مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن حنفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 58: سطر 58:


  | label12 = والد
  | label12 = والد
  | data12  = {{{والد|امام علی(ع)}}}
  | data12  = {{{والد|امام علیؑ}}}


  | label13 = والدہ
  | label13 = والدہ
سطر 64: سطر 64:


  | label14 = وجہ شہرت
  | label14 = وجہ شہرت
  | data14  = {{{وجہ شہرت|[[امام علی (ع)]] کا بیٹا ہونے اور [[قیام مختار]] کی وجہ سے}}}
  | data14  = {{{وجہ شہرت|[[امام علی ؑ]] کا بیٹا ہونے اور [[قیام مختار]] کی وجہ سے}}}


  | label15 = اولاد
  | label15 = اولاد
سطر 78: سطر 78:
}}<noinclude>
}}<noinclude>
</noinclude>
</noinclude>
'''محمد بن حَنَفیہ''' (۱۶-۸۱ ھ ق) [[حضرت علی(ع)]] اور [[خولہ حنفیہ]] (<small>بنت جعفر بن قیس </small>) کا بیٹا اور پہلے درجے کے [[تابعی|تابعین]] میں سے تھے۔ [[عمر بن خطاب]] کے دور حکومت میں 16 ھ ق کو متولد ہو‎ئے اور[[عبد الملک ابن مروان]] کی خلافت کے دور میں 81 ھ۔ق کو 65 سال کی عمر میں [[ایلہ]] یا [[طائف]] یا [[مدینہ]] میں وفات پا‎ئے۔ چہ بسا انہیں محمد ابن علی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اسی طرح انہیں محمد اکبر بھی کہا گیا ہے۔ آپ کی [[کنیت]] ابوالقاسم ہے۔ آپ [[جنگ صفین|صفین]] اور [[جنگ جمل|جمل]] میں شریک ہو‎ئے اور جنگ جمل میں امام علی کی فوج کے علمدار تھے۔ [[واقعہ کربلا]] کے وقت آپ [[مدینہ]] میں تھے اور بعض نقل کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]] کی شہادت کے بعد آپ نے [[امامت]] کا دعوا کیا لیکن [[امام سجاد علیہ السلام]] کی امامت پر [[حجر الاسود]] کی گواہی کے بعد اپنے ادعا سے دستبردار ہو‎ئے اور اپنے بھتیجے کی امامت کے معتقد ہو‎ئے۔
'''محمد بن حَنَفیہ''' (۱۶-۸۱ ھ ق) [[حضرت علیؑ]] اور [[خولہ حنفیہ]] (<small>بنت جعفر بن قیس </small>) کا بیٹا اور پہلے درجے کے [[تابعی|تابعین]] میں سے تھے۔ [[عمر بن خطاب]] کے دور حکومت میں 16 ھ ق کو متولد ہو‎ئے اور[[عبد الملک ابن مروان]] کی خلافت کے دور میں 81 ھ۔ق کو 65 سال کی عمر میں [[ایلہ]] یا [[طائف]] یا [[مدینہ]] میں وفات پا‎ئے۔ چہ بسا انہیں محمد ابن علی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ اسی طرح انہیں محمد اکبر بھی کہا گیا ہے۔ آپ کی [[کنیت]] ابوالقاسم ہے۔ آپ [[جنگ صفین|صفین]] اور [[جنگ جمل|جمل]] میں شریک ہو‎ئے اور جنگ جمل میں امام علی کی فوج کے علمدار تھے۔ [[واقعہ کربلا]] کے وقت آپ [[مدینہ]] میں تھے اور بعض نقل کے مطابق [[امام حسین علیہ السلام]] کی شہادت کے بعد آپ نے [[امامت]] کا دعوا کیا لیکن [[امام سجاد علیہ السلام]] کی امامت پر [[حجر الاسود]] کی گواہی کے بعد اپنے ادعا سے دستبردار ہو‎ئے اور اپنے بھتیجے کی امامت کے معتقد ہو‎ئے۔


[[کیسانیہ]]، ان کو اپنا امام سمجھتے ہیں۔ مختار کو لکھے جانی والے خط کی وجہ سے کیسانیہ نے انہیں [[عبد اللہ ابن زبیر]] سے نجات دلایا۔ آپ پہلے شخص ہیں جنہیں [[مہدی|مہدی موعود]] کہا گیا۔ آپ کا سیاسی رویہ باہمی مسالمت آمیز تھا۔
[[کیسانیہ]]، ان کو اپنا امام سمجھتے ہیں۔ مختار کو لکھے جانی والے خط کی وجہ سے کیسانیہ نے انہیں [[عبد اللہ ابن زبیر]] سے نجات دلایا۔ آپ پہلے شخص ہیں جنہیں [[مہدی|مہدی موعود]] کہا گیا۔ آپ کا سیاسی رویہ باہمی مسالمت آمیز تھا۔
سطر 89: سطر 89:


