مندرجات کا رخ کریں

"قریش" کے نسخوں کے درمیان فرق

8,597 بائٹ کا اضافہ ،  8 دسمبر 2018ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{تاریخ صدر اسلام}}
== قریش کی شاخیں ==
'''قریش'''، [[حجاز]] میں عرب کا سب سے مشہور اور اہم قبیلہ تھا اور [[پیغمبر اکرم]] بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اکثر ماہرین انساب کا عقیدہ ہے کہ قریش [[نضر بن کنانہ|نضر بن کنانہ]]؛ پیغمبر اکرم(ص) کے بارہویں جد، کا لقب تھا؛ اسی لیے جس قبیلے کا بھی نسب "نضر بن کنانہ" تک پہنچے انہیں "قرشی" کہا جاتا ہے۔
’’قریش‘‘ مکہ کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو ظہور [[ اسلام ]] کے وقت متعدد شاخوں پر مشتمل تھا؛ منجملہ: [[ بنی ہاشم ]] ، [[بنی مطلب]]، بنی حارث، [[بنی امیہ]]، بنی نوفل، بنی حارث بن فهر، بنی اسد، بنی عبد الدار، بنی زهره، بنی تیم بن مره، بنی مخزوم، بنی یقَظه، بنی مرّه، بنی عدی بن کعب، بنی سهم، بنی جُمَح، بنی مالک، بنی معیط، بنی نزار، بنی سامه، بنی ادرم، بنی محارب، بنی حارث بن عبدالله، بنی خزیمه اور بنی بنانہ.{{حوالہ درکار}}
لیکن بعض ماہر انساب قریش کو [[فہر بن مالک]]؛ پیغمبر اکرم کے دسویں جد کا لقب سمجھتے ہیں اور اس کی نسل کو قریشی قرار دیتے ہیں۔ [[قرآن]] میں ایک [[سورہ]] بھی [[سورہ قریش]] کے نام سے آیا ہے۔
قریش کی ۲۵ شاخوں کے بعض خاندان سرزمین [[ بطحاء ]] ( [[ مکہ ]] کے ہموار علاقوں) میں رہائش پذیر تھے جو (قریش بطاح) یا (قریش بطحاء) کے نام سے مشہور تھے اور کچھ خاندان مکہ شہر سے باہر پہاڑوں پر سکونت پذیر تھے کہ جو ’’قریش ظواہر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ {{حوالہ درکار}}
==وجہ تسمیہ==
== مکہ پر حاکمیت کا آغاز ==
"قریش" نام رکھنے کی کئی وجوہات بیان کی گئی ہیں:
قریش سے پہلے [[ کعبہ ]] کے انتظام کی ذمہ داری [[ قبیلہ خزاعہ ]] کے پاس تھی۔ <ref> مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیه، ص۱۲۶.</ref> ان دنوں قریش مکہ کے مضافات میں رہتے تھے اور کعبہ کے معاملات میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد قصی بن کلاب مکہ میں ساکن ہو گئے اور قبیلہ خزاعہ کی بڑی بیٹی کیساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ قصی نے آہستہ آہستہ کعبہ کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بنی کنانہ اور قریش کو اپنا معاون مقرر کیا۔ <ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۶؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۱، ص۲۳۸-۲۳۹.</ref>
* اول: بعض نے کہا ہے کہ قریش پیغمبر اکرم(ص) کے ایک جد «فہر» کا لقب تھا بنابرین انکی اولاد کو ان کی طرف نسبت دیتے ہوئے "قریش" کہا گیا ہے۔ <ref>المنتظم، ج۲، ص۲۲۹.</ref>
== پیشہ ==
