مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن حنفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 137: سطر 137:


===امام سجادؑ سے بحث ===
===امام سجادؑ سے بحث ===
محمد بن حنفیہ، اپنے بھا‎ئی [[امام حسن]]ؑ اور [[امام حسین]]ؑ کو خود سے افضل سمجھتے تھے لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ اور محمد حنفیہ کی دلیل یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معرفی نہیں کیا ہے اور محمد حنفیہ [[علی علیہ السلام]] کے بلافصل فرزند ہیں اور عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے زین العابدین علیہ السلام پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور انہیں لکھا:
محمد بن حنفیہ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ امام (ع) نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معین نہیں کیا ہے اور وہ [[علی علیہ السلام]] کے بلا فصل فرزند ہیں۔ عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے انہیں زین العابدین پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد (ع) نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور لکھا:
::<small>«میرے والد گرامی نے [[عراق]] کے سفر کی نیت سے پہلے میری امامت کا بتا دیا تھا اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے مجھ سے عہد لیا۔»</small>
:: میرے والد نے [[عراق]] کے سفر سے پہلے میری امامت کی وصیت کی تھی اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے بھی مجھ سے عہد لیا ہے۔
امام سجادؑ نے محمد حنفیہ کو دعوت دی کہ [[حجر الاسود]] جاکر وہاں اپنا مسئلہ حل کرینگے۔ حجر اسود ہم میں سے جس کی [[امامت]] کی گواہی دے وہی [[امام]] ہے۔ وہاں جا کر پہلے محمد نے اللہ کے حضور گریہ و زاری کے بعد دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کی درخواست کی لیکن کو‎ئی جواب نہیں ملا۔ پھر امام سجاد علیہ السلام نے دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کا مطالبہ کیا تو حجر اسود سے آواز آ‎ئی اور علی ابن الحسین کی امامت کی گواہی دی اور محمد حنفیہ نے بھی آپ کی امامت کو قبول کیا<ref>دیکھیے: صفار، ص۵۰۲؛ ابن بابویہ، ص۶۲-۶۰؛ کلینی، ج۱، ص۳۴۸</ref> بعضی از علماء احتمال صوری بودن این منازعہ را دادہ‌اند کہ ضعفای شیعہ بہ وی متمایل نشوند.<ref>الخرائج و الجرائج، ج۱، ص۲۵۸ و بحارالانوار، ج۴۶، ص ۳۰</ref>


[[امام صادق علیہ السلام]] سے ایک [[روایت|حدیث]] میں نقل ہوا ہے کہ محمد حنفیہ امام سجاد علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ رکھتے تھے۔<ref>الإمامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، ص۶۰.</ref> اور [[قطب الدین راوندی]] نےابن حنفیہ کے خادم [[ابوخالد کابلی]] سے نقل کیا ہے جس میں اس نے ابن حنفیہ سے امام سجاد علیہ السلام کی امامت کے بارے میں سوال کرتا ہے تو محمد جواب میں کہتا ہے:«<small>میں اور تمہارا اور تمام مسلمانوں کا امام [[امام سجاد|علی بن الحسین علیہ السلام]] ہیں۔</small>»<ref>قطب راوندی، ج۱، ص۲۶۲-۲۶۱.</ref>
امام سجادؑ نے محمد حنفیہ کو دعوت دی کہ [[حجر الاسود]] جاکر وہاں اپنا مسئلہ حل کرینگے۔ حجر اسود ہم میں سے جس کی [[امامت]] کی گواہی دے وہی [[امام]] ہے۔ وہاں جا کر پہلے محمد نے اللہ کے حضور گریہ و زاری کے بعد دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کی درخواست کی لیکن کو‎ئی جواب نہیں ملا۔ پھر امام سجاد نے دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کا مطالبہ کیا تو حجر اسود سے آواز آ‎ئی اور علی بن الحسین کی امامت کی گواہی دی اور محمد حنفیہ نے بھی آپ کی امامت کو قبول کیا۔<ref> دیکھیے: صفار، ص۵۰۲؛ ابن بابویہ، ص۶۲-۶۰؛ کلینی، ج۱، ص۳۴۸</ref> بعض علماء نے اس منازعہ کے نمائشی ہونے کا احتمال دیا ہے تا کہ ضعفائے شیعہ محمد کی طرف مائل نہ ہوں۔<ref> الخرائج و الجرائج، ج۱، ص۲۵۸ و بحار الانوار، ج۴۶، ص ۳۰</ref>
 
[[امام صادق علیہ السلام]] سے ایک [[روایت|حدیث]] میں نقل ہوا ہے کہ محمد حنفیہ امام سجاد کی امامت پر عقیدہ رکھتے تھے<ref> الإمامۃ و التبصرۃ من الحیرۃ، ص۶۰</ref> اور [[قطب الدین راوندی]] نے ابن حنفیہ کے خادم [[ابو خالد کابلی]] سے نقل کیا ہے جس میں اس نے ابن حنفیہ سے امام سجاد کی امامت کے بارے میں سوال کیا تو محمد نے جواب میں کہا:«<small> میرے اور تمہارے اور تمام مسلمانوں کے امام [[امام سجاد|علی بن الحسین علیہ السلام]] ہیں۔</small>»<ref> قطب راوندی، ج۱، ص۲۶۲-۲۶۱.</ref>


===عبداللہ بن زبیر کی مخالفت===
===عبداللہ بن زبیر کی مخالفت===
گمنام صارف