مندرجات کا رخ کریں

"اذان" کے نسخوں کے درمیان فرق

78 بائٹ کا ازالہ ،  17 جنوری 2017ء
م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 11: سطر 11:
=== امامیہ===
=== امامیہ===
روایات کی روشنی میں  [[ہجرت]] کے بعد پہلے دو سال کے اندر اور  [[بیت المقدس]] سے  [[کعبہ]] کی طرف [[قبلہ]] کی تبدیلی کے بعد اذان کا حکم  شریعت میں بیان ہوا۔<ref>ر.ک: ابو داوود، ج۱، ص۳۴۸</ref> مکتب امامیہ کی روایات کے مطابق [[پیغمبر(ص)]] نے اذان کی  کیفیت  [[وحی]] کے ذریعے حاصل کی ۔  [[جبرئیل]] نے شب [[معراج]] ایک مرتبہ اذاد کہی اور جب ایک مرتبہ دوبارہ کہی تو [[پیغمبر اکرم (ص)]] نے  [[علی(ع)]] کو دستور دیا کہ  [[بلال]] کو بلا کر اذان کی تعلیم دیں ۔<ref>ر.ک: کلینی، ج۳، ص۳۰۲؛ ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۸۳، طوسی، تہذیب الاحکام، ج۲، ۲۷۷؛ الاستبصار، ج۱، ص۳۰۶ـ۳۰۵؛  تفصیل کیلئے  ر.ک: علل الشرائع، ج۲، ۳۱۴ـ۳۱۲</ref>  [[اسماعیلیہ]] کے مصادر میں کچھ اختلاف سے یہی مذکور ہے۔<ref>قاضی نعمان، ج۱، ص۱۴۳</ref>
روایات کی روشنی میں  [[ہجرت]] کے بعد پہلے دو سال کے اندر اور  [[بیت المقدس]] سے  [[کعبہ]] کی طرف [[قبلہ]] کی تبدیلی کے بعد اذان کا حکم  شریعت میں بیان ہوا۔<ref>ر.ک: ابو داوود، ج۱، ص۳۴۸</ref> مکتب امامیہ کی روایات کے مطابق [[پیغمبر(ص)]] نے اذان کی  کیفیت  [[وحی]] کے ذریعے حاصل کی ۔  [[جبرئیل]] نے شب [[معراج]] ایک مرتبہ اذاد کہی اور جب ایک مرتبہ دوبارہ کہی تو [[پیغمبر اکرم (ص)]] نے  [[علی(ع)]] کو دستور دیا کہ  [[بلال]] کو بلا کر اذان کی تعلیم دیں ۔<ref>ر.ک: کلینی، ج۳، ص۳۰۲؛ ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۱۸۳، طوسی، تہذیب الاحکام، ج۲، ۲۷۷؛ الاستبصار، ج۱، ص۳۰۶ـ۳۰۵؛  تفصیل کیلئے  ر.ک: علل الشرائع، ج۲، ۳۱۴ـ۳۱۲</ref>  [[اسماعیلیہ]] کے مصادر میں کچھ اختلاف سے یہی مذکور ہے۔<ref>قاضی نعمان، ج۱، ص۱۴۳</ref>
<!--
 
=== اہل سنت===
=== اہل سنت===
در منابع [[اهل سنت]] بدون آنکه آغاز تشریع نماز به وحی بازگردانده شود، نقل‌هایی آمده است؛ مانند اینکه مسلمانان برای اعلام وقت نماز در انتخاب وسیله‌ای برای فراخوانی مردم به ادای این فریضه آرائی گوناگون ابراز داشتند، چنان‌که برخی بر افروختن آتش یا نواختن [[ناقوس]] یا بوق را پیشنهاد می‌کردند. [[عمر بن خطاب|عمر]] معتقد بود بهتر است مردی را مامور کنند تا مردم را به نماز بخواند و بدین ترتیب پیامبر(ص)، بلال را بر این کار گمارد.<ref>بخاری، ج۱، ص۱۵۰؛ مسلم، ج۱، ص۲۸۵</ref>
[[اہل سنت]] کے مآخذوں میں نماز کی تشریع کو وحی کی طرف لوٹانے کی بجائے مختلف روایات نقل ہوئی ہیں مثلا فریضۂ نماز کی ادائیگی کی خاطر لوگوں کو وقت نماز سے آگاہ کرنے کے ذرائع کے متعلق  مسلمان مختلف اظہار نظر آگ روشن کرنا، بگل بجاناوغیرہ رکھتے تھے جبکہ حضرت [[عمر بن خطاب|عمر]] معتقد تھے کہ لوگوں کو بلانے کیلئے کسی شخص کو معین کرنا بہتر ہے ۔پس اس طرح رسول اکرم(ص) نے اس کام کیلئے حضرت بلال کو مقرر کیا ۔<ref>بخاری، ج۱، ص۱۵۰؛ مسلم، ج۱، ص۲۸۵</ref>