* دوم: بعض کہتے ہیں کہ قریش "نضر ابن کنانہ" کا لقب تھا لہذا اس کی اولاد اور نسل پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔<ref>المنتظم،ج۲،ص:۲۲۹</ref> "نضر" کو بھی اسی لئے قریش کہا جاتا تھا کہ وہ نادار لوگوں کی تلاش کرتا تھا اور چونکہ "تقریش" کا معنی تلاش اور جستجو کرنا ہے اسی وجہ سے اسے قریش کا لقب مل گیا۔<ref>تاریخ الطبری/ترجمہ، ج۳، ص۸۱۶.</ref>
=== تجارت ===
* سوم: بعض کا کہنا ہے کہ "قرش" کا معنی کسب کرنا ہے، چونکہ قریش کھیتی باڑی نہیں بلکہ انکا پیشہ تجارت تھا اس وجہ سے یہ لقب انہیں ملا ہے۔<ref>معجم البلدان، ج۴، ص۳۳۷؛ بلاذری،انساب الاشراف، ج۱۱، ص۸۰.</ref>
’’قریشی‘‘ تجارت پیشہ لوگ تھے اور اس غرض سے [[ یمن ]] ، [[ شام ]] اور [[ ایران ]] کا رخ کرتے تھے اور معروف بازار جیسے [[ بازار عکاظ ]] اور بازار ذی المجاز ان کے زیر اختیار تھے۔ {{حوالہ درکار}}
* چہارم: بعض کا کہنا ہے کہ قریش کے معنی ادھر ادھر سے جمع ہونے والوں کے ہیں اور قریش کے قبیلے کو اس لئے قریش کہا جاتا ہے کیونکہ قصی بن کلاب نے جب مکہ فتح کیا تو مکہ کے اطراف کے لوگوں کو جمع کر کے انہیں مکہ میں جگہ دیا۔<ref>معجم البلدان، ج۴، ص۳۳۶.</ref>
وہ ہر سال گرمیوں اور سردیوں میں دو تجارتی سفر کرتے تھے کہ جن کی طرف [[ قرآن ]] نے اشارہ کیا ہے۔ البتہ پہلے ان کی تجارت مکہ کے اندر تک محدود تھی۔ غیر عرب تاجر ان سے اشیا خریدتے تھے اور ہمسایہ ممالک میں جا کر فروخت کرتے تھے۔ <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۱، ص۲۴۲.</ref> آخرکار ہاشم بن عبد مناف نے قریش کی شام اور یمن کیساتھ تجارت کی داغ بیل ڈالی۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے [[ شام ]] کے شہروں میں تجارت کی اجازت لی۔ پھر ان کے بھائی عبد الشمس حبشہ کے حاکم سے تجارت کی اجازت لینے میں کامیاب ہوئے اور عبد مناف کے سب سے چھوٹے بیٹے نوفل بن عبد مناف نے بھی [[ عراق ]] کا سفر کر کے کسریٰ سے عراق میں تجارت کا اجازت نامہ دریافت کیا۔ <ref> بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱، ص۵۹.</ref>
===کعبہ سے مربوط منصب ===
قریش [[ کعبہ ]] اور اس سے مربوط مسائل کو بہت اہمیت دیتے تھے چونکہ ان کی معیشت اور سیاست کعبہ سے مربوط مناصب کی بنیاد پر قائم تھی۔ کعبہ سے مربوط تمام مراکز کا انتظام قریش کی بزرگ شخصیات کے پاس تھا۔ ظہور اسلام کے وقت کعبہ کے مناصب قریش کی دس شاخوں کے پاس تھے۔
یہ دس شاخیں درج ذیل ہیں: [[بنی ہاشم]]، [[بنی امیہ]]، بنی عبدالدار، بنی اسد، بنی مخزوم، بنی سہم، بنی تیم، بنی عدی، بنی نوفل اور بنی جمح.{{حوالہ درکار}}
کعبہ کے مناصب جو قریش کے پاس تھے؛ یہ ہیں: ’’[[ سقایت ]]‘‘ (کعبہ کے زائرین کو پانی پلانا) ، ’’رفادت‘‘ (زائرین کعبہ کی مہمان نوازی)‘ ’’[[ حجابت ]]‘‘ (کلید داری اور دربانی)، ’’قضاوت‘‘، قیادت (تجارتی اور جنگی قافلوں کی سربراہی اور سرپرستی) ’’عمارت‘‘ (مسجد الحرام کی دیکھ بھال)، اموال کعبہ کی جمع آوری اور دیکھ بھال کا منصب، [[ دیت ]] اور غرامت کی ادائیگی کا منصب اور ۔۔۔ {{حوالہ درکار}}
== دین ==
=== حضرت ابراہیم کے دین کی پیروی ===