==نقل حدیث میں آپکا مقام==
==نقل حدیث میں آپکا مقام==
آپ  نے اپنے والد گرامی حضرت [[علی(ع)]]، [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]]، [[ابوہریرہ]]، [[عثمان بن عفان|عثمان]]، [[عمار یاسر|عمار بن یاسر]] اور [[معاویہ]] وغیرہ سے احادیث نقل کی ہے۔
آپ  نے اپنے والد گرامی حضرت [[علیؑ]]، [[عمر بن خطاب|عُمَر بن خَطّاب]]، [[ابوہریرہ]]، [[عثمان بن عفان|عثمان]]، [[عمار یاسر|عمار بن یاسر]] اور [[معاویہ]] وغیرہ سے احادیث نقل کی ہے۔


آپ سے آپ کے بیٹے [[عبداللہ بن محمد حنفیہ|عبد اللّہ]]، [[حسن بن محمد حنفیہ|حسن]]، [[ابراہیم بن محمد حنفیہ|ابراہیم]]، [[عون بن محمد حنفیہ|عون]] اور کچھ دوسرے لوگ جیسے [[سالم بن ابی جعد]]، [[منذر ثوری]]، [[امام باقر(ع)]]، [[عبداللہ بن محمد عقیل]]، [[عمرو بن دینار]]، [[محمد بن قیس]]، [[عبدالاعلی بن عامر]] وغیرہ  نے احادیث نقل کی ہیں۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۱.</ref>
آپ سے آپ کے بیٹے [[عبداللہ بن محمد حنفیہ|عبد اللّہ]]، [[حسن بن محمد حنفیہ|حسن]]، [[ابراہیم بن محمد حنفیہ|ابراہیم]]، [[عون بن محمد حنفیہ|عون]] اور کچھ دوسرے لوگ جیسے [[سالم بن ابی جعد]]، [[منذر ثوری]]، [[امام باقرؑ]]، [[عبداللہ بن محمد عقیل]]، [[عمرو بن دینار]]، [[محمد بن قیس]]، [[عبدالاعلی بن عامر]] وغیرہ  نے احادیث نقل کی ہیں۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۱.</ref>


آپ نے [[مدینہ]] میں وسیع پیمانے پر درس اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی مکتب سے بہت سارے نظریات مطرح ہوئے یہاں تک کہ مدینے میں آپ کے درس تدریس کو [[بصرہ]] میں [[حسن بصری]] کے علمی مجمع سے مقایسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح وہ مجمع [[معتزلہ]] کے عقاید کا سرچشمہ اور [[تصوف|صوفیوں]] اور زاہدوں کے مسلک کے نام سے معرفی ہوا، اس حلقے کے شاگردوں کو بھی کلامی نظریات کے بانی سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس حلقے سے ابن حنفیہ کے دو بیٹے عبد اللہ جو ابو القاسم سے ملقب تھا اور حسن جو ابو محمد سے ملقب تھا، نکلے اور ابوہاشم، معتزلی نظریات کا واسطہ بنا اور ابومحمد [[مرجئہ]] کا بانی بنا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۴.</ref>
آپ نے [[مدینہ]] میں وسیع پیمانے پر درس اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی مکتب سے بہت سارے نظریات مطرح ہوئے یہاں تک کہ مدینے میں آپ کے درس تدریس کو [[بصرہ]] میں [[حسن بصری]] کے علمی مجمع سے مقایسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح وہ مجمع [[معتزلہ]] کے عقاید کا سرچشمہ اور [[تصوف|صوفیوں]] اور زاہدوں کے مسلک کے نام سے معرفی ہوا، اس حلقے کے شاگردوں کو بھی کلامی نظریات کے بانی سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس حلقے سے ابن حنفیہ کے دو بیٹے عبد اللہ جو ابو القاسم سے ملقب تھا اور حسن جو ابو محمد سے ملقب تھا، نکلے اور ابوہاشم، معتزلی نظریات کا واسطہ بنا اور ابومحمد [[مرجئہ]] کا بانی بنا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۴.</ref>
سطر 97: سطر 97:
==جنگ جمل میں سپہ سالاری==
==جنگ جمل میں سپہ سالاری==
[[36 ہجری قمری]] کو [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کر کے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمۃ ابن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر یکے پس از دیگرے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref>مدرس وحید، ج۲، ص۳۵۷؛ نک: ری‌شہری، ج۱، ص۱۸۳.</ref>
[[36 ہجری قمری]] کو [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کر کے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمۃ ابن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر یکے پس از دیگرے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref>مدرس وحید، ج۲، ص۳۵۷؛ نک: ری‌شہری، ج۱، ص۱۸۳.</ref>
ابن خلکان نے نامعلوم شخص سے نقل کیا ہے کہ [[جنگ جمل|جَمَل]] میں ابن حنفیہ [[علی(ع)]] کی فوج کے سپہ سالار بنے میں مردد تھے یہاں تک کہ اپنے باپ پر اعتراض بھی کیا۔.<ref>ابن خَلِّکان، ج۴، ص۱۷۱.</ref>لیکن آخر کار پرچم ہاتھ میں لیا۔ طبری، ابن کثیر اور ابن جوزی نے اس تردید کی طرف اشارہ کئے بغیر جنگ جمل میں محمد ابن حنفیہ کی سپہ سالاری کا تذکرہ کیا ہے۔<ref>دیکھیں : ابن جوزی، ج۵، ص۷۸؛ صابری، ج۲، ص۵۱.</ref>
ابن خلکان نے نامعلوم شخص سے نقل کیا ہے کہ [[جنگ جمل|جَمَل]] میں ابن حنفیہ [[علیؑ]] کی فوج کے سپہ سالار بنے میں مردد تھے یہاں تک کہ اپنے باپ پر اعتراض بھی کیا۔.<ref>ابن خَلِّکان، ج۴، ص۱۷۱.</ref>لیکن آخر کار پرچم ہاتھ میں لیا۔ طبری، ابن کثیر اور ابن جوزی نے اس تردید کی طرف اشارہ کئے بغیر جنگ جمل میں محمد ابن حنفیہ کی سپہ سالاری کا تذکرہ کیا ہے۔<ref>دیکھیں : ابن جوزی، ج۵، ص۷۸؛ صابری، ج۲، ص۵۱.</ref>


