مندرجات کا رخ کریں

"معاویۃ بن ابی سفیان" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 113: سطر 113:
=== شیعہ ===
=== شیعہ ===
<!--
<!--
بدون شک، شیعیان از دشمنان معاویہ بودند. معاویہ و کارگزارنش به شکل‌های مختلف با این جریان برخورد کردند.
کسی شک و شبہ کے بغیر  شیعہ معاویہ کے دشمنوں میں سے تھے . معاویہ اور اسکے عاملین اور والی  مختلف شکلوں میں شیعوں کے روبرو ہوتے ۔
*'''ایجاد بیزاری از امام علی(ع)''': یکی از مهم‌ترین شیوه‌های معاویہ در برخورد با شیعیان، ایجاد بیزاری از امام علی(ع) در میان مردم بود. معاویہ و دیگر امویان در دوره‌های بعد به سختی در حذف چهره امام علی از جامعه و معرفی او به عنوان عنصری جنگ طلب و خونریز فعالیت می‌کردند.<ref>محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۲۸، از اضافات رسول جعفریان</ref> در محافل از او اظهار تنفر می‌کردند و او را لعن می‌کردند. [[ابن ابی الحدید]] در شرح نهج البلاغه به احادیث مجعولی که معاویہ در ذم علی(ع) ساخت، اشاره میکند.<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج ۴، ص ۶۳ باب «احادیثی که معاویہ با تحریک عده ای از صحابه و تابعین، در ذم علی جعل کرد»</ref>
*'''امام علی(ع) سے بیزاری پیدا کرنا''': شیعوں کا مقابلہ کرنے کیلئے معاویہ کی اہم ترین روشوں میں سے ایک روش  لوگوں کے درمیان امام علی سے بیزاری کو پیدا کرنا تھی ۔  معاویہ اور اسکے بعد کے  دیگر اموی حاکمان معاشرے  سے  علی کے چہرے کو حذف کرنے خاطر انہیں ایک جنگجو  اور خونریز شخص کے طور پر معرفی کرنے کیلئے سرگرم رہے ۔<ref>محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۲۸، از اضافات رسول جعفریان</ref> محفلوں میں ان سے نفرت کا اظہار کرتے اور ان پر لعن کرتے ۔ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہمعاویہ کی طرف علی کی مذمت میں جعلی اور من گھڑت احادیث کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۶۳ باب {{حدیث|فصل في ذكر الأحاديث الموضوعة في ذم علي}}</ref>
::سب و لعن علی در دوره معاویہ و سپس امویان به صورت یک سنت متداول ادامه داشت، تا آنکه در زمان [[عمر بن عبدالعزیز]] خاتمه یافت.<ref>سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص ۲۴۳</ref> چنانچه وقتی از [[مروان بن حکم]] سؤال شد چرا در منابر به علی دشنام میگویند، گفت: حاکمیت بنی امیه جز با [[سب علی]] پابرجا نمی‌ماند.<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۱۸۴ ؛ عَن عمر بن عَلی قَالَ: قَالَ مروان لعلی بن الْحُسَین: ما کانَ أحد أکف عَن صاحبنا من صاحبکم. قَالَ: فلم تشتمونه عَلَی المنابر؟!! قَالَ: لا یستقیم لنا هذا إلا بهذا.</ref> معاویہ می‌گفت این امر باید چنان گسترش یابد تا کودکان با این شعار بزرگ شده و جوانان با آن پیر شوند و هیچ کس از او فضیلتی نقل نکند.<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج ۴، ص ۵۷؛ العمانی، النصایح الکافیة، ص ۷۲</ref> معاویہ به [[سمرة بن جندب]] چهارصد هزار دینار داد تا بگوید «و هو الد الخصام» درباره علی نازل شده است.<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج ۴، ص ۳۶۱</ref> همو شماری از [[صحابه]] و [[تابعین]] را بر آن داشت تا بر ضد [[امام علی(ع)]] احادیثی روایت کنند که از آن جمله [[ابوهریره]]، [[عمرو بن عاص]]، [[مغیره بن شعبه]] و [[عروه بن زبیر]] بودند. او در پایان خطبه‌هایش علی را لعن و کارگزارانی را که چنین نمی‌کردند، عزل می‌کرد و وحشتی ایجاد کرده بود که مردم نام فرزندانشان را علی نگذارند.{{مدرک}}