تاریخ اسلام کے بعض مآخذ کی بنا پر قریشی پہلے [[ حضرت ابراہیم ]] کے دین یعنی [[ دین حنیف ]] پر کاربند تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اس سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود دین ابراہیم کے بعض احکام و آداب اسی طرح باقی رہے مگر ان میں بھی تبدیلیاں اور بدعتیں ایجاد کر دی گئیں۔ منجملہ ان بدعتوں میں سے ایک [[ عرفہ میں وقوف ]] کا ترک ہے۔ <ref> {{حوالہ درکار}}</ref>  
قریشی جانتے تھے کہ [[ عرفہ ]] میں وقوف دین [[ ابراہیمؑ ]] کے احکام میں سے ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے خود اسے ترک کر دیا جبکہ دوسرے عربوں پر اسے واجب قرار دیا ور کہنے لگے: ہم ابراہیمؑ کی اولاد، اہل حرم، کعبہ کے خادم اور مجاور ہیں؛ ہمارے لیے سزاوار نہیں ہے کہ حرم سے خارج ہو کر غیر حرم کا حرم کی مانند احترام کریں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس کام سے ان کا عربوں کے نزدیک مقام کم ہوتا ہے۔ <ref> ابن حبیب بغدادی، المنمق، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۷. </ref>  
یہ لوگ حرم سے باہر کے لوگوں کو پابند کرتے تھے کہ اپنی اشیائے خوردونوش حرم کے اندر نہ لائیں اور اہل حرم کے کھانے تناول کریں، [[ طواف ]] کے موقع پر اہل مکہ کا قومی اور مقامی لباس پہنیں اور اگر کوئی اسے خریدنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پابرہنہ طواف کرے۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ص۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۹. </ref>  


==قریش کے مختلف طائفے==
قریش مکہ کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو ظہور اسلام کے وقت مختلف گروہوں میں تقسیم ہوا جن میں سے [[بنی ہاشم]]، [[بنی مطلب]]، بنی حارث، [[بنی امیہ]]، بنی نوفل، بنی حارث بن فہر، بنی اسد، بنی عبدالدار، بنی زہرہ، بنی تیم بن مرہ، بنی مخزوم، بنی یقَظہ، بنی مرّہ، بنی عدی بن کعب، بنی سہم، بنی جُمَح، بنی مالک، بنی معیط، بنی نزار، بنی سامہ، بنی ادرم، بنی محارب، بنی حارث بن عبداللہ، بنی خزیمہ و بنی بنانہ ہیں۔
{{سورہ||نام = قریش |ترتیب کتابت = 106 | پارہ = 30 |آیت = 4 |مکی/ مدنی = مکی | ترتیب نزول = 29 |اگلی = [[سورہ ماعون|ماعون]] |پچھلی = [[سورہ فیل|فیل]] |لفظ = 17 |حرف = 76|تصویر=سوره قریش.jpg}}
قریش کے 25 طا‎ئفوں میں سے بعض [[بطحاء]] ([[مکہ]] کا میدانی علاقہ) میں رہتے تھے جو "قریش بطاح" یا "قریش بطحاء" سے مشہور تھے جبکہ کچھ اور طا‎ئفے پہاڑوں پر اور شہر سے باہر رہتے تھے جو "قریش ظواہر" سے مشہور تھے۔


==قریش اور مکہ کی سرداری==
''' قُرَیش ''' ، [[ حجاز ]] کے عرب قبائل میں سے اہم ترین اور مشہور ترین قبیلہ تھا کہ [[ پیغمبر اکرمؐ ]] کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ زیادہ تر نسب شناسوں کی یہی رائے ہے کہ پیغمبرؐ کے بارہویں جد [[ نضر بن کنانہ ]] کا لقب قریش تھا؛ اس لیے جس بھی خاندان کا نسب پیغمبرؐ کے بارہویں جد ’’نضر بن کنانہ‘‘ تک پہنچتا تھا، وہ ''' قُرَشی ''' کہلاتا اور اس کا شمار قبیلہ قریش سے ہوتا تھا۔
