوں کے تعقب میں رہتا جہاں انہیں انہیں قتل کرتا اس طرح بہت سے شیعہ اس کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔لوگوں کے ہاتھ و پاؤں  کاٹ دیتا اور آنکھیں نکال دیتا ۔البتہ معاویہ نے بھی شیعوں کی ایک تعداد کو قتل کیا ۔ منقول ہوا ہے معاویہ نے خود دیا کہ شیعوں کی ایک جماعت کو صولی دیا جائے ۔  زیاد شیعیوں کو مسجد میں جمع کرتا اور انہیں کہا جاتا کہ علی سے بیزاری کا اعلان کریں ۔ امام حسن نے شیعوں کے ساتھ زیاد کے اس رویے کی شکایت کی لیکن  معاویہ نے اسی طرح اپنے عمال کو  لکھا:
::تمہارے درمیان جو بھی علی سے دوستی کا متہم ہے اسے اپنے درمیان سے ہٹا دو حتاکہ اگر اس کام کیلیے پتھروں کے نیچے سے حدس اور بینہ ہی حاصل کر پڑے ۔
===بیعتِ  یزید===
===بیعتِ  یزید===
خلافت یزید کیلئے بیعت لینا دیگر مسائل کی نسبت اس بات کا باعث بنا کہ لوگ معاویہ کے مقابل کھڑے ہوں یا اس پر تنقید کریں ۔وہ اپنی خلافت کی جانشینی میں حضرت ابو بکر کی روش سے باہر نکل گیا تھا ۔<ref>عبدالطیف، عبدالشافی، العالم الاسلامی فی العصر الاموی، ص ۱۲۱</ref> جس سسٹم کی اس نے بنیاد ڈالی تھی اس میں ضروری تھا کہ حکومت وراثتی ہونی چاہئے ۔ایک طرف ایسے کام کو عملی جامہ پہنانا آسان کام نہ تھا کیونکہ عرب اس سے پہلے موروثی نظام سے آشنا نہیں تھے تو دوسری طرف وہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ اموی حکومت کے قیام میں تیس سال کی کوششوں کا ثمرہ  ضائع نہ ہو جائے۔ معاویہ چاہتا تھا کہ انتخاب خلیفہ کا اختیار بنی امیہ میں باقی رہے ۔ اسی منظور اور مقصود کے پیش نظر اس نے یزید کا انتخاب کیا ۔دوسری طرف اس بات کا بھی قئل تھا حکومت کا دار الحکومت شام میں ہی رہے کیونکہ شامیوں کا رجحان بنی امیہ کی جانب تھا ۔ <ref>محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۳۳</ref>
خلافت یزید کیلئے بیعت لینا دیگر مسائل کی نسبت اس بات کا باعث بنا کہ لوگ معاویہ کے مقابل کھڑے ہوں یا اس پر تنقید کریں ۔وہ اپنی خلافت کی جانشینی میں حضرت ابو بکر کی روش سے باہر نکل گیا تھا ۔<ref>عبدالطیف، عبدالشافی، العالم الاسلامی فی العصر الاموی، ص ۱۲۱</ref> جس سسٹم کی اس نے بنیاد ڈالی تھی اس میں ضروری تھا کہ حکومت وراثتی ہونی چاہئے ۔ایک طرف ایسے کام کو عملی جامہ پہنانا آسان کام نہ تھا کیونکہ عرب اس سے پہلے موروثی نظام سے آشنا نہیں تھے تو دوسری طرف وہ اس بات سے ڈرتا تھا کہ اموی حکومت کے قیام میں تیس سال کی کوششوں کا ثمرہ  ضائع نہ ہو جائے۔ معاویہ چاہتا تھا کہ انتخاب خلیفہ کا اختیار بنی امیہ میں باقی رہے ۔ اسی منظور اور مقصود کے پیش نظر اس نے یزید کا انتخاب کیا ۔دوسری طرف اس بات کا بھی قئل تھا حکومت کا دار الحکومت شام میں ہی رہے کیونکہ شامیوں کا رجحان بنی امیہ کی جانب تھا ۔ <ref>محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۳۳</ref>
گمنام صارف