::معاویہ اور اسکے بعد امیوں کے دور حکومت میں علی پر لعن اور دشنام درازی ایک متداول اور رائج رسم تھی یہانتک کہ [[عمر بن عبدالعزیز]] کے دور میں اس کا خاتمہ ہوا۔ <ref>سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص ۲۴۳</ref> چنانچہ جب [[مروان بن حکم]] سے سوال کیا گیا کہ منبروں پر علی کو ناسزا کہا جاتا ہے ؟اس نے جواب دیا :بنی امیہ کی حکومت علی کو گالیاں دئے بغیر استوار نہیں رہ سکتی ہے ۔ <ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص ۱۸۴ ؛ {{حدیث|عَن عمر بن عَلی قَالَ: قَالَ مروان لعلی بن الْحُسَین: ما کانَ أحد أکف عَن صاحبنا من صاحبکم. قَالَ: فلم تشتمونه عَلَی المنابر؟!! قَالَ: لا یستقیم لنا هذا إلا بهذا}}</ref> معاویہ کہتا تھا: علی پر لعن و سب اس طرح پھیل جانا چاہئے کہ بچے اسی شعار کے ساتھ بڑے ہوں اور جوان اسی کے ساتھ بوڑھے ہوں۔کوئی شخص اسکی ایک بھی  فضیلت نقل نہ کرے ۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۵۷؛ العمانی، النصایح الکافیہ، ص ۷۲</ref> معاویہ نے [[سمرة بن جندب]] کو چار لاکھ دینار دئے کہ وہ کہے :{{حدیث|و هو الد الخصام}}بقرہ 204 علی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۳۶۱</ref> اس نے [[صحابہ]] اور [[تابعین]] کی ایک جماعت بنائی جو علی کی مذمت میں روایات کو جعل کرتے تھے ۔ ان میں سے [[ابوہریره]]، [[عمرو بن عاص]]، [[مغیره بن شعبہ]] اور [[عروه بن زبیر]] تھے ۔وہ خطبے کے آخر میں علی پر لعن کرتا اور اگر اسکے والی ایسا نہ کرتے تو انہیں عزل کر دیتا ۔معاشرے میں اس قدر خوف ہراس پیدا کر دیا کہ لوگ اپنے بیٹوں کے نام علی نہیں  رکھتے تھے۔
* '''شهادت [[حجر بن عدی]] و یارانش''': هنگامی که [[مغیره بن شعبه|مغیره]] و دیگران در [[کوفه]] روی منبر، [[امام علی]](ع) را [[لعن]] می‌کردند، [[حجر بن عدی|حجر بن عدی کندی]] و [[عمرو بن حمق خزاعی]] و همراهانشان بپا می‌خواستند و لعن را به خودشان بازمی‌گفتند و در این‌باره سخن می‌گفتند. پس از مغیره که [[زیاد بن ابیه]] حاکم کوفه شد در پی دستگیری آنها برآمد. عمرو بن حمق خزاعی و چند نفر همراه وی به [[موصل]] گریختند و حجر بن عدی و ۱۳ مرد از همراهانش دستگیر و نزد معاویہ فرستاده شدند. زیاد در نامه‌اش به معاویہ نوشت که اینان در لعن [[ابو تراب]] [کنیه امام علی(ع)] با جماعت مسلمانان مخالفت ورزیده‌اند و بر والیان دروغ‌پردازی کرده‌اند و بدین جهت از زیر فرمان بیرون رفته‌اند. هنگامی که بازداشت شدگان به [[مرج عذراء]] در چند میلی دمشق رسیدند، معاویہ دستور داد که آنان را همانجا گردن زنند. چون برخی درباره ۶ نفر از آنان وساطت کردند، این ۶ نفر را زنده گذاشتند ولی ۷ تن دیگر را کشتند: [[حجر بن عدی|حجر بن عدی کندی]]، [[شریک بن شداد حضرمی]]، [[صیفی بن فسیل شیبانی]]، [[قبیصه ابن ضبیعه عبسی]]، [[محرز بن شهاب تمیمی]]، [[کدام بن حیان عنزی]]،<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، صص۱۶۲-۱۶۳؛ با اینکه یعقوبی، شهیدان این واقعه را ۷ تن دانسته است ولی فقط نام ۶ نفر را یاد کرده است.</ref> [[عبدالرحمان بن حسان عنزی]].<ref> الطبری، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۰۷؛ طبری نام ۷ تن را یاد کرده است ولی نام محرز بن شهاب را با پسوند «سعدی منقری» همراه نموده است و نه «تمیمی».</ref>