قریش سے پہلے کعبہ کی ریاست قبیلہ خزاعہ کے ہاتھ میں تھا۔<ref>مقدسی، البدء و التاریخ، ص۱۲۶.</ref> ان دنوں قریش، مکہ کے اطراف میں زندگی بسر کرتے تھے اور کعبہ کے امور میں ان کی کو‎ئی مداخلت نہیں تھی۔ کچھ مدت کے بعد قصی بن کلاب مکہ آیا اور قبیلہ خزاعہ کے سردار کی بیوی سے شادی کیا اور قصی نے آہستہ آہستہ کعبہ کے امور اپنے ذمے لے لیا اور اس کام میں بنی کنانہ اور قریش سے مدد لی۔<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ص۵۶؛ تاریخ یعقوبی، پیشین، ص۲۳۸.</ref>
بعض ماہر نسب شناسوں نے پیغمبرؐ کے دسویں جد [[ فھر بن مالک ]] کا لقب ’’قریش‘‘ قرار دیا ہے اور ان کی نسل کو قریشی قرار دیتے ہیں۔ [[ قرآن ]] میں ایک [[ سورت ]] کا نام [[ قریش ]] ذکر ہوا ہے۔
 
== نام رکھنے کی علت ==
==پیشہ==
قریش نام رکھنے کی علت کے بارے میں مختلف وجوہات ذکر ہوئی ہیں، جو یہ ہیں:
===تجارت===
* اول: بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ کے جد ’’فھر‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد کو ان سے نسبت دی گئی ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۶.</ref>
قریش تجارت پیشہ لوگ تھے اور [[یمن]]، [[شام]] اور [[ایران]] کی طرف تجارتی سفر کرتے تھے اور اس زمانے کے مشہور بازار جیسے [[بازار عکاظ]]، بازار [[ذی المجاز]] انکے تھے۔
* دوم: بعض نے کہا ہے کہ ’’قریش نضر بن کنانہ‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد اور نسل پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸.</ref> نضر کو اس اعتبار سے بھی قریش کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو تلاش میں رہتے تھے چونکہ تقریش کا معنی ’’تفتیش(تلاش)‘‘ ہے اس لیے ان کا لقب قریش ہو گیا۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸-۲۲۹.</ref>
 
* سوم: کہا جاتا ہے کہ ’’قرش‘‘ کا معنی ’’کسب‘‘ ہے چونکہ قریش کا کام کھیتی باڑی نہیں تھا اور ان کا پیشہ تجارت تھا، اس لیے یہ لقب ان سے مخصوص ہو گیا۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۷؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱۱، ص۸۰.</ref>
یہ لوگ ہر سال سردیوں اور گرمیوں میں دنیا کے مختلف علاقوں کی طرف سفر کرتے تھے جسکا قرآن مجید میں بھی تذکرہ ہوا ہے۔ البتہ انکی تجارت کا رخ ہمیشہ مکہ کی طرف ہی رہا ہے۔ غیر عرب تاجر سامان خریدتے تھے اور ہمسایہ ممالک کو بھیجتے تھے۔<ref>تاریخ یعقوبی، ص۲۴۲.</ref> پھر ہاشم ابن عبد مناف نے قریش کا شام اور یمن کے درمیان تجارت کی بنیاد رکھا۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے [[شام]] کے شہروں میں تجارت کرنے کی اجازت نکالی پھر انکے بھا‎ئی عبد الشمس نے حبشہ کے حاکم سے وہاں تجارت کرنے کی اجازت لے لی اور عبد مناف کا چھوٹا بیٹا نوفل ابن عبد مناف نے [[عراق]] سفر کر کے کسری سے عراق میں تجارت کرنے کی اجازت حاصل کی۔<ref>انساب الاشراف، ص۵۹.</ref>
