مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن حنفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 112: سطر 112:
===جنگوں میں شرکت===
===جنگوں میں شرکت===
* [[سنہ 36 ہجری]] میں [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم کو خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کرکے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمۃ ابن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر یکے پس از دیگرے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref> مدرس وحید، ج۲، ص۳۵۷؛ نک: ری ‌شہری، ج۱، ص۱۸۳.</ref>
* [[سنہ 36 ہجری]] میں [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم کو خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کرکے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمۃ ابن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر یکے پس از دیگرے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref> مدرس وحید، ج۲، ص۳۵۷؛ نک: ری ‌شہری، ج۱، ص۱۸۳.</ref>
* [[جنگ صفین]] میں محمد لشکر کے سرداروں میں سے تھے۔<ref> ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب علیهم السلام، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۱۶۸.</ref> [[علامہ مجلسی]] نے جنگ صفین میں ان کی موجودگی کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۳۴۹.</ref> محمد بن جنفیہ نے اپنے بابا سے اپنے اور حسنین کے درمیان تبعیض کی شکایت کی۔  حضرت علی (ع) نے ان کے سر کا بوسہ لیا اور فرمایا: میرے عزیز بیٹے، تم میرے بیٹے ہو اور وہ دونوں [[حسنین]] [[رسول خدا (ص)]] کی فرزند ہیں۔ کیا مجھے ان کی حفاظت نہیں کرنی چاہئے؟ محمد نے جواب دیا: بیشک بابا، میری جان آپ پر اور ان دونوں پر فدا ہو۔<ref> مجلسی،‌ بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۳۴۹.</ref>
* [[جنگ نہروان]]، محمد جنگ نہروان میں بھی شریک رہے اور بعض اوقات لشکر کے پرچم دار بھی رہے۔<ref> حمیری، قرب الإسناد، ۱۴۱۳ق، ص۲۷.</ref>


===کربلا میں غیر حاضری===
===کربلا میں غیر حاضری===
سطر 139: سطر 143:
جب [[مختار ثقفی|مختار]] نے کوفہ پر قبضہ کیا تو لوگوں کو محمد ابن حنفیہ کی طرف دعوت دیا۔ اس وقت [[مکہ]] اور [[مدینہ]]  پر [[عبداللہ بن زبیر|عبد اللّہ بن زبیر]] مسلط تھا اس نے اس خوف سے کہ کہیں لوگ محمد ابن حنفیہ کی طرف نہ جا‎ئیں وہ اور [[عبداللہ بن عباس]] سے اپنی بیعت کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے نہ مانا اور اسی وجہ سے ابن زبیر نے انہیں [[زمزم]] کے حجرے میں قید کردیا اور قتل کی دھمکی دی۔ محمد ابن حنفیہ اور ابن عباس نے مختار سے مدد کا مطالبہ کر کے خط لکھا اور مختار نے خط پڑھنے کے بعد [[ظبیان بن عمارہ]] کو چار سو آدمی، چار لاکھ درہم اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ مکہ بھیجا۔<ref>أخبارالدولۃالعباسیۃ، ص ۹۹ - ۱۰۰.</ref>