==کربلا میں غیر حاضری==
==کربلا میں غیر حاضری==
سطر 108: سطر 108:
::تمہارا مدینہ میں رہنا کو‎ئی مشکل نہیں ہے آپ ان لوگوں کے درمیان میرے جاسوس ہونگے اور تمام حالات سے مجھے باخبر رکھیں<ref>ابن‌اعثم،‌ ہمان،‌ ص۲۳</ref>
::تمہارا مدینہ میں رہنا کو‎ئی مشکل نہیں ہے آپ ان لوگوں کے درمیان میرے جاسوس ہونگے اور تمام حالات سے مجھے باخبر رکھیں<ref>ابن‌اعثم،‌ ہمان،‌ ص۲۳</ref>
* محمد ابن حنفیہ کو قیام میں شرکت کرنے اور امام کے ساتھ آنے پر امام حسین علیہ السلام کی طرف سے حکم ہونا۔
* محمد ابن حنفیہ کو قیام میں شرکت کرنے اور امام کے ساتھ آنے پر امام حسین علیہ السلام کی طرف سے حکم ہونا۔
[[تنقیح المقال]] کے مصنف کا کہنا ہے کہ چونکہ [[امام حسین(ع)]] نے‌ [[مدینہ]] یا‌ مکہ‌ میں کسی کو بھی اپنے ساتھ آنے کا حکم نہیں دیا ہے اس لئے محمد ابن حنفیہ کا امام علیہ السلام کے ساتھ نہ آنے سے ان کی عدالت پر انگلی نہیں اٹھتی ہے۔ وہ لکھتا ہے: امام حسین علیہ السلام جب [[حجاز]] سے [[عراق]] کی جانب روانہ ہو‎ئے تو امام علیہ السلام جانتے تھے کہ [[شہادت]] نصیب ہونی ہے لیکن ظاہری طور پر جنگ کی قصد سے نہیں نکلے تاکہ تمام لوگوں پر [[جہاد]] کے عنوان سے امام کے ساتھ جانا [[واجب|واجب]] نہ ہوجا‎ئے؛ بلکہ اپنی ذمہ داری کے تحت، یعنی لوگوں کی طرف سے دعوت دی ہو‎ئی ظاہری رہبری اور پیشوا‎ئی کو اپنے ہاتھ لینے کی نیت سے نکلے۔ اس صورت میں دوسروں پر واجب نہیں کہ وہ امام کے ہمراہ چلیں اور اگر کو‎ئی ساتھ نہ چلے تو [[گناہگار|گناہ]] کا مرتکب نہیں ہوا ہے بلکہ گناہ گار وہ شخص ہے جس نے [[عاشورا]] کے دن کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو دشمن کے نرغے میں دیکھتے ہو‎ئے امام کا ساتھ نہیں دیا اور امام کی مدد نہیں کی لیکن جو لوگ حجاز میں تھے اور امام علیہ السلام کے ساتھ نہیں آ‎ئے وہ شروع سے ہی امام کے ساتھ آنے پر مکلف نہیں تھے۔ اور امام کے ساتھ نہ آنا فسق اور گناہ کا باعث نہیں ہے۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] ان تمہیدی باتوں کے بعد کہتا ہے: « اسی لئے، کچھ صالح اور اچھے لوگ حجاز میں تھے جن کے لئے شہادت کا شرف نصیب نہیں ہوا لیکن ان کی عدالت میں کسی ایک کو بھی شک نہیں تھا۔ پس محمد حنفیہ اور [[عبداللہ بن جعفر|عبداللّہ بن جعفر]] کا امام کے ساتھ نہ آنا نافرمانی یا انحراف کی وجہ سے نہیں تھا۔<ref>مامقانی،‌ عبداللّہ.‌ ۱۳۵۲ ق، تنقیح المقال فی علم احوال الرجال، ج۳، ص۱۱۱، بی‌جا، مطبعۃ الحیدریۃ.</ref>»[[اثبات الہداۃ]] میں بھی ایک حدیث امام صادق علیہ السلام سے نقل ہو‎ئی ہے کہ: [[حمزۃ بن حمران]] کہتا ہے: امام حسین علیہ السلام کے مدینہ سے نکلنے اور ابن حنفیہ کا ساتھ نہ جانے کے بارے میں امام علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اے حمزہ، تمہیں ایک حدیث بتاتا ہوں تاکہ اس کے بعد پھر کبھی یہ سوال نہ کرسکو، جب امام حسین علیہ السلام مدینہ سے نکلے تو ایک کاغذ مانگا اور اس پر لکھا:  