* چہارم: بعض نے کہا ہے کہ قریش کا معنی ادھر اُدھر سے جمع ہونے والے ہیں۔ قریش کو قریش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب قصی بن کلاب کا مکہ پر غلبہ ہوا تو انہوں نے مکہ کے اطراف میں بکھرے ہوئے مختلف خاندانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں مکہ میں رہنے کیلئے جگہ فراہم کی۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۶.</ref>
 
== قریش کی شاخیں ==
===کعبہ سے مریوط قریش کے عہدے===
’’قریش‘‘ مکہ کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو ظہور [[ اسلام ]] کے وقت متعدد شاخوں پر مشتمل تھا؛ منجملہ: [[ بنی ہاشم ]] ، [[بنی مطلب]]، بنی حارث، [[بنی امیہ]]، بنی نوفل، بنی حارث بن فهر، بنی اسد، بنی عبد الدار، بنی زهره، بنی تیم بن مره، بنی مخزوم، بنی یقَظه، بنی مرّه، بنی عدی بن کعب، بنی سهم، بنی جُمَح، بنی مالک، بنی معیط، بنی نزار، بنی سامه، بنی ادرم، بنی محارب، بنی حارث بن عبدالله، بنی خزیمه اور بنی بنانہ.{{حوالہ درکار}}
قریش، [[کعبہ]] اور اس سے مربوط مسا‎ئل پر خاص توجہ دیتے تھے اور انکے سیاسی اور اقتصادی عہدے اور تقرریاں بھی اس پر موقوف تھیں۔ کعبہ سے مربوط ہر ادارے کو ایک طا‎ئفے کا بزرگ سنبھالتا تھا اور ظہور اسلام کے وقت اکثر عہدے قریش کے دس طا‎ئفوں [[بنی ہاشم]]، [[بنی امیہ]]، بنی عبدالدار، بنی اسد، بنی مخزوم، بنی سہم، بنی تیم، بنی عدی بنی نوفل اور بنی کے ہاتھوں میں تھے۔
قریش کی ۲۵ شاخوں کے بعض خاندان سرزمین [[ بطحاء ]] ( [[ مکہ ]] کے ہموار علاقوں) میں رہائش پذیر تھے جو (قریش بطاح) یا (قریش بطحاء) کے نام سے مشہور تھے اور کچھ خاندان مکہ شہر سے باہر پہاڑوں پر سکونت پذیر تھے کہ جو ’’قریش ظواہر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ {{حوالہ درکار}}
 
== مکہ پر حاکمیت کا آغاز ==  
کعبہ کے جن عہدے پر قریش فا‎ئز تھے وہ مندرجہ ذیل ہیں: «[[سقایت الحاج|سقایت]]» (کعبہ کے زواروں کو پانی پلانا)، «رِفادت» (کعبہ کے زوار اور مہمانوں کی میزبانی)، «[[حجابت]]» (کعبہ کی چابی رکھنے اور چوکیداری«قضاوت»، «قیادت» (تجاری اور جنگی کاروان کی سرداری اور سرپرستی)،  «عمارت» (مسجد الحرام کی حفاظت اور مرمت)، کعبہ کا مال جمع کرنے اور اس کی حفاظت اور دیہ اور غرامت دینے کا عہدہ۔
قریش سے پہلے [[ کعبہ ]] کے انتظام کی ذمہ داری [[ قبیلہ خزاعہ ]] کے پاس تھی۔ <ref> مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیه، ص۱۲۶.</ref> ان دنوں قریش مکہ کے مضافات میں رہتے تھے اور کعبہ کے معاملات میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد قصی بن کلاب مکہ میں ساکن ہو گئے اور قبیلہ خزاعہ کی بڑی بیٹی کیساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ قصی نے آہستہ آہستہ کعبہ کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بنی کنانہ اور قریش کو اپنا معاون مقرر کیا۔ <ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۶؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۱، ص۲۳۸-۲۳۹.</ref>  
 
