مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن حنفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 120: سطر 120:
شیعہ علما اور [[علم رجال|رجال‌]]  کے ماہرین نے محمد بن حنفیہ کی [[واقعہ کربلا]] میں غیر حاضری کے دفاع میں کچھ دلایل پیش کئے ہیں۔ ان کے بقول محمد حنفیہ کا شرکت نہ کرنا [[امام حسین علیہ السلام]] کی نافرمانی یا مخالفت کی وجہ سے نہیں تھا اور امام کے ساتھ نہ آنے میں ان کی کچھ جا‎ئز وجوہات تھیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
شیعہ علما اور [[علم رجال|رجال‌]]  کے ماہرین نے محمد بن حنفیہ کی [[واقعہ کربلا]] میں غیر حاضری کے دفاع میں کچھ دلایل پیش کئے ہیں۔ ان کے بقول محمد حنفیہ کا شرکت نہ کرنا [[امام حسین علیہ السلام]] کی نافرمانی یا مخالفت کی وجہ سے نہیں تھا اور امام کے ساتھ نہ آنے میں ان کی کچھ جا‎ئز وجوہات تھیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:


* امام علیہ السلام کے [[مدینہ]] اور [[مکہ]] سے نکلتے ہو‎ئے ان کی بیماری۔
* امام علیہ السلام کے [[مدینہ]] اور [[مکہ]] سے نکلتے وقت ان کی بیماری۔
ان دلائل میں سے ایک جسے [[علامہ مجلسی]] نے [[علامہ حلی]] کے مہنا بن سنان کے جواب سے نقل کیا ہے۔ وہ دلیل امام علیہ السلام کے مدینے سے نکلتے ہو‎ئے وقت محمد حنفیہ کی بیماری پیش کیا ہے۔<ref> بحار الانوار، ج۴۲،ص۱۱۰</ref> مقرم نے ابن نما حلی کے حوالے سے  ان کی بیماری آنکھوں کا درد بیان کیا ہے۔<ref> المقرم، ص۱۳۵</ref>
ان دلائل میں سے ایک جسے [[علامہ مجلسی]] نے [[علامہ حلی]] کے مہنا بن سنان کے جواب سے نقل کیا ہے۔ وہ دلیل امام علیہ السلام کے مدینے سے نکلتے ہو‎ئے وقت محمد حنفیہ کی بیماری پیش کیا ہے۔<ref> بحار الانوار، ج۴۲،ص۱۱۰</ref> مقرم نے ابن نما حلی کے حوالے سے  ان کی بیماری آنکھوں کا درد بیان کیا ہے۔<ref> المقرم، ص۱۳۵</ref>
* امام علیہ السلام کی طرف سے مدینہ میں رہنے پر مامور ہونا۔  
* امام علیہ السلام کی طرف سے مدینہ میں رہنے پر مامور ہونا۔  
ابن اعثم کوفی نقل کرتے ہیں: جب امام علیہ السلام مدینہ چھوڑ رہے تھے اور محمد بن حنفیہ امام (ع) کو مدینہ میں رہنے پر قانع نہ کر سکے تو اس وقت امام نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
ابن اعثم کوفی نقل کرتے ہیں: جب امام علیہ السلام مدینہ چھوڑ رہے تھے اور محمد بن حنفیہ امام (ع) کو مدینہ میں رہنے پر قانع نہ کر سکے تو اس وقت امام نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:
::تمہارے مدینہ میں رکنے میں کو‎ئی حرج نہیں ہے۔ آپ ان لوگوں کے درمیان میرے مامور ہوں گے اور تمام حالات سے مجھے باخبر کریں۔<ref> ابن ‌اعثم،‌ ہمان،‌ ص۲۳</ref>
::تمہارے مدینہ میں رکنے میں کو‎ئی حرج نہیں ہے۔ آپ ان لوگوں کے درمیان میرے مامور ہوں گے اور تمام حالات سے مجھے باخبر کریں۔<ref> ابن ‌اعثم،‌ ہمان،‌ ص۲۳</ref>
* محمد بن حنفیہ کو قیام میں شرکت کرنے اور امام کے ساتھ آنے پر امام حسین (ع) کی طرف سے حکم نہ ہونا۔
* امام حسین (ع) کی ہمراہی اور قیام میں شرکت کے سلسلہ میں امام کی طرف سے مکلف نہ ہونا۔


