گمنام صارف
"معاویۃ بن ابی سفیان" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←امام علی(ع) کا عہد
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 27: | سطر 27: | ||
== امام علی(ع) کا عہد == | == امام علی(ع) کا عہد == | ||
===معاویہ کی برطرفی کی کوشش=== | |||
[[امام علی(ع)]] نے خلافت کے آغاز میں ہی معاویہ نمائندے سے کہا:معاویہ سے کہو کہ میں اس کی شام پر امیری سے خوش نہیں ہوں اور لوگ کبھی اس کی خلافت کے متعلق رضایت نہیں دینگے ۔ <ref>رسائل جاحظ، الرسائل السیاسیہ، صص ۳۴۵-۳۴۶</ref> معاویہ نے جنگ جمل سے پہلے زبیر کو لکھا: اس نے شام کے لوگوں سے اسکے لیے بیعت لی ہے ، اگر عراق انکی ہمنوائی کرے تو شام کی طرف سے کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ زبیر معاویہ کے اس خط سے بہت خوش ہوا۔<ref>نک: اعیان الشیعہ، ج ۳، جزء دوم، ص ۱۲</ref> معاویہ اس بات پر تھا کہ قریش کی سیاسی شخصیات میں سے خاص طور ایسی شخصیات کہ جو اس شورش میں موجود ہوں اور وہ انہیں اپنی جانب جذب کرے تاکہ ان سے سیاسی فائدہ حاصل کر سکے ۔ امام نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا شام میں موجود قریشیوں میں سے کسی ایک کو بھی شورا میں قبول نہیں اور خلافت ان کے لیے روا نہیں ہے ۔ <ref>وقعۃ صفین، ص ۵۸</ref> معاویہ نے امام علی کو لکھے جانے والے خط میں شورا کے مسئلے کو پیش کیا۔<ref>الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۱۲۱</ref> | |||
[[امام علی(ع)]] | |||
امام | امام نے چاہا کہ عبدالله بن عباس کو حکومت شام میں بھیجنا چاہا تو معاویہ کو خط لکھا ۔اس نے جواب میں امام کو ایک سفید کاغذ بھیجا ۔معاویہ کے نمائندے نے امام سے کہا :میں ایسے لوگوں کی جانب سے آیا ہوں جو تمہارے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تم نے عثمان کو قتل کیا اور تمہارے قتل کے سوا راضی نہیں ہیں ۔ <ref>انساب الاشراف، ج ۲، ص ۲۱۱-۲۱۲</ref> معاویہ نے جنگ جمل، علی کے طلحہ و زبیر و عائشہ کے مقابلے میں آنے سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے امام کی قتل عثمان میں دخالت کو زیادہ تبلیغ کرتا تھا ۔ <ref>رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ج ۲، ص ۲۷۸</ref> جنگ جمل کے بعد امام کوفہ میں مستقر ہوئے کیونکہ سپاہ شام سے درگیری کے پیش نظر لوگوں سے بیعت لینا شروع کی شام کے علاوہ تمام علاقوں نے امام کی بیعت کی ۔ امام نے اپنے خطوط کے ذریعے معاویہ کو قانع اور اپنا مطیع کرنے کی کوشش کی۔لیکن اس نے اپنے آپ کو عمر کی طرف سے منصوب ہونے کی وجہ سے امام کی اطاعت سر پیچی کرتا رہا ۔ <ref>الفتوح، ج ۲، ص ۳۸۰</ref> معاویہ نے امام سے چاہا کہ شام اور مصر اس کے حوالے کرے نیز اسکے بعد بیعت کیلئے امام کسی اور کو مقرر نہ کریں بلکہ وہ خود امام کے سامنے بیعت کرے گا ۔امام نے اس کے جواب میں کہا :<font color=blue>{{حدیث|لم یکن الله لیرانی اتخذ المضلین عضدا}}</font>»<ref>وقعة صفین، ص ۵۲؛ الفتوح، ج ۲، ص ۳۹۲</ref> | ||
معاویہ | معاویہ نے شام میں ایک گفتگو کے دوران کہا: علی مجھ سے کیسے خلافت میں برتر ہے ؟ اگر حجاز کے لوگوں نے اسکی بیعت کی ہے تو شام کے لوگوں میری بیعت کی۔ حجاز اور شام برابر ہے۔اس یہی کلمات امام کو ایک خط میں لکھے : جب تک حجاز کے لوگ حق کی رعایت کرتے رہے اس وقت تک وہ شام پر حاکم تھے ۔ لیکن اب انہوں نے حق کو چھوڑ دیا ہے اب یہ حق شامیوں کا ہے ۔ <ref>الفتوح، ج ۲، ص ۴۳۰-۴۲۹</ref> امام نے جواب میں لکھا :تیری یہ بات:اہل شام اہل حجاز پر حاکم ہیں ،قرشیوں میں سے کوئی ایسا شخص بتاؤ جسے شورا میں قبول کیا جائے یا اسکے لیے خلافت روا ہو۔ اگر تم ایسا ادعا کرو گے تو مہاجر و انصار تمہیں جھٹلائیں گے ...میری بیعت سب نے کی کسی کی اس میں مخالفت موجود نہیں ہے اور تجدید بیعت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ہے ۔ <ref>وقعۃ صفین، ص ۵۸؛ الفتوح، ج ۲، ص ۴۳۲</ref> | ||
===جنگ صفین=== | |||
{{اصلی|جنگ صفین}} | {{اصلی|جنگ صفین}} | ||
<!-- | |||
پس از اینکه نامه نگاریها و تلاش امام برای برکناری معاویہ و اقناع وی ناکام ماند،<ref>وقعة صفین، ص ۱۱۰-۱۱۱؛ الفتوح، ج ۲، ص ۴۷۷-۴۸۰</ref> امام مصمم بر جهاد شد. امام بزرگان اصحابش از [[مهاجر]] و [[انصار]] را فراخواند و پس از آن در خطبهای مردم را به جهاد فراخواند. جنگ در صفر سال ۳۷ هجری در منطقهای به نام صفین رخ داد. در میانه جنگ هنگامی که سپاه معاویہ رو به شکست بود، قرآن بر نیزه کردند و بدین رو برخی از سپاهیان امام علی (ع) از ادامه جنگ سر باز زدند. سرانجام، داورانی برای حکمیت میان دو طرف تعیین شد و جنگ بدون نتیجه خاتمه یافت.<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۸۸ </ref> | پس از اینکه نامه نگاریها و تلاش امام برای برکناری معاویہ و اقناع وی ناکام ماند،<ref>وقعة صفین، ص ۱۱۰-۱۱۱؛ الفتوح، ج ۲، ص ۴۷۷-۴۸۰</ref> امام مصمم بر جهاد شد. امام بزرگان اصحابش از [[مهاجر]] و [[انصار]] را فراخواند و پس از آن در خطبهای مردم را به جهاد فراخواند. جنگ در صفر سال ۳۷ هجری در منطقهای به نام صفین رخ داد. در میانه جنگ هنگامی که سپاه معاویہ رو به شکست بود، قرآن بر نیزه کردند و بدین رو برخی از سپاهیان امام علی (ع) از ادامه جنگ سر باز زدند. سرانجام، داورانی برای حکمیت میان دو طرف تعیین شد و جنگ بدون نتیجه خاتمه یافت.<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۸۸ </ref> | ||