جب [[مختار ثقفی|مختار]] نے کوفہ پر قبضہ کیا تو لوگوں کو محمد ابن حنفیہ کی طرف دعوت دیا۔ اس وقت [[مکہ]] اور [[مدینہ]]  پر [[عبداللہ بن زبیر|عبد اللّہ بن زبیر]] مسلط تھا اس نے اس خوف سے کہ کہیں لوگ محمد ابن حنفیہ کی طرف نہ جا‎ئیں وہ اور [[عبداللہ بن عباس]] سے اپنی بیعت کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے نہ مانا اور اسی وجہ سے ابن زبیر نے انہیں [[زمزم]] کے حجرے میں قید کردیا اور قتل کی دھمکی دی۔ محمد ابن حنفیہ اور ابن عباس نے مختار سے مدد کا مطالبہ کر کے خط لکھا اور مختار نے خط پڑھنے کے بعد [[ظبیان بن عمارہ]] کو چار سو آدمی، چار لاکھ درہم اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ مکہ بھیجا۔<ref>أخبارالدولۃالعباسیۃ، ص ۹۹ - ۱۰۰.</ref>
وہ لوگ ہاتھوں میں پرچم لئے [[مسجد الحرام]] میں داخل ہو‎ئے اور اونچی آواز میں [[حسین ابن علی علیہ السلام]] کے قاتلوں سے انتقام کے نعرے لگاتے ہو‎ئے زمزم تک پہنچ گئے۔ ابن زبیر نے ان لوگوں پر آگ لگانے کی نیت سے بہت ساری لکڑیاں جمع کیا۔ وہ لوگ مسجد الحرام کا دروازہ توڑ کر ابن حنفیہ تک پہنچ گئے اور ان سے کہا ہم اور عبد اللہ ابن زبیر میں سے کسی ایک کو انتخاب کریں۔ محمد ابن حنفیہ نے کہا: اللہ کے گھر میں جنگ اور خونریزی ہونا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ ابن زبیر ان لوگوں تک پہنچا اور غصے سے بولا «ان ‎ڈنڈے برداروں سے تعجب ہے» (<small>جب مختار کے لوگ حرم میں داخل ہو‎ئے تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کے بدلے ڈنڈے تھے کیونکہ حرم میں تلوار ساتھ رکھنا جا‎ئز نہیں ہے۔</small>)کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ محمد کو میری بیعت کئے بغیر جانے دونگا؟ اس وقت مسجد الحرام کے باہر موجود مختار کے لوگ مسجد میں داخل ہو‎ئے اور [[امام حسینؑ|حسینؑ]] کی انتقام کا نعرہ بلند کیا۔ ابن زبیر ان سے ڈر گیا اور محمد حنفیہ کو جانے سے نہیں روکا۔ محمد چار ہزار لوگوں کے ساتھ «[[علی کی گھاٹی|شعب ابی طالب]]» چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref>نوبختی، ص۸۵ و ۸۶.</ref>
وہ لوگ ہاتھوں میں پرچم لئے [[مسجد الحرام]] میں داخل ہو‎ئے اور اونچی آواز میں [[حسین ابن علی علیہ السلام]] کے قاتلوں سے انتقام کے نعرے لگاتے ہو‎ئے زمزم تک پہنچ گئے۔ ابن زبیر نے ان لوگوں پر آگ لگانے کی نیت سے بہت ساری لکڑیاں جمع کیا۔ وہ لوگ مسجد الحرام کا دروازہ توڑ کر ابن حنفیہ تک پہنچ گئے اور ان سے کہا ہم اور عبد اللہ ابن زبیر میں سے کسی ایک کو انتخاب کریں۔ محمد ابن حنفیہ نے کہا: اللہ کے گھر میں جنگ اور خونریزی ہونا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ ابن زبیر ان لوگوں تک پہنچا اور غصے سے بولا «ان ‎ڈنڈے برداروں سے تعجب ہے» (<small>جب مختار کے لوگ حرم میں داخل ہو‎ئے تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کے بدلے ڈنڈے تھے کیونکہ حرم میں تلوار ساتھ رکھنا جا‎ئز نہیں ہے۔</small>)کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ محمد کو میری بیعت کئے بغیر جانے دونگا؟ اس وقت مسجد الحرام کے باہر موجود مختار کے لوگ مسجد میں داخل ہو‎ئے اور [[امام حسینؑ|حسینؑ]] کی انتقام کا نعرہ بلند کیا۔ ابن زبیر ان سے ڈر گیا اور محمد حنفیہ کو جانے سے نہیں روکا۔ محمد چار ہزار لوگوں کے ساتھ «[[علی کی گھاٹی|شعب ابی طالب]]» چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref>نوبختی، ص۸۵ و ۸۶.</ref>


==کیسانیہ==
==کیسانیہ==
گمنام صارف