[[تنقیح المقال]] کے مصنف کا کہنا ہے کہ چونکہ [[امام حسینؑ]] نے‌ [[مدینہ]] یا‌ مکہ‌ میں کسی کو بھی اپنے ساتھ آنے کا حکم نہیں دیا ہے اس لئے محمد ابن حنفیہ کا امام علیہ السلام کے ساتھ نہ آنے سے ان کی عدالت پر انگلی نہیں اٹھتی ہے۔ وہ لکھتا ہے: امام حسین علیہ السلام جب [[حجاز]] سے [[عراق]] کی جانب روانہ ہو‎ئے تو امام علیہ السلام جانتے تھے کہ [[شہادت]] نصیب ہونی ہے لیکن ظاہری طور پر جنگ کی قصد سے نہیں نکلے تاکہ تمام لوگوں پر [[جہاد]] کے عنوان سے امام کے ساتھ جانا [[واجب|واجب]] نہ ہوجا‎ئے؛ بلکہ اپنی ذمہ داری کے تحت، یعنی لوگوں کی طرف سے دعوت دی ہو‎ئی ظاہری رہبری اور پیشوا‎ئی کو اپنے ہاتھ لینے کی نیت سے نکلے۔ اس صورت میں دوسروں پر واجب نہیں کہ وہ امام کے ہمراہ چلیں اور اگر کو‎ئی ساتھ نہ چلے تو [[گناہگار|گناہ]] کا مرتکب نہیں ہوا ہے بلکہ گناہ گار وہ شخص ہے جس نے [[عاشورا]] کے دن کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو دشمن کے نرغے میں دیکھتے ہو‎ئے امام کا ساتھ نہیں دیا اور امام کی مدد نہیں کی لیکن جو لوگ حجاز میں تھے اور امام علیہ السلام کے ساتھ نہیں آ‎ئے وہ شروع سے ہی امام کے ساتھ آنے پر مکلف نہیں تھے۔ اور امام کے ساتھ نہ آنا فسق اور گناہ کا باعث نہیں ہے۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] ان تمہیدی باتوں کے بعد کہتا ہے: « اسی لئے، کچھ صالح اور اچھے لوگ حجاز میں تھے جن کے لئے شہادت کا شرف نصیب نہیں ہوا لیکن ان کی عدالت میں کسی ایک کو بھی شک نہیں تھا۔ پس محمد حنفیہ اور [[عبداللہ بن جعفر|عبداللّہ بن جعفر]] کا امام کے ساتھ نہ آنا نافرمانی یا انحراف کی وجہ سے نہیں تھا۔<ref>مامقانی،‌ عبداللّہ.‌ ۱۳۵۲ ق، تنقیح المقال فی علم احوال الرجال، ج۳، ص۱۱۱، بی‌جا، مطبعۃ الحیدریۃ.</ref>»[[اثبات الہداۃ]] میں بھی ایک حدیث امام صادق علیہ السلام سے نقل ہو‎ئی ہے کہ: [[حمزۃ بن حمران]] کہتا ہے: امام حسین علیہ السلام کے مدینہ سے نکلنے اور ابن حنفیہ کا ساتھ نہ جانے کے بارے میں امام علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اے حمزہ، تمہیں ایک حدیث بتاتا ہوں تاکہ اس کے بعد پھر کبھی یہ سوال نہ کرسکو، جب امام حسین علیہ السلام مدینہ سے نکلے تو ایک کاغذ مانگا اور اس پر لکھا:
[[تنقیح المقال]] کے مصنف کا کہنا ہے کہ چونکہ [[امام حسینؑ]] نے‌ [[مدینہ]] یا‌ مکہ‌ میں کسی کو بھی اپنے ساتھ آنے کا حکم نہیں دیا۔ اس لئے محمد بن حنفیہ کا امام علیہ السلام کے ساتھ نہ آنے سے ان کی عدالت پر انگلی نہیں اٹھتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: امام حسین علیہ السلام جب [[حجاز]] سے [[عراق]] کی جانب روانہ ہو‎ئے تو جانتے تھے کہ [[شہادت]] نصیب ہونی ہے لیکن ظاہری طور پر جنگ کے قصد سے نہیں نکلے تاکہ تمام لوگوں پر [[جہاد]] کے عنوان سے امام کے ساتھ جانا [[واجب|واجب]] نہ ہو جا‎ئے؛ بلکہ اپنی ذمہ داری کے تحت، یعنی لوگوں کی طرف سے دعوت دی ہو‎ئی ظاہری رہبری اور پیشوا‎ئی کو اپنے ہاتھ لینے کی نیت سے نکلے۔ اس صورت میں دوسروں پر واجب نہیں کہ وہ امام کے ہمراہ چلیں اور اگر کو‎ئی ساتھ نہ چلے تو [[گناہگار|گناہ]] کا مرتکب نہیں ہوا ہے بلکہ گناہ گار وہ شخص ہے جس نے [[عاشورا]] کے دن [[کربلا]] میں امام (ع) کو دشمن کے نرغے میں دیکھتے ہو‎ئے امام کا ساتھ نہیں دیا اور امام کی مدد نہیں کی۔
:::«<small>بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ حسین ابن علی ابن ابی طالب کی طرف سے [[بنی ہاشم]] کے نام: اما بعد، جو بھی میرے ساتھ چلو گے [[شہید]] ہوجا‎‎‎ؤ گے۔ اور جو بھی یہ کام نہیں کرے گا کامیاب نہیں ہوگا۔ والسلام.»</small><ref>حر عاملی،اثبات الہداہ، ج۴، ص۴۲</ref>