[[تنقیح المقال]] کے مصنف کا کہنا ہے کہ چونکہ [[امام حسینؑ]] نے‌ [[مدینہ]] یا‌ مکہ‌ میں کسی کو بھی اپنے ساتھ آنے کا حکم نہیں دیا ہے اس لئے محمد ابن حنفیہ کا امام علیہ السلام کے ساتھ نہ آنے سے ان کی عدالت پر انگلی نہیں اٹھتی ہے۔ وہ لکھتا ہے: امام حسین علیہ السلام جب [[حجاز]] سے [[عراق]] کی جانب روانہ ہو‎ئے تو امام علیہ السلام جانتے تھے کہ [[شہادت]] نصیب ہونی ہے لیکن ظاہری طور پر جنگ کی قصد سے نہیں نکلے تاکہ تمام لوگوں پر [[جہاد]] کے عنوان سے امام کے ساتھ جانا [[واجب|واجب]] نہ ہوجا‎ئے؛ بلکہ اپنی ذمہ داری کے تحت، یعنی لوگوں کی طرف سے دعوت دی ہو‎ئی ظاہری رہبری اور پیشوا‎ئی کو اپنے ہاتھ لینے کی نیت سے نکلے۔ اس صورت میں دوسروں پر واجب نہیں کہ وہ امام کے ہمراہ چلیں اور اگر کو‎ئی ساتھ نہ چلے تو [[گناہگار|گناہ]] کا مرتکب نہیں ہوا ہے بلکہ گناہ گار وہ شخص ہے جس نے [[عاشورا]] کے دن کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو دشمن کے نرغے میں دیکھتے ہو‎ئے امام کا ساتھ نہیں دیا اور امام کی مدد نہیں کی لیکن جو لوگ حجاز میں تھے اور امام علیہ السلام کے ساتھ نہیں آ‎ئے وہ شروع سے ہی امام کے ساتھ آنے پر مکلف نہیں تھے۔ اور امام کے ساتھ نہ آنا فسق اور گناہ کا باعث نہیں ہے۔ [[عبداللہ مامقانی|مامقانی]] ان تمہیدی باتوں کے بعد کہتا ہے: « اسی لئے، کچھ صالح اور اچھے لوگ حجاز میں تھے جن کے لئے شہادت کا شرف نصیب نہیں ہوا لیکن ان کی عدالت میں کسی ایک کو بھی شک نہیں تھا۔ پس محمد حنفیہ اور [[عبداللہ بن جعفر|عبداللّہ بن جعفر]] کا امام کے ساتھ نہ آنا نافرمانی یا انحراف کی وجہ سے نہیں تھا۔<ref>مامقانی،‌ عبداللّہ.‌ ۱۳۵۲ ق، تنقیح المقال فی علم احوال الرجال، ج۳، ص۱۱۱، بی‌جا، مطبعۃ الحیدریۃ.</ref>»[[اثبات الہداۃ]] میں بھی ایک حدیث امام صادق علیہ السلام سے نقل ہو‎ئی ہے کہ: [[حمزۃ بن حمران]] کہتا ہے: امام حسین علیہ السلام کے مدینہ سے نکلنے اور ابن حنفیہ کا ساتھ نہ جانے کے بارے میں امام علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: اے حمزہ، تمہیں ایک حدیث بتاتا ہوں تاکہ اس کے بعد پھر کبھی یہ سوال نہ کرسکو، جب امام حسین علیہ السلام مدینہ سے نکلے تو ایک کاغذ مانگا اور اس پر لکھا:  
:::«<small>بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ حسین ابن علی ابن ابی طالب کی طرف سے [[بنی ہاشم]] کے نام: اما بعد، جو بھی میرے ساتھ چلو گے [[شہید]] ہوجا‎‎‎ؤ گے۔ اور جو بھی یہ کام نہیں کرے گا کامیاب نہیں ہوگا۔ والسلام.»</small><ref>حر عاملی،اثبات الہداہ، ج۴، ص۴۲</ref>
:::«<small>بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ حسین ابن علی ابن ابی طالب کی طرف سے [[بنی ہاشم]] کے نام: اما بعد، جو بھی میرے ساتھ چلو گے [[شہید]] ہوجا‎‎‎ؤ گے۔ اور جو بھی یہ کام نہیں کرے گا کامیاب نہیں ہوگا۔ والسلام.»</small><ref>حر عاملی،اثبات الہداہ، ج۴، ص۴۲</ref>