* ''' [[حجر بن عدی]] اور اسکے اصحاب کی شہادت''': جب [[مغیره بن شعبہ|مغیره]] اور دوسرے لوگ [[کوفہ]] میں منبر پر علی کو لعن کرتے تھے  ، [[حجر بن عدی|حجر بن عدی کندی]] اور [[عمرو بن حمق خزاعی]] اور انکے ساتھی کھڑے ہو جاتے اور انکی لعن کو انکی طرف نسبت دیتے اور اس کے متعلق بات کرتے ۔مغیره کے بعد [[زیاد بن ابیہ]] حاکم کوفہ بنا۔وہ انکی گرفتاری کے در پے ہوا ۔ عمرو بن حمق خزاعی اور اسکے ساتھ چند افراد  [[موصل]] فرار کر گئے جبکہ حجر بن عدی ۱۳ مردوں کے ساتھ اسیر ہو گیا اور انہیں معاویہ کی طرف روانہ کیا۔  زیاد نے معاویہ کو خط میں لکھا:ابو تراب علی کی کنیت ،پر لعن کرنے والے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ مخالفت کرتے ہیں  اور  والیوں پر دروغ باندھتے ہیں اس وجہ سے یہ اطاعت سے خارج ہو گئے ہیں ۔جب یہ اسیر [[مرج عذراء]] پہنچیں یہاں سے دمشق چند میل دور رہ گیا تھا تو معاویہ نے حکم دیا کہ انکی گردنیں اڑا دی جائیں ۔6 افراد کسی وساطت سے بچ گئے اور باقی 7افراد : [[حجر بن عدی|حجر بن عدی کندی]]، [[شریک بن شداد حضرمی]]، [[صیفی بن فسیل شیبانی]]، [[قبیصہ ابن ضبیعہ عبسی]]، [[محرز بن شہاب تمیمی]]، [[کدام بن حیان عنزی]] کی گردنیں اڑا دی گئیں۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، صص۱۶۲-۱۶۳؛ اگرچہ یعقوبی نے افراد کی تعداد سات بیان کی ہے اور نام چھ افراد کے ذکر کئے ہے۔</ref> [[عبدالرحمان بن حسان عنزی]].<ref> الطبری، تاریخ الطبری، ج۴، ص۲۰۷؛ طبری نے  ۷ افراد کے نام ذکر کیے ہیں  محرز بن شہاب کو تمیمی کی بجائے  «سعدی منقری» کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔.</ref>
 
<!--
::شنیدن این خبر برای [[امام حسین]](ع) بسیار گران آمد و در نامه‌ای به معاویہ، یکی از زشتی‌های رفتار او را کشتن حجر قلمداد کرد.<ref> دینوری، ص۲۲۳ـ۲۲۴؛ نیز رجوع کنید به طبری، ج۵، ص۲۷۹؛ کشی، ص۹۹</ref>
:: [[امام حسین]](ع) کیلئے یہ خبر  بسیار گران آمد و در نامه‌ای به معاویہ، یکی از زشتی‌های رفتار او را کشتن حجر قلمداد کرد.<ref> دینوری، ص۲۲۳ـ۲۲۴؛ نیز رجوع کنید به طبری، ج۵، ص۲۷۹؛ کشی، ص۹۹</ref>
::[[عایشه دختر ابوبکر|عایشه]] نیز بدین کار معاویہ اعتراض کرد و وقتی معاویہ علت کار خود را صلاح امت ذکر کرد، عایشه گفت:
::[[عایشه دختر ابوبکر|عایشه]] نیز بدین کار معاویہ اعتراض کرد و وقتی معاویہ علت کار خود را صلاح امت ذکر کرد، عایشه گفت:
:::{{حدیث|سمعت [[رسول اکرم|رسول الله]] (صلی الله علیه و آله) یقول سیقتل [[مرج عذراء|بعذراء]] اناس یغضب الله لهم و اهل السماء|ترجمہ= شنیدم که پیامبر(ص) می گوید: پس از من مردمانی در [[مرج عذراء|عذراء]] کشته می‌شوند که خداوند متعال و اهل آسمان از قتل ایشان به خشم می‌آیند.<ref>سیوطی، الجامع الصغیر، ج۲، ص۶۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینه دمشق، دارالفکر، ج۱۲، ص۲۲۶؛ الصفدی، الوافی بالوفیات، ج۱۱، ص۲۴۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۸، ص۱۲۴.</ref>}}
:::{{حدیث|سمعت [[رسول اکرم|رسول الله]] (صلی الله علیه و آله) یقول سیقتل [[مرج عذراء|بعذراء]] اناس یغضب الله لهم و اهل السماء|ترجمہ= شنیدم که پیامبر(ص) می گوید: پس از من مردمانی در [[مرج عذراء|عذراء]] کشته می‌شوند که خداوند متعال و اهل آسمان از قتل ایشان به خشم می‌آیند.<ref>سیوطی، الجامع الصغیر، ج۲، ص۶۱؛ ابن عساکر، تاریخ مدینه دمشق، دارالفکر، ج۱۲، ص۲۲۶؛ الصفدی، الوافی بالوفیات، ج۱۱، ص۲۴۸؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۱۸، ص۱۲۴.</ref>}}
گمنام صارف