مندرجات کا رخ کریں

"حدیث قرطاس" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 77: سطر 77:
==  پیامبر(ص) کا مقصود ==
==  پیامبر(ص) کا مقصود ==


{{مضمون اصلی|حدیث ثقلین}}
[[مضمون اصلی|حدیث ثقلین]]


شیعہ علما کے نزدیک حدیث قرطاس اور حدیث ثقلین کہ جس میں رسول اکرم نے فرمایا :میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں قرآن و اہل بیت، چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رکھو گے اس وقت تک تم گمراہ نہیں ہو گے؛کی غرض ایک اور ان کا ہدف  حضرت علی کی تاکید ہے ۔
شیعہ علما کے نزدیک حدیث قرطاس اور حدیث ثقلین کہ جس میں رسول اکرم نے فرمایا :میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں قرآن و اہل بیت، چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رکھو گے اس وقت تک تم گمراہ نہیں ہو گے؛کی غرض ایک اور ان کا ہدف  حضرت علی کی تاکید ہے ۔
شیعہ علما کے مطابق ان سے حضرت رسول اکرم کا قصد یہ تھا کہ خلافت اور امامت کو اپنی عترت کیلئے استوار کریں ۔چونکہ کچھ افراد اس حقیقت کو بھانپ گئے تھے اسی وجہ سے وہ اس حدیث قرطاس کے لکھنے سے مانع ہوئے۔<ref>شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۵؛ ترجمه فارسی: مناظرات، ص۴۳۶.</ref> [[خلیفه دوم]] نیز اس کے اور عبد اللہ بن عباس کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم اپنی بیماری کے ایام میں چاہتے تھے کہ اپنے بعد خلافت کیلئے علی کا نام لیں تو میں دلسوزی اور حفاظت اسلام کی خاطر اس میں آڑے آیا ۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج۱۲، صص ۲۰-۲۱.</ref>
شیعہ علما کے مطابق ان سے حضرت رسول اکرم کا قصد یہ تھا کہ خلافت اور امامت کو اپنی عترت کیلئے استوار کریں ۔چونکہ کچھ افراد اس حقیقت کو بھانپ گئے تھے اسی وجہ سے وہ اس حدیث قرطاس کے لکھنے سے مانع ہوئے۔<ref>شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۵؛ ترجمه فارسی: مناظرات، ص۴۳۶.</ref> نیز [[خلیفه دوم]] اور عبد اللہ بن عباس کے درمیان ہونے والی گفتگو میں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم اپنی بیماری کے ایام میں چاہتے تھے کہ اپنے بعد خلافت کیلئے علی کا نام لیں تو میں دلسوزی اور حفاظت اسلام کی خاطر اس میں آڑے آیا ۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج۱۲، صص ۲۰-۲۱.</ref>
<!--
<!--
'''سبب انصراف پیامبر از نگارش'''{{سخ}}
''' پیغمبر اکرم کا تحریر سے منصرف ہو جانے کا سبب'''
به باور برخی از عالمان شیعه، وجه اینکه پیامبر (ص) از نگارش وصیت منصرف شد، همان سخنی بوده که در مقابلش گفته شد؛ زیرا دیگر اثری برای نوشتن آن نامه باقی نمی‌ماند، جز فتنه و اختلاف پس از درگذشت پیامبر(ص). بر این اساس، اگر پیامبر توصیه مذکور را مکتوب می‌کرد، ممکن بود باز هم گفته شود آیا این نوشته هذیان است یا نه.<ref>شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۵؛ ترجمه فارسی: مناظرات، ص۴۳۶-۴۳۷.</ref>
بعض شیعہ علما کا رسول اکرم کے وصیت لکھنے سے منصرف ہونے کا سبب اس موقع پر رسول اکرم کے مقابلے میں کی جانے والی گفتگو تھی  کہ جس کی وجہ سے اس تحریر کے لکھنے  کے ارادے کو ملتوی کر دیا کیونکہ اب اس حالت میں رسول اکرم کے وصال کے بعد اس تحریر کے لکھنے کا کوئی اثر فتنے اور فساد کے علاوہ کچھ نہیں رہ گیا تھا ۔ اگر پیغمبر اکرم یہ تحریر لکھ بھی دیتے تو ممکن تھا کہ انکے بعد کہا جاتا کیا یہ ہذیانی حالت میں لکھا گیا نہیں ؟<ref>شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۵؛ ترجمه فارسی: مناظرات، ص۴۳۶-۴۳۷.</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
گمنام صارف