علامہ مجلسی، امام حسین علیہ السلام کے اسے جملے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: اس جملے کا ظاہر تو مذمت بتاتا ہے لیکن یہ احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ امام نے دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ آنے یا نہ آنے میں اختیار دیا ہے اور چونکہ ساتھ آنا ایک واجب کام نہیں بلکہ اختیاری تھا اس لئے ساتھ نہ آنا گناہ شمار نہیں ہوگا۔<ref> بحار، ج۴۲، ص ۸۱.</ref>
علامہ مجلسی، امام حسین علیہ السلام کے اسے جملے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: اس جملے کا ظاہر تو مذمت بتاتا ہے لیکن یہ احتمال بھی دیا جا سکتا ہے کہ امام نے دوسرے لوگوں کو اپنے ساتھ آنے یا نہ آنے میں اختیار دیا ہے اور چونکہ ساتھ آنا ایک واجب کام نہیں بلکہ اختیاری تھا اس لئے ساتھ نہ آنا گناہ شمار نہیں ہوگا۔<ref> بحار، ج۴۲، ص ۸۱.</ref>


[[حسین بن علی(ع)]] کو[[یزید بن معاویہ|یزید]] کی [[بیعت]] پر مجبور کرنے اور امام کے انکار کے بعد محمد حنفیہ نے اپنے بھایی کی جان بچانے کی خاطر آپ کو [[مکہ]] جانے اور وہاں پر بھی خطرہ ہوا تو وہاں سے [[یمن|یمَن]] اور یمن میں بھی خطرہ کا احساس کیا تو صحراوں اور کوہستانوں میں پناہ لینے کی تجویز پیش کی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کی تجویز کی تعریف کی اور فرمایا: « بھا‎ئی جان، آپ کو اجازت ہے کہ [[مدینہ النبی|مدینہ]] میں میرے جاسوس کی حیثیت سے رہو اور دشمنوں کے امور سے مجھے باخبر رکھو»<ref>قمی، ص۹۸.</ref>
[[حسین بن علیؑ]] کو[[یزید بن معاویہ|یزید]] کی [[بیعت]] پر مجبور کرنے اور امام کے انکار کے بعد محمد حنفیہ نے اپنے بھایی کی جان بچانے کی خاطر آپ کو [[مکہ]] جانے اور وہاں پر بھی خطرہ ہوا تو وہاں سے [[یمن|یمَن]] اور یمن میں بھی خطرہ کا احساس کیا تو صحراوں اور کوہستانوں میں پناہ لینے کی تجویز پیش کی۔ امام حسین علیہ السلام نے آپ کی تجویز کی تعریف کی اور فرمایا: « بھا‎ئی جان، آپ کو اجازت ہے کہ [[مدینہ النبی|مدینہ]] میں میرے جاسوس کی حیثیت سے رہو اور دشمنوں کے امور سے مجھے باخبر رکھو»<ref>قمی، ص۹۸.</ref>