== پیشہ ==  
==دین==
=== تجارت ===  
===حضرت ابراہیم کی پیروی===
’’قریشی‘‘ تجارت پیشہ لوگ تھے اور اس غرض سے [[ یمن ]] ، [[ شام ]] اور [[ ایران ]] کا رخ کرتے تھے اور معروف بازار جیسے [[ بازار عکاظ ]] اور بازار ذی المجاز ان کے زیر اختیار تھے۔ {{حوالہ درکار}}
تاریخ اسلام کے بعض منابع کے مطابق قریش والے آغاز میں دین ابراہیمی  یعنی دین حنیف کے پیروکار تھے لیکن آہستہ آہستہ اس سے دور ہوگئے لیکن اس کے باوجود اس دین کے بعض احکام اور آداب ابھی تک باقی تھے اگرچہ اس میں بھی بعض بدعت اور تبدیلیاں ایجاد کی گئی تھیں۔ ان بدعتوں میں سے ایک [[وقوف عرفہ]] اور اس کے مناسک ہیں۔
وہ ہر سال گرمیوں اور سردیوں میں دو تجارتی سفر کرتے تھے کہ جن کی طرف [[ قرآن ]] نے اشارہ کیا ہے۔ البتہ پہلے ان کی تجارت مکہ کے اندر تک محدود تھی۔ غیر عرب تاجر ان سے اشیا خریدتے تھے اور ہمسایہ ممالک میں جا کر فروخت کرتے تھے۔ <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۱، ص۲۴۲.</ref> آخرکار ہاشم بن عبد مناف نے قریش کی شام اور یمن کیساتھ تجارت کی داغ بیل ڈالی۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے [[ شام ]] کے شہروں میں تجارت کی اجازت لی۔ پھر ان کے بھائی عبد الشمس حبشہ کے حاکم سے تجارت کی اجازت لینے میں کامیاب ہوئے اور عبد مناف کے سب سے چھوٹے بیٹے نوفل بن عبد مناف نے بھی [[ عراق ]] کا سفر کر کے کسریٰ سے عراق میں تجارت کا اجازت نامہ دریافت کیا۔ <ref> بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱، ص۵۹.</ref>  
 
===کعبہ سے مربوط منصب ===
[[وقوف عرفہ]]، [[دین حنیف]] کے احکام میں سے ہونے کا علم ہونے کے باوجود قریش نے اسے ترک کر کے اس کو دیگر اعراب پر واجب قرار دیا اور کہا: «ہم ابراہیم کے فرزند، اہل حرم، کعبہ کے خادم اور اس میں رہنے والے ہیں؛ ہمیں حرم سے باہر جانا اور غیر حرم کو حرم کی طرح احترام کرنا مناسب نہیں کیونکہ ہمارا یہ کام عربوں کے ہاں ہمارے مقام اور منزلت کو کم کرتا ہے۔»<ref>منمق، ص۱۲۷.</ref>
قریش [[ کعبہ ]] اور اس سے مربوط مسائل کو بہت اہمیت دیتے تھے چونکہ ان کی معیشت اور سیاست کعبہ سے مربوط مناصب کی بنیاد پر قائم تھی۔ کعبہ سے مربوط تمام مراکز کا انتظام قریش کی بزرگ شخصیات کے پاس تھا۔ ظہور اسلام کے وقت کعبہ کے مناصب قریش کی دس شاخوں کے پاس تھے۔
 
یہ دس شاخیں درج ذیل ہیں: [[بنی ہاشم]]، [[بنی امیہ]]، بنی عبدالدار، بنی اسد، بنی مخزوم، بنی سہم، بنی تیم، بنی عدی، بنی نوفل اور بنی جمح.{{حوالہ درکار}}
وہ لوگ حرم سے باہر رہنے والوں کو کھانے پینے کی چیزیں حرم لے آنے سے منع کرتے تھے اور ان پر لازم تھا کہ وہ اہل حرم کے ہاں سے کھانا کھا‎ئے، [[طواف]] کے وقت مکہ والوں کی طرح لباس پہنا ضروری تھا جو انکا قومی اور ملی لباس تھا اور جن کو لباس خریدنے کی استطاعت نہ ہو وہ ننگے طواف کرتے تھے۔<ref>سیرہ ابن ہشام، ص۱۲۹؛ طبقات الکبری، ج۱، ص۵۹.</ref>