بر اساس نقلی دیگر پیامبر می‌اندیشید که همچون [[اهل کتاب]] بوقی یا ناقوسی برای فراخوانی مردم به کار گرفته شود تا اینکه [[عبدالله بن زید ابن عبدربه]] از بنی حارث بن خزرج خوابی دید و در خواب جمله‌های اذان بر او القا شد پیامبر(ص) آن خواب را رویای حق تشخیص داد و دستور داد تا آن اذکار را به بلال بیاموزد.<ref>ر.ک: ابن ماجه، ج۱، ص۲۳۳ـ۲۳۲، ابوداوود، ج۱، ۳۳۸ـ۳۳۶؛ ترمذی، ج۱، ص۳۵۹؛ نسایی، ج۳، ص۳ـ۲</ref>اما درباره این روایات، [[شافعی]] چنین داوری کرده که اذان برتر از آن است که برگرفته از رویای کسی چون عبدالله بن زید بوده باشد.
ایک اور نقل کے مطابق رسول اکرم [[اہل کتاب]] کی طرح  لوگوں کو بلانے کیلئے بگل وغیرہ کا استعمال سوچ رہے تھے کہ  بنی حارث بن خزرج کے [[عبداللہ بن زید ابن عبدربہ]] کو خواب میں اذان کے جملے القا ہوئے ۔رسول خدا (ص) نے اس خواب کو سچا خواب قرار دیا اور بلال کو اس اذا کی تعلم سکھانے کا دستور دیا ۔<ref>ر.ک: ابن ماجہ، ج۱، ص۲۳۳ـ۲۳۲، ابوداوود، ج۱، ۳۳۸ـ۳۳۶؛ ترمذی، ج۱، ص۳۵۹؛ نسائی، ج۳، ص۳ـ۲</ref>


لیکن [[شافعی]] نے ان روایات کے بارے میں کہا ہے کہ اذان کا معاملہ  عبدالله بن زید جیسے شخص کے خواب سے برتر حیثیت کا معاملہ ہے ۔
<!--
==فصول و عبارات==
==فصول و عبارات==
فصول و عبارات اذان در فقه امامیه عبارتند از: «الله اکبر» ۴ بار، «اشهد ان لا اله الا الله»، ۲ بار، «اشهد ان محمدا رسول الله»، ۲ بار، «حی علی الصلاة» ۲ بار، «حی علی الفلاح»، ۲ بار، «[[حی علی خیر العمل]]»، ۲ بار، «الله اکبر»، ۲ بار، «لا اله الا الله»، ۲ بار.<ref>ر.ک: طوسی، الخلاف، ج۱، ص۹۰</ref>
فصول و عبارات اذان در فقه امامیه عبارتند از: «الله اکبر» ۴ بار، «اشهد ان لا اله الا الله»، ۲ بار، «اشهد ان محمدا رسول الله»، ۲ بار، «حی علی الصلاة» ۲ بار، «حی علی الفلاح»، ۲ بار، «[[حی علی خیر العمل]]»، ۲ بار، «الله اکبر»، ۲ بار، «لا اله الا الله»، ۲ بار.<ref>ر.ک: طوسی، الخلاف، ج۱، ص۹۰</ref>
گمنام صارف