==کیسانیہ اور مختار سے رابطہ==
==کیسانیہ اور مختار سے رابطہ==
سطر 121: سطر 121:
===محمد حنفیہ کو عبداللہ بن زبیر سے نجات دینا===
===محمد حنفیہ کو عبداللہ بن زبیر سے نجات دینا===
جب [[مختار ثقفی|مختار]] نے کوفہ پر قبضہ کیا تو لوگوں کو محمد ابن حنفیہ کی طرف دعوت دیا۔ اس وقت [[مکہ]] اور [[مدینہ]]  پر [[عبداللہ بن زبیر|عبد اللّہ بن زبیر]] مسلط تھا اس نے اس خوف سے کہ کہیں لوگ محمد ابن حنفیہ کی طرف نہ جا‎ئیں وہ اور [[عبداللہ بن عباس]] سے اپنی بیعت کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے نہ مانا اور اسی وجہ سے ابن زبیر نے انہیں [[زمزم]] کے حجرے میں قید کردیا اور قتل کی دھمکی دی۔ محمد ابن حنفیہ اور ابن عباس نے مختار سے مدد کا مطالبہ کر کے خط لکھا اور مختار نے خط پڑھنے کے بعد [[ظبیان بن عمارہ]] کو چار سو آدمی، چار لاکھ درہم اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ مکہ بھیجا۔<ref>أخبارالدولۃالعباسیۃ، ص ۹۹ - ۱۰۰.</ref>
جب [[مختار ثقفی|مختار]] نے کوفہ پر قبضہ کیا تو لوگوں کو محمد ابن حنفیہ کی طرف دعوت دیا۔ اس وقت [[مکہ]] اور [[مدینہ]]  پر [[عبداللہ بن زبیر|عبد اللّہ بن زبیر]] مسلط تھا اس نے اس خوف سے کہ کہیں لوگ محمد ابن حنفیہ کی طرف نہ جا‎ئیں وہ اور [[عبداللہ بن عباس]] سے اپنی بیعت کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے نہ مانا اور اسی وجہ سے ابن زبیر نے انہیں [[زمزم]] کے حجرے میں قید کردیا اور قتل کی دھمکی دی۔ محمد ابن حنفیہ اور ابن عباس نے مختار سے مدد کا مطالبہ کر کے خط لکھا اور مختار نے خط پڑھنے کے بعد [[ظبیان بن عمارہ]] کو چار سو آدمی، چار لاکھ درہم اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ مکہ بھیجا۔<ref>أخبارالدولۃالعباسیۃ، ص ۹۹ - ۱۰۰.</ref>
وہ لوگ ہاتھوں میں پرچم لئے [[مسجد الحرام]] میں داخل ہو‎ئے اور اونچی آواز میں [[حسین ابن علی علیہ السلام]] کے قاتلوں سے انتقام کے نعرے لگاتے ہو‎ئے زمزم تک پہنچ گئے۔ ابن زبیر نے ان لوگوں پر آگ لگانے کی نیت سے بہت ساری لکڑیاں جمع کیا۔ وہ لوگ مسجد الحرام کا دروازہ توڑ کر ابن حنفیہ تک پہنچ گئے اور ان سے کہا ہم اور عبد اللہ ابن زبیر میں سے کسی ایک کو انتخاب کریں۔ محمد ابن حنفیہ نے کہا: اللہ کے گھر میں جنگ اور خونریزی ہونا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ ابن زبیر ان لوگوں تک پہنچا اور غصے سے بولا «ان ‎ڈنڈے برداروں سے تعجب ہے» (<small>جب مختار کے لوگ حرم میں داخل ہو‎ئے تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کے بدلے ڈنڈے تھے کیونکہ حرم میں تلوار ساتھ رکھنا جا‎ئز نہیں ہے۔</small>)کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ محمد کو میری بیعت کئے بغیر جانے دونگا؟ اس وقت مسجد الحرام کے باہر موجود مختار کے لوگ مسجد میں داخل ہو‎ئے اور [[امام حسین(ع)|حسین(ع)]] کی انتقام کا نعرہ بلند کیا۔ ابن زبیر ان سے ڈر گیا اور محمد حنفیہ کو جانے سے نہیں روکا۔ محمد چار ہزار لوگوں کے ساتھ «[[علی کی گھاٹی|شعب ابی طالب]]» چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref>نوبختی، ص۸۵ و ۸۶.</ref>
وہ لوگ ہاتھوں میں پرچم لئے [[مسجد الحرام]] میں داخل ہو‎ئے اور اونچی آواز میں [[حسین ابن علی علیہ السلام]] کے قاتلوں سے انتقام کے نعرے لگاتے ہو‎ئے زمزم تک پہنچ گئے۔ ابن زبیر نے ان لوگوں پر آگ لگانے کی نیت سے بہت ساری لکڑیاں جمع کیا۔ وہ لوگ مسجد الحرام کا دروازہ توڑ کر ابن حنفیہ تک پہنچ گئے اور ان سے کہا ہم اور عبد اللہ ابن زبیر میں سے کسی ایک کو انتخاب کریں۔ محمد ابن حنفیہ نے کہا: اللہ کے گھر میں جنگ اور خونریزی ہونا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ ابن زبیر ان لوگوں تک پہنچا اور غصے سے بولا «ان ‎ڈنڈے برداروں سے تعجب ہے» (<small>جب مختار کے لوگ حرم میں داخل ہو‎ئے تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کے بدلے ڈنڈے تھے کیونکہ حرم میں تلوار ساتھ رکھنا جا‎ئز نہیں ہے۔</small>)کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ محمد کو میری بیعت کئے بغیر جانے دونگا؟ اس وقت مسجد الحرام کے باہر موجود مختار کے لوگ مسجد میں داخل ہو‎ئے اور [[امام حسینؑ|حسینؑ]] کی انتقام کا نعرہ بلند کیا۔ ابن زبیر ان سے ڈر گیا اور محمد حنفیہ کو جانے سے نہیں روکا۔ محمد چار ہزار لوگوں کے ساتھ «[[علی کی گھاٹی|شعب ابی طالب]]» چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref>نوبختی، ص۸۵ و ۸۶.</ref>