کعبہ کے مناصب جو قریش کے پاس تھے؛ یہ ہیں: ’’[[ سقایت ]]‘‘ (کعبہ کے زائرین کو پانی پلانا) ، ’’رفادت‘‘ (زائرین کعبہ کی مہمان نوازی)‘ ’’[[ حجابت ]]‘‘ (کلید داری اور دربانی’’قضاوت‘‘، قیادت (تجارتی اور جنگی قافلوں کی سربراہی اور سرپرستی) ’’عمارت‘‘ (مسجد الحرام کی دیکھ بھالاموال کعبہ کی جمع آوری اور دیکھ بھال کا منصب، [[ دیت ]] اور غرامت کی ادائیگی کا منصب اور ۔۔۔ {{حوالہ درکار}}
== دین ==  
=== حضرت ابراہیمؑ کے دین کی پیروی ===  
تاریخ اسلام کے بعض مآخذ کی بنا پر قریشی پہلے [[ حضرت ابراہیم ]] کے دین یعنی [[ دین حنیف ]] پر کاربند تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اس سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود دین ابراہیم کے بعض احکام و آداب اسی طرح باقی رہے مگر ان میں بھی تبدیلیاں اور بدعتیں ایجاد کر دی گئیں۔ منجملہ ان بدعتوں میں سے ایک [[ عرفہ میں وقوف ]] کا ترک ہے۔ <ref> {{حوالہ درکار}}</ref>
قریشی جانتے تھے کہ [[ عرفہ ]] میں وقوف دین [[ ابراہیمؑ ]] کے احکام میں سے ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے خود اسے ترک کر دیا جبکہ دوسرے عربوں پر اسے واجب قرار دیا ور کہنے لگے: ہم ابراہیمؑ کی اولاد، اہل حرم، کعبہ کے خادم اور مجاور ہیں؛ ہمارے لیے سزاوار نہیں ہے کہ حرم سے خارج ہو کر غیر حرم کا حرم کی مانند احترام کریں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس کام سے ان کا عربوں کے نزدیک مقام کم ہوتا ہے۔ <ref> ابن حبیب بغدادی، المنمق، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۷. </ref>  
یہ لوگ حرم سے باہر کے لوگوں کو پابند کرتے تھے کہ اپنی اشیائے خوردونوش حرم کے اندر نہ لائیں اور اہل حرم کے کھانے تناول کریں، [[ طواف ]] کے موقع پر اہل مکہ کا قومی اور مقامی لباس پہنیں اور اگر کوئی اسے خریدنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پابرہنہ طواف کرے۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ص۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۹. </ref>


ان بدعتوں کا ایجاد کرنا اس وقت سے شروع ہوا جب اللہ تعالی نے ابرھہ کی فوج کو تہس نہس کر دیا کیونکہ اس واقعے کے بعد کعبہ اور قریش کا مقام عربوں کی نظر میں بہت بلند ہوا اور عرب کہتے تھے « یہ لوگ (قریش) اہل اللہ ہیں اسی لیے اللہ نے انکا دفاع کیا اور ان کے دشمنوں کو نابود کیا».<ref>سیرہ ابن ہشام، ص۱۲۹؛ طبقات الکبری، ج۱، ص۵۹.</ref>
ان بدعتوں کا ایجاد کرنا اس وقت سے شروع ہوا جب اللہ تعالی نے ابرھہ کی فوج کو تہس نہس کر دیا کیونکہ اس واقعے کے بعد کعبہ اور قریش کا مقام عربوں کی نظر میں بہت بلند ہوا اور عرب کہتے تھے « یہ لوگ (قریش) اہل اللہ ہیں اسی لیے اللہ نے انکا دفاع کیا اور ان کے دشمنوں کو نابود کیا».<ref>سیرہ ابن ہشام، ص۱۲۹؛ طبقات الکبری، ج۱، ص۵۹.</ref>
گمنام صارف