علامہ مجلسی، امام حسین علیہ السلام کے اسے جملے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: اس جملے کا ظاہر تو مذمت بتاتا ہے لیکن یہ احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ امام نے دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ آنے یا نہ آنے میں اختیار دیا ہے اور چونکہ ساتھ آنا ایک واجب کام نہیں بلکہ اختیاری تھا اس لئے ساتھ نہ آنا گناہ شمار نہیں ہوگا۔<ref> بحار، ج۴۲، ص ۸۱.</ref>
لیکن جو لوگ حجاز میں تھے اور امام علیہ السلام کے ساتھ نہیں آ‎ئے وہ شروع سے ہی امام کے ساتھ آنے پر مکلف نہیں تھے۔ اور امام کے ساتھ نہ آنا فسق اور گناہ کا باعث نہیں ہے۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] ان تمہیدی باتوں کے بعد کہتے ہیں: « اسی لئے، کچھ صالح اور اچھے لوگ حجاز میں تھے جن کے لئے شہادت کا شرف نصیب نہیں ہوا لیکن ان کی عدالت میں کسی ایک کو بھی شک نہیں تھا۔ پس محمد حنفیہ اور [[عبداللہ بن جعفر|عبداللّہ بن جعفر]] کا امام کے ساتھ نہ آنا نافرمانی یا انحراف کی وجہ سے نہیں تھا۔<ref> مامقانی،‌ عبداللّہ.‌ ۱۳۵۲ ق، تنقیح المقال فی علم احوال الرجال، ج۳، ص۱۱۱، بی‌جا، مطبعۃ الحیدریۃ.</ref>» [[اثبات الہداۃ]] میں بھی ایک [[حدیث]] امام صادق علیہ السلام سے نقل ہو‎ئی ہے: [[حمزہ بن حمران]] کہتے ہیں: امام حسین (ع) کے مدینہ سے نکلنے اور ابن حنفیہ کے ساتھ نہ جانے کے بارے میں امام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اے حمزہ، تمہیں ایک حدیث بتاتا ہوں تاکہ اس کے بعد پھر کبھی یہ سوال نہ کر سکو، جب امام علیہ السلام مدینہ سے نکلے تو ایک کاغذ مانگا اور اس پر لکھا:
:::«<small>بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ حسین بن علی بن ابی طالب کی طرف سے [[بنی ہاشم]] کے نام: اما بعد، جو بھی میرے ساتھ چلے گا وہ [[شہید]] ہوگا اور جو بھی یہ کام نہیں کرے گا کامیاب نہیں ہوگا۔ والسلام»</small><ref> حر عاملی،اثبات الہداہ، ج۴، ص۴۲</ref>


[[حسین بن علیؑ]] کو[[یزید بن معاویہ|یزید]] کی [[بیعت]] پر مجبور کرنے اور امام کے انکار کے بعد محمد حنفیہ نے اپنے بھایی کی جان بچانے کی خاطر آپ کو [[مکہ]] جانے اور وہاں پر بھی خطرہ ہوا تو وہاں سے [[یمن|یمَن]] اور یمن میں بھی خطرہ کا احساس کیا تو صحراوں اور کوہستانوں میں پناہ لینے کی تجویز پیش کی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کی تجویز کی تعریف کی اور فرمایا: « بھا‎ئی جان، آپ کو اجازت ہے کہ [[مدینہ النبی|مدینہ]] میں میرے جاسوس کی حیثیت سے رہو اور دشمنوں کے امور سے مجھے باخبر رکھو»<ref>قمی، ص۹۸.</ref>
علامہ مجلسی، امام علیہ السلام کے اسے جملے کے بارے میں فرماتے ہیں: اس جملے کا ظاہر تو مذمت بتاتا ہے لیکن یہ احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ امام نے دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ آنے یا نہ آنے میں اختیار دیا ہے اور چونکہ ساتھ آنا ایک واجب کام نہیں بلکہ اختیاری تھا اس لئے ساتھ نہ آنا گناہ شمار نہیں ہوگا۔<ref> بحار، ج۴۲، ص ۸۱.</ref>
 
[[حسین بن علیؑ]] کو [[یزید بن معاویہ|یزید]] کی [[بیعت]] پر مجبور کرنے اور امام کے انکار کے بعد محمد حنفیہ نے اپنے بھایی کی جان بچانے کی خاطر آپ کو [[مکہ]] جانے اور وہاں پر بھی خطرہ ہوا تو وہاں سے [[یمن|یمَن]] اور یمن میں بھی خطرہ کا احساس کیا تو صحراوں اور کوہستانوں میں پناہ لینے کی تجویز پیش کی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کی تجویز کی تعریف کی اور فرمایا: بھا‎ئی، آپ کو اجازت ہے کہ [[مدینہ النبی|مدینہ]] میں میرے مامور کی حیثیت سے رہیں اور دشمنوں کے امور سے مجھے باخبر رکھیں۔<ref> قمی، ص۹۸.</ref>


===امام سجادؑ سے بحث ===
===امام سجادؑ سے بحث ===
گمنام صارف