===بعض کیسانیوں کا ان کی مہدویت کا عقیدہ===
===بعض کیسانیوں کا ان کی مہدویت کا عقیدہ===
سطر 127: سطر 127:


==امامت کا دعوی==
==امامت کا دعوی==
===امام سجاد(ع) سے بحث ===
===امام سجادؑ سے بحث ===
محمد بن حنفیہ، اپنے بھا‎ئی [[امام حسن]](ع) اور [[امام حسین]](ع) کو خود سے افضل سمجھتے تھے لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ اور محمد حنفیہ کی دلیل یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معرفی نہیں کیا ہے اور محمد حنفیہ [[علی علیہ السلام]] کے بلافصل فرزند ہیں اور عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے زین العابدین علیہ السلام پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور انہیں لکھا:
محمد بن حنفیہ، اپنے بھا‎ئی [[امام حسن]]ؑ اور [[امام حسین]]ؑ کو خود سے افضل سمجھتے تھے لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ اور محمد حنفیہ کی دلیل یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معرفی نہیں کیا ہے اور محمد حنفیہ [[علی علیہ السلام]] کے بلافصل فرزند ہیں اور عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے زین العابدین علیہ السلام پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور انہیں لکھا:
::<small>«میرے والد گرامی نے [[عراق]] کے سفر کی نیت سے پہلے میری امامت کا بتا دیا تھا اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے مجھ سے عہد لیا۔»</small>
::<small>«میرے والد گرامی نے [[عراق]] کے سفر کی نیت سے پہلے میری امامت کا بتا دیا تھا اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے مجھ سے عہد لیا۔»</small>
امام سجاد(ع) نے محمد حنفیہ کو دعوت دی کہ [[حجر الاسود]] جاکر وہاں اپنا مسئلہ حل کرینگے۔ حجر اسود ہم میں سے جس کی [[امامت]] کی گواہی دے وہی [[امام]] ہے۔ وہاں جا کر پہلے محمد نے اللہ کے حضور گریہ و زاری کے بعد دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کی درخواست کی لیکن کو‎ئی جواب نہیں ملا۔ پھر امام سجاد علیہ السلام نے دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کا مطالبہ کیا تو حجر اسود سے آواز آ‎ئی اور علی ابن الحسین کی امامت کی گواہی دی اور محمد حنفیہ نے بھی آپ کی امامت کو قبول کیا<ref>دیکھیے: صفار، ص۵۰۲؛ ابن بابویہ، ص۶۲-۶۰؛ کلینی، ج۱، ص۳۴۸</ref> بعضی از علماء احتمال صوری بودن این منازعہ را دادہ‌اند کہ ضعفای شیعہ بہ وی متمایل نشوند.<ref>الخرائج و الجرائج، ج۱، ص۲۵۸ و بحارالانوار، ج۴۶، ص ۳۰</ref>
امام سجادؑ نے محمد حنفیہ کو دعوت دی کہ [[حجر الاسود]] جاکر وہاں اپنا مسئلہ حل کرینگے۔ حجر اسود ہم میں سے جس کی [[امامت]] کی گواہی دے وہی [[امام]] ہے۔ وہاں جا کر پہلے محمد نے اللہ کے حضور گریہ و زاری کے بعد دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کی درخواست کی لیکن کو‎ئی جواب نہیں ملا۔ پھر امام سجاد علیہ السلام نے دعا کی اور حجر اسود سے اپنی امامت کی گواہی کا مطالبہ کیا تو حجر اسود سے آواز آ‎ئی اور علی ابن الحسین کی امامت کی گواہی دی اور محمد حنفیہ نے بھی آپ کی امامت کو قبول کیا<ref>دیکھیے: صفار، ص۵۰۲؛ ابن بابویہ، ص۶۲-۶۰؛ کلینی، ج۱، ص۳۴۸</ref> بعضی از علماء احتمال صوری بودن این منازعہ را دادہ‌اند کہ ضعفای شیعہ بہ وی متمایل نشوند.<ref>الخرائج و الجرائج، ج۱، ص۲۵۸ و بحارالانوار، ج۴۶، ص ۳۰</ref>


===حضرت سجاد علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ===
===حضرت سجاد علیہ السلام کی امامت پر عقیدہ===
سطر 159: سطر 159:
[[ملف:امامزاده میرمحمد خارک.jpg|تصغیر|جزیرہ خارک میں امامزادہ میرمحمد (محمد حنفیہ)]]
[[ملف:امامزاده میرمحمد خارک.jpg|تصغیر|جزیرہ خارک میں امامزادہ میرمحمد (محمد حنفیہ)]]


* محمد حنفیہ کے نام سے ایک امام زادہ [[رودبار]] شہر کی [[بیورزین]] نامی دیہات میں بھی ہے جو [[شجرہ نامہ|شجرہ نسب]] اور وہاں کے لوگوں کے کہنے کے مطابق محمد حنفیہ، ان کا بیٹا ہاشم اور (<small>[[امام کاظم(ع)]] کے بیٹے</small>)  ابو القاسم حمزہ دفن ہیں۔ البتہ یہ بات بھی محمد ابن حنفیہ کے محل وفات جو کتابوں میں بیان ہوا ہے اس کے ساتھ مطابق نہیں۔ امام زادہ محمد حنفیہ کو امام زادہ «قِل قِلی» یا «غلتان» کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ہر سال [[28 صفر]] کو اس امام‌زادے پر بہت رش ہوتا ہے۔.<ref>[http://guilan.irib.ir/index.php?option=com_content&view=article&id=1028:1&catid=302:amaken صوبہ گیلان صدا و سیما کی ویب سایٹ]</ref>
* محمد حنفیہ کے نام سے ایک امام زادہ [[رودبار]] شہر کی [[بیورزین]] نامی دیہات میں بھی ہے جو [[شجرہ نامہ|شجرہ نسب]] اور وہاں کے لوگوں کے کہنے کے مطابق محمد حنفیہ، ان کا بیٹا ہاشم اور (<small>[[امام کاظمؑ]] کے بیٹے</small>)  ابو القاسم حمزہ دفن ہیں۔ البتہ یہ بات بھی محمد ابن حنفیہ کے محل وفات جو کتابوں میں بیان ہوا ہے اس کے ساتھ مطابق نہیں۔ امام زادہ محمد حنفیہ کو امام زادہ «قِل قِلی» یا «غلتان» کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ہر سال [[28 صفر]] کو اس امام‌زادے پر بہت رش ہوتا ہے۔.<ref>[http://guilan.irib.ir/index.php?option=com_content&view=article&id=1028:1&catid=302:amaken صوبہ گیلان صدا و سیما کی ویب سایٹ]</ref>
*امام‌زادہ میرمحمد (<small>محمد حنفیہ</small>) جو جزیرہ [[خارک]] میں واقع ہے صدر اسلام کی نشانیوں میں سے ہے۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ محمد حنفیہ فرزند امیر المومنین علیہ السلام کا محل دفن یہی ہے۔<ref> [http://golshn12.blogfa.com/category/99 دانستنی‌ہای تاریخ و جغرافیایی ایران و جہان]</ref>. یہاں اس [[امامزادہ]] میں بھی محمد حنفیہ کا دفن ہونا پہلے والے امامزادوں کی طرح یہ بھی محل دفن کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔
*امام‌زادہ میرمحمد (<small>محمد حنفیہ</small>) جو جزیرہ [[خارک]] میں واقع ہے صدر اسلام کی نشانیوں میں سے ہے۔ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ محمد حنفیہ فرزند امیر المومنین علیہ السلام کا محل دفن یہی ہے۔<ref> [http://golshn12.blogfa.com/category/99 دانستنی‌ہای تاریخ و جغرافیایی ایران و جہان]</ref>. یہاں اس [[امامزادہ]] میں بھی محمد حنفیہ کا دفن ہونا پہلے والے امامزادوں کی طرح یہ بھی محل دفن کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا ہے۔


سطر 209: سطر 209:
[[id:Muhammad bin Hanafiyah]]
[[id:Muhammad bin Hanafiyah]]
[[fr:Muhammad ibn al-Hanafiyya]]
[[fr:Muhammad ibn al-Hanafiyya]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]
[[Category:تابعین]]
[[Category:مدینہ میں مدفون امامزادگان]]
[[Category:اولاد امام علی]]
[[Category:حائز اہمیت درجہ دوم مقالات]]


[[زمرہ:تابعین]]
[[زمرہ:تابعین]]
confirmed، templateeditor
8,265

ترامیم